دین دار ماں کی اولاد بھی دین دار ہو گی
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تربیتِ اولاد کے سنہری گُر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اولاد کی تر بیت کے تعلق میں پہلی ہدا یت اسلام کی یہ ہے کہ مرد دین دار عورتوں کے ساتھ شادی کریں اور ہر ماں خود دین دار بننے کی کوشش کرے کیو نکہ بے دین ما ں دینی تر بیت کی اہلیت نہیں رکھتی۔بیشک قرآن مجید یہ بھی فرما تا ہے کہ
یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ(الروم: 21)
(یعنی خدا مُردوں میں سے زندے پیدا کر دیتا ہے اور زندوں میں سے مُردے پیدا کر دیتا ہے )
اور اِسی طرح بعض اوقات بُرے ماں باپ کے بچے نیک ہو جا تے ہیں اور بعض اوقات اچھے ماں باپ کے گھر میں بُرے بچے بھی جنم لے لیتے ہیں۔بلکہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف مسلمانوں کو ہو شیار کرنے کے لئے اور دوسری طرف اُ نہیں مایوسی سے بچانے کے لئے قرآن مجید میں اس کی بعض مثالیں بھی بیان کی ہیں کہ کسی ایک بُرے گھر میں اچھا بچہ پیدا ہو گیا اور ایک اچھے گھر میں بُرا بچہ نِکل آ یا مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے اور اولاد کو اچھی تر بیت دینے کی جو اہلیت ایک نیک ماں رکھتی ہے وہ ہر گز ہرگز ایک بے دین ماں کو حا صل نہیں ہوتی۔خاکسار راقم الحروف نے بڑے غور کی نظر سے ہزاروں گھروں کے حا لات کو دیکھا ہے اور گو یا اُن کے اندرونِ خانہ میں جھانک جھانک کر تجسّس کی نظر دوڑائی ہے مگر میں اِس کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ نیک اولاد پیدا کر نے اور نیک بچے بنا نے میں ظاہری اسباب کے ماتحت نوّے فی صدحصہ دیندار ما ؤں کا ہو تا ہے۔ اچھی ماؤں کی نگرانی میں پرورش پا نے والے بچے نہ صرف دن رات اپنی ماں کے نیک اعمال ( یعنی نماز،روزہ، تلاوتِ قرآن،صدقہ و خیرات،جماعتی کا موں کے لئے چندے،خدا رسول ﷺ کی محبت،دینی غیرت وغیرہ) کے نظارے دیکھتے ہیں بلکہ جس طرح وہ اپنی ماں کے اعمال کو دیکھتے ہیں اسی طرح ان کی ماں بھی شب و روز اُن کے اعمال کو دیکھتی ہے اور ہر خلاف ِ اخلاق بات اور ہر خلاف ِ شریعت حرکت پر اُن کو ٹو کتی اور شفقت و محبت کے الفاظ میں انہیں نصیحت کرتی رہتی ہے۔ماں کا یہ فعل جو اس کی اولاد کے لئے ایک دلکش و شیریں اُسوہ ہوتا ہے اور ماں کا یہ قول جو اُس کے بچوں کے کانوں میں شہد اور تریاق کے قطرے بن کر اُتر تا چلا جاتا ہے اُن کے گوشت اور ہڈیاں تک میں سرایت کرکے اور ان کے خون کا حصّہ بن کر انہیں گویا ایک نیا جنم دے دیتا ہے۔ کاش دُنیا اِس نکتہ کو سمجھ لے۔قوموں کے لیڈر اِس نکتہ کو سمجھ لیں۔خاندا نوں کے بانی اِس نکتہ کو سمجھ لیں۔گھر کا آقا اِس نکتہ کو سمجھ لے۔اور کاش بچے ہی اِس نکتہ کو سمجھ لیں کہ اولاد کی تر بیت کا بہترین فطری آلہ ما ں کی گود ہے۔
پس اے احمدیت کی فضا میں سانس لینے والی بہنو اور بیٹیو! اور اے آج کی ماؤ اور اے کل کوما ں بننے والی لڑکیو! اگر قوم کو تبا ہی کے گڑھے سے بچا کر ترقی کی شا ہراہ کی طرف لے جاناہے تو سنو اور یاد رکھو کہ اِس نسخہ سے بڑھ کر کو ئی نسخہ نہیں کہ اپنی گودوں کو نیکی کا گہوارہ بناؤ۔اپنی گودوں میں وہ جو ہر پیدا کروجو بدی کو مٹا تا اور نیکی کو پروان چڑھا تا ہے۔جو شیطان کو دور بھگاتا اور انسان کو رحمٰن کی طرف کھینچ لا تا ہے۔
(اچھی ما ئیں،تر بیتِ اولاد کے دس سنہری گُر، مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ۔ ایم اے، از مطبو عہ شعبہ اشاعت لجنہ اِمائِ اللہ ضلع کرا چی بسلسلہ صد سالہ جشنِ تشکر، صفحہ8تا10)