الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
شہید کے معنی
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداءنمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل ارشاد شامل اشاعت ہے:
’’شہید کے معنی یہ ہیں کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ ایک خاص قسم کی استقامت مومن کو عطا کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر مصیبت اور تکلیف کو ایک لذّت کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ پس
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ
میں
مُنْعَم عَلَیْہ
گروہ میں سے شہیدوں کا گروہ بھی ہے اور اس سے یہی مراد ہے کہ استقامت عطا ہو، جو جان تک دینے میں بھی قدم کو ہلنے نہ دے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ518)
………٭………٭………٭………
سانحہ لاہور کے واقعات و مشاہدات
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرم ڈاکٹر رفاد عاصم صاحب سانحہ لاہور کا آنکھوں دیکھا حال یوں قلمبند کرتے ہیں کہ مَیں اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے ساتھ دارالذکر کی دوسری صف میں بیٹھا تھا جب دہشت گردوں نے زبردست فائرنگ شروع کی۔ مربی صاحب نے سب کو فرش پر لیٹنے کی ہدایت کی۔ چند منٹ بعد کسی نے آواز لگائی کہ باہر خدام زخمی ہیں، کوئی ڈاکٹر یہاں ہے؟ مَیں نے فوراً ہاتھ کھڑا کیا اور اُٹھ کر باہر نکلا۔ سامنے گرے ہوئے ایک زخمی خادم کی پٹی کی۔ فائرنگ جاری تھی۔ لفٹ کی پچھلی طرف والی سیڑھیوں میں مجھے خون نظر آیا تو مَیں دوڑتا ہوا اوپر گیا جہاں ایک خادم کے بازو سے خون کا فوارہ نکل رہا تھا اور سینے پر بہت سے زخم تھے۔ مَیں نے وہاں موجود ایک آدمی سے اُن کی قمیص اور دوسرے سے رومال لے کر اُس خادم کی پٹی کی مگر خون بہت زیادہ بہنے کی وجہ سے اُس کا رنگ سفید ہورہا تھا۔ پھر مَیں بھاگ کر نیچے آیا تو ہال کے اندر سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور لوگ ہال میں سے نکل کر باہر بھاگ رہے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ بیٹے کو تو مَیں ہال میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ سیڑھیوں کے پاس ایک اَور زخمی خادم کو گرا ہوا دیکھا تو مَیں اُس پر جھکا اور ساتھ ہی ہال کے دروازے کی طرف بھی دیکھتا رہا کہ باہر نکلنے والوں میں میرا بیٹا بھی شامل ہے یا نہیں؟ اچانک میرے گھٹنے کے نیچے گولی لگی تو مَیں تکلیف کی شدّت سے ٹانگ پر وزن نہیں رکھ سکا اور گرگیا۔ پھر اپنا پورا زور لگاکر گھسٹتا ہوا دیوار کے ساتھ جڑ کر لیٹ گیا۔ ہال میں مسلسل فائرنگ ہورہی تھی اور بھاگتے ہوئے لوگ چاروں طرف نظر آرہے تھے۔ اچانک مجھے اپنا بیٹا نظر آیا۔ اُس نے بھی مجھے دیکھ لیا تو بھاگ کر میرے پاس آیا اور پوچھا : ابّا! آپ کو کیا ہوا ہے؟ مَیں نے جواب دیا: بیٹا! مجھے گولی لگی ہے لیکن مَیں ٹھیک ہوں، تم سیڑھیوں سے اوپر چلے جاؤ۔ پھر وہ لوگوں کے ساتھ اوپر چلا گیا اور مجھے ہسپتال پہنچنے کے بعد ہی پتہ چلا کہ وہ خیریت سے ہے۔
مَیں جس دیوار کے ساتھ لیٹا تھا، لوگ جان بچانے کے لئے وہاں بھی آگئے۔ وہ جگہ بھرگئی تو میری ٹانگ مُڑ گئی۔ خون بہنے کے ساتھ بہت تکلیف تھی۔ مَیں نے ساتھ والے خادم سے کہا کہ اپنی قمیص مجھے دو تاکہ مَیں ٹانگ سیدھی کرسکوں۔ پھر اُسی خادم کی مدد سے اپنے زخم پر کس کر پٹی باندھی لیکن خون جاری تھا۔ پھر قمیص کے ایک ٹکڑے کو پھاڑ کر گھٹنے کے اوپر کس کر پٹی باندھی لیکن خون نہ رُکا۔ تب مَیں نے ایک دوسرے خادم سے کہا کہ پٹی کے نیچے ٹانگ میں ایک سوراخ ہے اُس پر انگلی رکھ کر دبادو۔ پھر جس خادم نے قمیص دی تھی وہ کہنے لگا کہ مَیں جھک جاتا ہوں اپنی ٹانگ میرے اوپر رکھ دیں۔ اگلے اڑہائی گھنٹے وہ میری ٹانگ اپنے اوپر رکھ کر بیٹھا رہا۔ پھر مَیں نے کسی سے موبائل مانگا اور اہلیہ کو فون کرکے بتایا کہ مجھے گولی لگی ہے۔
میری پوزیشن یہ تھی کہ سارا جسم دیوار کے پیچھے تھا لیکن سر نچلی سیڑھی پر تھا۔ نیچے سے دہشت گرد کے پاؤں نظر آرہے تھے جو صحن میں پھرتے ہوئے باربار نعرۂ تکبیر بلند کررہا تھا اور گولیوں سے بھری پوری میگزین کنکریٹ کی اُس دیوار پر خالی کردیتا جس کے پیچھے ہم بیٹھے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی نادیدہ قوّت اُس کو آگے آنے سے روک رہی ہے۔ میرا چہرہ دیوار سے ذرا اونچا تھا اور جگہ بالکل نہیں تھی۔ مَیں نے سوچا کہ مجھے کسی بھی وقت گولی لگ سکتی ہے۔ مَیں آنکھیں بندکرکے مسلسل دعائیں پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ قریباً پون گھنٹے بعد فائرنگ اور دھماکوں کے درمیان میرے چہرے کے بائیں حصے پر کوئی زوردار چیز آکر لگی۔چند لمحوں کے لئے تو ہوش و حواس ختم ہوگئے۔ ہوش آیا تو گال سے خون کا فوارہ چل رہا تھا اور میرا جسم خون سے بھرا ہوا تھا۔ مَیں نے ایک ہاتھ گال پر رکھا اور دوسرے سے اپنی قمیص اتارنے کی کوشش کی۔ ایک خادم نے میری مدد کی۔ میری قمیص اُتار کر میرے چہرے پر زور سے پٹی باندھ دی۔ لیکن خون نہ رُکا۔ میں نے اپنے قریب لوگوں سے کہا کہ مجھے لگتا ہے اب میرا وقت ختم ہورہا ہے، میرا بیٹا اوپر ہے اس کا خیال رکھنا۔بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ پیغام اوپر تک گیا اور وہاں آواز لگائی گئی کہ ڈاکٹر صاحب کا بیٹا کون ہے۔ وہ کھڑا ہوا، اُس کو شناخت کے بعد دوبارہ بٹھادیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے دس پندرہ منٹ بعد خون بہنا بند ہوگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ چہرے پر گرنیڈ کے ٹکڑے لگے تھے اور گال میں سوراخ ہوگیا، ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ایک انچ لمبا ٹکڑا اور بے شمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اب بھی چہرے کے اندر موجود ہیں۔
فائرنگ جاری تھی، گرنیڈ پھٹ رہے تھے۔ احباب زخمی اور شہید ہورہے تھے لیکن کوئی چیخ و پکار نہ تھی۔ بس سب دعائیں کررہے تھے۔ میرے پاس بیٹھے ایک بزرگ نے کہا کہ اب دروازہ کھلنا چاہیے ورنہ بہت سے زخمی خون بہنے سے شہید ہوجائیں گے۔ مَیں نے روکا کہ فائرنگ میں نہ اٹھیں۔ لیکن وہ اچانک اٹھے اور دروازے کی طرف بڑھے تاکہ چھت پر چڑھ سکیں۔ اچانک بدبخت دہشت گرد نے گرنیڈ پھینک کر انہیں شہید کردیا۔
اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
وقت کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ قریباً چار بجے ‘سب کلیئر ہے’کی آواز آئی۔ گیٹ کھول کر پولیس اندر داخل ہوئی۔ سب نے کہا پہلے زخمی نکالو۔ کوئی بھگدڑ نہ مچی۔ لوگ آرام سے اُٹھ کر نکلنے لگے۔مجھے ریسکیو والوں نے نکالا۔ فرش پر شہداء کی لاشیں پڑی تھیں۔ خون کی وجہ سے پھسلن تھی۔گیٹ کے قریب دو افراد نے روک کر میرا نام پوچھا اور چہرے کی پٹی اُترواکر دیکھا۔ اسی دوران دوبارہ فائرنگ کی آوازیں آئیں اور اندر کے لوگ پھر محصور ہوگئے۔ گیٹ کے باہر بے شمار لوگ اور میرے عزیز بھی موجود تھے۔ میرے ایک کزن جو مسجد بیت النور سے آئے تھے اور وہاں ان کے پاؤں شیشے لگنے سے زخمی ہوگئے تھے لیکن انہوں نے کوئی پروا نہ کی۔ تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے میری جرابیں اُتار کر اپنے بوٹوں میں ٹھونس لیں۔ پھر مجھے ہسپتال میں بستر پر لٹاکر میری اہلیہ کو میری خیریت کی اطلاع کی اور پھر دوبارہ مسجد النور کی طرف روانہ ہوگئے جہاں سے اطلاع آئی تھی کہ اُن کے بڑے بھائی کا جسم چہرے سمیت چالیس فیصد تک جل گیا ہے۔ کچھ عزیز دارالذکر کے باہر میرے بیٹے کا انتظار کرتے رہے جو دوبارہ فائرنگ کی وجہ سے اندر ہی محصور تھا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ باہرآیا تو اُس کی خیریت کی اطلاع مجھے دی۔
دارالذکر کے باہر انتظار کرنے والوں میں میرے ایک غیرازجماعت واقف کار بھی تھے۔ وہ ساڑھے تین بجے میرے گھر گئے اور میری اہلیہ سے صورت حال دریافت کرکے وعدہ کیا کہ مَیں ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے کر ہی آؤں گا۔ ایمبولینس میں میرے ساتھ ہسپتال گئے ۔ راستے میں نہایت دردمندی سے میرے زخموں کو صاف کرتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ اسی طرح میرے وارڈ کے ایک دوسرے احمدی میڈیکل افسر لیٹ ہونے کی وجہ سے ابھی دارالذکر سے باہر ہی تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ انہوں نے میرے گھر فون کرکے میری کیفیت معلوم کرلی اور ہسپتال کے عملے کو الرٹ کردیا۔ ان کے ساتھ وارڈ کے تمام غیرازجماعت ڈاکٹر دو بجے تک میری آمد کا انتظار کرتے رہے۔ میرے ہسپتال پہنچتے ہی میرے وارڈ کے ڈاکٹرز مجھے سٹریچر پر ڈال کر سرجیکل ایمرجنسی میں لے گئے۔ فوری طور پر خون کی بوتل لگادی۔حالت کچھ بہتر ہوئی تو دو گھنٹے بعدکمرے میں شفٹ کردیا۔ اگلے چند دنوں میں انہی ڈاکٹرز نے میرا بےحد خیال رکھا۔ایک غیرازجماعت دوست ڈاکٹر جو درد شقیقہ کی وجہ سے چھٹی پر تھے لیکن میری اہلیہ کی درخواست پر وہ اتنی تکلیف کے باوجود ہسپتال آئے اور میری میڈیکل Fitness چیک کرکے تسلّی کروائی۔
مکرم ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ مکرمہ ڈاکٹر زاہدہ رفاد صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے خاندان کے سات افراد جن میں میرے شوہر اور بیٹا بھی شامل تھے، نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے دونوں مساجد میں تھے۔ جب دہشت گردوں کا حملہ شروع ہوا تو کچھ دیر بعد میرے شوہر کا فون آیا کہ میری ٹانگ پر گولی لگی ہے اور بہت فائرنگ ہورہی ہے۔
مَیں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو اُس نے بتایا کہ وہ ماڈل ٹاؤن کی مسجد النور میں ہے اور یہاں بھی بہت فائرنگ ہورہی ہے۔ کچھ دیر بعد وہاں دہشت گرد پکڑے گئے تو اُس نے فون پر بتایا کہ اب وہ دارالذکر جارہا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد مَیں نے اپنے شوہر کو فون کیا اور بیٹے کے بارے میں پوچھا۔ انہوںنے کہا کہ ٹھیک ہی ہوگا۔تقریباً چار بجے محاصرہ ختم ہواتو بھائی کا فون آیا کہ میرے شوہر کو انہوں نے ہسپتال بھجوادیا ہے مگر فائرنگ دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور بیٹا ابھی اندر ہی ہے۔
آدھے گھنٹے بعد بیٹا بھی باہر آگیا۔ اُس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے مگر وہ خود زخمی نہیں تھا۔اُسے گھر میں نہلاکر مَیں بھائی کے ساتھ ہسپتال پہنچی۔ میرے شوہر کا پہلا جملہ یہ تھا کہ افسوس! میری قسمت میں شہادت نہیں تھی۔ اُن کے بائیں گال میں سوراخ تھا، ناک اور ٹانگ کی ہڈیاں فریکچر تھیں۔ میرے شوہر کے کزن مسجد النور کے باہر گرنیڈ پھٹنے سے زخمی ہوئے۔ اُن کا چالیس فیصد جسم جل گیا تھا۔ وہ پندرہ دن ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ اتنا جل جانے کے باوجود انہیں ذرّہ بھر بھی تکلیف نہ تھی۔ خود چل کر ایمبولینس میں بیٹھے اور ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹروں کی باتوں سے انہیں پتہ چلا کہ وہ کتنا جل چکے ہیں۔ حادثے کی رات جب مَیں اُن سے ملی تو معجزانہ طور پر انہیں کوئی تکلیف نہیں تھی۔
ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ میرے شوہر کی پھوپھی جو ریٹائرڈ پروفیسر ہیں اور ربوہ میں رہتی ہیں۔ حادثے والے دن جمعے سے قریباً ایک گھنٹہ پہلے جاگنے کی حالت میں اُن کو شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ربوہ پر حملہ کردیا گیا ہو۔پھر یوں لگا کہ ربوہ کا دفاع کرنے والے بھی فائرنگ کررہے ہوں۔ وہ گھبراکر ساتھ والے گھر میں اپنی کزن کے پاس گئیں اور پوچھا کہ یہ فائرنگ کی آوازیں کیسی ہیں؟ وہ لوگ بھی گھبراگئے کہ ان کو کیا ہوگیا ہے۔
مکرم ڈاکٹر رفاد عاصم صاحب کے گیارہ سالہ بیٹے عزیزم منجاد عاصم نے بتایا کہ جب میرے ابّو باہر چلے گئے تو چند منٹ کے بعد زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ مَیں باقی لوگوںکے ساتھ ہال کےد روازے کے قریب چلاگیا۔ پھر ہال کے اندر دھماکا ہوا تو تمام لوگ باہر بھاگنے لگے۔ مَیں بھی باہر نکلا۔ اب اندر سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔باہر نکل کر مَیں نے چاروں طرف دیکھا تو لِفٹ کے پیچھے جو سیڑھیاں ہیں وہ مجھے سب سے بہتر جگہ لگی۔ مَیں اُس طرف بھاگا، لِفٹ کے پاس ایک انکل کے کان کے اوپر سے فوارے کی طرح خون نکل رہا تھا اور ایک اَورانکل لِفٹ کے قریب خون میں لت پت پڑے تھے۔ ساتھ ہی میرے ابو مجھے لیٹے نظر آئے، اُن کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کو گولی لگ گئی ہے اور مجھے سیڑھیوں سے اوپر جانے کو کہا۔ سیڑھیوں پر بہت زیادہ لوگ تھے۔ مَیں پہلی منزل پر رُک گیا مگر وہاں بہت زیادہ رش کی وجہ سے سخت گرمی اور حبس تھا جس کی وجہ سے سانس لینے میں مشکل ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہاں دروازے کے قریب گرنیڈ پھٹا تو زوردار دھماکا ہوا اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔کسی نے کہا کہ اوپر چلے جاؤ تو مَیں اَور اوپر چلاگیا۔ وہاں جگہ ذرا کھلی تھی اور کچھ زخمی بھی لیٹے ہوئے تھے۔ کسی نے مجھے رومال دیا کہ ان زخمیوں کو ہوا دو۔ جو مَیں آخر وقت تک دیتا رہا۔ ہم سب دعائیں کررہے تھے۔ بہت دیر کے بعد نیچے سے آواز آئی کہ ایک ایک کرکے آرام آرام سے نیچے آجائیں۔ ایک بزرگ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ مَیں نے بتایا کہ میرے ابّو تو زخمی تھےوہ تو ہسپتال چلے گئے ہوں گے۔انہوں نے کہا مَیں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔ جب ہم باہر نکلے تو ہمیں ماموں وغیرہ نظر آئے جو مجھے گھر لے گئے۔ اس واقعے کے بعد بھی مَیں باقاعدگی سے جمعہ پڑھنے جاتا ہوں اور مجھے بالکل ڈر نہیں لگتا۔