شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا بیان
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ۔ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ (سورۃ الرحمٰن:27-28)
وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ۔ کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ۔ (سورۃ الانبیاء:35-36)
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ(سورۃآل عمران:145)
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے مہدی کومسیح موعود کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ… یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّی۔ وَ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔‘‘
اے عیسیٰ مَیں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گا۔ یعنی تیرے مخالف تیرے قتل پر قادر نہیں ہوسکیں گے اور مَیں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ یعنی دلائل واضحہ سے اور کھُلے کھُلے نشانوں سے ثابت کردوں گا کہ تُو میرے مقر ّبوں میں سے ہے اور اُن تمام الزاموں سے تجھے پاک کروں گا جو تیرے پر منکر لوگ لگاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے تیرے پَیرو ہوں گے مَیں اُن کو اُن دوسرے گروہ پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دُوں گا۔ جو تیرے مخالف ہوں …پر خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا۔ گو لوگ نہ بچاویں۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے۔ یعنی جو لوگ گالیاں نکالتے ہیں ان کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں۔
(تذکرہ:ص316)
حضرت ام المومنینؓ کی طبیعت کچھ ناساز تھی اورخیال تھا کسی ماہر لیڈی ڈاکٹر سے علاج کروایاجائے۔ حضورعلیہ السلام نے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے فرمایا کہ مجھے ایک کام درپیش ہے دعاکرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا۔ چنانچہ انہوں نے رویا میں دیکھا کہ ’’وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں۔‘‘دوسرے دن حضرت سیدہ نے حضور کو یہ خواب سنائی تو حضرت اقدس علیہ السلام نے ارشاد فرمایا‘‘یہ خواب اپنی اماں کو نہ سنانا۔ گویا یہ خواب ایک تقدیرالٰہی کی طرف صاف اشارہ تھا۔ اس خواب کے علاوہ 26؍اپریل 1908ء بوقت چار بجے صبح یعنی تیاری سے صرف ایک روز قبل خود حضرت اقدس علیہ السلام پر الہام بھی ہوا۔ ’’مباش ایمن ازبازیٔ روزگار(تذکرہ:638) زمانے کے کھیل سے بے خوف نہ رہ۔‘‘
ان متواتر الہامات، رؤیا اور آسمانی خبروں کی بنا پر غالب قیاس ہے کہ حضورعلیہ السلام کو احساس ہو چکا تھا کہ یہ سفر حضور کا آخری سفرثابت ہونے والا ہے۔ اور حضورؑ اپنے عمل اور بعض دوسرے اشاروں سے اس خدائی تقدیرکے لئے اپنی جماعت کو، اپنے پیارے عشاق کو تیار بھی کر رہے تھے۔ چنانچہ روانگی سے قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے وہ حجرہ بند کیا جس میں آخری عمر میں حضور تصنیف فرمایا کرتے تھے۔ حضور نے یہ حجرہ بند کرتے ہوئے کسی کو مخاطب کرنے کے بغیر فرمایا ’’اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے‘‘۔
حضور علیہ السلام 27؍ اپریل 1908ء کی صبح کو قادیان سے بٹالہ روانہ ہوگئے۔ حضورعلیہ السلام کے ہمراہ اس سفر میں گیارہ افراد تھے۔ بٹالہ پہنچے تو خلاف توقع ریزروگاڑی نہ مل سکی۔ حضور اقدس علیہ السلام نے ریزروگاڑی کے انتظار میں ایک روز قیام فرمایا۔
ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی سرائے مائی اچھراں دیوی ریلوے روڈ میں قیام فرمایا۔ یہ سرائے خاکسار نے اپنی اہلیہ امۃ القیوم سعدیہ کے ساتھ دیکھی ہے۔ اس سرائے کے دروازے پرتحریر ہے کہ اس کی بنیاد15؍اگست 1893ء کورکھی گئی تھی۔ سرائے کا دروازہ سڑک پرہی کھلتا ہے۔ اصحاب احمد جلد9 ص 197کے مطابق سرائے کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب سے جو سیڑھیاں اوپرجاتی ہیں دوسری منزل کا یہی کمرہ جہاں جا کر یہ سیڑھیاں ختم ہوتی ہیں اسی کمرے میں حضورؑ نے قیام فرمایا تھا۔
27اور 28دو دن حضورکا قیام بٹالہ میں اور اسی سرائے میں رہا۔ یہ دو دن حضورؑ مختلف جگہوں پر سیرکے لئے تشریف لے جاتے رہے۔ پہلے روزحضرت ام المومنین کے ہمراہ حضور علی وال تشریف لے گئے اور شام کو واپسی ہوئی۔ بہرحال دو دنوں کے بعد ریزرویشن ممکن ہوئی تو تیسرے روز 29؍ اپریل 1908ء کو بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہوئے۔ اور بخیریت لاہور پہنچ گئے۔ لاہور میں حضورعلیہ السلام ابتدا ءً خواجہ کمال الدین صاحب بی اے، ایل ایل بی وکیل چیف کورٹ کے مکان واقع کیلیانوالی سڑک متصل موجودہ اسلامیہ کالج لاہور میں فروکش ہوئے۔ اسی مکان کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اسسٹنٹ کیمیکل ایگزیمیز پنجاب کامکان تھا۔ اس مکان میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓاور ان کے اہل خانہ رہائش پذیرہوئے۔ البتہ 10/12 روز کے بعد 9؍مئی کوجب حضوراقدسؑ کوالہام ہوا
الرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ
تو آپؑ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ جس جگہ ہم مقیم ہیں اس میں آپ آجائیں اور ہم آپ والے حصہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ خدانے الہام میں ’’الرَّحِیْلُ‘‘ فرمایا ہے جسے ظاہر میں بھی نقل مکانی سے پورا کردینا چاہیے۔ چنانچہ حضورؑ ڈاکٹر صاحب کے مکان میں منتقل ہوگئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول اپنے اہل وعیال کے ساتھ محترم خواجہ صاحب کے مکان میں چلے آئے۔ لیکن
’’اِنَّ الْمَنَایَا لَاتَطِیْشُ سِہَامُہَا‘‘…
کچھ ہی دنوں بعد 17؍مئی کو اس الہام ’’مباش ایمن ازبازئ روزگار‘‘ کادوسرامصرعہ بھی الہام ہوا کہ : ’’مکن تکیہ برعمرناپائیدار‘‘ ناپائدار عمر پر بھروسہ مت کرو۔
رفیق اعلیٰ کے بلاوے پر اب گویا جانے کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں اور حضورؑ جہاں ہرخاص وعام کودعوت حق کاپیغام دیتے ہوئے ’’ھَلْ بَلَّغْتُ‘‘ کی عملی تصویربنے ہوئے تھے تودوسری طرف
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُم
کی مرسلانہ دعوت اورباہمی مودت واتحاد اقوام کے لئے ایک عظیم الشان لیکچر’’پیغام صلح‘‘کی تصنیف میں مصروف تھے۔ 20مئی کو جب کہ حضرت اقدس علیہ السلام‘‘پیغام صلح’’کی تصنیف میں مصروف تھے آخری الہام ہوا کہ
اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ وَالْمَوْتُ قَرِیْبٌ
ترجمہ: یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے، ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اورموت قریب ہے۔
تقدیروں کے اشارے سمجھنے والے سمجھنے لگےتھے کہ رسالہ الوصیۃ کی تحریرات افق پر نمودار ہونے والی ہیں۔ ایک بارحضرت ام المومنین نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض بھی کیا کہ اب قادیان واپس چلیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا اب تو ہم اس وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا۔ اور آپؑ بدستور پیغام صلح کا مضمون لکھنے میں مصروف رہے۔ 25؍مئی کی شام کو آپ نے اس مضمون کو قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپرد کردیا۔
آخری سیر
حضورعلیہ السلام عصر کی نماز سے فارغ ہوکر حسب معمول سیر کےلئے باہر تشریف لائے۔ ایک گھوڑا گاڑی حاضر تھی جوفی گھنٹہ مقررہ شرح کرایہ پر منگائی گئی تھی۔ آپؑ نےحضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی والے سے کہہ دیں اوراچھی طرح سے سمجھادیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ کے کرایہ کے پیسے ہیں وہ ہمیں اتنی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندراندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اورآپ چند میل پھر کر واپس تشریف لے آئے۔ اس سیر میں آپ لارنس گارڈنز اور لاٹ صاحب کی کوٹھی جسے آج کل گورنرہاؤس کہا جاتا ہے اس کے سامنے سے بھی گزرے۔ اس وقت آپ کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قدر ضعف تھا اور غالباً آنے والے حادثہ کے مخفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ربودگی اورانقطاع کی کیفیت طاری تھی۔ چہرے پرایک خاص نورانی چمک تھی جیسے چودھویں کا چاند ہوجس کے گردنورکا ایک ہالہ ہو۔ اس ربودگی اور انقطاع کی کیفیت کا مشاہدہ کرنے والوں نے خاص طورپر اس کاذکرکیا ہے اور اپریل 1900ء میں خطبہ الہامیہ کے وقت جوکیفیت تھی اس کے ساتھ مشابہت دی ہے۔ چنانچہ ان دونوں مواقع کے چشم دید راوی حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی ؓ لکھتے ہیں:
’’آخری دن یعنی 1908-05-25کو جب حضورسیر کے واسطے تشریف لائے توخلاف معمول حضورخاموش اور اداس تھے۔ نیزکوفت اور تکان کے علامات حضورکے چہرہ پرنمایاں نظرآتے تھے اورساری ہی سیر میں حضورایسی حالت میں تشریف فرمارہے۔ گویاکسی دوسرے عالم میں ہیں۔ اور ربودگی وانقطاع کا یہ حال تھا کہ سارے ہی راستہ جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی حضوراسی حالت میں رہے۔ حضورکی اس حالت کے مدنظرسارے ہی قافلہ پرعالم سکوت اوربیم ورجا طاری تھا۔ ایسامعلوم دیتا تھاکہ حضوردنیاومافیہا سے کٹ کر رفیق اعلیٰ کے وصال کا جام شیریں نوش فرمارہے ہیں اوراسی کی یادمیں یہ عالم محویت حضورپرطاری ہے۔ جن دوستوں نے خطبہ الہامیہ کے نزول کامنظردیکھاہواہے وہ آج کی ربودگی وتبتل کوبھی سمجھ سکتے ہیں۔ جوحالت حضورکی اس وقت میں ہوتی تھی اس سے بھی بڑھ کرآج حضوراپنے خدا میں جذب وگم ہورہے تھے۔ کیونکہ خطبہ الہامیہ کے نزول کے دوران میں تومشکل لفظ جب سمجھ میں نہ آتا۔ ہم لوگ لکھنے میں پیچھے رہ جاتے یا بعض جگہ الف یا ع، ق یا ک، زیاذیاض،ظ اور ث، س اور ص وغیرہ کا امتیاز نہ کرسکتے توحضورسے دریافت کرنا پڑتا تھا۔ جس کے بتانے کے لئے حضورگویانیند سے بیدار ہوکریاکسی روحانی عالم سے واپس آکربتاتے تھے اوردوران نزول میں کئی مرتبہ ایساہواتھا۔ مگرآج کی محویت اور ربودگی متواترکم وبیش ایک گھنٹہ جاری رہی اورواپس مکان پرآکرہی حضورنے آنکھ کھولی تھی۔
یہ واقعہ نہ صرف میرا ہی چشم دیدہے بلکہ خاندان کی بیگمات اور ہمرکاب مردوں کے علاوہ مجھے اچھی طرح سے ایک اور ایک دوکی طرح یادہے کہ جب حضور کی گاڑی لارنس گارڈنز اور لاٹ صاحب کی کوٹھی سے کچھ آگے جانب غرب بڑھی تھی تواس موقعہ پردویاتین احمدی دوست لاہورکے سیر کرتے ہوئے وہاں ملے۔ جنہوں نے السلا م علیکم کہی اورحضورکے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ کرتعجب کا اظہار کیا اور اشاروں سے دریافت حال کیا تھا۔ گویا ان دوستوں نے بھی حضورکی اس حالت تبتل وانقطاع کو خلاف معمول سمجھا تھا۔
اور پھرمجھے یہ بھی خوب یادہے کہ دوسرے دن وصال کے بعدانہوں نے یاان میں سے بعض نے آج کے چشم دید واقعہ کاذکرکرکے بیان کیاتھاکہ ’’ہم نے توکل ہی حضورکی حالت سے اندازہ کر لیا تھا کہ حضوراس عالم میں موجود نہیں ہیں۔‘‘
(تتمہ سیرت المہدی جلددوم صفحہ 401-402)
(باقی آئندہ)