صحتمتفرق مضامین

روزے کے طبی فوائد

(ھبۃ الکلیم۔ اوفا، رشیا)

روزہ ایک مقدس عبادت ہے اور اس کا اجر وثواب صرف پروردگار ہی دے سکتا ہے۔روزہ اسلامی عبادت کا ایک اہم رکن ہے ۔ روزہ رکھنا محض مذہبی فریضہ نہیں یہ مسلمان کو جسمانی و روحانی فوائد بھی عطا کرتا ہے۔ روزہ میں خصوصاً انسان کو تندرستی دینے کی ایسی زبردست حکمت عملی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطور تحفہ اپنے بندوں کو عطا فرمایا۔ خدائے بزرگ وبرترکو علم تھا کہ روزے کے عمل میں انسان کے لیے جسمانی و روحانی فوائد پوشیدہ ہیں۔ اسی باعث روزہ رکھنا ایمان کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ خدائے پاک کی بنی نوع انسان سے محبت اور اس کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اللہ تعالیٰ قراآن مجید میں فرماتا ہے :

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ :185)

اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو

حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

ہر چیز کی ایک زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی الصوم ،زکاۃ الجسد)

زکوٰۃ کے فوائد بیان کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ

حَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ

تم اپنے اموال کو زکوٰۃ کرکے محفوظ کر لو ۔ جسم کی زکوٰۃ روزوں کی شکل میں ادا کی جائےتو جسم محفوظ ہوتا ہے ۔(ابوداؤد)

روزہ کے طبیّ فوائد حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کے اقتباسات کی روشنی میں

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

‘‘روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں ۔اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس علم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے ۔روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے ۔بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے ۔اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں ۔خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے ۔کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ ۔ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہیے ۔کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیےکہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے ۔دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے’’

(ملفوظات جلد 5صفحہ 102،ایڈیشن1988ء)

سورۃ البقرۃ کی آیت 186کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں:

‘‘افسوس بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں خرچ بڑھ جاتا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ روزہ کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔سحری کے وقت اتنا پیٹ بھر کرکھاتے ہیں کہ دوپہر تک بد ہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب جو پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کے وہ اندھیر مارا اور ایسی شکم پوری کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نینداور سستی پر سستی آنے لگی۔ اتنا خیال نہیں کرتےکہ روزہ تو نفس کے لئےایک مجاہدہ تھا نہ یہ کہ آگے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاوے اور خوب پیٹ بھر کرکھایا جاوے ۔’’

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 307)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 111کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘انبیاء کے جس قدر اوامر ہیں اگر انسان ان پر چلے تو وہ دنیا میں بلحاظ طب بھی آرام سے رہتا ہے کوئی خطر ناک موذی مرض اوامر الٰہی کے اتباع سے پیدا نہیں ہوتی’’

(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 311)

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:

‘‘روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا موجب بن جاتے ہیں ۔آج کل کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے ۔کہ بڑھاپا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہوتی ہے …تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیرہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے اور روزہ اس کے لئے مفید ہے ۔میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں ۔تو دوران رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے ۔مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تروتازگی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔’’(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 375)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں:

‘‘آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں‘‘صُومُوا تَصِحُّوْا’’ روزے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو۔اور صحت تبھی اچھی ہو سکتی ہے کہ اگرآپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے ہیں بڑی سخت بے وقوفی تھی۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے ۔ درحقیقت اس سے بہت کم پرہمارا گزارہ ہو سکتاہے جو ہم پہلے کھایاکرتے تھے۔ تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو ۔اب امرواقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں ہے جوروزوں نے ہمیں سکھایا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روزے میں کھانا کم کرنا لازم ہے کیونکہ کھانا کم کئے بغیر جو اعلیٰ مقصد ہے روزے کا وہ پورا نہیں ہو سکتا۔یعنی صرف یہ نہیں کہ کچھ وقت بھوکے رہناہے بلکہ دونوں کناروں پر بھی صبر سے کام لو اور نسبتاً اپنی غذا تھوڑی کرتے چلے جاؤ۔ فرماتے ہیں اس کے بغیر انسان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہو سکتی۔ ذکرالٰہی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی ایک روحانی غذا ہے اور روزمرہ کا کھانا ایک جسمانی غذا ہے ۔ تو رمضان کی برکت یہ ہے یا روزوں کی برکت یہ ہے کہ وہ جسمانی غذا سے ہماری توجہ روحانی غذا کی طرف پھیر دیتے ہیں اور ذکرالٰہی میں ایک لطف آنا شروع ہو جاتاہے اور وہ روحانی لطف ہے جو آپ کی روح کو تروتازہ کرتاہے ۔ اس کی مضبوطی کاانتظام کرتاہے اور جسم پہ جوزائد چربیاں چڑھی تھیں ان کو پگھلاتاہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جنوری 1997ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍مارچ1997ءصفحہ8)

رمضان المبارک انسان کی روحانیت کو تیز کرنے کے لیے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے نہایت سازگار موسم ہے کیونکہ ہر طرف نیکی کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ حدیث جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :

’’ زکوٰۃ ان لوگوں کی نکلتی ہے جو روزے میں کچھ کم کھاتے ہیں۔ جو زیادہ کھانے لگ جاتے ہیں ان کی کیا زکوٰۃ نکلتی ہے ۔ ان کے جسم پر اور ہی زکوۃ چڑھ جاتی ہے ۔ اس لئے یہ احتیاط رکھیں کہ اگرچہ بھوک لگتی توہے ۔مگر نسبتاً احتیاط سے کچھ کم کریں۔ غذا کم کریں بدن ہلکا ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی انشاءاللہ روح بھی ہلکی ہو گی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ دسمبر 1999ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍جنوری2000ءصفحہ5)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں :

‘‘اسرائیل میں اس مضمون پر ریسرچ ہوئی اور ان کی نیت بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ مسلمانوں کا یہ جو طریق ہے روزے رکھنے کا یہ ان کے لئےنقصان دہ ہے اور بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہےبڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے چنانچہ پوری گہری ریسرچ کی گئی ،ایک بڑی ٹیم نے اس پہ کام کیا اور یہ بھی پیش نظر تھا کہ روزے کے دنوں میں تو بعض لوگ پہلے سے بھی بڑھ کر کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے نتیجہ میں اور بیچ میں افاقہ رہنے کے نتیجے میں ایسا نقصان ان کو پہنچ سکتا ہے کہ پھر وہ بعد میں سنبھل نہ سکیں۔جو ریسرچ کا ماحصل تھا ۔اس نے ان کو حیران کر دیابالکل برعکس نتیجہ نکلا۔جس چیز کی تلاش میں تھے اس کی بجائے یہ کہنے پر مجبور ہو گئےکہ جتنی تحقیق کی گئی ہےاس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے کے بعد انسان بہتر صحت کے ساتھ باہر نکلتا ہے،کمزور ہو کے نہیں نکلتا۔ہر پہلو سے اس کے جائزے لئے گئے ۔کولیسڑول لیول کے لحاظ سےجائزے لئے گئے۔میٹابولزم کی ratiosکے آپس میں توازن کے لحاظ سے لئے گئےغرضیکہ باقاعدہ ریسرچ کا جو حق ہے۔وہ ادا کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلاہے۔ پس آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلے بات فرمائی ،دیکھیں کیسی صحت کے ساتھ وہ بات فرمائی،کتنی سچی بات فرمائی ‘‘ صُومُوا تَصِحُّوْا’’ روزے رکھا کروصحت اچھی ہو جائے گی۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍جنوری1996ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍مارچ1996ءصفحہ9)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:

‘‘صبر کے مہینے یعنی رمضان کے روزے سینے کی گرمی اور کدورت دور کرتے ہیں ۔’’(جامع الصغیر )

رمضان تو خود گرمی کا نام ہے ۔پھر یہ سینے کی گرمی اور اور کدورت کیسے دور کرتا ہے ۔اگر خالصتاً طبیّ نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو کولیسٹرولCholesterol کو کم کرتا ہے ۔جو سینے کی جلن کا موجب بنتا ہے جب وہ خون کی نالیوں میں بیٹھتا ہے اور اس کے نتیجے میں نالیاں تنگ ہوتی اور خون دل تک صحیح مقدار تک پہنچتا نہیں ہے ۔تو سینے میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ۔کہ رمضان سے یہ فائدے بھی اٹھاؤ۔تمہارے سینے میں جو جلن ہوتی ہے کوئی اس کو Heart Burnکہہ رہا ہے تو کوئی Anginaکی وجہ سے جل رہا ہے۔ کئی قسم کی بیماریاں سُستیوں کے نتیجے میں انسان کو لا حق ہو جاتی ہیں۔فرمایا کہ ہر دفعہ رمضان کی بھٹی سے نکلو گے تو تمہاری ضرورت سے زیادہ چربیاں پگھلیں گی اور تمہارے سینوں کو سکون ملے گا اور ٹھنڈ نصیب ہو گی اور روحانی لحاظ سے بھی یہ تینوں چیزیں اپنی جگہ صحیح طور پر صادق آرہی ہیں ۔ہر چیز کو پاک کرنے کی ایک زکوٰۃ ہوتی ہے ۔رمضان جسم کے ظاہر و باطن کی زکوٰۃ ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍جنوری1994ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍مارچ1994صفحہ8)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

‘‘آنحضرت ﷺ کی نصائح پر عمل درآمد سے محض روحانی شفا ہی نہیں ہوتی ۔بلکہ جسمانی شفا بھی ہوتی ہے اور اگر سہو کی وجہ سے اس پہ عمل درآمد کرنے میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو روحانی طور پر تو نہیں مگر جسمانی طور پر اس کی سزا ضرور مل جاتی ہے ۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ دسمبر 1999ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍جنوری2000ءصفحہ5)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الُیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ تم ایمان لاؤ اور پھر تنگیوں میں بسر کرو۔ اس لئے ہم نے روزے فرض کئے۔ (اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے) تا تمہاری تنگیاں دُور ہوں۔ یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے۔ (یہ نکتہ بڑا یاد رکھنے والا ہے کہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔ اور اس کی وضاحت کیا ہے۔) یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے اور جو یہ ہے کہ روزے میں بھوکا رہنا یا دین کے لئے قربانی کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدے کا باعث ہے۔ جو یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان مقرر کیا تا تم روٹی کھاؤ۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی یہی ہے جو خدا تعالیٰ کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے ہے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ روٹی نہیں پتھر ہیں جو کھانے والے کے لئے ہلاکت کا موجب ہیں۔ مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ اس کے منہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھے کہ وہ کس کے لئے ہے۔ اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں۔’’

پس سحری اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھائی جا رہی ہے تو اگر اچھی بھی کھائی جا رہی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور وہ جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں برکت ہے۔ اور پھر اگر پیٹ بھرنا ہے اور اچھی خوراک کھانا ہے اور مزہ لینا ہے تو پھر وہ نفس کے لئے ہے۔ پھر آگے حضرت مصلح موعودنے وضاحت کی ہے کہ ‘‘جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے۔ جو نفس کے لئے پہنا جاتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرائے میں بتایا کہ جب تک خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی اِبطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ (بعض لوگ ایسے ہیں جن کے وزن رمضان میں کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتے ہیں۔) حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ (یعنی گندم اور جَو کی اچھی اعلیٰ خوراک ہوتی ہے۔) وہ لوگ جو ہیں ان دنوں میں خوب گھی، مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 395-396)

اب ایک طرف حکم ہے کہ سحری کھاؤ اس میں برکت ہے۔ افطاری کرو اس میں برکت ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر صرف کھانا ہی مقصد ہو تو ایک یہ چیز اس برکت کو کم بھی کر دیتی ہے۔ پس اعتدال ضروری ہے۔ اچھا کھاؤ لیکن اعتدال کے ساتھ۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍جون 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍جون2016صفحہ7)

پس رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت اور اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جسمانی، روحانی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان ہمارے لیے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہے اور یہ ایک بابرکت مہینہ سارے سال کے شرور و معاصی کے ازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے ۔

سائنس کی رو سے فوائدروزہ

کیلے فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ جیرو ئنولوجی اینڈ بائیو لوجیکل سا ئنسز سے منسلک پروفیسر والٹر لونگو کا کہنا ہے کہ صرف تین دن لگاتار روزے کی حالت میں رہنے سے جسم کا مدافعتی نظام پورے کاپورا نیا ہو سکتا ہے ۔کیونکہ روزہ سے جسم کو خون کے نئے سفید خلیات بنانے کی توفیق ملتی ہے ۔ان کے بقول روزہ مدافعتی نظام کی از سر نو تخلیق کا ایک بٹن ہے ۔جس کے دبانے سے اسٹیم خلیات کو سفید خون کے خلیات بنانے کا اشارہ ملتا ہے جن کی بدولت انسان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے ۔

روزے سے نظام دوران خون (circulatory system)پر مرتب ہونے والے فائدہ مند اثرات کے بارے میں ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کہتے ہیں:

‘‘روزے کا سب سے اہم اثر اس پہلو سے ہے ۔کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے۔جب کہ دوسری طرف روزہ میں بطور خاص افطار کے وقت تک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ۔اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے ، اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔گویا موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی نمایاں ترین ہے ،سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے ۔’’

(قرآنی آیات اور سائنسی حقائق صفحہ105تا106)

جدید طبی سائنس چودہ سو برس بعد اس حقانیت سے واقف ہورہی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ اگر طبی طور پہ درست طریقے سے روزے رکھے جائیں تو محض تیس دن میں انسان صحت کی دولت پا لیتا ہے ۔اس لیے اپنے بدن کے تمام اعضاء نیکیوں پر مامور کردینے چاہئیں۔ بکثرت قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے۔ استغفار ، درود اور دیگر دعاؤں سے اپنی زبانیں تر رکھنی چاہئیں اورا پنے اوقات بھی خدمت دین میں صرف کرنے چاہئیں اور بکثرت عبادت بجالانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان کی حقیقی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button