الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
………………………………………………………………
تحریک جدید ۔ ایک الٰہی تحریک
ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ مارچ 2012ء میں مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب کے قلم سے تحریک جدید کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ اس جامع مضمون میں شامل حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
٭ ‘‘مبارک ہیں وہ جو بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ اُن کا نام ادب اور احترام سے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور خداتعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزّت کا مقام پائیں گے۔’’
(الفضل 30نومبر 1939ء)
٭ ‘‘یاد رکھو تحریک جدید اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایسا موقع نہ سینکڑوں سال پہلے کسی کو ملا ہے نہ آئندہ ملے گا۔’’ (الفضل 17دسمبر 1945ء)
٭ ‘‘تم جانتے ہو کہ تمہیں کس کی آواز بلا رہی ہے؟ میری نہیں، کسی اَور انسان کی نہیں، کسی اَور بشر کی نہیں۔ بلکہ عرش پر بیٹھے ہوئے خدا نے ایک آواز بلند کی ہے۔ تمہیں پیدا کرنے والا ربّ تمہیں اپنے دین کی قربانی کے لئے بلاتا ہے۔’’
(الفضل 5فروری 1946ء)
٭ ‘‘خداتعالیٰ نے تمہارے اندر ایسی روح پیدا کردی ہے کہ تم نے بہرحال بڑھنا ہے۔ چاہے تمہارا ارادہ اور عزم ساتھ شامل ہو یا نہ ہو۔ پھر جس طرح یہ نہیں ہوسکتا کہ پانچ چھ سال کے بچہ کا لباس آٹھ نو سال کی عمر کے بچہ کو پورا آسکے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ تمہارے پچھلے سال کا چندہ اگلے سال کے لئے کافی ہو۔ جب تک تم اپنے چندے کو پہلے سالوں سے زیادہ نہیں بڑھاؤگے، جب تک تم چندہ دینے والوں کی تعداد ہر سال بڑھاتے نہیں جاؤگے، تمہارا لباس تمہارے جسم پر بے جوڑ معلوم ہوگا۔’’
(الفضل 11دسمبر 1954ء)
٭ ‘‘اگر تم اپنوں اور بیگانوں میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ تم حوصلہ اور ہمت سے کام کرو۔ اگر تم خداتعالیٰ کے رستہ میں خرچ کروگے تو خداتعالیٰ تمہیں اَور دے گا۔ اگر کوئی شخص مالی لحاظ سے یا ایمان کے لحاظ سے کمزور بھی ہو تو اُسے چاہئے کہ بناوٹ سے ہی ساتھ چلتا چلاجائے۔’’
(الفضل 11دسمبر 1954ء)
٭ ‘‘اگر کوئی اپنی مرضی سے کوئی چندہ لکھاتا ہے اور کسی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے عہد کو نباہے خواہ کس قدر ہی تکلیف ہو اور یقین رکھے کہ خداتعالیٰ کے لئے موت قبول کرکے انسان موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ موت سے محفوظ ہو جاتا ہے۔’’
(الفضل 6مئی 1937ء)
………٭………٭………٭………
محترمہ نصیرن بدولہ صاحبہ۔ سرینام
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 5؍اکتوبر 2012ء میں مکرم لئیق احمد مشتاق صاحب مربی سلسلہ نے سرینام کی ابتدائی احمدی خاتون محترمہ نصیرن بدولہ (Nasiran Badoella) صاحبہ اہلیہ محترم حسین بدولہ صاحب (سابق نیشنل صدر جماعت احمدیہ سرینام) کا ذکرخیر کیا ہے جو 23؍ جون 2012ء کو 87 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔
محترمہ نصیرن بدولہ صاحبہ یکم جون 1925ء کو سرینام (جنوبی امریکہ) کے ضلع سرامکہ (Saramacca) میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد حسن محمد صاحب انڈیا سے سرینام آئے تھے۔ سترہ سال کی عمر میں 29؍دسمبر 1956ء کو آپ کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور چھ بیٹوں سے نوازا۔
8؍نومبر 1965ء کو سرینام میں احمدیت کا پودا لگا۔ اُس وقت محترم مولانا محمد اسحاق ساقی صاحب اور محترم مولانا شیخ رشید احمد اسحاق صاحب شہر میں جگہ بجگہ مجالس سوال و جواب اور جلسے منعقد کر رہے تھے۔ اسی حوالہ سے اہلِ پیغام کے ایک مرکز میں منعقد ہونے والی نشست میں محترمہ نصیرن بدولہ صاحبہ اپنے بڑے بیٹے مکرم عثمان احمد بدولہ صاحب کے ہمراہ شامل ہوئیں۔ یہاں مجلس میں شرکت کرنے کے بعد کتاب ‘‘ایک غلطی کا ازالہ’’ بھی ملی۔ گھر آکر آپ نے ایک ہی نشست میں یہ کتاب دو بار پڑھ لی۔ رات بھر نیند نہ آئی اور پھر اگلی صبح 11 یا 12 نومبر 1956ء کو آپ نے اپنے خاوند سے کہا کہ مَیں تو احمدی ہوگئی ہوں، آپ خود جانیں آپ نے کیا کرنا ہے۔
قبول احمدیت کے بعد آپ صدق دل سے ایمان پر قائم رہیں۔ اپنی ذاتی زمین پر پہلی احمدیہ مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لئے آپ نے اپنے خاوند کے شانہ بشانہ تعمیراتی کام کیا اور اضافی مالی مدد مہیا کرنے کے لئے کپڑوں کی سلائی بھی کرتی رہیں۔ جون 1961ء میں اس مسجد کی بنیاد مکرم مولانا شیخ رشید احمد اسحق صاحب نے رکھی اور اپریل 1971ء میں اس کا افتتاح مکرم فضل الٰہی بشیر صاحب نے کیا۔ سرینام میں جماعت کے استحکام کے لئے آپ میاں بیوی نے ہر مخالفت کا انتہائی صبر اور اولوالعزمی سے مقابلہ کیا۔ متعدّد مبلغین کی لمبے عرصہ تک اپنے گھر میں خدمت کی توفیق پائی۔ آپ انتہائی نڈر تھیں۔ 1968ء میں ایک مجلس پر بیسیوں شرپسندوں نے احمدیوں پر حملہ کردیا تو آپ نے انتہائی جرأت کے ساتھ مردانہ وار اُن کا مقابلہ کیا۔
طویل عرصہ تک سرینام کی لجنہ اماء اللہ کی صدر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ 1980ء اور 1983ء میں سرینام میں ہونے والے کریبین ممالک کے جلسوں کے لئے مہمانوں کے لئے ذاتی خرچ پر مرغیاں پالیں اور مہمانوں کے لئے اپنی نگرانی میں کھانا تیار کرواتی رہیں۔ متعدّد افراد کو قرآن مجید پڑھنا سکھایا، بچوں کو نماز اور دینی مسائل سکھانے کا انتہائی شوق تھا۔ 1980ء میں پہلی بار اپنے خاوند، ایک بیٹے اوربہو کے ساتھ قادیان اور ربوہ کی زیارت کی، جلسہ سالانہ میں شامل ہوئیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ بعدازاں کئی بار قادیان، ربوہ اور لندن کے جلسوں میں شامل ہوئیں۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور سینکڑوں لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ نماز کی پابندی، چندوں کی بروقت ادائیگی اور جماعت کی ضروریات کے لئے کھلے دل سے خرچ کرتی تھیں۔ ہر عید الفطر کے دن ساری جماعت کے لئے گھر سے سویّاں تیار کرکے لاتی رہیں۔ رنگ و نسل اور مذہب کی تمیز کے بغیر صدقہ کرتیں اور ضرورتمندوں کی کھلے دل سے مدد کرتیں۔ شہر سے دُور ایک وسیع ٹکڑا زمین کا خرید کر سینکڑوں جانور پالے ہوئے تھے۔ متعدد لوگوں کو جانور تحفہ میں دیئے اور بیسیوں افراد کو گھر بنانے کے لئے اپنی زمین انتہائی مناسب قیمت پر فروخت کی اور بعض کو مالی مدد بھی کی۔ آپ چونکہ ایک مالدار اور صاحبِ جائیداد خاتون تھیں۔ اس لئے کئی بار جرائم پیشہ افراد کی طرف سے آپ کو شدید مالی نقصان پہنچایا گیا اور جسمانی اذیّت بھی دی گئی لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو نوازتا چلا گیا۔ وفات سے چند سال قبل آپ سرینام سے ہالینڈ منتقل ہوگئی تھیں ۔
………٭………٭………٭………
ٹوساں (Tucson) اری زونا کی سیر
ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا اپریل 2012ء میں مکرمہ فرخ دلدار صاحبہ کے قلم سے امریکہ کے جنوب میں واقع ریاست Arizona کے دوسرے بڑے شہر ٹوساں (Tucson) کی سیر کا احوال شائع ہوا ہے جو کالے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔
Arizona امریکی کاؤبوائز اور Yankees کی سرزمین کہلاتی ہے۔جھاڑیاں اور کیکٹس یہاں کی سوغات ہیں۔ علاقہ میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ آبادی میں سفیدفام اقلیت میں جبکہ ریڈانڈین زیادہ ہیں۔ تین ثقافتوں (انڈین، ہسپینک اور اینگلو کلچرز) سے مزیّن یہ شہر سیاحوں کے لئے بہت پُرکشش ہے۔ غروب آفتاب کے وقت سُرخ، جامنی، قرمزی رَوپہلی روشنیاں دیر تک آسمان کو روشن رکھتی ہیں۔ Old Dust Trail نامی ایک گاؤں میں پرانے زمانہ کا ماحول بنایا گیا تھا یعنی پرانی گاڑیاں، چھکڑے، لوہار کی دوکان، اسلحہ کی دوکان، شیرف (Shariff) کا دفتر، پَن چکّی اور سونا چھاننے والی چھلنیاں، ایک جنرل سٹور اور ہوٹل۔ نیز ایک اوپن ایئر سٹیج ڈرامے کی طرز پر کاؤ بوائز کی لُوٹ مار، اُن کی آپس کی لڑائی اور پھر پولیس مقابلہ بھی دکھایا گیا تھا۔
ٹوساں کی ایک مقبول سیرگاہ اونچے پہاڑوں کے درمیان قدرتی طور پر محفوظ کی گئی ہے۔ درمیان میں بہنے والی ٹھنڈے پانی کی ندی سات جگہ آبشاریں بناتی ہیں اور کسی کسی جگہ چھوٹے چھوٹے تیراکی کے تالاب بناتی ہے جو صحرائی لوگوں کے لیے نعمت غیرمترقبہ ہے۔ پہاڑوں پر کیکٹس کا جنگل ہے اور غاروں میں شیر اور دیگر جانور رہتے ہیں۔ ایک شٹل جو پہاڑوں کے درمیان سیر کیلئے چلائی گئی ہے اس کے مسافروں کو روانگی سے پہلے بتادیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر اس سیر کے لیے جارہے ہیں۔
اس علاقہ میں ‘ڈائمنڈ ریٹل سانپ’ بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کی دُم ایک خاص قسم کی سخت جلد سے بنی ہوتی ہے جسے وہ حملہ کرتے وقت ہلاکر شور مچاتا ہے۔اس سانپ کو مارنے یا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں سوائے اس کے کہ یہ کاٹ لے۔ ورنہ متعلّقہ محکمہ کو اطلاع دیں تو وہ پکڑ کر جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ شہر کے وسط میں ایک پُل اس سانپ کی شکل کا بنایا گیا ہے۔ پرندوں کی بہت سی قسمیں نظر آتی ہیں جن میں عقاب بھی شامل ہیں۔
ٹوساں میں جماعت احمدیہ کی بنیاد مکرم ڈاکٹر ظفراحمد بریلوی صاحب نے رکھی اور یہاں احمدیہ مسجد بھی تعمیر کی۔ آپ نے اپنی فیملی کے بعض افراد کو سپانسر کرکے مسجد کے آس پاس آباد کیا۔ اس وقت آپ کی بنائی ہوئی دو جڑواں مساجد (جن میں دفاتر بھی قائم ہیں) اور اُن کے ساتھ تین عدد گھر جماعت کے لیے وقف ہیں۔
مسجد میں ہماری ملاقات ایک امریکن سفید فام خاتون مکرمہ نصرت صاحبہ سے بھی ہوئی جنہوں نے خود احمدیت قبول کی تھی۔ وہ دہلی سے ہندی میں ایم اے کرچکی تھیں اور شستہ اردو میں گفتگو کرسکتی تھیں۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ جنوری 2012ء میںمکرم عبدالسلام اسلام صاحب کی ایک طویل نظم ‘‘تحریک جدید’’ کے منتخب اشعار شائع ہوئے ہیں۔ ان اشعار میں سے ایک انتخاب ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے:
یہی تحریک آخر منزل مقصود پر اُتری
ز القائے خداوندی دلِ محمود پر اُتری
وہ گھر جس کی تباہی چاہتے تھے ہر گھڑی دشمن
نئی رونق لئے اس خانۂ محسود پر اُتری
یہ شمع ایزدی ہر سو اُجالا کرنے والی تھی
میرے محمود کا یہ بول بالا کرنے والی تھی
یہ مہدی کی نگہبانی میں کردار مسلسل ہے
یہ تعمیرِ جہانِ نَو کی معمار مسلسل ہے
خلافت مبدا ہے انوار کا آفاق کے اندر
برائے انتشارِ نُور یہ کارِ مسلسل ہے
یہی تحریک ہے اقوام کے اقبال کا تارہ
یہ نوعِ بشر کے حال و استقبال کا تارہ
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 26 جولائی 2012ء میں مکرم عبدالصمد قریشی صاحب کی رمضان المبارک کے حوالہ سے ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
خدا کے فضلوں کی برسات لے کے آیا ہے
یہ رنگ و نُور کی سوغات لے کے آیا ہے
اُتر رہے ہیں فلک سے یہ ارمغاں کیا کیا
یہ ماہِ خاص کرامات لے کے آیا ہے
لو ہو رہا ہے شب و روز رحمتوں کا نزول
قدم قدم پہ یہ برکات لے کے آیا ہے
سرور و کیف میں ڈوبے ہوئے ہیں اہلِ وفا
یہ جذب و عشق کے جذبات لے کے آیا ہے
جو ایک رات ہے افضل ہزار راتوں سے
ہاں بامرادوں کی وہ رات لے کے آیا ہے