استغفاراور توبہ۔ اللہ کی حمد کرتے رہیں
تیسری شرط بیعت(حصہ ششم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
استغفار اور توبہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘وَ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ(ھود:4)۔
یاد رکھو کہ یہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے۔ دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے ۔ غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے( جو) خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ان پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میںدو قسم کے مادے رکھے ہیں۔ ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت غالب آجاتی ہے۔ لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہ نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں۔یعنی یہ کہ اس قوت کو پاکر زہریلے مواد پر غالب آجاوے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلداوّل۔ صفحہ348-349)
اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں
پھر اس تیسر ی شرط میں ایک یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرتارہے گا۔ اس بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الفاتحہ : آیت 2)
تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کاربّ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَ لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ۔(سورۂ سبا:آیت2)
سب حمد اللہ ہی کی ہے جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور آخرت میں بھی تمام تر حمد اُسی کی ہوگی اور وہ بہت حکمت والا(اور)ہمیشہ خبر رکھتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ہر اہم کام اگر خداتعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص رہتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر کلام جو اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے۔
(1۔ سنن ابن ماجہ ۔کتاب النکاح۔ باب خطبۃالنکاح۔ حدیث نمبر1894۔
2۔ سنن ابو داؤد۔ کتاب الادب۔باب الْھَدی فی الکلام۔حدیث نمبر4832)
ایک حدیث میں آتا ہے۔ نعمانؓ بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا : ‘‘ جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا بھی شکریہ ادا نہیں کر پاتا۔ اللہ تعالیٰ کی نعماء کا ذکر خیر کرنا بھی شکر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نعماء کا ذکر خیر نہ کرنا ناشکری ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 4۔ صفحہ 278۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا۔ اے معاذ! اللہ کی قسم! یقیناً میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں، پھر آپؐ نے فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا۔
اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔
اے اللہ تعالیٰ! تو مجھے توفیق عطاء کر کہ میں تیرا ذکر، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں۔
(سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)
(باقی آئندہ)