شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی علالت کا بیان(حصہ دوم۔آخر)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :
‘‘مجھے اپنے مرض ذیابیطس کی وجہ سے آنکھوں کا بہت اندیشہ تھا کیونکہ اس مرض کے غلبہ سے آنکھ کی بینائی کم ہو جایا کرتی ہے اور نزول الماء ہو جاتا ہے اس اندیشہ کی وجہ سے دعا کی گئی تو الہام ہواکہ ‘‘نَزَلَتِ الرَّحْمَة عَلٰی ثَلٰثٍ۔اَلْعَیْنُ وَعَلَی الْاُخْرَیَیْن۔’’ یعنی رحمت تین اعضاء پر نازل ہوگی۔ایک تو آنکھ اور دو اور عضو۔اس جگہ آنکھ کا ذکر تو کر دیا۔لیکن دو باقی اعضاء کی تصریح نہیں فرمائی۔مگر لوگ کہا کرتے ہیں کہ زندگی کا لطف تین عضوکے بقا میں ہے۔آنکھ۔کان۔پران۔اس الہام کے پورا ہونے کی کیفیت اس سے معلوم ہو سکتی ہے کہ قریباً اٹھارہ سال سے یہ مرض مجھے لاحق ہے اور ڈاکٹر اور حکیم لوگ جانتے ہیں کہ اس مرض میں آنکھوں کو کیسا اندیشہ ہوتا ہے۔پھر کون سی طاقت ہے جس نے پہلے سے خبر دے دی کہ یہ قانون تجھ پر توڑدیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی کر کے دکھا دیا۔کیا یہ انسان کا کام ہے؟ ایسی مرض کی حالت میں دعویٰ کرنا تو درکنار کون ہے جو عین تندرستی اور جوانی کی حالت میں بھی دعویٰ کر سکے کہ میری آنکھیں فلاں وقت تک محفوظ رہیں گی۔’’
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 592، 593)
ایک اَور جگہ آپؑ نے فرمایا:
‘‘ایک دفعہ مجھے مرض ذیا بیطس کے سبب بہت تکلیف تھی کئی دفعہ سو، سو مرتبہ دن میں پیشاب آتا تھا۔دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہو گئے۔جن سے کار بنکل کا اندیشہ تھا۔تب میں دعا میں مصروف ہوا تو یہ الہام ہوا‘‘وَالْمَوْتِ اِذَا عَسْعَسَ’’ یعنی قسم ہے موت کی جبکہ ہٹائی جائے۔چنانچہ یہ الہام بھی ایسا پورا ہوا کہ اس وقت سے لے کر ہمیشہ ہماری زندگی کا ہر ایک سیکنڈ ایک نشان ہے۔’’
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 613)
ایک اَور جگہ یوں ذکر فرمایا:
‘‘ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی ایک دم قرار نہ تھا کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج ہے۔اس نے کہا کہ علاج دندان اخراج دندان۔اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا تب اُس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میں زمین پر بیتابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی پاس بچھی تھی۔میں نے بیتابی کی حالت میں اُس چار پائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آگئی۔جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا : اِذَا مَرِضْتَ فَھُوَ یَشْفِیْ یعنی جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 246، 247)
پھر10؍ستمبر 1905ء کو اپنی ایک تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘دورہ پیشاب کی بڑی تکلیف تھی۔دعا کی گئی۔الہام ہوا:
ا۔اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔’’
ب۔‘‘اس وقت تمام بیماری جاتی رہی۔’’
(تذکرہ صفحہ 478۔ایڈیشن چہارم 2004ء)
حضرت منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلویؓ نے بیان کیا:
‘‘ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو خارش ہوگئی۔ اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں۔دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی۔میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پُر نم ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کاہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلادیا۔اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا۔خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے۔اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں ۔’’
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1117)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا:
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غالباً 1892ء میں ایک دفعہ خارش کی تکلیف بھی ہوئی تھی۔اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد ایک دفعہ ہنس کر فرمانے لگے کہ خارش والے کو کھجانے سے اتنا لطف آتا ہے کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ہر بیماری کا اجر انسان کو آخرت میں ملے گا۔سوائے خارش کے۔کیونکہ خارش کا بیمار دُنیا میں ہی اس سے لذت حاصل کر لیتا ہے۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خارش کی تکلیف مرزا عزیزاحمد صاحب کی پیدائش پر ہوئی تھی۔جو غالباً 1891ء کا واقعہ ہے۔’’
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 574)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘مئی 1902ء کے عشرہ اول میں حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام پر دردِ گردہ کی قسم کا ایک حملہ ہوا۔یہ حملہ نہایت خطرناک تھا۔حضرت حکیم الامت آپؑ کا علاج کر رہے تھے۔مگر اس حملہ میں جو موت کے قریب پہنچا دینے والا تھا۔کسی قسم کی جزع فزع، ہائے وائے آپؑ کے منہ سے نہیں سنی گئی۔آپؑ خود بھی دعا میں مصروف تھے اور خدام کو بھی آپؑ نے دعا کے لئے خاص طور پر تاکید کی۔چنانچہ مسجد اقصیٰ میں خاص طور پر دعا کی گئی۔’’
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 280)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘ایک مرتبہ آپ بعد نماز مغرب حسب معمول شہ نشین پر تشریف فرما تھے اور گرمی کا موسم تھا کہ آپ پر ضعف قلب کا دورہ ہوا یکایک آپ کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔آپ نے مشک نکال کر (جو ہمیشہ رومال میں باندھ کر رکھا کرتے تھے) کھایا اور گرم پانی منگوایا گیا جس میں پاؤں رکھے گئے۔حملہ بہت سخت تھا اس حالت کی خبر پیرا پہاڑیا (ملازم حضرت اقدس) کو بھی ہوئی۔وہ بھاگا آیا اور اس کے پاؤں کیچڑ میں لت پت تھے اسی حالت میں آگے چلا آیا۔کسی نے اس کو روکنا چاہا مگر آپؑ نے فرمایا مت روکو وہ کیا جانتا ہے کہ کیچڑ والے پاؤں سے فرش پر جانا ہے یا نہیں محبت سے آیا ہے آنے دو۔اس وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے تھے۔اور یہی آواز سننے میں آتی تھی۔چہرہ پر طمانیت اور تسلی تھی اور اندر سے جب دریافت کیا جاتا اور بار بار دریافت کیا جاتا تو آپ فرما دیتے دورہ ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا ہوں فکر نہ کریں ۔ قریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک برابر اسی طرح پر مالش وغیرہ ہوتی رہی تب آپ کی طبیعت درست ہوئی اور نماز ادا کر کے اندر تشریف لے گئے۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ صفحہ 282-283)
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ؓنے بیان کیا کہ
‘‘ایک مرتبہ حضرت اقدس ؑ کو خارش کی بہت سخت شکایت ہوگئی۔تمام ہاتھ بھرے ہوئے تھے۔لکھنا یا دوسری ضروریات کا سرانجام دینا مشکل تھا۔علاج بھی برابر کرتے تھے مگر خارش دُور نہ ہوتی تھی …ایک دن (مَیں ) حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔عصر کے قریب وقت تھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ آپؑ کے ہاتھ بالکل صاف ہیں مگر آپؑ کے آنسو بہ رہے ہیں … مَیں نے جرأت کرکے پوچھا کہ حضور آج خلافِ معمول آنسو کیوں بہ رہے ہیں۔حضور ؑ نے فرمایا کہ میرے دِل میں ایک معصیت کا خیال گذرا کہ اللہ تعالیٰ نے کام تو اِتنا بڑا میرے سپرد کیا ہے اور اِدھر صحت کا یہ حال ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شکایت رہتی ہے۔اِس پر مجھے الہام ہوا:
‘‘ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے’’
(تذکرہ صفحہ 685 ایڈیشن چہارم)
حضرت اقدسؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :
‘‘ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کا میل نکال رہا تھا۔جس سے اس کا ہاتھ وَرم کر گیا۔آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا مشورہ دیا۔اس نے معمولی بات سمجھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہوگیا۔اسی طرح ایک دفعہ مَیں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔دوسرے دن جب مَیں سیر کو گیا، تو مجھے اس ڈپٹی انسپکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ وَرم کرگیا۔مَیں نے اسی وقت دُعا کی اور الہام ہوا۔اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا۔اور کوئی وَرم یا تکلیف نہ تھی۔’’
حضرت اقدس ؑاپنے ایک مکتوب میں اپنی علالت کا ذکر فرماتے کچھ یوں فرماتے ہیں :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
31 جون 1906ء
محبی اخویم سید ناصر شاہ صاحب سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے دوعنایت نامہ پونچے (پہنچے)۔ میں بباعث بیماری نقرس اور تکلیف درد جواب نہیں لکھ سکا۔ گِلاس پونچے (پہنچ)گئے ہیں ۔ مگر سخت تُرش تھے۔ کھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اسلئے ان کا اچار ڈال دیا۔ کسی دوسرے پھل کی تلاش رکھیں ۔ جو اس ملک میں نہ ہوتا ہو اور میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتا رہوں گا۔ اب میری طبیعت بہ نسبت سابق روبصحت ہے۔ مگر چل نہیں سکتا۔ چلنے سے سخت درد ہوتی ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(رجسٹر روایات اصحاب غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ نمبر376، 377
روایات حضرت ملک عزیز احمد صاحبؓ)