عید کی حقیقی خوشیاں
عید کے نا م کے سا تھ ہی چہروں پر چمک آجا تی ہے، خوشی وانبساط سے اطرا ف کا ما حول خوش کن نظر آ رہا ہو تا ہے چہا ر جانب بچو ں کی پکاریں، رنگ برنگے پیرہن، خوشبو میں رچے بسے پکوان، میل ملاپ سلام دعا، عید کی خوشیوں کو دوبالا کررہے ہوتے ہیں۔ کیا امیر کیا غریب، سب اپنی اپنی استعداد کے مطابق عید کی خوشیاں منانے میں مگن نظر آتے ہیں۔
لغت میں عید سے مراد
لغت میں عید سے مراد لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا اور پھر آنے کے ہیں۔ عید کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز کو عید کہتے ہیں۔ یعنی عید اس واقعہ کو کہتے ہیں جو بار بار آئے اور پھر خوشی کا موجب ہو۔عیدا لفطر اس لیے منائی جاتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ماہِ رمضان کی خصوصی عبادات بجا لانے کی توفیق عطا کی۔ قیام لیل کی بھی، دن کے روزوں کی بھی اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی بھی توفیق عطافرمائی۔
اسوۂ نبویﷺ
عید کے دن نبی کریمﷺ بھی خاص صفائی کا اہتمام فرماتے تھے، غسل فرماتے، مسواک اور خوشبو کا استعمال کرتے اور زیادہ قیمتی لباس زیب تن فرماتے اگر میسر ہوں تو نئے کپڑے پہنتے۔ مسلمانوں کے اس قومی مذہبی تہوار میں شمولیت کے لیے آنحضرتﷺ خاص تحریک فرماتے تھے۔ آپﷺ کا معمول تھا کہ ایک راستے سے عید گاہ میں تشریف لاتے اور دوسرےراستے سے واپس تشریف لےجاتے تاکہ مسلمانوں کے تہوار کی عظمت لوگوں پر ظاہر ہو اور باہم بھی ملاقات اور خوشی کےزیادہ مواقع میسرا ٓئیں۔عید کے دن کھیل اور ورزشی مقابلے بھی ہوتے تھے۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدین کے دن خوشی و مسرت کے دن ہیں، اور ان ایام کےلیے کچھ عبادات، آداب اور عادات مختص بھی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں : غسل کرنا، اگر میسر ہوں تو نئے کپڑے زیب تن کرنا یا پھر صاف کپڑے پہننا، خوشبو لگانا تکبیرات کہنا، رشتہ داروں سے ملاقاتیں اور عید نماز کےلیے آتے جاتے راستہ تبدیل کرنے کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات ہو۔ مبارک باد دینا، کھانے پینے کا اہتمام، جائز تفریح کرنا، غرباءء کی مدد اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونا وغیرہ۔
ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام عیدوں کی حقیقت کو سمجھنے اور ان دنوں میں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سوچ کر بتلاؤ کہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جو اپنے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ327)
عید جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کے سامنے جھکنے اور اس کا شکر ادا کرنے کا اور اپنے نفسوں کو پاک کرنے کا دن ہے وہاں یہ ایک خوشی کا دن بھی ہے۔اس لیے جو لوگ مالی وسعت رکھتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ نئے اور قیمتی لباس پہن سکتے ہیں۔اوران کے گھروں میں اچھے اچھے کھانے پک رہے ہوتے ہیں اُن کا یہ بھی فرض ہے کہ اس موقع پر اپنے ان بھائیوں کا بھی خیال رکھیں جو مالی وسعت نہ رکھنے کی وجہ سے نہ تو عمدہ کھانے تیار کر سکتے ہیں اور نہ ہی نئے کپڑے بنا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پس امیر لوگوں پر فرض ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں۔
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بنی نوع انسان پر شفقت اور ان سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ438)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں:
’’آج کے دن ہر ایک پر لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے۔‘‘
(الحکم 17؍نومبر1908ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:
’’میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پر ایسا فضل نازل کرے تاکہ ہم میں سے ہرشخص کو حقیقی عید میسر ہو، کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہ صرف اپنے لئے عید منائیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی جو مصائب اور دکھوں میں گرفتار ہیں عید کا سامان مہیا کریں‘‘
(خطباتِ محمود جلد1صفحہ146)
پھر حقیقی عید کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے بھی غرباءء کی فلاح اور بہبود کے لئے خرچ کرو۔یہ روح جس دن مسلمانوں میں پیدا ہو گی در حقیقت وہی دن ان کے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا۔کیونکہ رمضان نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ تمہارے گھر میں دولت تو ہو مگر اپنے لئے خرچ نہ کرو بلکہ دوسروں کے لئے کرو۔‘‘
(خطباتِ محمود جلد1صفحہ342)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں :
’’غریب کا دل بہت بڑاہوتاہے جب وہ امیر بھائی کو اپنے پاس آتا دیکھتاہے تووہی خوشی اس کی عید بنا دیتی ہے۔پس آپ اپنے بھائیوں کی عید بنائیں۔‘‘
(خطبہ عید الفطر8 ؍جنوری 2000ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں :
’’عیدالفطر، تمہیں یہ بھی یاد دلاتی ہیں کہ اگر تم چاہو تو ہر روز تمہارے لئے عید بن سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو ہر روز اوّاب کی حیثیت میں میرے حضور آسکتے ہو اور اگر تم چاہو اور اس طرح میرے سامنے آؤ تو پھر میں توّاب کی حیثیت میں تم پر ایک نیا جلوہ نئی شان کے ساتھ کروں گا اور تمہارے لئے ایک نئی عید پیدا کروں گا ‘‘
(خطبہ عیدالفطر2؍جنوری 1968ء)
فرمایا:
’’عید جہاں ہمارے لئے انتہائی خوشی اور مسرت کا دن ہے (کیونکہ خداتعالیٰ کہتا ہے کہ آج میرے کہنے پر تم خوشی مناؤ، کھاؤ اور پیو) وہاں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ ناشکری نہ کرنا۔ اگر تم میرے کہنے پر خوشی مناتے اور کھاتے پیتے ہو تو میرے کہنے پر اس بات کو بھی یاد رکھو کہ یہ عید سال میں ایک بار نہیں آتی بلکہ اگر تم چاہو تو تم اپنے ہر دن کو عید کا دن بناسکتے ہو۔ اگر تم اس دن کی ذمہ داریوں کو نباہوگے تو تم اللہ تعالیٰ کا مزید قرب حاصل کرو گے اور تمہاری دنیوی اور اخروی مسرتوں کے مزید سامان پیدا کئے جائیں گے اور تم روحانی میدانوں میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے چلے جاؤ گے۔ خدا کرے کہ ہمارا ہر دن ہی عید کا دن ہو اور ہر روز ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا اور محبت کو حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جو ذمہ داریاں وہ ہم پر ڈال رہا ہے۔ ہم انہیں اس طرح نباہیں کہ وہ ہم سے خوش ہوجائے…ا للہ تعالیٰ کی تعلیم پر ہم غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دنیوی خوشی اور عید وہی ہے جو خداتعالیٰ کے کہنے پر منائی جائے۔ اسی میں خیر ہے۔ اسی میں برکت ہے اور جب ہمیں خداتعالیٰ کہتا ہے کہ خوش ہوجاؤ اور خوشی سے اچھلو تو ہمارا کام ہے کہ ہم خوش ہوں اور ہماری طبیعتوں میں بشاشت پیدا ہو اور ہم خوشی سے اچھلیں۔ جب ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ کھاؤ اور پیو تو ہمارے لئے یہ فرض ہے کہ ہم اس کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے کھائیں بھی اور پئیں بھی اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کھلائیں اور پلائیں اور اس کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ تو ظاہر ہی ہے۔ اس کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ سارا رمضان ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری خوشیوں اور مسرتوں کا سامان صرف اس چیز میں ہے کہ جب میں کہوں کھانا چھوڑ دو تو تم کھانا چھوڑ دو اور جب میں کھانا کھانے کی اجازت دوں تو تم کھانا کھانے لگ جاؤ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے لئے ہر قسم کی خوشیاں اور مسرتیں پیدا کردی جائیں گی۔ خدا کرے کہ ساری ہی مسرتیں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے پیدا کرتا چلا جائے۔ اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں۔‘‘
( خطبہ عید الفطر 22؍دسمبر1968ء)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’عید کے دن ہر احمدی اپنے ماحول میں جائزہ لے اور ضرورت مندوں کا خیال کرے۔یہ عمل خدا کے فضل سے ذاتی اور جماعتی سطح پر ہو رہا ہے لیکن ابھی بہت گنجائش موجود ہے۔یہ کام اچھا کھلانے اور پہنانے تک ہی ختم نہیں کرنا جس طرح عید کے دن ان کا خیال رکھا جا رہا ہے ان رابطوں کو توڑنا نہیں بلکہ ان پر نظر رکھیں، خود بھی ان کا دھیان رکھیں اور نظام کو بھی مطلع کریں۔ان کو کام پر لگائیں، ان کی ہمت بندھائیں۔یہ ان پر جاری احسان ہو گا۔اس طرح کم استطاعت والوں کو اُٹھانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اگلے سال عید پر دوسروں کی مدد کر رہا ہو۔اس طرح پر معاشی استحکام سے اخلاقی معیار بھی بلند ہوں گے اور پاکیزہ معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔‘‘
(خطبہ عید الفطر 26؍نومبر2003ء)
عید پر بوریت کی وجہ اور اس کا حل
اس اعتراض پر کہ ہماری عید بہت بور عید ہوتی ہے، سو کر گزارتے ہیں یا اکتاہٹ پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ
’’ہر وہ چیز جو مقصدسے ہٹ کر دیکھی جائے یا کی جائے اس میں بوریت پیدا ہو جاتی ہے۔آپ اگر ہاکی کا میچ دیکھنے جائیں اور وہا ں ڈوم میرا ثی ناچ رہے ہوں اور آپ کو کہا جائے کہ بہت اچھا میچ ہونے والا ہے انتظار کریں آپ یہ ناچ دیکھیں تو ہو سکتا ہے ہاکی کی فیلڈ پر پتھراؤ ہو جائے، وہی لوگ جو پہلے شوق سے یہ ناچ دیکھا کرتے تھے ان کو ا تنا غصہ آئے کہ ہاکی کا میچ بھی کینسل کرنا پڑے اتنا ہنگامہ پیدا ہو جائے۔ ہاکی کے میچ کے لئے بلایا گیا ہو اور کرکٹ شروع کر دیا جائے توکرکٹ کے شائقین بھی لعنتیں ڈالیں گے کہ جو چیز ہم دیکھنے آئے ہیں وہ تو دکھاؤ۔تو بوریت کی بہت سی قسموں میں سے ایک یہ بھی قسم ہے کہ مقصد کو پورا نہ کیا جائے، اس کی بجائے کچھ اور ہو جائے تو اس سے بوریت پیدا ہوتی ہے…تومعلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عید کا مقصد پورا نہیں ہورہا۔اگر بوریت پائی جاتی ہے تواللہ کچھ اور عید دکھانا چاہتا ہے آپ کچھ اور عید دیکھ رہے ہیں اور نہیں سمجھ رہے کہ یہ کیا قصہ ہے۔آپ کی توقعات دوسری سمت میں ہیں اوراللہ نے اور طرح کی عید مقرر فرمائی ہوئی ہے۔ نتیجۃً آپ عید کو قصوروار نہیں کہہ سکتے، اپنی عقل اوراپنی فہم کو قصور وار کہہ سکتے ہیں جو نہیں سمجھے تھے کہ خدا کیا دکھا نا چاہتا ہے؟ کچھ اور دیکھنے گئے۔ دنیا داروں کی عیدیں دیکھیں اور سمجھے کہ یہ عید محمد مصطفیٰﷺ کی عید بھی ہوگی حالانکہ شتّان بینہما، زمین و آسمان کا فرق ہے دنیا کی عیدوں میں اور اس عید میں جو حضرت محمد مصطفیﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق ہمیں عطا کی۔اس عید کو سمجھنا ہو تو اس درخت کو سمجھیں جس کا یہ پھل ہے اوروہ درخت شجرِرمضان ہے۔جیسے درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ویسے پھل بھی اپنے درخت سے پہچاناجاتا ہے۔کبھی پھل مدد کرتا ہے درخت کو پہچاننے میں اور کبھی درخت مدد کیا کرتا ہے بتانے میں کہ یہ پھل لگنا تھا۔تو اگر پھل کی سمجھ نہیں آرہی تو درخت کو جانچو اور سوچو کہ اس کے او پر کس قسم کا پھل لگنا چاہئے تھا؟
رمضان مبارک کے دوگہرے سبق ہیں اور اسباق کے علاوہ جوخلاصہ ہیں رمضان کا اور ہر مذہب کا۔ ایک ان میں سے عبا دت الٰہی ہے اور ایک ہے بنی نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی اور پیار اور خدمت خلق اوران کے دکھوں میں شریک ہونااور ان کے سُکھوں میں شریک ہونا ہے۔ یہ دو گہرے سبق ہیں جو رمضان ہمارے لئے لے کر آتا ہے۔اس درخت کے اوپر اگر عبادت کے سوا کوئی اور پھل لگا ہوا آپ دیکھیں گے اوراپنی توقع کے مطابق اس پھل سے لذت حا صل کرنے کی کوشش کریں گے توسخت ما یو سی ہوگی۔اس پر تو عبادت کا پھل لگنا چاہئے اور عبادت کا پھل سمجھ کر جب آپ عید منائیں گے تو پھر آپ کو لذت آئے گی۔اس عید پر تو خدمت خلق کا پھل لگنا چاہئے۔ اگر آپ اس کے سوا کچھ اور غرضیں لے کر اس عید میں داخل ہو ں گے تو سخت بور ہوں گے۔اگر یہ ہا ل ہوتا اورکرسیاں ہوتیں تو یقینا ًکرسیاں ٹوٹ جاتیں اس لئے کہ آپ نہیں سمجھتے کہ اس عید کا مقصد کیا ہے؟ ایک مہینہ مسلسل آپ کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے طریق بتائے، عبادت کاذوق پیدا کیا، پانچ عبادتیں جو نہیں کرتے تھے ان کو پانچ عبادتوں کی عادت ڈالی، جو راتوں کو نہیں اٹھ سکتے تھے ان کو راتوں کو اٹھنا سکھایا اور اللہ کے لئے اپنے سارے وجود کو سجدہ ریز کرنے کا سبق دیا۔ تیس دن یہ سبق جس کو ملا ہو اس کی عید یہ تو نہیں ہو سکتی کہ اس سبق کو بھلا دو تو یہ تمہاری عید ہے…دوسرا پہلوعید کا خدمت خلق ہے۔غریب کے دکھ میں شریک ہونا اس کا دکھ بانٹنا، اپناسکھ اس کے ساتھ تقسیم کرنا…رمضان میں ایک بڑا گہرا سبق پایا جاتا ہے اور رو زہ کے اندراور حکمتوں کے علاوہ یہ ایک بڑی گہری حکمت ہے کہ امراء بھی غریبوں کے دکھ کو سمجھنے کے اہل ہو سکیں۔ان تلخیوں میں سے گزرسکیں جن تلخیوں میں سے بعض غرباء ء ہمیشہ گزرتے ہیں اور وہ پھر ایک طرف تو خدا کا شکر کریں کہ یہ ایک مہینہ جو ہم نے گزارہ ہے ہمارے بعض بھائی ایسے ہیں جن کے بارہ مہینے اسی طرح گزرتے ہیں اور پھر اس شکر کے ساتھ ان کے بارہ مہینے کے دکھ آسان کرنے کی کوشش کریں۔یہ وہ دوسرا سبق ہے جو رمضان شریف نے ہمیں عطا کیا۔
تولازماً اس عید میں بھی خدمت خلق کا پھل لگنا چاہئے۔یہ دوسرا میٹھا پھل ہے جو اس عید کو عطا ہونا چاہئے قدرتی طور پرلیکن اگر آپ اس پھل کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں اور اپنی لذتیں دوسری جگہ ڈھونڈیں تو یقینا ًبور ہو ں گے کیونکہ یہ بات مقصد سے ہٹ کر کرنے والی ہے۔اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ پیٹ خراب ہو رہے ہیں، مصیبت پڑی ہوئی ہے، بور ہو رہے ہیں انہی گھروں میں اپنے رشتہ داروں کے جا جا کر جن گھروں میں ہمیشہ جاتے تھے …اس نقطہ نگاہ سے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کے دن امراء اپنے غریب بھائیوں کے گھروں میں جائیں اور وہ تحفے جو آپس میں بانٹتے ہیں آپس میں ضرور کچھ نہ کچھ بانٹیں کیونکہ حق ہے یہ ذی ا لقربیٰ کا بھی حق ہے، دوستوں کا بھی حق ہے وہ حقوق ادا ہونے چاہئیں لیکن ایک حق جو آپ مار کر بیٹھ گئے ہیں جب تک وہ حق ادا نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
(خطبہ عیدالفطر12؍جولائی 1983ء)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’عید کا دن ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے اور یاد کروانے والا ہونا چاہئے کہ جن نیکیوں کے مزے ہم نے ایک مہینے میں چکھے ان کو ہم نے جاری رکھنا ہے۔ ان باتوں جن کی طرف عموماً ہماری رمضان کے مہینے میں توجہ رہتی ہے، ان میں عبادتیں بھی ہیں اور صدقات اور مالی قربانیاں اور حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی ہے یہ باتیں اب اجتماعی طور پر ایک خاص ماحول کے تحت کرنے کا عرصہ تو ختم ہو گیا لیکن ایک مومن کی حقیقی ذمہ داری اور مقام یہی ہے کہ نیکیوں کو نہ صرف جاری رکھے بلکہ ان میں بڑھے‘‘
(خطبہ عید الفطر فرمودہ 16؍جون 2018ء)
ان اقتباسات سے واضح ہوتاہے کہ ہماری عید تبھی حقیقی عید ہو گی جب ہم دکھی انسانیت کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔
پس اس لحاظ سے ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے دلوں کو صاف کریں، ندامت کے آنسوؤں سے دلوں میں جمی بے حسی کو دھو ڈالیں۔ اگر والدین حیات ہیں تو ان کی خدمت کریں۔ اپنے بہن بھائی اور دیگر عزیز رشتہ داروں سے محبت کے ساتھ پیش آئیں۔ دُور رہنے والوں کو فون کر کے حال احوال پوچھیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ اس وباکے دَور میں جتنا احتیاطی تدبیر کرتے ہوئے کسی کی خوشیوں میں شریک ہوا جا سکتا ہے ہونے کی کوشش کی جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر احمدی کو حقیقی عید نصیب فرمائے ایسی عید جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں اور اللہ کے بندوں میں بھی خوشیاں بکھیر رہے ہوں۔ اٰمین ثم اٰمین۔
٭…٭…٭