حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت تحریرات میں تذکرۂ خلافت
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں خلافت کی اہمیت و مقام، امت محمدیہ میں جاری سلسلہ خلافت اور اپنے خلیفۃ اللہ ہونے کا پُر شوکت الفاظ میں اعلان فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ میں اپنے بعد دائمی سلسلہ خلافت کی پیش گوئی فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے استخلاف ِامت محمدیہ کی استخلاف ِامت موسویہ سے مشابہت بیان فرمائی۔ اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں متفرق مقامات پر بتصریح بیان فرمایا ہے۔ زیر نظر مضمون سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں مرتب کیا گیا ہے۔
خلیفہ جانشین رسول کو کہتے ہیں
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔ پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہوجائے کچھ پرواہ نہیں…۔
پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفےپیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے تھا کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا۔ کیا اس نے صرف تیس۳۰ برس تک خلیفے بھیجے یا چودہ سو برس تک اس سلسلہ کو لمبا کیا۔ پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں زیادہ تھا چنانچہ اس نے خود فرمایا
وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا (النساء:114)
اور ایسا ہی اس امت کی نسبت فرمایا
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (آل عمران :111)
تو پھر کیونکر ہوسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ۱۴۰۰ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تیس برس تک خلافت کا خاتمہ ہوجاوے اور نیز جب کہ یہ امّت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ کے کیا معنی ہیں کوئی بیان تو کرے۔‘‘
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ353تا355)
خلیفہ اللہ تعالیٰ مقرر کرتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’صوفیا نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اُس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے۔ اور وہ ایک بہت ہی خطر ناک وقت ہوتا ہے۔ مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اُس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اُس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔ آنحضرت ؐنے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپؐ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرماوے گا۔ کیونکہ یہ خداکا ہی کام ہے۔ اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق اُنہی کے دل میں ڈالا۔‘‘
(الحکم 14؍اپریل1908ء)
مومن کے لیے ظلی طور پر خلیفہ کا لقب اور خلافت کا درجہ
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’یہ وہی مرتبہ ہے جس میں مومن کی محبتِ ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جلّ شانہ ٗکی محبتِ ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب خدا تعالیٰ کی وہ محبت ذاتی مومن کے اندر داخل ہوتی ہے اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالبِ بے جان میں رُوح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہوکر درحقیقت ایک رُوح کا کام کرتی ہے۔ تمام قویٰ میں اس سے ایک نُور پیدا ہوتا ہے۔ اور رُوح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر ہیں وہ اس درجہ کے مومن پر کھولے جاتے ہیں اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ظلّی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اُس کو ملتے ہیں آسمان پر خلیفۃاللہ کا لقب پاتا ہے کیونکہ جیسا کہ ایک شخص جب آئینہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے تو تمام نقوش اس کے مُنہ کے نہایت صفائی سے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفیٔ وجود اور ترکِ نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے۔ تب ذاتِ الٰہی کے تمام نقوش اور تمام اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہونے والے مُنہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس مُنہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی ظلّی طور پر اخلاق اور صفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا ہے اور ظلّی طور پر الٰہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ241تا242)
خلافت ِمحمدیہ کو خلافت موسویہ کا مثیل ٹھہرایا
فرمایا: ’’دیکھو یہ بات بہت صاف ہے۔ کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا(المزمل:16)
جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ایک رسول کو جو تم پر گواہ ہے یعنی اس بات کا گواہ کہ تم کیسی خراب حالت میں ہو تمہاری طرف اسی رسول کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ سو اس آیت میں اللہ جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ ٹھہرایا ہے۔ پھر سورۂ نور میں سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل ٹھہرا دیا ہے۔ سو کم سے کم تحقق مشابہت کے لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں سلسلوں کے اوّل اور آخر میں نمایاں مشابہت ہو یعنی یہ ضروری ہے کہ اس سلسلہ کے اوّل پر مثیل موسیٰ ہو اور اس سلسلہ کے آخر میں مثیل عیسٰی۔ اور ہمارے مخالف علماء یہ تو مانتے ہیں کہ سلسلہ ملت اسلامیہ مثیل موسیٰ ؑسے شروع ہوا مگر وہ سراسر ہٹ دھرمی سے اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ خاتمہ اس سلسلہ کا مثیل عیسیٰ پر ہوگا۔ اور اس صورت میں وہ عمداً قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسٰیؑ قرار دیا بلکہ آیت
کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ(النور :56)
میں تمام سلسلہ خلافت محمدیہ کوسلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل قرار دیا ہے۔ پس اس صورت میں قطعاً و وجوباً لازم آتا ہے کہ سلسلۂ خلافتِ اسلامیہ کے آخر میں ایک مثیل عیسٰیؑ پیدا ہو اور چونکہ اوّل اور آخر کی مشابہت ثابت ہونے سے تمام سلسلہ کی مشابہت ثابت ہو جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کی کتابوں میں جابجا انہیں دونوں مشابہتوں پر زور دیا گیا ہے بلکہ اوّل اور آخر کے دشمنوں میں بھی مشابہت ثابت کی گئی ہے جیسا کہ ابوجہل کو فرعون سے مشابہت دی گئی ہے اور آخری مسیح کے مخالفین کو یہود
مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ
سے اور آیت
کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ
میں یہ بھی اشارہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ اس امت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے زمانہ میں آئے گا۔ جو وہ زمانہ اپنی مدّت میں اس زمانہ کی مانند ہوگا۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے۔ یعنی چودہویں صدی کیونکہ کَمَا کا لفظ جس مشابہت کو چاہتا ہے اس میں زمانہ کی مشابہت بھی داخل ہے تمام فرقے یہودیوں کے اس بات پر متفق ہیں کہ عیسٰیؑ بن مریم نے جس زمانہ میں دعوٰے نبوت کیا وہ زمانہ حضرت موسیٰ ؑسے چودھویں صدی تھی۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ12تا13)
فرمایا: ’’ا س آیت (آیت استخلاف۔ ناقل)میں فقرہ
کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ
قابلِ غور ہے۔ کیونکہ اِس سے سمجھا جاتا ہے کہ محمدی خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے اور چونکہ موسوی خلافت کا انجام ایسے نبی پر ہوا یعنی حضرت عیسیٰ ؑ پر جو حضرت موسیٰ ؑسے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نیز کوئی جنگ اور جہاد نہیں کیا اس لئے ضروری تھاکہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدی کا بھی اِسی شان کا ہو۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ214)
محمدی اور موسوی سلسلہ خلافت کی مشابہت تامہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پہلی دلیل اس بات پر کہ میں ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں یہ ہے کہ میرا یہ دعویٰ مہدی اور مسیح ہونے کا قرآن شریف سے ثابت ہوتاہے۔ یعنی قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفوں کے خاتم الانبیاء ہیں اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہوگا تا کہ وہ اِسی طرح محمدی سلسلۂ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو۔ اور مجدّدانہ حیثیت اور لوازم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانند ہو اور اسی پر سلسلہ خلافتِ محمدیہ ختم ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلۂ خلافتِ موسویہ ختم ہو گیا ہے۔
تفصیل اِس دلیل کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل ٹھہرایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو مسیح موعود تک سلسلۂ خلافت ہے اس سلسلہ کو خلافتِ موسویہ کے سلسلہ سے مشابہ قرار دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔ (المزمل:16)
یعنی ہم نے یہ پیغمبر اُسی پیغمبر کی مانند تمہاری طرف بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ تم کیسی ایک سرکش اور متکبر قوم ہو جیسے کہ فرعون متکبّراور سرکش تھا۔ یہ تو وہ آیت ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ثابت ہوتی ہے لیکن جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلہ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلۂ نبوتِ محمدیہ کے خلیفےسلسلۂ نبوت موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں وہ یہ آیت ہے۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ الخ (النور:56)
یعنی خدا نے اُن ایمانداروں سے جو نیک کام بجا لاتے ہیں وعدہ کیا ہے جو اُن میں سے زمین پر خلیفےمقرر کرے گا انہی خلیفوں کی مانند جو اُن سے پہلے کئے تھے۔ اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدیؐ خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے جو ان دونوں سِلسلوں کے خلیفوں میں مماثلث ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے کا وہ مسیح خا تم خلفاء ِمحمدیہ ہے جو سلسلہ خلا فت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے۔ سب سے پہلا خلیفہ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے وہ حضرت یوشع بن نون کے مقابل اور اُن کا مثیل ہے جس کو خدا نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے اختیار کیا اور سب سے زیادہ فراست کی رُوح اُس میں پھونکی …‘‘
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ182-183)
امت میں خلافت کی دائمی بشارت
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اب یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیںکہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے۔ کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اورخلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔ نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفائے نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے اور پھر ایسے مذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزارہا روحانی خلیفےچودہ سو۱۴۰۰ برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنٰے ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قرآن بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو پھر یہ کہنا کہ یہ امت خیر الامم ہے اور دوسری امتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الٰہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل واتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل خلق میں اکمل واتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعویٰ ٹھہرے گا اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کیا جائے گا کیونکہ جب کہ امت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جو مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کررہی ہے محض لا حاصل ہوگی۔ درحقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جس میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں۔ اب جب کہ قرآن شریف کی رو سے یہی ثابت ہوا کہ اس امت مرحومہ میں سلسلہ خلافت دائمی کا اسی طور پر اور اسی کی مانند قائم کیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ کی شریعت میں قائم کیا گیا تھا۔‘‘
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ355تا356)
امت ِمحمدیہ میں جاری سلسلہ خلافت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اور یہ کہنا کہ حدیث میں آیا ہے کہ خلافت تیس سال تک ہوگی عجیب فہم ہے جس حالت میں قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ
ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ۔ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ (الواقعہ :40-41)
تو پھر اس کے مقابل پر کوئی حدیث پیش کرنا اور اس کے معنی مخالف قرآن قرار دینا معلوم نہیں کہ کس قسم کی سمجھ ہے اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی ھذا خلیفۃ اللّٰہ المھدی اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے لیکن وہ حدیث جو معترض صاحب نے پیش کی ہےعلماء کو اس میں کئی طرح کا جرح ہے اور اس کی صحت میں کلام ہے کیا معترض نے غور نہیں کی جو آخری زمانہ کی نسبت بعض خلیفوں کے ظہور کی خبریں دی گئی ہیں کہ حارث آئے گا۔ مہدی آئے گا۔ آسمانی خلیفہ آئے گا۔ یہ خبریں حدیثوں میں ہیں یا کسی اور کتاب میں۔ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ زمانے تین ہیں۔ اول خلافت راشدہ کا زمانہ پھر فیج اعوج جس میں ملک عضوض ہوں گے اور بعد اس کے آخری زمانہ جو زمانہ نبوت کے نہج پر ہوگا۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا اول زمانہ اور پھر آخری زمانہ باہم بہت ہی متشابہ ہیں اور یہ دونوں زمانے اس بارش کی طرح ہیں جو ایسی خیر و برکت سے بھری ہوئی ہو کہ کچھ معلوم نہیں کہ برکت اس کے پہلے حصہ میں زیادہ ہے یا پچھلے میں۔‘‘
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ337تا338)
استخلاف محمدی میں مسیح موعود کا آنا ضروری ہے
فرمایا:
’’دوسری مماثلت تامہ کاملہ استخلاف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی استخلاف موسوی سے مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہراتی ہے جیسا کہ آیت مندرجہ ذیل سے مفہوم ہوتا ہے یعنی آیت
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ صاف (النور :56)
بتلا رہی ہے کہ ایک مجدّد حضرت مسیح کے نام پر چودھویں صدی میں آنا ضروری ہے کیوں کہ امر استخلاف محمدی امر استخلاف موسوی سے اسی حالت میں اکمل اور اتم مشابہت پیدا کرسکتا ہے کہ جب کہ اول زمانہ اور آخری زمانہ باہم نہایت درجہ کی مشابہت رکھتے ہوں اور آخری زمانہ کی مشابہت دو باتوں میں تھی ایک امت کا حال ابتر ہونا اور دنیا کے اقبال میں ضعف آجانا اور دینی دیانت اور ایمانداری اور تقویٰ میں فرق آجانا دوسرے ایسے زمانہ میں ایک مجدد کا پیدا ہونا جو مسیح موعود کے نام پر آوے اور ایمانی حالت کو پھر بحال کرے سو پہلی علامت کو ہمارے بھائی مسلمان صرف قبول ہی نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کا ادبار اور ایک ایسی غیر قوم کا اقبال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو ان کے مذہب کو ایسا ہی حقیر اور ذلیل سمجھتی ہے جیسا کہ مجوسی یہودیوں پر غالب آکر حضرت مسیح کے زمانہ میں یہود کو حقیر اور ذلیل سمجھتے تھے اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اندرونی حالت اسلام کے علماء اور اسلام کے دنیا داروں کی یہودیوں کے حالات سے کچھ کم نہیں ہے بلکہ خیر سے دو چند معلوم ہوتی ہے۔‘‘
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ363تا364)
اللہ نے آپؑ کا نام خلیفۃ اللہ رکھا
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سو اس حکیم مطلق نے اس عاجز کا نام آدم اور خلیفۃ اللہ رکھ کر اور انّی جاعل فی الارض خلیفہکی کھلے کھلے طور پربراہین احمدیہ میں بشارت دے کرلوگوں کو توجہ دلائی کہ تا اِس خلیفۃ اللہ آدم کی اطاعت کریں اور اطاعت کرنے والی جماعت سے باہر نہ رہیں اور ابلیس کی طرح ٹھوکر نہ کھاویں اور من شَذَّ شُذّ فی النّار کی تہدید سے بچیں اور اپنے الہاموں کی حقیقت کو سمجھیں۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ475)
قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کی پیش گوئی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں قدرت ثانیہ کے ظہور کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں وگا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوںگا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلاے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا ہے اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوںگے جو دوسری قدرت کا مظہرہوںگے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔
اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں (حاشیہ: ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہوگا۔ پس جس شخص کی نسبت چالیس۴۰ مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہوگا اور چاہئے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لئے نمونہ بناوے۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذرّیت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اُس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے سو اُن دنوں کے منتظر رہو اور تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اُس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے یا بعض دھوکہ دینے والے خیالات کی وجہ سے قابل اعتراض ٹھہرے جیسا کہ قبل از وقت ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے۔ منہ) خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میںآباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔ اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ305تا307)