شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے علاج معالجہ اور ادویات کا بیان
فَبَيْنَمَا هُوَكَذٰلِكَ إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُوْدَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَاْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ
(صحیح مسلم ،کتاب الفتن…باب ذکرالدجال حدیث نمبر7373)
اوراسی کیفیت میں وہ ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم کوبھیجے گا۔وہ دمشق کے شرقی سفیدمنارہ کے پاس نازل ہوگا۔دوزردچادروں میں دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے۔جب وہ اپنے سرکوجھکائے گا تو ٹپکے گا۔اورجب وہ اسے اٹھائے گا تو موتی کی طرح چاندی جیسے قطرے ٹپکیں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
“میرے دل میں خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا کہ مسیح موعود کے لئے یہ بھی ایک علامت ہے۔کیونکہ لکھا ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں اُترے گا سو یہ وہی دو (2) زرد رنگ کی چادریں ہیں ۔ایک اوپر کے حصّۂ بدن پر اَور ایک نیچے کے حصّۂ بدن پر۔کیونکہ تمام اہلِ تعبیر اس پر متفق ہیں کہ عالمِ کشف یا عالمِ رؤیا میں جو نبوت کا عالم ہے اگر زرد چادریں دیکھی جائیں تو ان سے بیماری مُراد ہوتی ہے۔پس خدا نے نہ چاہا کہ یہ علامت مسیح موعود کی مجھ سے علیحدہ ہو۔”
(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد19صفحہ436)
حضرت مسیح موعودومہدی معہودؑ فرماتے ہیں :
“… باوجود ان تمام عوارض اور امراض کے جو مجھے لگے ہوئے ہیں جو دوزرد چادروں کی طرح ایک اوپر کے حصّے میں اور ایک نیچے کے بدن کے حصہ میں شامل حال ہیں جیسا کہ مسیح موعود کے لئے اخبار صحیحہ میں یہ علامت قرار دی گئی ہے مگر پھر بھی خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل سے جیسا کہ وعدہ کیا تھا میری عمر میں برکت دی بڑی بڑی بیماریوں سے میں جاں برہوگیا۔اور کئی دشمن بھی منصوبے کرتے رہے کہ کسی طرح میں کسی پیچ میں پڑ کر اس دارِ دنیا سے رخصت ہو جاؤں مگر وہ اپنے مکروں میں نامراد رہے اور میرے خدا کاہاتھ میرے ساتھ رہا اور اُس کی پاک وحی جس پر میں ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدائے تعالیٰ کی تمام کتابوں پر مجھے ہر روز تسلی دیتی رہی۔سو یہ خدا کے نشان ہیں جن کے دیکھنے سے اُس کا چہرہ نظر آتا ہے۔”
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ77)
آپؑ فرماتے ہیں :
“… ایک دفعہ یہ ذکر آیا کہ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد رنگ چادروں میں اُترے گا۔ایک چادر بدن کے اوپر کے حصّہ میں ہوگی اور دوسری چادر بدن کےنیچے کے حصّہ میں ۔سو مَیں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھاکہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مُراد بیماری ہے۔اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔”
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20صفحہ46)
نیز آپؑ مزید فرماتے ہیں :
“… البتہ یہ ممکن ہے کہ آسمان سے بیمار ہو کر آویں یا راہ میں بیمار ہو جائیں اور پھر زمین پر آ کر مر جائیں ۔اور یہ ہم نے اس لئے کہا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسیٰ زعفرانی رنگ کی دو چادروں میں نازل ہو گا۔اور تمام معبرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ چادر سے بیماری مراد ہوتی ہے۔
اور میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ مَیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود ہوں ۔احادیث میں میرے جسمانی علامات میں سے یہ دو علامتیں بھی لکھی گئی ہیں کیونکہ زردرنگ چادر سے بیماری مراد ہے اور جیسا کہ مسیح موعود کی نسبت حدیثوں میں دو زرد رنگ چادروں کا ذکر ہے ایسے ہی میرے لاحق حال دو بیماریاں ہیں ۔ایک بیماری بدن کے اوپر کے حصہ میں ہے جو اوپر کی چادر ہے اور وہ دورانِ سر ہے ……اور دوسری بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں ہے جو مجھے کثرت پیشاب کی مرض ہے جس کو ذیابیطس بھی کہتے ہیں ۔……یہ زرد رنگ کی دو چادریں ہیں جو میرے حصہ میں آ گئی ہیں ۔اور جو لوگ مجھے قبول نہیں کرتے اُن کو تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ نزول کے وقت آسمان سے یہ تحفہ لائیں گے جو دو بیماریاں اُن کے لاحق حال ہوں گی۔ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسری بدن کےنیچے کے حصہ میں ہو گی۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ ان چادروں سے اصلی چادریں ہی مراد ہیں تو گویا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے وقت ہندوؤں کے جوگیوں کی طرح زرد رنگ کی دو چادروں میں نازل ہوں گے۔مگر یہ معنے ان معنوں کے برخلاف ہیں جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکاشفات کی نسبت کئے ہیں ۔جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں دوکڑے دیکھے تھے اور اس کی تعبیر دو جھوٹے نبی فرمایا تھا۔اور گائیاں ذبح ہوتی دیکھی تھیں اور اُس کی تعبیر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی شہادت فرمائی تھی۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بڑا پیراہن دیکھا تھا اور اس کی تعبیر تقویٰ کی تھی۔پس اس حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّتِ قدیم کے موافق کیوں دو زرد چادروں کی وہ تعبیر نہ کی جائے جو بالاتفاق اسلام کے تمام اکابر معبروں نے کی ہے جن میں سے ایک بھی اس تعبیر کے مخالف نہیں ۔اور وہ یہی تعبیر ہے کہ دو زرد چادروں سے دوبیماریاں مراد ہیں ۔اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میرا تجربہ بھی یہی ہے اور بہت سی مرتبہ جس کا میں شمار نہیں کر سکتا مجھے رؤیا میں اپنی نسبت یا کسی دوسرے کی نسبت جب کبھی معلوم ہوا کہ زرد چادر بدن پر ہے تو اس سے بیمار ہونا ہی ظہور میں آیا ہے۔پس یہ ظلم ہے کہ جیسا کہ مُتَوَفِّیْک کے لفظ کے معنے حضرت عیسیٰ کی نسبت سارے جہان کے برخلاف کئے جاتے ہیں ایسا ہی دو(2)زرد چادروں کی نسبت بھی وہ معنے کئے جائیں کہ جو برخلاف بیان کردہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اصحاب رضی اللہ عنہم و تابعین و تبع تابعین و ائمہ اَہل بیت ہوں ۔”
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ373-374)
حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :
“جیسا کہ بارہا بعض امراض کے علاج کے لئے مجھے بعض ادویہ بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ پہلے مجھ سے جالینوس کی کتاب میں لکھی گئی ہیں یا بقراط کی کتاب میں ۔ایسا ہی میری انشاء پردازی کا حال ہے۔جو عبارتیں تائید کے طور پر مجھے خدائے تعالیٰ سے معلوم ہوتی ہیں مجھے اُن میں کچھ بھی پروا نہیں کہ وہ کسی اور کتاب میں ہوں گی بلکہ وہ میرے لئے اور ہریک کے لئے جو میرے حال سے واقف ہو معجزہ ہے۔”
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ434حاشیہ)
ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں :
“اس دوا کا نام تریاقِ الٰہی رکھا گیا ہے۔یہ اس وقت کام آ سکتی ہے کہ جب خدانخواستہ پھر جاڑے کی موسم میں طاعون پھیلے۔ابھی ہم بیان نہیں کر سکتے کہ یہ گراں قیمت دوا جس پر اڑھائی ہزار روپیہ خرچ آیا ہے کن لوگوں کو دی جائے گی اور کیا یہ فروخت بھی ہو سکتی ہے یا نہیں ۔دوا قلیل ہے اور جماعت بہت ہے۔دل تو چاہتا ہے کہ عام لوگ اس تریاق الٰہی سے نئی زندگی حاصل کریں مگر گنجائش نہیں ہے۔مجھے ایک الہام میں یہ فقرات القاہوئے تھے کہ یَا مَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا۔میرے خیال میں ہے کہ عدویٰ سے مراد یہی طاعون ہے۔اگر میں اُس الہام کے معنے کرنے میں غلطی نہیں کرتا جس میں یہ لکھا ہے کہ اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃ تو کیا تعجب ہے کہ کسی عام زور طاعون کے وقت میں قادیان دارالامن رہے۔میں ہمیشہ اور پنج وقتہ نماز میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس بلا کو دنیا سے اُٹھاوے اور اپنے بندوں کی تقصیریں معاف کرے مگر پھر بھی مجھے اِن الہامات کے لحاظ سے جو ظاہر کر چکا ہوں اس حالت میں کہ لوگ توبہ نہ کریں سخت اندیشہ ہے کہ یہ آگ جاڑے کے موسم میں یا اس کے ابتدامیں ہی یا برسات کے موسم میں ہی بھڑک نہ اُٹھے…
اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ میں نے طاعون کے علاج کے لئے ایک مرہم بھی طیار کی ہے یہ ایک پُرانا نسخہ ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے اور اِس کا نام مرہم عیسیٰ ہے اگرچہ امتداد زمانہ کے سبب سے بعض دواؤں میں تبدیلی ہو گئی ہے یعنی طبّ کی بہت سی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طبیب نے کوئی دوا اس نسخہ میں داخل کی ہے اوردوسرے نے بجائے اس کے کوئی اور داخل کر دی ہے۔لیکن یہ تغیّر صرف ایک دو دواؤں میں ہوا ہے اِس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک دوا ہر ایک ملک میں پائی نہیں جاتی یا کم پائی جاتی ہے یا بعض موسموں میں پائی نہیں جاتی۔سو جس جگہ یہ اتفاق ہوا کہ ایک دَوا مِل نہیں سکی تو کسی طبیب نے اُس کا بدل کوئی اور دوا ڈال دی اور درحقیقت قرابادینوں کے تمام مرکبات میں جو بعض جگہ اختلاف نسخوں کا پایا جاتا ہے اس کا یہی سبب ہے مگر ہم نے بڑی کوشش سے اصل نسخہ طیار کیا ہے۔اس مرکب کا نام مرہم عیسیٰ ہے اور مرہم حواریین بھی اسے کہتے ہیں اور مرہم الرسل بھی اس کا نام ہے کیونکہ عیسائی لوگ حواریوں کو مسیح کے رسول یعنی ایلچی کہتے تھے کیونکہ اُن کو جس جگہ جانے کے لئے حکم دیا جاتا تھا وہ ایلچی کی طرح جاتے تھے۔یہ نہایت عجیب بات ہے کہ جیسا کہ یہ نسخہ طبّ کے تمام نسخوں سے قدیم اور پُرانا ثابت ہوا ہے ایسا ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ دنیا کی اکثر قوموں کے طبیبوں نے اس نسخہ کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔چنانچہ جس طرح عیسائی طبیب اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں ایسا ہی رومی طبابت کی قدیم کتابوں میں بھی یہ نسخہ پایا جاتا ہے۔اور زیادہ تر تعجب یہ کہ یہودی طبیبوں نے بھی اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور وہ بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ یہ نسخہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے بنایا گیا تھا اور نصرانی طبیبوں کی کتابوں اور مجوسیوں اور مسلمان طبیبوں اور دوسرے تمام طبیبو ں نے جو مختلف قوموں میں گذرے ہیں اس بات کو بالاتفاق تسلیم کر لیا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بنایا گیا تھا۔”
(ایام صلح،روحانی خزائن جلد14صفحہ346تا348)
(باقی آئندہ )