رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں قادیان اور ربوہ کی رونقیں (قسط چہارم۔ آخر)
چشم ِتصور سے ربوہ کا نظارہ
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ چشم تصور سے رمضان میں ربوہ کی صبح کا پُر کیف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ربوہ کا یہ حال ہے کہ اس رمضان سے پہلے ہی مساجد چھوٹی ہوگئی تھیں۔ اہل ربوہ کا عبادتوں کی طرف اتنا غیر معمولی رجحان ہے کہ اس سے پہلے اس کی نظیر دکھائی نہیں دیتی۔جمعہ کے دنوں میں،جمعے کے اوقات میں اورعبادتوں کے وقت میں بازار سنسان ہوجاتے ہیں،خدا کے گھر بھر جاتے ہیں اور آج کا جمعہ جو انہوں نے پڑھا ہے،پڑھ چکے ہیں اس میں تو عجیب عالم ہوگا۔میں صبح تصور کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور میرا دل اللہ کی حمد سے بھر گیا وہاں سے آتے وقت جو لوگ یہ کہتے تھے کہ کس حال میں لوگوں کو چھوڑ کے جا رہے ہو ان کا کون متولّی ہوگا،کون حفاظت کرے گا؟میرے رب نے وہ سب غم دور کردیے۔ایسی خوشیاں دکھائیں کہ ان کی مثال دنیا میں دکھائی نہیں دیتی۔اس دوری کے باوجود اہل ربوہ کواتنا قریب کردیا کیونکہ جو خدا کے قریب ہیں وہی میرے قریب ہیں اور خدا کے قرب نے مجھے وہ نعمتیں وصال کی بخشی ہیں جو وہاں رہتے ہوئے کبھی میسر نہ آئی تھیں۔مجھے یاد ہے جب میں وہاں ہوتا تھا تو کئی دفعہ اہل ربوہ سے شکوے کرتا تھاکہ مساجد ابھی پوری طرح بھری نہیں ہیں اور مساجد اتنی چھوٹی ہیں اگر سارا ربوہ عبادت کرے تومساجدانہیں سمیٹ ہی نہیں سکتیں۔پس الحمد للہ کہ یہ مبارک جمعہ ہے اس نے تو ربوہ کی مساجد کاعجیب عالم دیکھا ہوگا۔سب مساجد اتنی چھوٹی ہوگئی ہوں گی جیسے آپ اپنے بچپن کے کپڑے پہننے کی کوشش کریں۔گھٹنوں سے نیچے ٹانگیں ننگی ہوں گی بدن کے اوپر کا حصہ کہیں وہ پھٹ رہے ہوں گے۔یہی کیفیت ربوہ کی مساجد کی پہلے سے ہورہی تھی، آج تو عجیب عالم ہوا ہوگا۔
پس اس تعلق میں ایک تو میں اہل ربوہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں۔یہ محبت انشاء اللہ کبھی نہیں مٹے گی یہاں تک کہ اللہ وہ صبح طلوع کرے جو لیلۃ القدر کی فجر ہوا کرتی ہے اور میں اس انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔……سب اہل ربوہ کو جنہوں نے خدا کے فضل سے نیکی کی جانب ایک انقلابی قدم اٹھا لیا ہے۔اللہ ان نیکیوں کو دوام بخشے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 24؍فروری 1995ء)
درس القرآن میں بعض لوگ نیند پوری کرلیتے
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ درس القرآن کے دوران بعض احباب کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے قادیان کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’ایک تومیرے خیال میں درس سننے والے دعائیں کررہے ہوں گے کہ یہ وراثت کا جھگڑا جلدی ختم ہو مگر ان کو فائدہ بھی تو ہے کہ وہ نیند پوری کرلیتے ہوں گے درس میں۔ ایک زمانہ تھا جب قادیان میں مسجد اقصیٰ میں درس ہوا کرتے تھے تو سکول کے بچے بیچارے چاہیں یا نہ چاہیں وہ پریڈ بنا کر ان کی وہاں پہنچادیے جاتے ہیں اور جامعہ احمدیہ کے بھی۔ باقاعدہ مارچ پاسٹ لڑکوں کی ہوتی تھی اور وہاں بیٹھ جاتے تھے۔اور کچھ دیر تک تو بیٹھے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، تو پھر جس طرح ٹوپی نیچی ہوجائے تو نظر نہیں آئے گی ان سب کے سر غائب ہوجایا کرتے تھے اور نیچے ہو کر دیکھنا پڑتا تھا تو سارے لیٹے ہوتے تھے۔ساری مسجد میں جگہ جگہ لگتا تھا کوئی میدان کارزار ہے بچے ڈھیر ہوئے پڑے ہوتے تھے۔ لیکن لوگ غیر مضار ہواکرتے تھے۔ ناجائز سختیاں نہیں کرتے تھے کہتے تھے بچے ہیں بیچارے کیا کریں، درس ختم ہوتا تھا تو پھر جگایا جاتا تھا کہ دوڑو دوڑو وضو کرآؤ۔ تو ایسے درس جہاں مسائل سنجید ہ ہوں وہاں بسا اوقات نیند غلبہ کرجاتی ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ بعض لوگ جو سوجاتے تھے انہوں نے احتیاطاً یہ جگہ ہی چھوڑ دی ہے اب وہ درس کسی ایسی جگہ سنتے ہیں جہاں میری ان پر نظر نہیں پڑتی۔ مگر بہر حال ان کو فائدہ تو ہے ہی نا۔وراثت کے دوران کم از کم رات کا جو جگراتا ہے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی اور دن کو آرام سے سوئیں گے۔‘
(ماخوذ ازدرس القرآن ،12؍ فروری 1996ء)
ربوہ میں ایم ٹی اے سے انقلاب
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ
’پچھلے سال بھی میں نے کہا تھا اب میں کوشش کروں گا کہ دعا کے لئے بھی وقت ملے کیونکہ دعا کے اعلانات بھی کرنے ہیں۔ اعلانات کے ضمن میں مَیں نے ربوہ والوں کی بات کی تھی تو آج مجھے وہاں سے فیکس ملا ہے کہ ربوہ میں تو ایک عجیب منظر ہے۔ خداتعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ نہایت ہی اعلیٰ درجے کے انتظامات ہیں اور جہاں تک وہ جمعہ کا تعلق ہے، جمعۃ الوداع اس میں کہتے ہیں اتنی حاضری تھی کہ مسجد سے باہر صحن بھر گئے، صحن سے باہر جو پارکوں کےلئے جگہیں مقر ر کی تھیں ان کی ضرورت پیش آگئی۔ پارکیں تبدیل کی گئیں، ایک سمندر تھا جو شامل ہواہے جمعۃ الوداع میںاور بہت خوشی کا اظہار کیا گیا مگر میںاپنا تبصرہ تو پہلے ہی دے چکا ہوں۔ یہ آنکھوں کو دکھانے والا ایک منظر ہے، بڑا لوگ مرعوب ہوجاتے ہیں۔اصل جو منظر ہے وہ یہ ہے کہ ہر جمعہ سے یہ مسلمان سلوک کریں جمعۃ الوداع جمعۃ الاستقبال بن جائے اور جہاں تک ممکن ہے سب لوگ جو شامل ہونے کی توفیق رکھتے ہیں وہ آئیں وہ ضرور شامل ہوں۔ اسی طرح اگر ہوجائے تو ہماری مساجد کے جغرافیے بدلنے پڑیں گے۔ بہت بڑی بڑی وسیع مساجد بنانی پڑیں گی کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جتنی مسجدیں ہیں نمازی اس سے زیادہ ہیں۔ یہ کمزوری میرے سامنے اس لئے نہیں آتی کہ نمازیوں میں کمزوری ہے وہ پورے سامنے نہیں آتے۔ یہ جو آجکل دلکش مناظر ہیں تب دلکش کہلائیں گے اگر ان کے پیچھے آنے والے مناظر بھی ان کی پیروی کریں۔ ورنہ یہ صرف لطف کی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
جہاں تک درسوں کا تعلق ہے انہوں نے بتایا ہے کہ بڑے انہماک سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مختلف مراکز میں لوگ سنتے ہیں۔لجنہ اماء اللہ نے بڑی محنت کی ہے۔ خواتین کے کوائف جس طرح لجنہ بھیجتی ہیں باقاعدہ گنتیاں کرکے ہر جگہ privateمقامات کے antennaکے visualسے بھی، اس طرح انصار یا خدام نے کبھی اس محنت یا اصلاح و ارشاد نے یہ کوائف اکٹھے نہیں کیے۔ مگرمیں نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً پانچ ہزار سے زائد تو خواتین ہی ہوتی ہیں اور مرد اور لڑکے اگر گنوادیے جائیں تو 20 ہزار سے اوپر یا 20 ہزار تک امکان ہے۔ جبکہ سابقہ دور میں زیادہ سے زیادہ جو مسجد میں درس سننے آیا کرتے تھے وہ تین چار سو ہوا کرتے تھے بلکہ یہ بھی زیادہ ہے خال خال لوگ ہوتے تھے۔ اب دیکھیں خداتعالیٰ نے ہجرت کا کیسا انعام دیا ہے۔ بہت زمین آسمان کا فرق ہے۔ 24 ہزار درس سننے والے اگر پانچ سو واں حصہ بھی سمجھا جائے تو 48سال میں جتنے لوگوں نے درس سننا تھا وہ ایک سال میں سن رہے ہیں۔ لیکن 48سال میں بھی انہوں نے ہی سنا تھا۔ اس لیے وہ جمع تفریق کام نہیں کرتی۔ بہرحال اہل ربوہ کو اللہ تعالیٰ مزہ دے بہت ہی ماشاء اللہ اخلاص میں بڑھ گئے ہیں اور وفاداری کے سب تقاضے پورے کررہے ہیں۔ کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں مگر وہ کم ہوتے جارہے ہیں …اللہ مبارک کرے۔‘
(ماخوذ ازدرس القرآن،19؍فروری 1996ء)
خطبہ جمعہ کے لیے لجنہ کی کاوش
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ رمضان میں لجنہ اماء اللہ کی کاوش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’مَیں لجنہ اماء اللہ ربوہ کا خاص طور پر ممنون ہوں کہ انہوں نے بہت محنت کی ہے۔ نتیجۃً باقی جگہوں سے جو رپورٹیں آتی ہیں وہاں مردوں کی تعداد خواتین کی نسبت زیادہ ہے لیکن ربوہ میں گزشتہ رپورٹوں سے مسلسل پتا چل رہا ہے کہ خواتین زیادہ تعداد میں شامل ہو رہی ہیں اور اپنے مردوں کو پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ اس وقت پیچھے چھوڑ گئی ہیں لیکن آگے جا کر ساتھ لے کر چلنا ہے۔ یہ ایسا فخر نہیں ہے کہ جس فخر کو برقرار رکھا جائے۔ پیچھے چھوڑیں، پھر ہاتھ پکڑیں اور ساتھ لے کر آگے بڑھائیں اور ان کی غیرت کو کچوکے دیں اور کہیں کہ ہم عورتیں ہو کر جن پر جمعہ فرض بھی نہیں ہے جمعہ کا خطبہ سننے جار ہی ہیں جو جمعہ کے مقابل پر کوئی فرضیت نہیں رکھتا اور تم مرد ہو کر گھروں میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ گئے ہو۔ اگر یہ بات ہے تو پھر بچے تم سنبھالو ہم باہر کے کام کرتی ہیں تو اس طرح کی باتیں کرکے ان کو ساتھ لیں اور ان کو آگے بڑھائیں کیونکہ بہرحال جو بوجھ مردوں نے اٹھانے ہیں وہ عورتوں کی طاقت سے بالا ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں کے لئے فرائض کی ادائیگی میں نرمی رکھی ہوئی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍مارچ 1993ء)
خلافتِ خامسہ
خاکسار کو خلافتِ خامسہ کے دوسرے سال سے رمضان المبارک کے مبارک ایام ربوہ میں گزارنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ رمضان المبارک میں جماعتی و دینی روایات کے مطابق ایک ہی روٹین قائم ہے۔ تراویح، سحری، تلاوت، سیر و ورزش، افطاری، پنجوقتہ نماز باجماعت، دروس اور زیارت بہشتی مقبرہ ہر مردو زن، طفل و پیر کا روز مرہ معمول ہے۔
ربوہ کے قیام کےابتدائی ایام اور بعدکی روٹین آپ کی خدمت میں بعینہٖ درج کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض قوانین اور انتظامی روکوں کے سبب ان عبادات کے لیےمستعمل الفاظ کا ذکر ہی نہیں ہو سکتا کہ جس میں ربوہ میں رمضان المبارک کے فیوض حاصل کرنے کے لیے اہالیانِ ربوہ کی مساعی کا ذکر کیا جا سکے۔ ہم نے بھی انہیں روایات اور معمول کے مطابق ربوہ کو پایا۔
رمضان میں مساجد کی رونقیں بحال ہوتی ہیں۔ ان متبرک جگہوں پر جانا جہاں اللہ کے پیاروں اور محبّین کا مسکن رہا ہو نزول ملائکہ کا موجب ہے۔ اسی سبب مسجدمبارک ربوہ کو اب بھی مرکزیت حاصل ہے۔ اور رمضان المبارک میں تو یہ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہشتی مقبرہ میں زیارت و دعا کی غرض سے بھی اہالیانِ ربوہ کا ایک تانتا بندھا ہوتاہے۔ ایم ٹی اے پر درس القرآن، خطبہ جمعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ، اختتامی درس القرآن و دعا اور دیگر پروگرامز دیکھنے کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہر ذیلی تنظیم اپنے اپنے خاص پروگرام ترتیب دے کر اپنے ممبران سے خصوصا ًانفرادی رابطہ کے لیے مساعی کرتی ہے اور اس بابرکت ماہ میں کثرت سے عبادات اور برکات سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلاتی ہے۔اور فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات کے تحت اطفال کے مابین خصوصاً تلاوت، نماز باجماعت، سحری کرنے اور تہجد پڑھنے کےمقابلہ جات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں۔
ربوہ کی مساجد بھری ہوئی تھیں
ربوہ میں خلافتِ خامسہ کے پہلے رمضان میں نہایت درد مندانہ طریق پر عبادات کا التزام رہا۔ مساجد کی رونقیں پہلے سے بڑھ گئیں۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’ربوہ سے بھی اور پاکستان سے مختلف جگہوں سے بھی بڑے جذباتی خط آتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم خلافت سے براہ راست، ان معنوں میں براہ راست کہ بغیر کسی واسطہ کے کیونکہ ایم ٹی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہ راست دیکھنے اور سننے کے سامان تو ہو گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ یکطرفہ ہے کہ کب ہماری آزادی کے حالات پیدا ہوتے ہیں جب دونوں طرف سے ملنے کے سامان ہوں، کب ہم آزادی سے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کا اظہار بازار میں کھڑے ہوکرکرسکتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو پتہ لگے کہ اصل محبت کرنے والے تو ہم لوگ ہیں۔ کب قانون میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ تو میرا جواب تو یہی ہوتاہے کہ ان کو جیساکہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں سنبھالتا رہاہے، ہماری مشکلیں آسان کرتا رہاہے، آج بھی وہی خدا ہے جو ان دکھوں کو دور کر ے گا انشاء اللہ۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز، ناممکن نظر آنے والی بات محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن بن جایاکرتی ہے اور انشاء اللہ بن جائے گی۔ بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الٰہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مضطر بن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں۔ اس لئے رمضان میں جس طرح دعاؤں کی توفیق ملی اس معیارکو قائم رکھیں گے تو کوئی چیز سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔
بہت سے باہر سے ربوہ جانے والوں نے بتایااور لکھاکہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سےمسجدیں عبادت کرنے والوں سے بھری پڑی تھیں اور یہی حال دنیا میں ہر جگہ تھا، یہاں بھی آپ نے دیکھا۔ تو مسجدوں کی آبادی کا یہ انتظام اگر جاری رہے گا، اس میں سستی نہیں آئے گی۔ اب اس میں صرف ربوہ ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں احمدی آبادیاں ہیں، اپنی مساجد کو آباد رکھنے کی کوشش کریں گی اور ہماری مسجدیں تنگ پڑنی شروع ہوجائیں گی۔ اتنی حاضری ہوگی کہ ہربچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان نمازوں کے دوران مسجد کی طرف جائے گا۔ تو یہ کیفیت جب ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہماری دعاؤں کو بہت سنے گا۔ اسی طرح گھروں میں بھی خواتین نمازوں اور عبادات کا خاص اہتمام کریں اور پھر دیکھیں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کس طرح مدد کو آتاہے۔ اسی طرح جب ہم سب مل کر دعائیں کریں گے، اللہ کے حضور جھکیں گے، عبادات بجا لانے کی کوشش کریں گے تو اس کی مثال اس تیزبہاؤ والے پانی کی طرح ہی ہے جب پہاڑی راستوں سے گزرتاہوا جہاں دریاکا پاٹ تنگ ہوتاہے، یہ پانی گزر رہا ہوتاہے تو اپنے راستے میں آنے والے پتھروں کو بھی کاٹ رہا ہوتاہے اور انہیں بعض اوقات بہا بھی لے جاتاہے۔ اور بڑے بڑے شہتیروں کے بھی ٹکڑے کررہاہوتاہے۔ اس کی اتنی تیز رفتار ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ تو جب مل کر سب دعا کریں گے۔ اکٹھاکر کے جب دعائیں ہو رہی ہوں گی ساروں کی، ایک طرف بہاؤ ہو رہاہوگا تو اس دریاکے پانی کی طرح اس کے سامنے جو بھی چیز آئے گی خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور باقاعدگی سے اس طر ف توجہ رہے۔ رمضان گزر جانے کے بعد ہم ڈھیلے نہ پڑ جائیں، ہماری مسجدیں ویران نہ نظر آنے لگیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍نومبر2003ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جنوری2004ءصفحہ6)
قرآن پر عمل کرنے کی تحریک
حضور انور نے احبابِ جماعت کو قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُرکلام کو جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں۔ اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے۔ فرمایا کہ
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا (الفرقان:31)
اور رسول کہے گا اے میرے رب! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔
یہ زمانہ اب وہی ہے جب اور بھی بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہوگئے ہیں۔ پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آچکی ہیں۔ انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اور بھی دلچسپیاں ہیں۔ خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہوچکے ہیں۔ جو انسان کو مذہب سے دور لے جانے والے ہیں…
آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے اوپر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود ؑکے مشن کو آگے بڑھائے اور کبھی بھی یہ آیت جو میں نے اوپرپڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود ؑکا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں اور عزت اس وقت ہوگی جب ہم اس پر عمل کررہے ہوں گے اور جب ہم اس طرح کررہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہوگا۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙوَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا(بنی اسرائیل :83)
اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍اکتوبر 2005ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍نومبر 2005ءصفحہ)
خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا رمضان
خلافت احمدیہ کی دوسری صدی میں کامیابی و کامرانی کے ساتھ داخل ہونے پر معاندین سلسلہ کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور وہ باقاعدہ منصوبہ بند ی کر کے اس خدائی جماعت کے مقابل آگئے۔
دوسری صدی کے پہلے رمضان کا آغاز ہی کئی قسم کے ابتلاء لیے آیا۔ لیکن ہمارے پیارے امام نے ان ابتلاؤں و مصائب کے بعد ایک بڑی فتح کی خوشخبری دیتے ہوئے احبابِ جماعت کو اس رمضان کو بھر پور طور پر عبادات میں گزارنے کا ارشاد فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے در خت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں۔ اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بہت سنتا ہوں، تمہیں خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو۔ یہ رمضان جو خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا رمضان ہے، خداتعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔ اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خداتعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے۔
خداتعالیٰ جو ان دنوں میں ساتویں آسمان سے نیچے اترا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لیں۔ اے اللہ تو ایسا ہی کر۔ آمین‘‘
(خطبہ جمعہ 5؍ ستمبر 2008ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ستمبر 2008ءصفحہ7)
جس طرح سال بھر میں کی جانے والی نیکیوں کی ادائیگی میں رمضان کے دوران ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح افرادِ جماعت احمدیہ بھی رمضان میں حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات پر ایک جوش کے ساتھ عمل کرتے ہوئے نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں مگن ہو جاتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں وبائی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے رمضان کی روایتی اجتماعی مصروفیات اور رونقیں اگر معدوم ہیںتو کیا قادیان، کیا ربوہ اور کیا دنیا کے دیگر حصے، ہر جگہ احمدی اپنے پیارے امام کے ارشادات کی روشنی میں اطاعت اور خدمتِ خلق کی عملی تصویر بننے کے ساتھ ساتھ حضور کی دعاؤں کے زیر سایہ دنیا کے اس بیماری سے نجات پانے کے لیے دعاؤں میں مصروف ہیں۔
حرفِ آخر
احبابِ جماعت سے درخواست ہے کہ وہ ربوہ اور جماعت ہائے پاکستان کو اس رمضان میں اپنی نیم شب دعاؤں میں خصوصاً یاد رکھیں۔ اللہ کرے کہ اہالیان ربوہ کی رمضان کی وہ رونقیں لوٹ آئیں جو قادیان اور ربوہ کے ایامِ بہار تھے۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ خلافتِ احمدیہ کی یہاں ایسے حالات میں واپسی ہو کہ کسی قسم کی کوئی مخالفت اور کسی قسم کی کوئی تنگی نہ ہو اور ہم ہر قسم کی عبادت بھر پور طریق پر کر سکیں۔ اللہ کرے کہ یہ خزاں اور ابتلاء کے ایام جلد دُور ہوں اور ہم کماحقہ بھر پور طریق پر جماعتی روایات کے تحت رمضان سے مستفیض ہونے والے ہوں۔ آمین
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ سال 29؍رمضان المبارک کومسجد مبارک ٹلفورڈ میں درس القرآن میں اہلِ ربوہ کے حالات کی تبدیلی کے لیے بہت دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ
’’درویشانِ قادیان اور اہل ربوہ کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں بھی آنے جانے کے راستے کھولے۔ لندن سے اسلام آباد ہجرت ہوئی ہے تومسجد فضل کے رہنے والے ارد گرد رہنے والے ان لوگوں نے شور مچا دیا ہے کہ جی ہم علیحدہ ہو گئے، بڑی افسردگی ہو گئی، خاموشی چھا گئی اور ہم اداس ہو گئے تو ان لوگوں کا خیال کیوں نہیں آتا جو ربوہ میں رہتے ہیں جو پچھلے 35سال سے اس امید پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اب حالات اچھے ہوں اور اب حالات اچھے ہوں اور خلیفہ وقت کا وہاں واپس آنا ہو اس لیے ان کے لیے بہت دعا کریں۔‘‘
(درس القرآن فرمودہ 4؍جون 2019ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍اگست2020ءصفحہ16)
ماشاءاللہ بہت عمدہ مضمون ہے۔