حاصل مطالعہ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے کلام کی عظمت علمائے کرام اور علم اللسان، ایک امیر شاعر کا واقعہ

انگریز کپتان خدا کا پرشوکت کلام سن کر محو حیرت ہوگیا

٭…‘‘حضرت مسیح موعودعلیہ السلام برسوں سے جو بغاوت کا الزام ردّ کرتے آرہے تھے گورنمنٹ نے اس کی طرف تو کوئی توجہ نہ کی مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے خفیہ انگریزی رسالہ کی اشاعت پر انہیں چار مربعوں سے نوازا اور ان کی مخبریوں پر حضرت اقدس ؑکے خلاف اس کی مشینری فوری حرکت میں آگئی۔ چنانچہ انگریز کپتان پولیس اور انسپکٹر پولیس (رانا جلال الدین صاحب) سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر اکتوبر کے آخر میں بوقت شام قادیان پہنچ گئے اور سپاہیوں نے حضرت اقدس ؑ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ کپتان اور انسپکٹر پولیس مسجد کے کوٹھے پر چڑھ گئے ۔ حضور ؑ اطلاع ملنے پر باہر تشریف لائے تو کپتان پولیس نے کہا ہم آپ کی خانہ تلاشی کرنے آئے ہیں ۔ ہم کو خبر ملی ہے کہ آپ امیر عبدالرحمٰن خاں والی افغانستان سے خفیہ ساز باز رکھتے اور خط وکتابت کرتے ہیں ۔ حضور نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘یہ بالکل غلط ہے ہم تو گورنمنٹ انگریزی کے عدل وانصاف اور امن اور مذہبی آزادی کے سچے دل سے معترف ہیں اور ہم اسلام کو بزور شمشیر پھیلانے کو ایک بہتان عظیم سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ کو شک ہے تو آپ بیشک ہماری تلاشی لے لیں۔ البتہ ہم اس وقت نماز پڑھنے لگے ہیں اگر آپ اتنا توقف کریں تو بہت مہربانی ہوگی۔’’ کپتان پولیس نے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں پھر تلاشی ہوجائے گی ۔ چنانچہ سب سے قبل حضرت مولانا عبدالکریمؓ صاحب نے (جو ان کی آمد پر کوٹھے پرہی موجود تھے ) خود ہی اذان دی اور نماز مغرب پڑھائی اور پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کا آخری رکوع پڑھا۔ حضرت مولانا کی جادو بھری آواز سن کر کوئی بڑے سے بڑا دشمن اسلام مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا مگر اس دن تو اذان اور قراءت دونوں میں وہ بجلیاں بھری ہوئی تھیں کہ انگریز کپتان خدا کا پرشوکت کلام سن کر محو حیرت ہوگیا اور اس کی تمام غلط فہمیاں خود بخود دور ہوگئیں ۔ وہ تلاشی وغیرہ کا خیال ترک کرکے نماز ختم ہوتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اقدس ؑ سے کہنے لگاکہ ‘‘ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ ایک راستباز اور خدا پرست انسان ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے ۔ آپ لوگ جھوٹ بول نہیں سکتے ۔ یہ دشمنوں کا آپ کے متعلق غلط پروپیگنڈا تھا ۔ پس خانہ تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں رخصت ہوتا ہوں۔ ’’ اور یہ عرض کرکے وہ قادیان سے چل دیا اور گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوادی کہ مرزا صاحب کے خلاف پراپیگنڈا سر تا پا غلط ہے ۔ ’’

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 37-38)

علمائےکرام کی بڑی تعداد کو اردو کے علاوہ دوسری ہندوستانی زبان نہیں آتی ہے

دعوتِ دین کے کام کے لیے ضروری تھا کہ غیرمسلم قوموں کے ساتھ ہمارے روابط اچھے ہوتے

ڈاکٹرابومعاذ ترابی صاحب اردوروزنامہ ‘‘صحافت ’’ دہلی کی اشاعت 12؍اپریل 2020ءمیں لکھتے ہیں:

‘‘(ہندوستانی)علماء کرام کی بڑی تعداد کو اردو کے علاوہ دوسری ہندوستانی زبان نہیں آتی ہے۔ان کے لئے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ غیراردو داں قوم کے سامنے توحید،رسالت وآخرت جیسے بنیادی موضوعات کو مؤثرانداز میں پیش کریں یا ان موضوعات پر مدعو قوم سے گفتگو کرسکیں۔یاپھر نئی نسل کو اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے انسپائرکرسکیں۔

ہمارے نوجوان اسلامی اسکالرز(فارغین مدارس) کی تقریریں وتحریریں بھی نہ صرف اردو زبان میں ہوتی ہیں بلکہ موضوعات و اسالیب بیان بھی بالکل تقلیدی نظر آتے ہیں۔

بسا اوقات ایساتجربہ بھی ہوتا ہے کہ ایک سکالر کی تقریریا تحریرتو عمدہ ہوتی ہے لیکن کردار،برتاؤ اور معاملات کے معاملے میں بہت واضح کمیاں نظر آتی ہیں۔

دعوتِ دین کے کام کے لئے ضروری تھا کہ غیرمسلم قوموں سے ہمارے روابط اچھے ہوتے،ان کے دکھ سکھ میں ہم شریک ہوتے۔ان کے دلوں کو اعلیٰ اخلاق وکردارسے متاثرکرتے۔غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کےدرمیان دعوت کاکام کرنے کی ضرورت ہے ان سے ہمارے روابط بھی بہت کمزور ہیں…۔

…ہندوستانی مسلمان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دعوت دین کا سنہری موقع عطا کیا ہے،یہاں دعوت کے مواقع قدم قدم پر ہیں لیکن ہم یاتو اس سنہری موقع کوپہچان نہیں پائے یاپھر قدر نہیں کر رہے ہیں۔

ہم نے اس موقع کو اب بھی غنیمت نہیں سمجھاتو مبادایہ موقع ہمارے ہاتھ سے چھین لیا جائے اور ہماری جگہ اللہ دوسری قوم برپاکردے اور ہمیں دنیا وآخرت دونوں جگہ پچھتانا پڑے۔لیکن تب پچھتانے کا کیافائدہ۔’’

http://sahafat.in/delhi/p-4-1.htm

ڈاکٹرابومعاذترابی صاحب کی توجہ مکرم مقبول احمدسلفی صاحب آف اسلامک دعوۃ سنٹر طائف (سعودی عرب) کے درج ذیل اعتراف کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے۔ اسلام کی دعوت وترویج کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے برپاہونے والی جس ‘‘دوسری قوم ’’ کا آپ نےذکر کیا ہے کہیں وہ احمدی تو نہیں جن کےبارہ میں ‘‘انکشاف’’ کرتے ہوئے مقبول احمد لکھتےہیں کہ

٭ آپ یہ سمجھیں کہ ہرقادیانی (مراداحمدی۔ناقل) مبلغ ہے، طلبہ کے بھیس میں ، روزگار کی تلاش میں،بیمار کی شکل میں، اخباری نمائندہ ہونے کے بہانے سے یعنی وہ جس روپ میں بھی ہوایک مبلغ ہے …۔

٭ قادیانی کا خطرناک جال جس میں بڑے بڑے پھنس جاتے ہیں، کلمہ کی تبلیغ ، نرم اخلاق کا مظاہرہ ، شعائراسلام کا استعمال… ہے۔

٭قادیانی کی طرف سے مختلف قسم کے محرّف (نقل بمطابق اصل ۔ ناقل) تراجم وتفاسیر موجود ہیں، اَسّی سے زائد زبانوں میں قادیانی تراجم اور 200سے زائد ممالک میں ان کی توزیع اس فرقے کے بڑھتے وسیع قدم کی طرف اشارہ کناں ہیں۔اب تو انڈرائیڈ موبائل میں قادیانیوں کی طرف سے مختلف زبانوں میں مختلف قسم کے قرآنی ایپ بھی ڈال دئے گئے ہیں، ایسے بھی ایپ ہیں جن کی مدد سے 24گھنٹے ان کی مذہبی نشریات سن سکتے ہیں ۔ اب تو قادیانی گھر گھر اور ہرفرد تک پہنچ گیا ، ایسے میں ہمیں کیا کرنا ہے سوچنے کا مقام ہے؟’’

(زیرعنوان: قادیانیت کے بڑھتے قدم اور ہماری ذمہ داریاں ازمقبول احمد سلفی۔اسلامی سنٹرطائف ،سعودی عرب؛تاریخ اخذ12/4/2020)

https://forum.mohaddis.com/threads/39694

(مرسلہ:طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

امیر شاعر

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک سبق آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘تاریخوں میں ایک واقعہ آیا ہے کہ ایک امیر شاعر ایک دن حمام میں نہانے کے لئے گیا اور وہاں اس نے اپنا جسم ملوانے کے لئے ایک خادم کو بلوانے کا حکم دیا ۔ حمام والے نے ایک مضبوط نوجوان اپنے نوکروں میں سے اس کا جسم ملنے کے لئے بھجوادیا۔ جب اس نے تہ بند وغیرہ باندھ لیا ۔ اور اپنے کپڑے اتار کر حمام میں بیٹھ گیا اور خوشبودار پانی اپنے جسم پر ڈالا اور خوشبودار مسالے خادم نے اس کے جسم پر ملنے شروع کئے تو اس وقت کی کیفیت اسے ایسے لطیف معلوم ہوئی کہ اس نے اپنے نفس میں موسیقی کی طرف رغبت محسوس کی اور کچھ گنگنا گنگنا کر شعر پڑھنے لگا ۔ جب وہ شعر پڑھ رہا تھا تو اچانک اس ملازم کی حالت متغیر ہوگئی اور اس کی چیخ نکل گئی اور وہ بیہوش ہوکر زمین پر گرگیا۔ اس غسل کرنے والے نے سمجھا کہ شاید اس کو مرگی کا دورہ ہوا ہے اور اس نے حمام کے افسر کو بلایا اور اس کے پاس شکایت کی کہ تم نے میرے جسم کو ملنے کے لئے ایک مجنون اور بیمار کو بھیج دیا۔ اس نے معذرت کی اور کہا کہ آج تک اس نوجوان کی بیماری کا حال مجھے معلوم نہیں ہوا۔ یہ تو بالکل تندرست تھا۔ بہرحال وہ اسے ہوش میں لایا اور اس سے پوچھا کہ ‘‘ یہ کیا واقعہ ہے؟ آج تک تو تم پر کبھی ایسا دورہ نہیں ہواتھا۔’’ اس نوجوان نے نہایت گھبرائی ہوئی حالت میں اس شاعر سے دریافت کیا کہ ‘‘ آپ نے جو یہ شعر پڑھے تھے یہ آپ نے کس سے سنے ہیں۔’’ اس نے کہا ‘‘ میرے اپنے ہیں اور مجھے نہایت ہی محبوب ہیں کیونکہ میں نہایت غریب ہوتا تھا اور نان شبینہ تک کا بھی محتاج تھا۔ اتفاقاً مجھے معلوم ہوا کہ فضل برمکی جو ہارون الرشید کے وزراء میں سے ایک وزیر تھا اور یحییٰ برمکی وزیراعظم کا بیٹا تھا اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور شاعروں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ شعر کہہ کر لائیں ۔ پھر جو مقابلہ میں اوّل آئے گا ۔ اسے انعام دیا جائے گا ۔ چنانچہ میں بھی قسمت آزمائی کے طور پر چند شعر کہہ کر اس مجلس میں حاضر ہوا اور جب میری باری آئی تو میں نے وہ شعر سنائے ۔ فضل برمکی اور اس کے بھائیوں اور اس کے باپ کو یہ شعر پسند آئے کہ انہوں نے لاکھوں روپیہ انعام دیا اور کئی خادم اور کئی گھوڑے اور کئی اونٹ اور چاندی اور سونے کے برتن اور غالیچے اور قالین اور عطریات کا اتنا بڑا خزانہ میرے حوالہ کیا کہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا ’’ اور میں نے کہا ‘‘ حضور میرے گھر میں تو اس کے رکھنے کی بھی گنجائش نہیں انہوں نے کہا کوئی فکر مت کرو فلاں محلہ میں فلاں بڑی عمارت کو ابھی ہمارے خادموں نے تمہارے لئے خرید لیا ہے اور ہمارے خادم ہی یہ سب مال اسباب اس نئے محل میں ابھی ابھی پہنچادیں گے۔اس دن سے میں امراء میں شمار ہوتا ہوں اور مجھے یہ شعر نہایت ہی پیارے ہیں کہ انہوں نے میری حالت کو بدل دیا اور تنگی سے نکال کر فراغت سے آشنا کیا ۔اس غلام نے کہا جانتے ہو کہ وہ شعر جن کی وجہ سے تم اس مرتبہ کو پہنچے جس بیٹے کے لئے کہے گئے تھے وہ میں ہی ہوں ۔ جب میں نے یہ شعر تمہاری زبان سے سنے تو واقعہ یاد آگیا جو میں نے اپنی دائیوں اور کھلائیوں سے سنا ہوا تھا کہ تیری پیدائش پر ایک شاعر کو اتنا انعام دیا گیا تھا اور میں نے کہا کہ وہ بچہ جس کی پیدائش پر یہ انعام دیا گیا تھا وہ شعر آج ایک اجنبی حمام میں اس راحت وآرام سے پڑھ رہا ہے اور وہ لڑکا جس کے لئے یہ شعر کہے گئے تھے ایک خادم کی حیثیت سے اس کا جسم مل رہا ہے ۔ اس شاعر پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اس کو چمٹ گیا اور رونے لگا اور اس نے کہا میری ساری دولت تمہارے باپ دادا کی دی ہوئی اور یہ تمہاری ہی دولت ہے ۔ تم میرے گھر چلو ۔ میں خادموں کی طرح تمہاری خدمت کروں گا اور تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ اس لڑکے نے جواب دیا کہ جس ذلت کو ہم پہنچ چکے ہیں وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے ۔ اب میں اس کے ساتھ یہ مزید ذلت نہیں خریدنا چاہتا کہ جو انعام میرے باپ نے دیا تھا وہ جاکر خود استعمال کرنا شروع کردوں ۔ مگر چونکہ میرا راز اب کھل گیا ہے اس لئے میں اب اس جگہ نہیں رہ سکتا ۔ اب میں کسی اور علاقہ میں نکل جائوں گا جہاں مجھے جاننے والا کوئی اور نہ ہو۔ اور کوئی محرم راز میری شکل کو دیکھ کر میرے آباء کی ذلت کو یاد نہ کرے یہ کہہ کر وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا اور نہ معلوم کہاں غائب ہوگیا ۔

دیکھو یہ ایک مثال ہے کہ باپ دادا کی عزت جبکہ اولاد اس عزت میں شریک نہ رہی اولاد کوکوئی نفع نہ پہنچاسکی ۔ بلکہ شریف اولاد کے لئے زیادہ تکلیف کا موجب ہوگئی ۔ بیشک کمینہ انسان اس رستہ کو چھوڑ کر جس پر چل کر اس کے آباء نے عزت حاصل کی تھی فخر کرتا ہے ۔ مگر وہ اس سے صرف اپنی کمینگی کا اظہار کرتا ہے ورنہ شریف انسان تو اس واسطہ کو مٹا دیتا ہے ۔ اسے چھپا دیتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ کوئی اس سے واقف نہ ہوتاکہ اس کی ذلت اس کے آباء کی عزت کو مٹا نہ دے اور وہ یہ کبھی نہیں کرتا کہ خود تو ان کے راستہ کو چھوڑ رہا ہو اور اس رستہ کی وجہ سے جو عزت اس کو ملی ہو اس میں اپنے آپ کو شریک کرنا چاہتا ہو۔ پس ورثہ کی عزت تبھی عزت کہلاسکتی ہے جبکہ ذاتی عزت انسان حاصل کرچکا ہو۔ ’’

(خطبات محمود جلد دوم صفحہ 236-238)

(مرسلہ :ظہیر احمد طاہر ۔ نوئے ہوف ، جرمنی )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button