نظامِ خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کے اس تعلق میں نئے، پرانے، دُور و نزدیک رہنے والے تمام احمدی شامل ہیں
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک موقعے پر فرمایا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے
ایم ٹی اے کے چینلز 27 ؍مئی، یومِ خلافت سے ایک نئی ترتیب کے ساتھ شروع کیے گئے ہیں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 29؍مئی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقعے پر فرمایا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ جس کام اور مقصد کےلیے مَیں انہیں بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ سےاس صدق و وفا اور تعلق و محبت کے بےشمار واقعات صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگیوں میں ہمیں ملتے ہیں۔ پرانے احمدی گھرانوں میں اس تعلق کی روایات چلی آرہی ہیں اور یہ واقعات جماعتی لٹریچر کا حصّہ بھی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نےاپنے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر پاکر جماعت کی تسلّی کےلیے سلسلۂ خلافت کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہےجس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔
پس اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آپؑ کی وفات کے بعد جماعت میں خلافت کا نظام جاری ہوا۔ خلیفۂ وقت اورافرادِ جماعت کے درمیان اخلاص و وفا اور ارادت و مؤدت کاتعلق ہی جماعت کی اکائی، وحدت اور ترقی کی ضمانت ہے۔ یہ تعلق جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے سچا ہونے کی دلیل ہے بجز خدا تعالیٰ کےکوئی پیدا کرہی نہیں سکتا۔ نظامِ خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کے اس تعلق میں نئے، پرانے، دُور و نزدیک رہنے والے تمام احمدی شامل ہیں۔ ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جہاں افرادِ جماعت اس اخلاص ووفا کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد سے آج 112 برس مکمل ہونے کے باوجود افرادِ جماعت کا خلافت سے ارادت و مؤدت کا رشتہ اُسی طرح قائم ہے۔ اس وقت مَیں بعض ایسے ہی واقعات کا ذکر کروں گا۔
حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی علالت کے ایّام میں افرادِ جماعت کی طرف سے عیادت کےبکثرت خطوط موصول ہوئے۔ ان خطوط میں عشاقِ خلافت نے اپنی بےپناہ محبت کا اظہار کیا۔ ایڈیٹر صاحب البدر نے ان میں سے بعض خطوط اقتباس کیےہیں۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے مولا! تو ہماری عرض قبول کر اور ہمارے امام کو نُوحؑ کی سی عمر عطا کر۔ مدراس سے برادر محمد حسن صاحب نے لکھا کہ حضورؓ کی صحت کی خبر پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی جس کا اندازہ میرا مولا کریم خدا ہی جانتا ہے۔ حضرت ابو عبداللہ صاحب کھیوہ باجوہؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے۔ آپؓ نےحضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ سے کسی نصیحت کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسی چیز کرنے کی ہے جوآپ کر نہ چکے ہوں، اب تو حفظِ قرآن ہی باقی ہے۔ چنانچہ پینسٹھ سال کی عمر میں آپؓ نے قرآن کریم حفظ کرلیا۔
خلافتِ ثانیہ میں جب شدھی کی تحریک نے زور پکڑا تو 1923ء میں حضرت خلیفةا لمسیح الثانیؓ نے احمدیوں کو اپنے خرچ پر وقف کی تحریک کی۔ اس تحریک پر جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ، سرکاری ملازمین اورتاجر حضرات بڑھ چڑھ کر ان علاقوں میں دعوتِ الیٰ اللہ کرتے رہے۔ ایک معمر بزرگ قاری نعیم الدین صاحب بنگالی کے دو بیٹے بی۔ اے کے طالبِ عِلْم تھے۔ آپ نے حضورؓ کی خدمت میں اُن دونوں سمیت اپنے تیسرے بیٹے کو بھی اس خدمت کے لیے پیش کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی مَیں کوئی غم نہیں کروں گا۔
1924ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ یورپ کے سفر پر تشریف لے گئے تو احبابِ جماعت اس عارضی جدائی سے ہی بے چین ہوگئے۔ سرگودھا کے ایک نوجوان حضورؓ کی تحریک کو سن کر جوشِ تبلیغ میں بغیر پاسپورٹ کے افغانستان جا پہنچے۔ وہاں قید ہوئے تو جیل خانے میں تبلیغ شروع کردی۔ کئی ماہ بعد جب ہندوستان واپسی ہوئی تو باوجود اس کے کہ اُن کی والدہ زندہ تھیں لیکن وہ اس بات پر آمادہ تھے کہ والدہ سے ملے بنا بغرض ِتبلیغ حضورؓ کے بتائے ہوئے کسی بھی ملک ر وانہ ہوجائیں۔
خلافتِ ثالثہ میں ایک امریکی خاتون سسٹر نعیمہ لطیف کا عشقِ خلافت کا یہ عالَم تھا کہ جب حضورؒ نےدورۂ امریکہ کے موقعے پر ایک یونی ورسٹی میں پردے کی اہمیت بیان فرمائی تو ان خاتون نے اسی وقت حجاب لےلیا۔ اس زمانے میں یہ اپنے علاقے میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پردے میں نظر آتی تھیں۔
1974ء کے ناگفتہ بہ حالات میں مہر مختار احمد صاحب آف باگڑ سرگانہ شدید مخالفت کےباعث ربوہ تشریف لے آئے اور یہاں ٹھیکے پر کھیتی باڑی شروع کردی۔ حضورؒ نے علاقے کو یوں خالی چھوڑ آنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تو آپ نے فوراً واپسی کا ارادہ کیا۔ ٹھیکے دار سے رقم واپس نہ ملنے پر کھڑی فصل چھوڑ کر اپنے علاقے میں واپس چلے گئے اور اپنی سابقہ زمین مہنگے داموں دوبارہ خرید کر وہیں آباد ہوگئے۔
خلافتِ رابعہ میں پرانے واقفین کی قربانیوں کے نتیجے میں افریقہ میں ایسی عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئیں کہ وہاں کے مقامی اہلِ بصیرت بھی حیران رہ گئے۔
پاکستان کے متعلق ایک موقعے پر حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں نے انہیں بعض اخلاقی خامیوں کی طرف توجہ دلائی تھی تو وہاں سے خطوط آنے لگے کہ ہم میں واقعی یہ اخلاقی خرابی پیدا ہوگئی تھی اور اب ہم اسے دور کرتے ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا کہ ان خطوط سے میرا دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگیا۔ جماعت میں نیکی کی آواز پر لبیک کہنے کا یہ مادہ صداقت کی اصل رُوح ہے۔
حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورِ خلافت میں 2004ء کے دورۂ نائجیریا کے متعلق فرمایا کہ اُن لوگوں نے کبھی خلیفۂ وقت کو نہیں دیکھا تھا۔ جب براہِ راست خلیفۂ وقت کودیکھا تووالہانہ محبت کا اظہار کیا۔ واپسی کے وقت بعض خواتین اور لوگ اتنے جذباتی تھے اور اس طرح تڑپ رہے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔
حضورِ انور نے اپنے دورۂ افریقہ 2008ء کے بعض واقعات بیان فرمائے۔ فرمایا گھانا کے لوگوں میں یوں بھی صبر بہت ہے لیکن 2008ء کے جلسے میں رہائش کی تنگی کے باوجود اُن لوگوں نے بے پناہ صبر کا مظاہرہ کیا۔ بُرکینا فاسو کی جماعت جو اتنی پُرانی بھی نہیں، انہوں نے بھی اخلاص و محبت کا لازوال نمونہ دکھایا۔ گھانا کے جلسے پر بُرکینا فاسو کے لگ بھگ تین ہزار افراد کو کھانا نہ مل سکا۔ جب ان سے معذرت کی گئی تو انہوں نے خلیفة المسیح کی موجودگی کے تناظر میں بڑے عمدہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کھانے کا کیا ہے وہ تو روز ہی کھاتے ہیں اصل میں تو ہم یہاں جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ ہم نے حاصل کرلیا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ وہ غریب لوگ تھے کیا کھانا کھاتے ہوں گے۔ غربت کا یہ عالَم تھا کہ ان میں سے بعض ایک ہی جوڑا پہنے رکھتے تھے۔ اس سب کے باوجود ایسی محبت خدا تعالیٰ کے علاوہ کون پیدا کرسکتا ہے۔
گھانا کے خلافت جوبلی کے جلسے میں عورتوں کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی۔ وہ سب خلافت سے اخلاص ووفا کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کی محبت ان کی آنکھوں، ان کے رویّوں، ان کی شکلوں اور چہروں سے ٹپک رہی تھی۔
2004ء میں بینن سے بذریعہ سڑک نائیجیریا جاتے ہوئے ایک نو تعمیر شدہ مسجد کو دیکھنے کے لیے رُکے تو وقت کی کمی کے باعث مصافحہ ممکن نہ تھا۔ لیکن وہاں سینکڑوں مردو خواتین مصافحے کے لیے لپکے جاتے تھے۔ ایک خاتون کو جب کسی نے پیچھے ہٹایا تو وہ اس قدر غصّے میں آئی کہ لگتا تھا کہ وہ اُس شخص کو اٹھا کر باہر پھینک دے گی کہ تم ہوتے کون ہو جو میرے اور خلیفۂ وقت کے درمیان حائل ہوجاؤ۔
امریکہ کو دنیا سمجھتی ہے کہ وہاں صرف مادی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ لیکن وہاں کی جماعت میں بھی بڑا اخلاص ہے۔ میرے دوروں کے دوران نوجوان ڈیوٹی دینے والوں نے اپنے کاروباروں اور نوکریوں کا نقصان کرکے ڈیوٹیاں دیں۔
حضورِ انور نے کینیڈا، اردن، بلغاریہ، بینن، فرانس، مالی، گیمبیا، تاجکستان، ترکی، میسی ڈونیا، ہونڈورس، مراکش، یمن، تیونس غرض دنیا بھر سے افرادِ جماعت کی خلافت احمدیہ سے عشق و محبت اور اخلاص و وفا کے بعض واقعات پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ چند مثالیں مَیں نے دی ہیں جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ دلوں میں اخلاص ووفا کا تعلق اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور کوئی دنیاوی طاقت اسے چھین نہیں سکتی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتا دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے اکثریت کو ان وعدوں کو پورا ہوتا دیکھنے کی توفیق ملے۔
خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے ایم ٹی اے کی نشریات میں جدّت سے متعلق اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام دنیا میں پھیلائے گا۔ ایم ٹی اےکے چینلز 27؍مئی، یومِ خلافت سے ایک نئی ترتیب کے ساتھ شروع کیے گئے ہیں۔ نئے نظام کے ساتھ دنیا بھر کو مختلف ریجنز کے اعتبار سے ایم۔ ٹی۔ اے کے آٹھ چینلز میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ حضورِ انور نے اِن تمام آٹھ چینلز کی تفصیل پیش کرنے کے بعددعا کی کہ یہ جو نظام بنایا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور ایم ٹی اےکو پہلے سے بڑھ کر اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین