لوحُ الہدیٰ
از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
تمہید
نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
اے نوجوانانِ جماعتِ احمدیہ!
ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے ۔ گو ہمارا سلسلہ روحانی ہے مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی الٰہی ہے اس لیے وہ بھی اس کی زَد سے بچ نہیں سکتا۔پس اس کا خیال رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے ۔ ہم پر واجب ہے کہ آپ لوگوں کو ان فرائض پر آگاہ کردیں جو آپ پر عائد ہونے والے ہیں اور ان راہوں سے واقف کردیں جن پر چل کر آپ منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں اور آپ پر فرض ہے کہ آپ گوشِ ہوش سے ہماری باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہٗ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے۔ اس غرض کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے جس میں حتی الوسع وہ تمام نصیحتیں جمع کردی ہیں جن پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ گو نظم میں اختصار ہوتا ہے مگر یہ اختصار ہی میرے مدعا کے لیے مفید ہے کیونکہ اگر رسالہ لکھا جاتا تو اس کو بار بار پڑھنا وقت چاہتا جو ہر شخص کو میسر نہ ہوسکتا۔ مگر نظم میں لمبا مضمون تھوڑی عبارت میں آجانے کے باعث ہر ایک شخص آسانی سے اس کا روزانہ مطالعہ بھی کرسکتا ہے اور اس کو ایسی جگہ بھی لٹکا سکتا ہے جہاں اس کی نظر اکثر اوقات پڑتی رہے اور اس طرح اپنی یاد کو تازہ رکھ سکتا ہے۔ خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کے اثر بڑے ہوتے ہیں ۔ پس اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ تھوڑے ہی دن میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعداپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے۔ یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارا یہی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد میں آنے والی نسلوں کی بھی اصلاح کی فکر رکھو اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتا چلا جاوے تاکہ یہ دریائے فیض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں جس کے لیے آدمؑ اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے ۔ خدا تمھارے ساتھ ہو۔ اللّٰھم آمین
نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو
چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو
تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو
جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار
سستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو
جب تک انسان کسی کام کا عادی اپنے آپ کو نہ بنا لے اس کا کرنا دو بھر ہوجاتا ہے۔ پس یہ غلط خیال ہے کہ جب ذمہ داری پڑے گی دیکھا جائے گا آج ہی سے اپنے آپ کو خدمتِ دین کی عادت ڈالنی چاہیے۔
خدمتِ دین کو اک فضل الٰہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو
کبھی خدمتِ دین کرکے اس پر فخر نہیں کرنا چاہیے یہ خدا کا فضل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو خدمتِ دین کی توفیق دے نہ بندہ کا احسان کہ وہ خدمتِ دین کرتا ہے ۔ اور یہ تو حد درجہ کی بیوقوفی ہے کہ خدمتِ دین کرکے کسی بندہ پر احسان رکھے یا اس سے کسی خاص سلوک کی امید رکھے۔
دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو
تم میں اسلام کا ہو مغز، فقط نام نہ ہو
سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برقِ غضب
دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دشنام نہ ہو
اس زمانہ کا اثر اس قسم کا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز کرنے کو بھی وضع کے خلاف سمجھتے ہیں اور خدا کے حضور میں ماتھے خاک آلود ہونا انہیں ذلت معلوم ہوتا ہے حالانکہ اس کے حضور میں تذلل ہی اصل عزت ہے۔
خیر اندیشیٔ احباب رہے مدّنظر
عیب چینی نہ کرو مفسد و نمّام نہ ہو
چھوڑ دو حرص کرو زہد و قناعت پیدا
زر نہ محبوب بنے سیم دل آرام نہ ہو
اس زمانہ میں مادی ترقی کے اثر سے روپے کی محبت بہت بڑھ گئی ہے اور لوگوں کو ہر ایک معاملہ میں روپے کا خیال زیادہ رہتا ہے ۔ روپے کمانا برا نہیں لیکن اس کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتی ۔ جو شخص رات دن اپنی تنخواہ کی زیادتی اور آمد کی ترقی کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کا موقع کب مل سکتا ہے۔مومن کا دل قانع ہونا چاہیے۔ ایک حد تک کوشش کرے پھر جو کچھ ملتا ہے اس پر خوش ہو کر خدا تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرے۔ اس بڑھی ہوئی حرص کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ لوگ خدمتِ دین کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کرسکتے اور دینی کاموں کے متعلق بھی ان کا یہی سوال رہتا ہے کہ ہمیں کیا ملے گا اور مقابلہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر فلاں دنیا کا کام کریں تو یہ ملتا ہے ۔اس دینی کام پر یہ ملتا ہے ہمارا کس میں فائدہ ہے ۔ گویا وہ دینی کام کسی کا ذاتی کام ہے جس کے بدلہ میں یہ معاوضہ کے خواہاں ہیں۔حالانکہ وہ کام ان کا بھی کام ہے اور جو کچھ ان کو مل جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ہے اور اس مال کی محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کا امن اٹھ رہا ہے ۔ ضروریات ایسی شے ہیں کہ ان کو جس قدر بڑھاؤ بڑھتی جاتی ہیں ۔ پس قناعت کی حد بندی توڑ کر پھر کوئی جگہ نہیں رہتی جہاں انسان قدم ٹکا سکے۔ کروڑوں کے مالک بھی تنگی کے شاکی نظر آتے ہیں ۔جس کے ہاتھ سے قناعت گئی اور مال کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوئی وہ خود بھی دکھ میں رہتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھ دیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تو اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔
رغبتِ دل سے ہو پابند نماز و روزہ
نظر انداز کوئی حصۂ احکام نہ ہو
پاس ہو مال تو دو اس سے زکوٰۃ و صدقہ
فکر مسکیں رہے تم کو غمِ ایام نہ ہو
فکر مسکیں رہے یعنی یہ غم نہ ہو کہ اگر غریب کی مدد کریں گے تو ہمارا روپیہ کم ہوجائیگا پھر ضرورت کے وقت کیا کریں گے جو اس وقت محتاج ہے اس کی دستگیری کرو اور آئندہ ضروریات کو خدا پر چھوڑ دو۔
حسن اس کا نہیں کھلتا تمہیں یہ یاد رہے
دوشِ مسلم پہ اگر چادرِ احرام نہ ہو
حج ایک نہایت ضروری فرض ہے ۔ نئی تعلیم کے دلدادہ اس کی طرف سے بہت غافل ہیں حالانکہ اسلام کی ترقی کے اسباب میں سے یہ ایک بڑا سبب ہے ۔ طاقتِ حج سے یہ مراد نہیں کہ کروڑوں روپیہ پاس ہو ۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اگر اخلاص سے کام لے تو حج کے سامان مہیا کرسکتا ہے ۔
عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں
دل میں ہو عشقِ صنم لب پہ مگر نام نہ ہو
نماز کے علاوہ ایک جگہ بیٹھ کر تسبیح و تحمید و تکبیر کرنا یا کاموں سے فراغت کے وقت تسبیح و تحمید و تکبیر کرنا دل کو روشن کردیتا ہے۔ اس میں آج کل لوگ بہت سستی کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی صفائی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ نمازوں کے پہلے یا بعد اس کا خاص موقع ہے۔
عقل کو دین پہ حاکم نہ بناؤ ہرگز
یہ تو خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو
ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ مذہب کو سچا سمجھ کر مانے یوں ہی اگر سچے دین کو بھی مان لیا جائے تو کچھ فائدہ نہیں لیکن جب پوری طرح یقین کرکے ایک بات کو مانا جائے تو پھر کسی کا حق نہیں کہ اس کی تفصیلات اگر اس کی عقل کے مطابق نہ ہوں تو ان پر حجت کرے ۔ روحانیات کا سلسلہ تو خداتعالیٰ کی طرف سے قائم ہے۔ پس عقل اور مذہب کا مقابلہ نہیں بلکہ عقل کو مذہب پر حاکم بنانے سے یہ مطلب ہوگا کہ آیا ہماری عقل زیادہ معتبر ہے یا خداتعالیٰ کا علم ۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ ہاں یہ بات دریافت کرنی بھی ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ مذہب کا حصہ ہے بھی یا نہیں۔
جو صداقت بھی ہو تم شوق سے مانو اس کو
علم کے نام سے پر تابع اوہام نہ ہو
آج کل یورپ سے جو آواز آوے اور وہ کسی فلاسفر اور سائنس دان کی طرف منسوب ہو تو جھٹ اس کا نام علم رکھ لیا جاتا ہے اور ا س کے خلاف کہنے والوں کو علم کا دشمن کہا جاتا ہے ۔ یہ نادانی ہے ۔جو بات مشاہدوں سے ثابت ہو اس کا انکار کرنا جہالت ہے ۔ لیکن بلا ثبوت صرف بعض فلسفیوں کی تھیوریوں کو علم سمجھ کر قبول کرنا بھی کم عقلی ہے ۔ اس وقت بہت سے یورپ کے نو ایجاد علوم تھیوریوں (قیاسات) سے بڑھ کر حقیقت نہیں رکھتے ان کے اجزاء ثابت ہیں لیکن ان کو ملا کر جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے۔ لیکن علوم جدیدہ کے شیدائی اس امر پر غور کیے بغیر ان وہموں کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں۔
دشمنی ہو نہ محبانِ محمدؐ سے تمہیں
جو معاند ہیں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو
مومن کا فرض ہے کہ بجائے حقارت اور نفرت سے کام لینے کے محبت سے کام لے اور امن کو پھیلائے ۔مومن کا وطن سب دنیا ہے اس سے جہاں تک ممکن ہو تمام فریقوں میں جائز طور پر صلح کرانے کی کوشش کرے اور قانون کی پابندی کرے۔
امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو
باعث فکر و پریشانیٔ حکام نہ ہو
اپنی اس عمر کو اک نعتِ عظمیٰ سمجھو
بعد میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایام نہ ہو
حسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے
دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ ہو
اچھی بات خواہ دین کے متعلق ہو خواہ دنیا کے متعلق ہو اچھی ہی ہوتی ہے مگر بہت دفعہ بری باتیں اچھی شکل میں پیش کی جاتی ہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ انگریزی کی مثل ہے
ALL THAT GLITTERS IS NOT GOLD
تم مدبر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو
ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو
دنیاوی ترقی کے ساتھ اگر دین نہیں تو ہمیں کچھ خوشی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر یہ اصل مقصد ہوتی تو پھر ہمیں اسلام اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی پھر مسیحیت جو اس وقت ہر قسم کے دنیاوی سامان رکھتی ہے اس کو کیوں نہ قبول کرلیتے۔
سیلف رسپکٹ کا بھی خیال رکھو تم بیشک
یہ نہ ہو پر کہ کسی شخص کا اکرام نہ ہو
آج کل لوگ سیلف رسپکٹ کے نام سے بزرگوں کا ادب چھوڑ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ صحیح عزت کے لیے ادب کا قائم رکھنا ضروری ہے ۔ اگر ادب نہ ہو تو تربیت بھی درست نہیں ہو سکتی۔ سیلف رسپکٹ کے تو یہ معنی ہیں کہ انسان کمینہ نہ بنے نہ کہ بے ادب ہوجائے۔
عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو
کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو
کسی زمانہ کسی وقت ،کسی حالت میں اسلام کی تبلیغ کو نہ چھوڑو۔ ایک دفعہ اس کے خطرناک نتائج دیکھ چکے ہیں ۔ نہ تنگی تمھاری کوششوں کو سست کرے کہ ہر تکلیف سے نجات اسی کام سے وابستہ ہے اور نہ ترقی تم کو سست کردے کیونکہ جب تک ایک آدمی بھی اسلام سے باہر ہے تمہارا فرض ادا نہیں ہوا اور ممکن ہے کہ وہ ایک آدمی کفر کا بیج بن کر ایک درخت اور درخت سے جنگل بن جائے۔
تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا
نفسِ وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو
سب سے پہلا فرض اصلاحِ نفس ہے اگر اس کے ظلم ہوتے رہیں اور ان کی اصلاح نہ ہو تو دوسروں کی اصلاح تم کو اس قدر نفع نہیں پہنچا سکتی۔
منّ و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب
رشتۂ وصل کہیں قطع سرِ بام نہ ہو
انسان نیکی کرتے کرتے کبھی خدا تعالیٰ کا پیارا بننے والا ہوتا ہے کہ احسان جتا کر پھر وہیں آگرتا ہے جہاں سے ترقی شروع کی تھی اور چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے اس کی ہمیشہ احتیاط رکھنی چاہیے کیونکہ وہ محنت جو ضائع ہو جاتی ہے حوصلہ پست کردیتی ہے۔
بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیبِ نسواں
مرد وہ ہے جو جفا کش ہو گل اندام نہ ہو
صفائی اچھی چیز ہے مگر نازک بدنی اور جسم کے سنگھار میں مشغول رہنا اور حسنِ ظاہری کی فکر میں رہنا یہ مرد کا کام نہیں۔ عورتوں کو خداتعالیٰ نے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ علاوہ دوسرے فرائض کی ادائیگی کے جو بحیثیت انسان ہونے کے ان کے ذمہ ہیں مرد کی اس خواہش کو بھی پورا کریں ۔ مرد کے ذمہ جو کام لگائے گئے ہیں وہ جفا کشی اور محنت کی برداشت کی عادت چاہتے ہیں ۔ پس جسم کو سختی برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور چونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اس لیے زینت اور سنگھار میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
شکل مے دیکھ کر گِرنا نہ مگس کی مانند
دیکھ لینا کہ کہیں دُرد تہِ جام نہ ہو
جس طرح بری چیز اچھی شکل میں پیش ہوجائے تو دھوکا لگ جاتا ہے اس طرح کبھی اچھی چیز کے اندر بری مل جاتی ہے اور اس کے اثر کو خراب کردیتی ہے۔ پس ہر ایک کام کو کرتے وقت اور ہر ایک خیال کو قبول کرتے وقت یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی پہلو برا تو نہیں ۔ اگر مخفی طور پر اس میں برائی ملی ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت
یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہو
بعض لوگ دینی کاموں میں حصہ لینے سے اس خیال سے ڈرتے ہیں کہ لوگ برا کہیں گے یا ہنسی کریں گے حالانکہ خداتعالیٰ کی راہ میں بدنام ہونا ہی اصل عزت ہے ۔ اور کبھی کسی نے دینی عزت حاصل نہیں کی جب تک دنیا میں پاگل اور قابلِ ہنسی نہیں سمجھا گیا۔
کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دُور
اے مرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو
گامزن ہوگے رہ صدق و صفا پر گر تم
کوئی مشکل نہ رہے گی جو سر انجام نہ ہو
حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسوا و خراب
پیارو آموختۂ درسِ وفا خام نہ ہو
یعنی جو کچھ دین کی محبت اور خداتعالیٰ سے عشق کے متعلق ہم سے سیکھ چکے ہو اس کو خوب یاد کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سبق کچا رہے اور قیامت کے دن سنا نہ سکو اور ہمیں، جنہیں اس سبق کے پڑھانے کا کام سپرد کیا ہے ،شرمندگی اٹھانی پڑے۔ دوسروں کے شاگرد فر فر سنا جاویں اور تم یوں ہی رہ جاؤ۔ والسلام مع الاکرام
ہم تو جس طرح بنے کام کیے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو
میری تو حق میں تمھارے یہ دعا ہے پیارو
سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو
ظلمتِ رنج و غم و درد سے محفوظ رہو
مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو
خاکسار مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
(اخبار الحکم 7؍اکتوبر 1920ء)
, mashallah bht hi ba kamal mazameen hote hain .
Allah Ta’ala ap ki kawishon m barkat dale or ye akhbar hamesha Piyare Aaqa ki umangon k mutabiq jama’at ki tarjumani kre or logon hidayat or iman o iqan m izafe ka moojib banta rahe.Ameen