متفرق مضامین

رمضان کے دوران خواتین کے لیے اپنے فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ رحمت ِ الٰہی کے حصول کے مواقع

(امۃ الباری ناصر)

رمضان المبارک کی مناسبت سے آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہؐ اور ارشادات حضرت مسیح موعود ؑکی روشنی میں روزوں کی فرضیت، ان کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریوں پر خلفائے کرام کے رمضان المبارک کے خطبات ،ہمارے سلسلے کی کتب ،علمائے کرام کے مضامین تفصیل سے معلومات دیتے ہیں۔ ایک ایک پہلو واضح ہو کر عمل کی دعوت دیتا ہے ۔ رمضان المبارک کی ساری عبادتیں آپس میں ایسی گندھی ہوئی ہیں کہ ایک دفعہ تقویٰ شعار دل کے ساتھ رمضان میں داخل ہوجائیں اور اس سے بڑھ کر رمضان کو اپنے اندر داخل کرلیں تو ہر لمحے کسی نہ کسی کارِ خیر کا موقع ملتا چلا جاتا ہے ۔ تقویٰ ، تذلل، انکساری، عجزو نیاز، خشوع و خضوع اور شکرگزار دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور جھکے رہیں تو اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا ہے۔ وہ عالی جناب بہت نوازتا ہے بہت محبت کرتا ہے اس تعلق کو کھو دینے کے خوف سے اور بڑھاتے رہنے کے شوق سے انسان خود کو مسلسل سنوارتا ہے اپنے اعمال کو نکھارتا ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہے ۔ یہی عبادت ہے۔ یہی ہماری پیدائش کی غرض ہے۔ اسی سے نجات ہوگی اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

وَ مَنْ تَزکّٰي فَاِنَّمَا يَتَزَکّٰي لِنَفْسِہٖ (الفاطر:19)

جو شخص گناہوں میں ملوث ہونے سے بچتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرتا ہے وہ اپنا ہی فائدہ کرتا ہے۔

اللہ پاک کی خوشنودی کے حصول کی راہیں مرد و عورت کے لیے یکساں کشادہ ہیں عقیدے اور عمل کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔ وہ مرد ہو یا عورت سب کے لیے جزا بھی برابر ہے فرق صرف تقسیم کار کا ہے ۔ خواتین بالعموم اپنے گھروں کے سب کام کرتی ہیں جن میں شوہر کے حقوق ، کھانا پکانا ،صفائی کرنا ، لباس کا انتظام ،بزرگوں کی خدمت کرنا ، بچوں کی دیکھ بھال ، خریداری اور بے شمار مختلف کام شامل ہیں اور یہ کام روزوں میں بھی کرنے ہوتے ہیں جن کے ساتھ خواتین کے رمضان المبارک سے مستفیض ہونے اور رحمتِ الٰہی کے حصول میں پیچھے رہنے کا احتمال رہتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ رؤف و رحیم مولا کریم نے گھر کے کاموں کو بھی بلا اجر نہیں رکھا جس طرح مرد کا خاندان کے لیے روزی کما کر لانا ایک طرح عبادت ہے اسی طرح خاتون کا اپنے گھر کی نگہداشت کرنا بھی عبادت ہے ۔ بیک وقت دو پُر مشقت کام روزہ اور گھر سنبھالنا بے اجر نہیں رہتا ۔ خواتین سال میں ایک دفعہ آنے والے گنتی کے چند روحانی ایامِ بہار کے لیے شوق اور سرگرمی سے تیاری کرکے گھر کا ماحول سازگار بناتی ہیں ۔

روزوں کے سارے آداب، روایات، طورطریق سکھانے میں خواتین کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ عام طور پر روزوں کے ساتھ والدہ صاحبہ ،نانی اماں یا دادی اماں کی یاد آتی ہے ۔ جو محبت اور مامتا میں گوندھ گوندھ کے سحری افطاری کراتی ہیں ۔

دن رات کے معمول کے چوبیس گھنٹوں میں ڈھیروں کاموں بلکہ اضافی کاموں اور اضافی عبادت کے لیے ہمت طاقت اور وقت حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ سب سے اہم یہ ہے کہ رمضان اور عید کے لیے جس حد تک ممکن ہو خریداری پہلے سے کر لیں روزہ رکھ کے بازار وں، سٹوروں کے چکروں میں وقت لگانا بہت قیمتی متاع کو اپنے ہاتھوں ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ بعض ملکوں میں رمضان میں قیمتیں بہت زیادہ کر دی جاتی ہیں جو پیسے کا نقصان ہے۔ جو بہنیں درزیوں سے کپڑے سلواتی ہیں وہ کئی قسم کے دل جلانے والے تجربات سے ضرور گزری ہوں گی ۔ پھر روزے کے ساتھ بازار میں گھومنا نڈھال کردیتا ہے واپس آکر بھی توجہ سے عبادت مشکل ہوجاتی ہے ۔

ایک اَور کام جو ہم پہلے سے کر سکتے ہیں گھر کی مفصل صفائی ہے ۔ خواتین مفصل صفائی کا مفہوم اچھی طرح سمجھتی ہیں ۔ صفائی کے دوران ہر چیز کو جگہ پر رکھنا ضروری ہے تاکہ تلاش میں وقت نہ لگے ۔ اس طرح روزمرہ صفائی میں وقت کم لگے گا ۔ باورچی خانے کا کام بھی روزوں میں بڑھ جاتا ہے ۔ سحری تیار کرنا ۔ گھر میں بچے اور بزرگ ہیں تو ان کے لیے کھانا تیار کرنا معمول کے کھانے کے ساتھ افطاری کے لیے کچھ خاص بنانا معمولات میں شامل ہے۔کھانا پکانے کے کام کو ہلکا کرنے کے لیے جو کام ہم پہلے سے کرسکتے ہیں ان میں گوشت دھو کر تھیلیاں بناکر رکھ لیں۔مہینے بھر کے لیے پیاز براؤن کرکے اور لہسن ادرک پیس کر منجمد کرلیں( بازار سے براؤن پیاز اوربوتلوں میں بند پسا ہوا ادرک لہسن مل جاتا ہے مگر بعض خواتین اسےپسند نہیں کرتیں) سبزیاں کاٹ کر منجمد کی جاسکتی ہیں ۔وقت کی بچت کے بہت سے آزمودہ ٹوٹکے ہر گھر میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔ گھر کے دوسرے افراد بھی خیال رکھیں اور فرمائشیں کرتے ہوئے کچھ احساس کرلیں۔ہمارے پیارے حضرت نبی کریم ﷺ نے تو روزوں میں ملازمین پر بھی کام کا بوجھ کم کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے جو شخص ماہ رمضان میں اپنے مزدور یا خادم سے اُس کے کام کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخش دے گا اور اُسے آگ سے آزاد کردے گا ۔( مشکوٰۃ کتاب الصوم ) خواتین کے حقوق تو اس سے بہت زیادہ ہیں ۔ ان کا ہاتھ بٹایا جائے تو ثواب ہی ثواب ہے خاتون خانہ کی صحت اور بشاشت کا گھر پر بہت اچھا اثر رہتا ہے۔ اُس کو عبادت کے لیے وقت ملے گا جس کے ثواب میں اُس کےمددگار بھی شامل ہوں گے

سحری افطاری میں سادگی اختیار کی جائے ۔ روزہ رکھنے کے لیے سحری کھا نا ضروری ہے، الا ماشاء اللہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحور … الخ حدیث 1923)

سحری کھانے میں برکت ہے مگر سحری کو پُرتکلف بنانے میں برکت نہیں وہ نفس کے لیے ہے۔

اب ایک طرف حکم ہے کہ سحری کھاؤ اس میں برکت ہے۔ افطاری کرو اس میں برکت ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ارشاد ہے کہ پر تکلف کھانا ہی مقصد نہ ہو ۔ پس ہر کھانے میں اعتدال ضروری ہے۔

رمضان المبارک میں نماز ، نوافل، تہجد، قیام اللیل، نماز تراویح پر زیادہ توجہ کی اہمیت کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اس زندگی کے کُل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گزر گئے تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا؟

تہجد میں خاص کر اُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو۔ درمیانی نمازوں میں بہ باعث ملازمت کے ابتلا آ جاتا ہے۔رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہئے۔ ظہروعصر کی کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے اس لئے یہ گنجائش رکھ دی۔ مگر یہ گنجائش تین نمازوں کے جمع کرنے میں نہیں ہو سکتی۔

جبکہ ملازمت میں اور دوسرے کئی امور میں لوگ سزا پاتے ہیں (اور موردِ عتابِ حُکّام ہوتے ہیں) تو اگر اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیف اٹھاویں تو کیا خوب ہے۔

جو لوگ راستبازی کے لئے تکلیف اور نقصان اُٹھاتے ہیں وہ لوگوں کی نظروں میں بھی مرغوب ہوتے ہیں اور یہ کام نبیوں اور صدیقوں کا ہے ۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ 6،ايڈيشن 1984ء )

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعالٰی فرماتے ہيں:

’’روزانہ کی پانچ نمازیں باجماعت ادا کرو جو فرض کی گئی ہیں۔ مردوں کے لئے یہی حکم ہے کہ مسجد میں جا کے اداکریں یا جہاں بھی سنٹر ہے وہاں جا کے ادا کریں، عورتوں کے لئے حکم ہے گھروں میں پانچ نمازیں پڑھیں، وقت پر نمازیں ادا کریں۔ اپنی نمازوں کی خاطر دوسری مصروفیات کو کم کریں۔ جس طرح آج کل رمضان میں ہر ایک کوشش کرکے نمازوں کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے، قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے۔ تو اس طرح رمضان کے بعد بھی وقت پر پانچوں نمازیں ادا کرو۔ کوئی دوستی اللہ تعالیٰ کی دوستی سے بڑھ کر نہ ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نيشنل 18؍نومبر2005ءصفحہ5)

رمضان میں نماز کی ادائیگی میں معمول سے بڑھ کر باقاعدگی اور خوب صورتی کے لیے پوری یکسوئی کی ضرورت ہے۔ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ کا حکم بھی نماز میں مداومت سے پورا ہوتا ہے اولین ترجیح نماز کو دی جائے ۔

گھر کے سارے کام کاج پھر بچوں کی دیکھ بھال صفائی ستھرائی وغیرہ کے ساتھ نماز کا لباس صاف پاک رکھنا خواتین کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ ایک پاک صاف لباس صرف نماز کے لیے الگ رکھ لیا جائے ۔ نماز میں توجہ کے لیے بھی باطنی اور ظاہری صفائی کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر مجبوری ہو تو جیسا لباس ہے اسی کے ساتھ نماز پڑھ لی جائے ۔ نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ۔ حضرت مصلح موعود ؓ تحریر فرماتے ہیں

’’کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں …یہ سب شیطانی وساوس ہیں

 لَا يُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا

الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو ان کے ترک میں گناہ ہے ۔ لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جاسکتی ہوں یا ان کا پورا کرنا مشکل ہو تو ان کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے ۔اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا ۔

(تفسير کبير جلد اول صفحہ 104)

اگر خواتین کو بحالتِ مجبوری مخصوص ایام میں نماز نہ پڑھنی ہو تو ذکر الٰہی یعنی درود شریف اور مسنون دعائیں پڑھنے کی اجازت ہے البتہ قرآنِ پاک پڑھنا منع ہے ۔ اگر نماز پڑھنے والی صرف عورتیں اور چھوٹےبچے ہوں تو با جماعت نماز پڑھنا بہتر ہے اس صورت میں عورت ہی نماز کی امامت کرے گی اذان کی ضرورت نہیں صرف اقامت کہی جائے اور امام صف کے اندر کھڑی ہو۔ الگ نماز پڑھنے سے باجماعت نماز کا زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ اس طرح بچوں کو نماز کے آداب و مسائل کی تربیت کرنے کا اچھا موقع مل جاتاہے۔

طبی مجبوریوں میں عورت مریض کے حکم میں آتی ہے روزہ رکھنا منع ہے ۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑ تی تھیں توہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام )

مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے۔

(ترمذی ابواب الصوم)

کم عمری میں روزہ رکھوانا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے پسند نہیں فرمایا گھر کے ماحول کا بڑا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی تھیں کہتی ہیں کہ قبل بلوغت کم عمری میں آپ علیہ السلام روزہ رکھوانا پسندنہیں کرتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوت افطار دی۔ یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔ اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں مَیں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔ غالباً حضرت امّاں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔ آپ نے ایک پان اٹھا کر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھا لو۔ تم کمزور ہو۔ ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔ میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ۔ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ) نے بھی روزہ رکھا ہوا ہے۔ وہ بھی اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں ان کا بھی تڑوا دیں۔ فرمایا بلاؤ اس کو بھی۔ مَیں بلا لائی۔ وہ آئیں تو ان کو بھی دوسرا پان اٹھا کر دیا اور فرمایا لو یہ کھا لو۔ تمہارا روزہ نہیں ہے۔ فرماتی ہیں کہ غالباً میری عمر دس سال کی ہو گی۔

(ماخوذ از تحريراتِ مبارکہ بحوالہ فقہ المسيح صفحہ 214 باب روزہ اور رمضان)

بچے روزہ نہ رکھیں مگر روزوں کی تربیت کے لیے سحری میں جاگنا اور تہجد پڑھنا ضرور سکھایا جائے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’رمضان خصوصیت کے ساتھ تہجد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یعنی تہجد کی نماز یں…خصوصیت سے رمضان سے تعلق رکھتی ہیں اگرچہ دوسرے مہینوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں…اپنا ایک دستور بنا لیں اور بچوں کو بھی ہمیشہ تاکید کریں کہ اگروہ سحری کی خاطراٹھتے ہیں تو ساتھ دو نفل بھی پڑھ لیا کریں اور اگر روزے رکھنے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں پھر تو ان کو ضرور نوافل کی طرف متوجہ کرنا چاہئے۔ یہ درست نہیں کہ اٹھیں اور آنکھیں ملتے ہوئے سیدھا کھانے کی میز پرآ جائیں یہ رمضان کی روح کے منافی ہے۔ اورجیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا اصل برکت تہجد کی نماز سے حاصل کی جاتی ہے…۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍جنوری 1996ءمطبوعہ الفضل انٹرنيشنل15؍مارچ1996ءصفحہ6)

قرآن پاک پڑھنا پڑھانا ترجمہ و تفسير سيکھنا اور عمل کرنا

حضرت اقدس مسيح موعود ؑفرماتے ہيں:

’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ

سےماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘

(ملفوظات۔جلد چہارم۔صفحہ 256)

قرآن پاک کو رمضان کے مہینے سے ایک خاص نسبت ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کی تاکید فرماتے ہیں ۔

روزہ رکھ کے قرآن مجید پڑھنے میں عجیب لذت ملتی ہے۔ دل و دماغ اس کا پیغام قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر کے ہی رمضان کا حقیقی فیض اٹھا سکتے ہیں ۔ رمضان میں درس قرآن کا انتظام ہوتا ہے جس سے رمضان المبارک کا ماحول روح پرور بن جاتا ہے ایم ٹی اے پر خوش الحان قاری حضرات کی تلاوت لگتی ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے درس بھی چلائے جاتے ہیں جو قرآن پاک کے ترجمہ اور تفسیر کا وسیع سمندر ہیں ۔ ہم کتنے بھی پڑھے لکھے ہوں ،زبان پر عبور رکھتے ہوں ، فکری بالیدگی رکھتے ہوں ذاتی فہم سے ان گہرے مطالب تک نہیں پہنچ سکتے جو اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا اور آپ اپنے دلنشین انداز میں بیان فرماتے تھے۔ قرآن پاک سمجھنے کے لیے علم صَرف ونحو ، مروج تراجم اور تفاسیر کافی نہیں ہوتیں بلکہ یہ متقین پر آپ اپنے مطالب کھولتا ہے۔ خوش نصیب ہیں ہم کہ ہمیں اس دور کے سب سے متقی قرآن کا الوہی علم رکھنے والے مسیحائے زمان ؑپر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی جس سے متقین کے ایک سلسلے سے مستفیض ہونے کا موقع ملا ۔ ہم تفاسیر پڑھنے کا ارادہ بھی کریں گے تو کتنی پڑھ لیں گے ؟۔ ہمارے لیے پیارے محسن خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے نزول قرآن مجید سے لے کر اپنے وقت تک کی ساری اہم کتابوں کا مطالعہ کیا اور اپنے خدا داد فہم رسا سے اس کے اسرارو رموز، معانی و تفاسیر سے آگاہی حاصل کی اور اس سے کشید کیا ہوا شہد ہمیں شفائے قلب و روح کے لیے ترجمۃ القرآن اور درس قرآن کی صورت میں پیش کردیا ۔ زمانے کی جدید ایجادات نے اسے محفوظ رکھا اور اب ہم گھر بیٹھے سہولت کے ساتھ ان خزائن سے لعل و جواہر چن سکتے ہیں ۔ ما ہ رمضان میں قرآن مجید پڑھنے ، سننے اور عمل کرنے کا ثواب کئی گنا زیادہ ہے ۔ قرآن پاک تدبّر سے پڑھنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’قرآن شريف تدبّر وتفکّر وغور سے پڑھنا چاہيے۔ حديث شريف ميں آيا ہے

رُبَّ قَارٍ يَلْعَنُہُ الْقُرْاٰن۔

یعنی بہت سے ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیتِ رحمت پر گزر ہو۔تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں قرآن کریم میں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہوتو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوےاور تدبّر و غور سے پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کیا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد 9صفحہ 199-200)

یہی تو مہینہ ہے جس میں یہ پاک کتاب نازل ہوئی اور جبرئیل ؑنے رسولِ کریم ﷺ کے ساتھ دور کیے ۔ روزے میں جب ہلکی ہلکی بھوک لگتی ہے تو از خود ہاتھ قرآن کریم کی طرف بڑھتے ہیں ۔ اس کو پڑھنے کی طرف توجہ رہتی ہے اس کی عظمت دل میں اُتر جاتی ہے ۔ اس سے پیار ہوجاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہےافسوس ان لوگوں پر جو کسی اَور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدِّق یا مکذِّب قیامت کے دن قرآن ہے۔ اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اَور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی…‘‘

(کشتی نوح، روحاني خزائن جلد 19صفحہ 26-27)

جب ہم رمضان میں قرآن کریم کی طرف خاص توجہ دیں گے تو پھر عام دنوں میں بھی اس طرف توجہ کی عادت پڑے گی اور مستقل عادت بن کر ہماری زندگیوں میں شامل ہوجائے گا ۔

رمضان۔ دعا ۔ استغفار ۔ درود شريف اور ذکرِ الٰہی

اللہ تبارک وتعالٰی نے دينے کے بہانے بنانے کے ليے بندوں کو کئی طرح کے مواقع عطا فرمائے ہيں۔

گھر کے کام تو کرنے ہوتے ہیں اور دعائیں بھی اس کے لیے ‘دست باکار اور دل با یار ’کا طریق کام آتا ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے مجھ سے مانگو مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنتا ہوں رمضان میں قریب آکے سنتا ہوں اور آدھی رات کو مزید قریب آجاتا ہوں ۔ مگر وہ منہ کے الفاظ سے نہیں دل کی پاکیزگی ،سچائی اور خلوص کی زبان سے مانگنے پر دیتا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ پکارنے والے نے اُس کی باتیں بھی مانی ہیں یا نہیں ۔ اُ س کی عنایات پر شکر کیا ہے یا نہیں صرف مشکل کے وقت پکارا ہے یا آسائش میں بھی یاد رکھا ہے ۔ اگر لگتا ہے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی تو ہماری طلب میں نقص ہے اللہ تعالیٰ کے مجیب الدعوات ہونے کے وعدے سچے ہیں ۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کے طریق اور اپنی حالتوں کو قبولیت دعا کی کیفیت والا بنانے کے طریق وضاحت سے بتائے ہیں ۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معنی اس دعا کے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 124،ايڈيشن1984ء)

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:‘‘جب کوئی رمضان کے پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اس کے پہلے سب گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہر روز ماہ رمضان میں ہوتا ہے اور ہر روز اس کے لئے ستّر ہزار فرشتے اس کی بخشش کی دعائیں صبح کی نماز سے لے کر ان کے پردوں میں چھپنے تک کرتے ہیں۔‘‘

(کنزالعمال ۔ کتاب الصوم)

ايک موقع پر آپؐ نے فرمايا کہ’’فرشتے روز ہ دار کے ليے دن رات استغفار کرتے ہيں۔‘‘(مجمع الزوائد)

آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ اس مہينے کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے درميانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔

(کنز العمال جلد 8 صفحہ 477 فی فصل صوم شھر رمضان حديث 23714 مؤسسة الرسالة بيروت 1985ء)

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:’’یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سَیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں، تھکتے نہیں، کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔

مبار ک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لیے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لیے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔…

غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مُشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرتِ احد یت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے۔ ‘‘

(ليکچر سيالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 222تا223)

’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ …… سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔‘‘

(ريويو آف ريليجنز جلد1 نمبر 5 مئی 1902ء صفحہ 187-188)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’عقل کیونکر اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم و رحیم واقع ہوئی ہے وہ بندہ سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں خداتعالیٰ کا نام… توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ سو بندہ کا ر جوع تو پشیمانی اور ندامت اور تذلّل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ۔‘‘

(چشمہ ٔمعرفت۔ روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ133-134)

دعاؤں کی بہت اعلیٰ قسم کی کتابیں ہمارے ہاں موجود ہیں ایک ایک دعا کرکے آسانی سے یاد کر سکتے ہیں ۔ اور ان سے زبان کو تر رکھ کے ہم اللہ پاک کی خوشنودی اور اپنے کاموں میں برکت شامل کرسکتے ہیں

صحت پر خوشگوار اثر

روزوں سے انسان کی صحت پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ وزن میں کمی آسکتی ہے۔روزوں سے انسانی زندگی میں کھانے پینے کی عادتوں میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ وقت بے وقت کھانے کی عادت چھٹ جاتی ہے کھانوں کے وقفوں میں معدے کو آرام ملتا ہے۔

حضرت اقدس ؑفرماتے ہیں کہ ’’پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پرنہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 9صفحہ 123)

’’کم کھانا اور بھوک برداشت کرنا بھی تزکیہ ٔنفس کے واسطے ضروری ہے۔ اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے۔ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا۔ بالکل ابدی زندگی کا خیال چھوڑد ینا اپنے اوپرقہرالٰہی کا نازل کرناہے۔ مگر روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکرمیں بہت مشغول رہناچاہئے۔ بدنصیب ہے وہ شخص جس کو جسمانی روٹی ملی مگر اُس نے روحانی روٹی کی پرواہ نہیں کی۔ جسمانی روٹی سے جسم کو قوت ملتی ہے ایسا ہی روحانی روٹی روح کوقائم ر کھتی ہے۔ اور اس سے روحانی قویٰ تیز ہوتے ہیں۔ خداسے فیضیاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں۔‘‘

(تقارير جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ 20تا21)

روزوں سے صحت کے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں ۔ بدن کے فاسد مادے جلتے ہیں ۔ نظام درست ہوتا ہے حضرت مصلح موعود ؓ نے تحریر فرمایا ہے :

’’ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تروتازگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ ‘‘

 (تفسير کبير جلد دوم صفحہ 375)

نرم اور پاک زبان

جس زبان اور دل سے ذکر الٰہی کرنا ہے اُسے پاک صاف رکھنا ضروری ہے۔ جھوٹ بولنے۔ غیبت کرنے۔ گالی دینے ۔ الزام لگانے ۔ ادھر ادھر کی لایعنی باتیں کرنے سے زبان گندی ہوتی ہے اور رمضان المبارک میں جسم کا ہر عضو وقف برائے یادِ الٰہی ہو ۔ خواتین کے لیے یہ امر زیادہ توجہ طلب ہے ۔ ساس بہو، نند بھابھی ، جٹھانی دیورانی ، قسم کے رشتے جلدی آگ پکڑ لیتے ہیں ۔ زبان کی ذرا سی غفلت جنگل کی آگ بن جاتی ہے ۔ رمضان المبارک میں طبیعت نظم و ضبط کی طرف مائل ہوتی ہے ۔ صبر و تحمل سے ایسی باتوں سے دور رہا جاسکتا ہے جس میں جھوٹ اور بد ظنی شامل ہو ۔ گھروں کے ٹوٹنے میں ، رحمی رشتہ داروں میں دوریوں میں اڑوس پڑوس کے جھگڑوں میں ابتدا معمولی غلط فہمیوں سے بات کا بتنگڑ بنانے سے ہوتی ہے ۔

اللہ تعاليٰ قرآن کريم ميں فرماتا ہے کہ

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84)

اور تم لوگوں سے نرمی کے ساتھ بات کيا کرو۔

جيسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمايا:

‘‘مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَيْسَ لِلّٰہِ حَاجَةً فِي اَنْ يَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ۔’’ ( بخاری کتاب الصوم )

يعنی جو شخص روزہ ميں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعاليٰ کو اس کے کھانا پينا چھوڑنے کی کيا ضرورت ہے۔

اسی طرح ايک اور موقع پر فرمايا:

’’ روزہ صرف کھانے پينے سے رکنے کا نام نہيں بلکہ ہرقسم کي بيہودہ باتيں کرنے اور فحش بکنے سے رکنے کا مفہوم بھی اس ميں شامل ہے۔ پس اے روزہ دار اگر کوئی شخص تجھے گالی دے يا غصہ دلائے تو تو اسے کہہ دے کہ ميں روزہ دار ہوں۔‘‘

(بخاری کتاب الصوم باب ھل يقول انی صائم اذاشتم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے، کسی قسم کی شہوانی باتیں نہ ہوں، گالی گلوچ نہ ہو اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں کہنا چاہیے کہ میں تو روزے دار ہوں۔ میں کسی قسم کی لغویات میں نہیں پڑتا۔

( دارمی بحوالہ مشکوٰة صفحہ 177)

آنحضرتؐ ہر ایک سے محبت اور خوش خلقی سے پیش آتے اور بعض دفعہ مخالفین کے سخت بدکلامی کرنے کے باوجود انہیں معاف فرما دیتے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں گالیاں سن کے دعا دینے کا درس دیا ہے اور خود بھی غیض گھٹا کر رحم کو جوش میں رکھنے پر عمل کرکے دکھایا ہے ۔ گھر میں بھی نرم زبان استعمال فرمائی اور غیروں سے بھی خوش خلقی سے پیش آئے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ’’نرمی کی عادت ڈالو تا کہ خدا تعالیٰ بھی تمہارے سے نرمی سے پیش آئے۔ ورنہ اگر تم خدا تعالیٰ کی مخلوق پر درشتی کرتے ہو تو تم بھی اپنے آپ کو اس بات کا حق دار بناتے ہو کہ خدا تعالیٰ تم پر درشتی کرے۔‘‘

(اصلاح نفس، انوار العلوم جلد 5صفحہ 437)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں پر عمل کرتے ہوئے اپنی گفتگو میں نرمی، محبت پیار اور تحمل پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

انفاق فی سبيل اللہ صدقہ و خيرات ۔

زکوٰة ۔ فطرانہ۔ عيد فنڈ۔ چندے

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال سے اللہ تعالیٰ کی خاطر خرچ کرنا مرد عورت دونوں پر فرض ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

مَنۡ ذَا الَّذِيۡ يُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ؕ وَ اللّٰہُ يَقۡبِضُ وَ يَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَيۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ(سورة البقرة: 246)

’’کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو (اپنے مال کا) ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے۔ تاکہ وہ اس (مال کو) اس کے لئے بہت بڑھائے اور اللہ (مال) لے کر اسے بڑھاتا ہے۔ اور تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘

آنحضرتﷺ نے فرمايا:

’’ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کردوسرا کہتا ہے اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا ک کردے۔ اور اس کا مال و متاع برباد کردے۔‘‘

ايک اور موقع پر آپؐ نے نصيحت کرتے ہوئے فرمايا کہ

‘‘جو شخص خدا تعاليٰ کے راستے ميں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلے ميں سات سو گنا زيادہ ثواب ملتا ہے۔’’

(بخاری کتاب الايمان)

مہدی آخرالزمان حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں:

’’یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیزوں سے محبت نہیں کرسکتے اور تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی، صرف ایک سے ہی محبت کرسکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر تم میں سے کوئی خدا سے محبت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کریگا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخودنہیں آتا بلکہ خدا کے ارادے سے آتا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ 497)

رمضان المبارک میں اپنے آقا و مطاع کے اسوہ حسنہ کے مطابق جو آندھی کی سی تیزی سے صدقہ خیرات کرتے تھے دل کھول کر مالی قربانی میں حصہ لینا چاہیے ۔ احمدی خواتین کی مالی قربانیاں خلفائے کرام سے دعا اور داد حاصل کرتی رہتی ہیں۔

آخري عشرہ ۔ اعتکاف ۔ ليلة القدر

رمضان کے گنتی کے دن تیزی سے گزرتے ہوئے آخری عشرہ آجاتا ہے ۔ جو آگ سے بچاؤ کی دعائیں کرنے کا عشرہ ہوتا ہے ۔ اس عشرے میں یکسوئی سے عبادت کرنےکے لیے اعتکاف کیا جاتا ہے حدیث میں آتاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرہ میں آنحضرتﷺ عبادت میں اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ دیکھنے میں نہ آتی۔

(صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف باب االجتھاد فی العشر الاواخر…)

پھر حدیث میں آتاہے حضرت ابن عمر ؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا :عمل کے لحاظ سے ان دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب کوئی دن نہیں۔ پس ان ایام میں تہلیل یعنی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہنا، اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری طرح اختیار کرنا اور تکبیر کہنا اور تحمید کہنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، بکثرت اختیار کرو۔

اعتکاف کی عبادت میں خواتین میں اولیت حضرت مریمؑ کو حاصل ہے الگ تھلگ بیٹھ کر عبادت کی اور خوش خبری حاصل کی۔

امہات المو منین ؓ بھی آنحضور ﷺ کی اتباع میں شوق سے اعتکاف کرتی تھیں عورتیں بھی مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں لیکن گھر کے اندر نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کرکے وہیں اعتکاف بیٹھنا زیادہ پسندیدہ ہے حدیث مبارکہ ہے

اماالمراَةُ تعتکف في مسجد بيتھا۔ (ہدایہ باب الاعتکاف )

اسی عشرے میں لیلۃ القدر بھی ہوتی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہوتی ہے ۔ حضرت عائشہ ؓروایت کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ یارسول اللہؐ اگرمجھے علم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مَیں اس میں کیا دعاکروں۔ فرمایا کہ توُیہ دعا کرکہ:

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔

اے اللہ توبہت معاف کرنے والا اور معاف کرنے کو پسند فرماتاہے پس تُو مجھے بھی بخش دے اور معاف فرما دے۔

(ابن ماجہ کتاب الدعا باب الدعا بالعفو…)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تووہ خداکے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے۔

(رونامہ الفضل لاہور 8؍جولائي 1950ء)

عید الفطر – رمضان المبارک کے ساتھ ہی عیدالفطر کی تیاریوں کا خیال آتا ہے اسلامی تہوار جس میں سب چھوٹے بڑے خوشی سے شامل ہوتے ہیں ۔ اسلام جو دینِ فطرت ہے انسانی نفسیات کے ہر پہلو کی تسکین کے لیے خوشی منانے کی اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ تاکید کرتا ہے آنحضرت ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ عیدین کے دن سب لوگ عورتیں اور بچے عید پر جائیں یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی عید کے خطبے اور دعا میں شامل ہونے کا حکم ہے اگرچہ وہ نماز میں شامل نہ ہو ۔ شمولیت کے لیے اتنی تاکید ہے کہ اگر کسی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کسی سہیلی سے مانگ لے مگر عید پر جائے ۔

اس سال ماہ رمضان عجیب دردناک حالات میں آرہا ہے کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ مساجد بند پڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے گناہوں کو معاف فرماکے اپنے رحم سے جلدی اس عذاب کو ٹال دے مساجد کی رونقیں بحال ہوں ۔ آمین

حقیقی عید رضائے الٰہی اور لقائے الٰہی میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی عبد بناتے ہوئے اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے ہم اس مہینے سے ہم کما حقہٗ فیض اٹھا نے والے ہوں۔ آمین اللھم آمین

بخشش ہو عنايت کہ تو ستار ہے غافر

بھک منگی ہوں عادی امة الباری ناصر

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button