شمائل مہدی علیہ الصلٰوۃ والسلام
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة و السلام کي علالت کا بيان
حضرت مولانا عبد الکريم صاحبؓ سيالکوٹی بيان فرماتے ہيں :
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ کو سخت دردِ سر ہو رہا تھااورمَیں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس حد سے زیادہ شور وغل برپا تھا مَیں نے عرض کیاجناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی فرمایا:ہاں اگر چپ ہوجائیں تو آرام ملتا ہے مَیں نے عرض کیا تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے فرمایا آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں مَیں تو کہہ نہیں سکتا۔بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گویا مزہ میں سورہے ہیں ۔کسی کا گلہ نہیں کہ تُو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اور تو نے ہماری خدمت نہیں کی۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیماردار اس کی بدمزاجی اور چڑ چڑاپن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں اسے گالی دیتا ہے اسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آجاتی ہے بے چاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین۔کہیں تکان کی وجہ سے ذرا اُونگھ گئی ہے بس پھر کیا خدا کی پناہ آسمان کو سر پر اٹھا لیا۔وہ بے چاری حیران ہے ایک تو خود چور چور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں مارے غضب وغیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے۔غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہو تی ہے خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے۔برخلاف اس کے سالہاسال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمیعت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں ۔مَیں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جب کہ ابھی ابھی سردرد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا آپ کسی بڑے عظیم الشان دل کشا نزہت افزا باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے۔مَیں ابتدائے حال میں ان نظاروں کو دیکھ کر بڑا حیران ہو تا تھااس لئے کہ مَیں اکثر بزرگوں اور حوصلہ اور مردانگی کے مدعیوں کو دیکھ چکا تھا کہ بیماری میں کیا چولہ بدل لیتے ہیں اوربیما ری کے بعد کتنی کتنی مدت تک ایسے سڑیل ہو تے ہیں کہ الامان۔کسی کی تقصیر آئی ہے جو بھلے کی بات منہ سے نکال بیٹھے۔بال بچے بیوی دوست کسی اوپرے کو دور سے ہی اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھنا کالا ناگ ہے نزدیک نہ آنا۔اصل بات یہ ہے کہ بیماری میں بھی ہوش و حواس اور ایمان اسی کا ٹھکانے رہتا ہے جو صحت کی حالت میں مستقیم الاحوال ہو اور دیکھا گیا ہے کہ بہت سے تندرستی کی حالت میں مغلوب غضب شخص بیماری میں خالص دیوانے اور شدت جوش سے مصروع ہو جاتے ہیں ۔حقیقت میں ایمان اور عرفان اور استقامت کے پرکھنے کے لئے بیماری بڑا بھاری معیار ہے جیسے سکر اور خواب میں بڑبڑانا اور خواب دیکھنا حقیقی تصویر انسان کی دکھا دیتا ہے بیماری بھی مومن اور کافر دلیر اور بزدل کے پرکھنے کے لئے ایک کسوٹی ہے۔ بڑا مبارک ہے وہ جو صحت کی حالت میں جوش اور جذباتِ نفس کی باگ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا۔‘‘
(سيرت مسيح موعوؑد مصنفہ حضرت مولانا عبد الکريم سيالکوٹیؓ صفحہ 22، 23)
حضرت اقدس مسيحِ موعود عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سنائی۔جب تیسری مرتبہ سورہ یٰسین سنائی گئی تو میں دیکھتاتھا کہ بعض عزیز میرے جو اب وہ دنیا سے گذر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے۔اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا۔اور بار بار دمبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔سولہ (16) دن برابر ایسی حالت رہی۔اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہوگیا۔حالانکہ اُس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری۔جب بیماری کو سولھواں دن چڑھا تو اُس دن بکلّی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گئی۔اور تمام عزیزوں کے دِل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِيْم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد۔
اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اِس سے تو شفا پائے گا۔چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اورمیں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اِس حالت سے نجات ہو۔مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے۔یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلّی مجھے چھوڑ گئی۔اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا
وَاِنْ کُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِشِفَاءٍ مِّن مِّثْلِہٖ۔
یعنی اگر تمہیں اِس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو۔‘‘
(ترياق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 208، 209)
ايک اور جگہ ذکر فرماتے ہيں :
’’ایک مرتبہ میں قولنج زحیری(پیچش یا مروڑ کی وجہ سےپسلیوں کے نیچے شدید درد) سے سخت بیمار ہوا اور سولہ دن پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا اور سخت درد تھا جو بیان سے باہر ہے انہیں دنوں میں شیخ رحیم بخش صاحب مرحوم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کے والد ماجد بٹالہ سے میری عیادت کے لئے آئے اور میری نازک حالت انہوں نے دیکھی اور میں نے سنا کہ وہ بعض لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ آج کل یہ مرض وباکی طرح پھیل رہی ہے بٹالہ میں ابھی میں ایک جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہ محمد بخش نام ایک حجام قادیان کا رہنے والا اُسی دن اسی مرض سے بیمار ہوا اور آٹھویں دن مر گیا اور جب سولہ دن میری مرض پر گذرے تو آثار نومیدی کے ظاہر ہو گئے اور میں نے دیکھا کہ بعض عزیز میرے دیوار کے پیچھے روتے تھے اور مسنون طور پر تین مرتبہ سورہ یٰس سنائی گئی۔جب میری مرض اس نوبت پر پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے میرے دل پر القا کیا کہ اور علاج چھوڑ دو اور دریا کی ریت جس کے ساتھ پانی بھی ہو تسبیح اوردرود کے ساتھ اپنے بدن پر ملو۔تب بہت جلد دریا سے ایسی ریت منگوائی گئی اور میں نے اِس کلمہ کے ساتھ کہ
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِيْم
اور درود شریف کے ساتھ اُس ریت کو بدن پر ملنا شروع کیا۔ہر ایک دفعہ جو جسم پر وہ ریت پہنچتی تھی تو گویا میرا بدن آگ میں سے نجات پاتا تھا صبح تک وہ تمام مرض دور ہو گئی اور صبح کے وقت الہام ہوا
وَاِنْ کُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِشِفَاءٍ مِّن مِّثْلِہٖ۔’’
(حقيقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 246)
ايک جگہ آپؑ فرماتے ہيں :
’’تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا جب میں تپ سے سخت بیمار ہوا۔اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔اس اثنائے میں مجھے الہام ہوا:
وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْکُثُ فِي الْاَرْض۔
(اور جو وجود لوگوں کے لیے نفع رساں ہو وہ زمین پر زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے)
(الحکم جلد 6نمبر 28مورخہ 10؍اگست 1902ء صفحہ 11کالم نمبر 2)
(تذکرہ صفحہ 11ايڈيشن چہارم 2004ء)
ايک اور جگہ آپؑ فرماتے ہيں :
’’ایک دفعہ مجھے علیگڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا اور مرض ضعف دماغ کی وجہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدت پہلے دورہ ہو چکا تھا میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگویا اور کوئی دماغی محنت کا کام کر سکتا اور ابھی میری یہی حالت ہے کہ میں زیادہ بات کرنی یا حد سے زیادہ فکر اور خوض کی طاقت نہیں رکھتا۔اس حالت میں علیگڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسمٰعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کے لئے درخواست کی اور کہا کہ لوگ مدت سے آپ کے شایق ہیں ۔بہتر ہے کہ سب لوگ ایک مکان میں جمع ہوں اور آپ کچھ وعظ فرماویں ۔چونکہ مجھے ہمیشہ سے یہی عشق اور یہی دلی خواہش ہے کہ حق باتوں کو لوگوں پر ظاہر کروں اس لئے میں نے اس درخواست کو بشوق دل قبول کیا اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروں کہ اسلام کیا چیز ہے اور اب لوگ اس کو کیاسمجھ رہے ہیں اور مولوی صاحب کو کہا بھی گیا کہ انشاء اللہ اسلام کی حقیقت بیان کی جائیگی۔لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا۔مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغز خواری کر کے کسی جسمانی بلامیں پڑوں اس لئے اُس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا۔ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی گزشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو اس سے تو تم بیمار ہوجاوٴ گے۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 17، 18حاشيہ)
پھر ايک اور جگہ فرماتے ہيں :
‘‘اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔اُس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والاہے۔تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیاکہ شاید اس کے اَور معنے ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا۔تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا
اَلْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْن
یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔سو اُس وقت مجھ پر یہ بھید کھلا کہ کیوں خدائے تعالیٰ نے اپنے رسول کریم کو قرآن کریم میں کہا کہ تُو شک مت کر۔سو میں نے سمجھ لیا کہ درحقیقت یہ آیت ایسے ہی نازک وقت سے خاص ہے جیسے یہ وقت تنگی اور نومیدی کا میرے پر ہے اورمیرے دل میں یقین ہوگیا کہ جب نبیوں پر بھی ایسا ہی وقت آجاتا ہے جو میرے پر آیا تو خدا تعالیٰ تازہ یقین دلانے کے لئے اُن کو کہتا ہے کہ تو کیوں شک کرتا ہے اور مصیبت نے تجھے کیوں نوامید کردیا تُو نو امید مت ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 306)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭