شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تعزیت کرنے کا بیان
حضرت قاضی امیر حسین صاحب نے بیان کیا:
’’میرا ایک لڑکا جو پہلی بیوی سے تھا فوت ہو گیا۔اسکی ماں نے بڑا جزع فزع کیااور اس کی والدہ یعنی بچے کی نانی نے بھی اسی قسم کی حرکت کی میں نے ان کو بہت روکا مگر نہ باز آئیں، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لڑکے کا جنازہ پڑھنے آئے تو جنازہ کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور بہت دیر تک وعظ فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا قاضی صاحب اپنے گھر میں بھی میری یہ نصیحت پہنچا دیں۔میں نے گھر آکربیوی کو حضرت صاحب کا وعظ سنایا پھر اسکے بعد اس کے دوتین لڑکے فوت ہوئے مگر اس نے سوائے آنسو گرانے کے کوئی اور حرکت نہیں کی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 34)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا:
’’1905ء کے زلزلہ کے بعد جب باغ میں رہائش تھی تو ایک دن حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاکہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔‘‘
اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ ’’پورا واقعہ یوں ہے کہ ان ایام میں آپ نے جب ایک دفعہ کسی احمدی کا جنازہ پڑھا تو اس میں بہت دیر تک دُعا فرماتے رہے اور پھر نماز کے بعد فرمایا کہ ہمیں علم نہیں کہ ہمیں اپنے دوستوں میں سے کس کس کے جنازہ میں شرکت کا موقعہ ملے گا۔اس لئے آج مَیں نے اس جنازہ میں سارے دوستوں کے لئے جنازہ کی دُعامانگ لی ہے اور اپنی طرف سے سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 496)
حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ ساکن فیض اللہ چک نے بیان کیا:
’’میرا لڑکا عبدالرحمٰن ہائی سکول میں تعلیم پاتا تھا۔وہ بعارضہ بخار محرقہ و سرسام تین چار دن بیمار رہ کر قادیان میں فوت ہو گیا۔مَیں اس وقت فیض اللہ چک میں ملازم تھا۔مجھے اطلاع ملی تو قادیان آیا۔اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔اور اس سے فارغ ہو کر مَیں واپس فیض اللہ چک چلا گیا۔پھر مَیں آئندہ جمعہ کے دن قادیان آیا۔اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام مسجد مبارک کے پہلے محراب میں جو کھڑکیوں کے درمیان ہوتا تھا۔تشریف فرما تھے۔مَیں اندر کی سیڑھیوں سے مسجد میں گیا۔جب حضور کی نظرِ شفقت مجھ پر پڑی تو حضور نے فرمایا: آگے آ جاؤ۔وہاں پر بڑے بڑے ارکان حضور کے حلقہ نشین تھے۔حضور کا فرمانا تھا۔کہ سب نے میرے لئے راستہ دیدیا۔حضور نے میرے بیٹھتے ہی محبت کے انداز میں فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہےکہ آپ نے اپنے بچہ کی موت پر بہت صبر کیاہےمَیں نعم البدل کے لئے دعا کرونگا۔چنانچہ اس دُعائے نعم البدل کے نتیجہ میں خدا نے مجھے ایک او ربچہ دیا جس کا نام فضل الرحمٰن ہے‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 501)
حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے بیان کیا:
’’صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی قادیان ہی میں حاضر تھا اور اُن کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا۔چنانچہ ان کے جنازہ کو مقبرہ بہشتی میں لے جانے کے لئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑاتھا۔اس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کا حصہ تھا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا۔جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے۔میں اگرچہ اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن یہ احساس اس وقت تک میرے دل میں قائم ہے کہ حضور باوجود اس قدر سخت صدمہ کے جوآپ کوصاحبزادہ صاحب کی وفات سے لازماًپہنچا ہوگا نہایت بشاشت سے کلام فرماتے رہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1072)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :
’’حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحب کا سب سے بڑا لڑکا جو پہلا لڑکا کہنا چاہیے بہرہ اور گونگا تھا۔اسی طرح دوسرا لڑکا بھی۔پہلا لڑکا تو پیدائشی ہی مریض تھا۔مگر دوسرا لڑکا جس کا نام عنایت الرحمان تھا اچھا خاصا تندرست تھا۔مگر نہ سنتا تھا اور نہ بولتا تھا۔یہ لڑکا جب ساڑھے چار سال کا تھا اور سخت بیمار ہو گیا۔یعنی اس کو ٹائی فائیڈ فیور (Typhoid Fever) ہو گیا تو حضور علیہ السلام اکثر اس کی علالت کے ایام میں اس کو دیکھنے کے لیے آتے تھے اور ہمیشہ تنہا تشریف لاتے تھے۔اور بچہ کو دیکھ کر مناسب تجاویز بتلا کر تشریف لے جاتے تھے۔مفتی صاحب ان ایام میں گورداسپور کے مقدمہ میں تاریخوں پر حضرت کے ساتھ جایا کرتے تھے۔جس روز آخری دفعہ حضور گورداسپور تشریف لے جانے لگے اور گھر سے نکل کر اس بچہ کو جا کر دیکھا تو اس کی حالت کو نازک پایا۔تو آپ نے باہر آ کر مفتی صاحب کو فرمایا کہ آج آپ گورداسپور نہ جاویں یہیں ٹھہریں ۔چنانچہ آپ تشریف لے گئے۔دوسرے دن صبح بچہ فوت ہو گیا۔
… اس سے دوسرے دن آپ گورداسپور سے تشریف لے آئے تو مفتی صاحب چھوٹی لڑکی حفیظہ کو اٹھائے ہوئے حضور کو مہمان خانہ کے قریب جا کر ملے تو آپؑ نے فرمایا۔میں نے آپ کے بچہ کی وفات سنی بہت رنج ہوا میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے گا۔اور وہ سننے اور بولنے والا ہو گا۔‘‘
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ جلد دوم صفحہ 201، 202)
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا طریقِ تعزیت
اِس بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :
’’تعزیت کے متعلق آپؑ کا طرز عملی طور پر یہی تھا کہ بعض صورتوں میں آپ اگر موقعہ ہو تو زبانی تعزیت فرماتے اور یا تحریراً۔آپؑ تعزیت کرتے وقت اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے کہ بشریت کی وجہ سے جو صدمہ اور رنج کسی شخص کو پہنچا ہے اسے اپنی عارفانہ نصائح اور دنیا کی بے ثباتی کو واضح کر کے کم کر دیں۔ایسے موقعوں پر بعض وقت انسان کا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا ہے اور ما سوی اللہ کی محبت کو قربان کر دیتا ہے۔اس لیے آپؑ کا معمول یہی تھا کہ ایسے موقعہ پر انسان کے ایمان کے بچانے کی فکر کرتے اور ایسے رنگ میں اس پر اثر ڈالتے کہ تمام ہم و غم بھول جاتا۔اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ غالب ہو جاتی…‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 206، 207)
حافظ ابراہیم صاحب کی اہلیہ کی تعزیت
31 جولائی 1906ء کو ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔یکم اگست 1906ء کو حضرت اقدسؑ نے ان کی بیوی کی تعزیت کی اور ان کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’آپ پر اپنی بیوی کے مرنے کا بہت صدمہ ہوا ہے اب آپ صبر کریں تاکہ آپ کے واسطے ثواب ہو۔آپ نے اپنی بیوی کی بہت خدمت کی ہے۔باوجود اس معذوری کے کہ آپ نابینا ہیں آپ نے خدمت کا حق ادا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا اجر ہے۔مرنا تو سب کے واسطے مقدر ہے۔آخر ایک نہ ایک دن سب کے ساتھ یہی حال ہونے والا ہے مگر غربت کے ساتھ بے شر ہو کر مسکینی اور عاجزی میں جو لوگ مرتے ہیں ان کی پیشوائی کے واسطے گویا بہشت آگے آتا ہے۔‘‘
(اخبار بدر مؤرخہ 9 اگست 1906ء صفحہ 4)
قاضی غلام حسین صاحب کے بیٹے کی تعزیت
جون 1905ء کے اوائل میں قاضی غلام حسین صاحب وٹرنری اسسٹنٹ… کا بچہ چند روز بیمار ہو کر فوت ہو گیا تھا۔چند روز ہی کی عمر اس نے پائی تھی۔وہ حاضر ہوئے۔آپ نے ان کو خطاب کر کے تعزیت فرمائی۔فرمایا:۔
’’جو بچہ مر جاتا ہے وہ فرط ہے۔انسان کو عاقبت کے لیے بھی کچھ ذخیرہ چاہیئے۔میں لوگوں کی خواہش اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں ۔کون جانتا ہے اولاد کیسی ہو گی۔اگر صالح ہو تو انسان کو دنیا میں کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعواۃ ہو تو عاقبت میں بھی فائدہ دے سکتی ہے۔اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اولاد کی خواہش کیوں ہے اور جو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہاں تک محدود رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہو۔اور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے۔اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہو سکتی ہے کہ کوئی ولد صالح پیدا ہو جو بندگان خدا میں سے ہو۔لیکن جو لوگ آپ ہی دنیا میں غرق ہوں وہ ایسی نیت کہاں سے پیدا کر سکتے ہیں انسان کو چاہیئے کہ خدا سے فضل مانگتا رہے۔تو اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے…‘‘
(اخبار بدر مؤرخہ 15 جون 1905ء صفحہ 2)
تحریری تعزیت
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں :
’’جس طرح آپ کے معمولات میں یہ بات داخل تھی کہ آپ خطوط کے ذریعہ عیادت کر لیا کرتے تھے۔اسی طرح سے عموماً خطوط کے ذریعہ تعزیت بھی فرمایا کرتے تھے۔تعزیت ناموں میں آپ کا طریق مسنون یہی تھا کہ دنیا کی بے ثباتی کا نقش دل پر بٹھانے کے لیے کوشش فرماتے اور ایسا رنگ اختیار فرماتے جس سے اس صدمہ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔اور قلب پر ایک سکینت اور تسلی کی روح کا نزول ہو۔اس کے لیے کبھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کو پیش کرتے، کبھی اس کی غیرت ذاتی کا پر شوکت بیان فرماتے جس کو سن کر انسان غیر اللہ کی محبت سے کانپ اٹھے۔اور اپنے اندر سے ان تمام بتوں کو نکال کر پھینک دے جو غیروں کی محبت کے اس کے قلب میں رکھے ہوئے ہیں۔ اور کبھی ان طریقوں کا بھی اظہار فرماتے جو عملی صورت میں اس غم اور حادثہ کی کوفت کو دور کرنے والے ہوں ۔
غرض آپ تحریری طور پر تعزیت فرماتے تھے۔ابتداء میں ایسے خطوط خود اپنے ہاتھ سے ہی لکھا کرتے تھے۔لیکن جب کثرت سے سلسلہ پھیل گیا اور آپ کی مصروفیت کا دامن وسیع ہو گیا تو اس قسم کے خطوط کے لئے کاتب ڈاک کو بھی حکم دیتے تھے مگر اپنے مخلص احباب کے لئے اس وقت تک بھی یہی دستور تھا کہ اپنے ہاتھ سے خط تحریر فرمایا کرتے۔اور بعض دوستوں کے لئے آپ کا معمول تھا کہ رجسٹری کرا کر خط ہو یا پیکٹ کتاب و اشتہار بھیجا کرتے تھے۔ایسے پیکٹ خود اپنے ہاتھ سے بھی بنا لیتے۔ورنہ ان پر پتہ تو لازماً اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔‘‘
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ جلد دوم صفحہ 206تا 209)