چوتھی شرطِ بیعت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
(گذشتہ سے پیوستہ) … یہ اتنا اہم اور ضروری مضمون ہے اورموجودہ زمانہ میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ جبکہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے دور جارہے ہیں ہمیں یہ تو فخر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلاں صحابی کی نسل میں سے ہیں لیکن اپنے آبا ؤ اجداد کی قربانیوں پر کم نظر ہے اگلی نسلوں میں جسمانی خون تو منتقل ہوگیا ہے لیکن روحانیت کے معیار کم ہوئے ہیں بہرحال یہ قدرتی امر ہے کہ جوں جوں نبوت کے زمانہ سے دور ہوتے جائیں کچھ کمیاں کچھ کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ترقی کرنے والی جماعتیں زمانے اور حالات کا رونا رو کر وہیں بیٹھ نہیں جایا کرتیں بلکہ کوشش کرتی ہیں ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ خوشخبریاں اور پیش گوئیاں موجود ہیں کہ مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہوکر حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے اور یہ مقدر ہے بشرطیکہ ہم توحید پر قائم رہیں اور اس تعلیم پر نہ صرف خود قائم ہوں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی قائم رکھیں اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کاایک اقتباس پیش کرتاہوں جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بیعت کرنے والوں سے کیا چاہتے ہیں اس کے بعد شرائط بیعت کی چوتھی شرط سے شروع کروں گا۔
حضور فرماتے ہیں۔ ’’میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتاہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو۔
بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔ میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ262)
چوتھی شرط بیعت
’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے‘‘
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جیسا کہ اس شرط سے واضح ہے کہ غصہ میں آکر مغلوب الغضب ہوکراپنی اَنا کا مسئلہ بناکر اپنی جھوٹی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے نہ ہی اپنے ہاتھ سے نہ ہی زبان سے کسی کو دُکھ نہیں دینا۔ یہ تو ہے ہی ایک ضروری شرط کہ کسی مسلمان کو دُکھ نہیں دوں گا یہ تو ہمارے اُوپر فرض ہے اس کی پابندی تو ہم نے خصوصیت سے کرنی ہی ہے کیونکہ مسلمان تو ہمارے پیارے محبوب پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ان کی برائی کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے سوائے اُن نام نہاد علماء کے جو اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں جنہوں نے اس زمانہ کے مسیح موعود اور مہدی کے خلاف اپنی دشمنی کی انتہاء کردی ہے ان کے خلاف بھی ہم اپنے خدا سے اُس قادرو توانا خدا سے جو سب قدرتوں کا مالک ہے ایسے شریروں کے خلاف مدد مانگتے ہوئے اُس کے حضور جھکتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہی اُن کو پکڑ اور یہ بھی اس لئے کہ خدا کا رسول ان کو بدترین مخلو ق کہہ چکا ہے ورنہ ہمیں کسی سے زائد عناد اور کسی کے خلاف غصہ نہیں ،ہم تو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے غصہ کو دبانے کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (آل عمران:آیت135)
یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے لوگوں سے درگذرکرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت سے ہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے غلام نے آزادی حاصل کرلی تھی بیان کیا جاتا ہے کہ غلام نے آپ پر غلطی سے کوئی گرم چیز گرادی پانی یاکوئی پینے کی چیز تھی آپ نے بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ تو تھا وہ ہوشیار۔ قرآن کا بھی علم رکھتا تھا اور حاضر دماغ بھی تھا فوراً بولا
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظ
آپ نے کہا ٹھیک ہے غصہ دبا لیا۔ اب اس کو خیال آیا کہ غصہ تو دبا لیا لیکن دل میں تو رہے گا کسی وقت کسی اور غلطی پر مار نہ پڑ جائے فوراً بولا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس۔ آپ نے کہاٹھیک ہے جائو معاف بھی کردیا۔ علم اور حاضر دماغی پھرکام آئی فوراً کہنے لگا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ آپ نے کہا چلو جائو تمہیں آزاد بھی کرتا ہوں تو اس زمانہ میں غلام خریدے جاتے تھے اتنی آسانی سے آزادی نہیں ملتی تھی لیکن غلام کی حاضر دماغی اورعلم اور مالک کا تقویٰ کام آیا اور آزادی مل گئی۔ تو یہ ہے اسلام کی تعلیم۔
(باقی آئندہ)