میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے
مامور من اللہ کی سچی ہمدردی
مامورمن اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوتی ہے اور جماعت سے بھی۔ اس ہمدردی میں ہمارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے کہ آپؐ کُل دنیا کے لیے مامور ہو کر آئے تھے اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختص الزمان کے طور پرتھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا اور ہمیشہ کے لیے نبی تھے۔ اس لیے آپ کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ( الشعرآء: 4)۔
اس کے ایک تویہ معنے ہیں کہ کیا تو ان کے مومن نہ ہونے کی فکر میں اپنی جان دے دے گا۔ اس آیت سے اس درد اور فکر کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپؐ کو دنیاکی تباہ حالت دیکھ کر ہوتا تھا کہ وہ مومن بن جاوے۔ یہ تو آپؐ کی عام ہمدردی کے لیے ہے۔ اور یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں کہ مومن کو مومن بنانے کی فکر میں تو اپنی جان دے دےگا یعنی ایمان کو کامل بنانے میں۔ اسی لیے دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (النساء : 137)
بظاہر تو یہ تحصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی لیکن جب حقیقتِ حال پر غور کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں اس لیے اﷲ تعالیٰ تکمیل چاہتا ہے۔
غرض مامور کی ہمدردی مخلوق کے ساتھ اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اُس سے متأثر ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 221تا222۔ایڈیشن 1984ء)
خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے
ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اس امر کو مدِّ نظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے۔ لیکن جنابِ الٰہی کو ان امور کی پرواہ نہیں۔ اُس نے تو صاف طور پر فرمادیا کہ
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات : 14)
یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کامقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 238تا239۔ایڈیشن 1984ء)
یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے
یہ خدا ہی کے سلسلہ میں برکت ہے کہ وہ دشمنوں کے درمیان پرورش پاتا اور بڑھتا ہے۔ اُنہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے۔ خون تک کے مقدّمے بنوائے مگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں ہوتی ہیں، وہ ضائع نہیں ہو سکتیں۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے۔ اگر انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدابیر اور انسانی مقابلے اب تک اُس کو نیست و نابود کر چکے ہوتے۔ انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے۔ پس جس قدر تم اپنی قوتِ یقین کو بڑھائو گے اسی قدر دل روشن ہوگا۔
(ملفوظات جلد3صفحہ257۔ایڈیشن1984ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی وا رث جماعت
سب سے بڑھ کرکامل اور مؤثر نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔اسی طرح پر اب بھی وہی خدا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسا ن اور انعا م کیے اور اسی طرح پر اب بھی اس کے فضل اور بر کا ت کے انعام ہو رہے ہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو فریق اس حق کی مخا لفت کرتا ہے اور اسے مفتری کہتا ہے وہ جس قدر مخالفت چاہیں کریں۔ مخالف الہا م سنائیں ان کو آخر معلوم ہو جائے گا کہ غالب وہی ہوتا ہے جس کو خدا نے اپنا نور اور فضل دے کر بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت اور عادت کے موافق اس قو م پر اپنا فضل کرے گا جس کو اُس نے منتخب کیا ہے۔ وہی دنیا پر پھیلے گی اور وہی قرآن شریف، اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی وارث ہو گی۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 244۔ایڈیشن 1984ء)
نماز کس طرح پڑھنی چاہیے
نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کامعراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ نماز اس لیے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں۔ بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں یہ کچھ نہیں۔
نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے۔ اس کی نماز ہرگز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مدِّ نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔ پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتاوے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 247تا248۔ایڈیشن 1984ء)