ہدایاتِ زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط ششم)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
پانچویں ہدایت
پانچویں بات مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ غلیظ نہ ہو۔ ظاہری غلاظت کے متعلق بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسجد میں کوئی تھوکتا ہے تو یہ ایک غلطی ہے۔ اس کا کفارہ یہ ہے کہ تھوک کو دفن کرے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 173)
حضرت صاحبؑ کی طبیعت میں کتنی بُردباری تھی۔ مگر آپؑ نے اس وجہ سے باہر لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا چھوڑ دیا کہ ایک شخص نے کئی چیزیں ساگ، فرنی، زردہ، شوربا وغیرہ ملا کر کھایا۔ فرماتے تھے کہ اس سے مجھے اتنی نفرت ہوئی کہ قے آنے لگی۔ اس کے بعد آپؑ نے باہر کھانا کھاناچھوڑ دیا۔ اور اس طرح لوگ اس فیض سے محروم ہوگئے جو آپؑ کے ساتھ کھانا کھانے کے وقت انہیں حاصل ہوتا تھا۔
پھر حضرت صاحبؑ فرماتے اور میری طبیعت میں بھی یہ بات ہے کہ اگر استرے سے سر کو منڈوا کر کوئی سامنے آئے تو بہت بُرا لگتا ہے اور مجھے تو اسے دیکھ کر سر درد شروع ہوجاتی ہے تو ظاہری صفائی اور ظاہری حالت کے عمدہ ہونے کی بھی بہت ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہو۔ اور وہ بات کرنا تو الگ رہا دیکھنا بھی نہ چاہیں۔ مگر ظاہری صفائی سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کالر اور نکٹائی وغیرہ لگانی چاہیے اور بال ایک خاص طرز کے بنائے جائیں۔ ان میں سے بعض باتوں کو تو ہم لغو کہیں گے اور بعض کو ناجائز۔ مگر جو ضروری صفائی ہے۔ یعنی کوئی غلاظت نہ لگی ہو یا کوئی بُودار چیز نہ لگی ہو اس کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ ہاں یہ بھی نہ کرے کہ ہر وقت کپڑوں اور جسم کی صفائی میں لگا رہے۔ کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو پھر کام خراب ہوجائے گا۔
چھٹی ہدایت
چھٹی بات مبلغ کے لیے یہ ہے۔ جس میں بہت کوتاہی ہوتی ہے کہ جو مبلغ دورے پر جاتے ہیں وہ خرچ بہت کرتے ہیں۔ میرے نزدیک مبلغ کے لیے صرف یہی جائز ہے کہ وہ کرایہ لے، کھانے کی قیمت لے یا رہائش کے لیے اسے کچھ خرچ کرنا پڑے تو وہ لےگویا میرے نزدیک قُوْتٌ لَا یَمُوْتُ یا ایسے اخراجات جو لازمی طور پر کرنے پڑیں ان سے زیادہ لینا ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ مثلاً مٹھائی وغیرہ یا اور کوئی مزہ کے لیے چیزیں خریدی جائیں تو ان کا خرچ اپنی گِرہ سے دینا چاہیے۔ ہماری حالت اور ہمارے کام کی حالت کی وجہ سے جائز نہیں ہے کہ اس قسم کے اخراجات فنڈ پر ڈالے جائیں۔ میں نے مولوی صاحب کے زمانہ میں دوستوں کے ساتھ دو دفعہ سفر کیا ہے۔ مگر میرے نزدیک دوستوں کی جو زائد چیزیں تھیں ان کا خرچ اپنے پاس سے دیا اور خود اپنا خرچ تو مَیں لیا ہی نہ کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ کئی آدمیوں کے بنارس تک کے خرچ پر صرف ستر روپے خرچ آئے تھے۔ پس جہاں تک ہوسکے مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ بہت کم خرچ کرے۔ کیونکہ یہ نمونہ ہوتا ہے دوسروں کے لیے۔ اگر یہی اسراف کرے گا تو لوگ معترض ہوں گے۔ اگر ایک تنخواہ دار تنخواہ میں سے خرچ کرتا ہے تو اس کا مال ہے وہ کرسکتا ہے۔ لیکن اگر اس طرح کا خرچ ہو جس طرح کا مبلغوں کا ہوتا ہے اور ایک پیسہ بھی اسراف میں لگائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللے تللے خرچ کرتے ہیں۔ اپنی جیب سے تھوڑا ہی نکلنا ہے کہ پرواہ کریں۔ اور جب لوگوں کو اس طرح کے اعتراض کا موقع دیا جائے گا تو وہ چندہ میں سُستی کریں گے۔
ساتویں ہدایت
ساتویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں خودستائی نہ ہو۔ بہت لوگوں کی تباہی کی یہی وجہ ہوئی ہے۔ خواجہ صاحب اپنے لیکچروں کی تعریف خود لکھتے اور دوسروں کی طرف سے شائع کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مولوی صدر الدین صاحب خواجہ صاحب کے ایک لیکچر کی رپورٹ حضرت خلیفہ اول ؓکو سنا رہے تھے کہ مولوی صاحب نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا اس کی پُشت پر لکھا ہوا تھا کہ جہاں جہاں میں نے اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میں نے یہ کہا یا میری نسبت یہ کہا گیا وہاں خواجہ صاحب لکھ کر شائع کرا دیا جائے۔ حضرت مولوی صاحب نے وہ خط پڑھ کر مجھے دے دیا اور مَیں نے اس کی پشت پر یہ ہدایت لکھی ہوئی دیکھی۔ اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ظاہر ہے۔ پس مبلغ کو کبھی اس بات پر زور نہ دینا چاہیےکہ فلاں جگہ مَیں نے یہ بات کہی اور اس کی اس طرح تعریف کی گئی یا اس کا ایسا نتیجہ نکلا کہ مخالف دم بخود ہوگیا۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سنائیں۔ ہم نے یہ بات کہی اور اس کا ایسا اثر ہوا کہ لوگ عش عش کرنے لگے۔ اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ تعریف کریں۔ اس میں شک نہیں کہ اپنے کام کا نتیجہ اور کامیابی سنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جس طرح حضرت صاحبؑ سنایا کرتے تھے۔ مگر یہ انتہائی مقام کی باتیں ہیں ابتدائی حالت کی نہیں۔ پس مبلغوں کو چاہیے کہ اپنے لیکچروں اور مباحثوں کی خود تعریفیں نہ سنایا کریں اور صرف اتنی ہی بات بتائیں جتنی ان سے پوچھی جائے اور وہی بات بتائیں جو انہوں نے کہی۔ آگے اس کے اثرات نہ بیان کیاکریں۔ یہ بتانا ان کاکام نہیں بلکہ اس مجلس کا کام ہے جس میں وہ اثرات ہوئے وہ خود بتاتے پھریں۔ کسی مبلغ کا یہ کہنا کہ میں نے فلاں مخالف کو یوں پکڑا کہ وہ ہکا بکا رہ گیا اور اس کا رنگ فق ہوگیا جائز نہیں۔ یہ تم نہ کہو بلکہ وہ لوگ کہیں گے جنہوں نے ایسا ہوتے دیکھا۔ تمہارے منہ سے ایک بھی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے تمہاری خوبی ظاہر ہوتی ہو۔ تم صرف واقعات بیان کر دو اور آگے اثرات کے متعلق کچھ نہ کہو۔ یہ بات نوجوان اور مبتدی مبلغوں کے لیے نہایت ضروری ہے اور جو استاد ہو جائیں انہیں دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بیان کرنا بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے۔
آٹھویں ہدایت
آٹھویں بات یہ ہے کہ عبادات کے پابند بنو۔ اس کے بغیر نہ تم دنیا کو فتح کر سکتے ہو اور نہ اپنے نفس کو۔ فرض عبادات تو ہر ایک مبلغ ادا کرتا ہی ہے لیکن ان کے لیے تہجد پڑھنا بھی ضروری ہے۔ صحابہؓ کے وقت تہجد نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب تہجد پڑھنے والے کو ولی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ رُوحانیت میں ترقی کرنے کے لیے تہجد اورنوافل پڑھنے ضروری ہیں۔ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہیں مگر مبلغ کے لیے تو بہت ہی ضروری ہیں۔ پس اگر زیادہ نہیں تو کم ہی پڑھ لے۔ آٹھ کی بجائے دو ہی پڑھ لے اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو یہاں تک کر لے کہ نماز سے پہلے پانچ منٹ لیٹے لیٹے استغفار پڑھ لے اور آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتا جائے۔ اس کے علاوہ ذکر الٰہی اور دوسری عبادتوں کا بھی شغل رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ان کے بغیر روح کو جلاء نہیں ہوتا۔ فرائض تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی ان کو ادا نہ کرے تو مبلغ رہتا ہی نہیں اور فرائض تو ادا کیے ہی جاتے ہیں۔ کیونکہ اگر مسجد میں نہ آئے تو وہ سمجھتا ہے کہ لوگ کہیں گے اچھا مبلغ ہے۔ لیکن قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لیے نوافل پڑھنے ضروری ہیں اور دیگر اذکار کی بھی بہت ضرورت ہے۔
نویں ہدایت
نویں چیز مبلغ کے لیے دعا ہے۔ دعا خدا کے فضل کی جاذب ہے۔ جو شخص عبادت تو کرتا ہے مگر دُعا کی طرف توجہ نہیں کرتا اس میں بھی کبر ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کے انعام کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ حالانکہ موسیٰؑ جیسا نبی بھی خدا تعالیٰ سے کہتا ہے۔
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٍ(القصص:25)
کہ جو کچھ تیری طرف سے مجھ پر بھلائی نازل ہو میں اس کا محتاج ہوں۔ پس جب حضرت موسیٰ ؑ نبی ہو کر خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں تو معمولی مومن کیوں محتاج نہ ہوگا؟ ہر ایک مبلغ کو دعا سے ضرور کام لینا چاہیے اور اس کو کسی حالت میںبھی نہ چھوڑنا چاہیے۔
دسویں ہدایت
دسویں چیز مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں انتظامی قابلیت ہو۔ اگر اس میں یہ قابلیت نہ ہوگی تو اس کا دائرہ عمل بہت محدود ہوگا۔ اور اس کی کوششوں کا دائرہ اس کی زندگی پر ہی ختم ہوجائے گا۔ اس لیے اسے اس بات کی بھی فکر ہونی چاہیے کہ جس کام کو اس نے شروع کیا ہے وہ اس کے ساتھ ہی ختم نہ ہوجائے بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے قائمقام بنائے۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبلغ تھے مگر آپؐ مبلغ گر بھی تھے۔ ہمارے مبلغوں کی اس طرف قطعاً توجہ نہیں ہے۔ وہ یہ کوشش نہیںکرتے کہ جہاں جائیں وہ اپنے قائمقام بنائیں اور کام کرنے والے پیدا کریں۔ تاکہ انتظام اور ترتیب کے ساتھ کام جاری رہے۔ یہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ مبلغ جن لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ لائق دیکھیں اور جو شوق رکھیں ان کو مختلف مسائل کے دلائل سکھائیں اور ہر بار ان میں اضافہ کرتے رہیں۔ اور دیکھتے رہیں کہ انہوں نے پہلے دلائل کو یاد کرلیا ہے یا نہیں۔ اور پھر انہیں یہ بھی کہیں کہ ہمارے بعد تم تبلیغ کرنا اور اس کے متعلق ہمیں اطلاع دیتے رہنا۔ میں نے تالیف و اشاعت کے دفتر کو اس کے متعلق تاکید کی تھی کہ ہر جگہ تبلیغ کرنے والے مقرر کیے جائیں ……۔
غرض جہاں مبلغ جائیں۔ وہاں دوسروں کو تبلیغ کرنا سکھائیں اور بتائیں کہ اس طرح بحث کرنی چاہیے۔ بحث کرنا اَور بات ہوتی ہے اور لیکچر دینا اَور۔ اس لیے بحث اور دوسرے مذاہب کے متعلق گفتگوکرنے کے گُر سکھانے چاہئیں۔ تاکہ ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو ان کے بعد کام کرتے رہیں۔
(جاری ہے)