شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں۔ نماز تہجد کا التزام کریں
تیسری شرط بیعت(حصہ سوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
نماز تہجد کا التزام کریں
پھر اس تیسری شرط میں یہ ہے کہ نماز تہجد پڑھے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا۔
(سورۃ بنی اسرائیل آیت80)
اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجّد پڑھا کر۔ یہ تیرے لئے نفل کے طور پر ہوگا۔ قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔
حضرت بلال ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہئے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریقہ رہا ہے اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے، برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب فی دعاء النبیّﷺ)
ایک حدیث ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا آخری پہر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر نزول فرماتاہے اور فرماتاہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور مَیںاس کی دعا قبول کروں۔کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو مَیں اس کو بخش دوں۔کوئی ہے جو مجھ سے رزق طلب کرے تو مَیں اسے رزق عطا کروں۔ کوئی ہے جو مجھ سے اپنی تکلیف کے دور کرنے کے لئے دعا کرے تو مَیں اس کی تکلیف کو دور کروں۔اللہ تعالیٰ یونہی فرماتا رہتاہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد نمبر2۔ صفحہ 521۔ مطبوعہ بیروت)
بہت سارے لوگ دعائوں کے لئے لکھتے ہیں ۔ خود بھی اس طریق پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی نازل ہوتے دیکھیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ جتنا میرا قرب اس چیز سے ، جو مجھے پسند ہے اور مَیں نے اس پر فرض کردی ہے ، حاصل کرسکتا ہے، اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کرسکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میرے قریب ہوجاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس کو اپنا دوست بنا لیتا ہوں توا س کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ یعنی میں ہی اس کاکارساز ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب التواضع)
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے اور نما ز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے ۔ اگر وہ اٹھنے میں پس وپیش کرے تو اس کے منہ پرپانی چھڑکے تاکہ وہ اٹھ کھڑی ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھی ، نماز پڑھی اور اپنے میاں کوجگایا ۔ اگر اس نے اٹھنے میں پس وپیش کیا تو اس کے منہ پر پانی چھڑکا تا کہ وہ اٹھ کھڑا ہو۔
(سنن ابوداؤد۔ کتاب التّطوّع۔ باب قیام اللّیل)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائیگا۔ اس وقت کی دعائوں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جبتک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک دردِ دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اوراضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے۔ لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے’’۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ182)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی ۔ وہ پہلے کیا تھے ۔ ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا ۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یا رات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو۔ تہجد میں ا ٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بنائو’’۔
(ملفوظات۔جدید ایڈیشن۔ جلد اول۔ صفحہ 28)
(باقی آئندہ)