حضرت بانی جماعت احمدیہ کے بابرکت الفاظ میں کُتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان مقام و مرتبہ
(مطالعہ کی اہمیت و برکات ،تائید الٰہی سے بھرپور زندگی بخش تحریریں، مردہ دلوں کے لیے آب حیات،تحریرات کے لیے انتھک محنت و مجاہدہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب حقائق و معارف ،لطائف و نکات اور ادلہ و براہین کا عظیم خزانہ ہیں ۔یہ تحریرات علمی،تربیتی،اخلاقی اور روحانی مضامین کا ایک ناپیدا کنار سمندر ہیں۔آپ علیہ السلام نے انہی علوم و معارف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
خارق عادت اور معجزانہ طور پر سپرد قلم کیے گئے ان لطائف و نکات کے مقام و مرتبہ کا اندازہ آنحضرت ﷺ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے یُفِیۡضُ الۡمَالَ حَتّٰی لَا یَقۡبَلَہٗ اَحَدٌ یعنی امام مہدی اس کثرت سے روحانی خزائن اور علوم و معارف لوگوں کو دے گا کہ وہ لیتے لیتے تھک جائیں گے۔
یہ امام آخر الزمان ؑکی تحریرات ہی ہیںجو مردہ دلوں کے لیے آب حیات ہیں۔اس معجزانہ کلام کا ایک ایک حرف زندگی بخش ہے۔یہ کلام دلوں کے اندھیروںکو اجالوں میں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے اور ظلمت کو نور سے بدلنے کی آسمانی قوت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ روح القدس کی تائید سے لبریز یہ کتب عظیم شاہکار ہیں۔ایک بے نظیر معجزہ ہیں،ایسا چشمہ صافی ہے جو قیامت تک تشنہ روحوں کی سیرابی اور مردہ دلوں کے لیے روحانی آب حیات کا سامان کرتا رہے گا۔
زیر نظر مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پرشوکت اور عظیم کلام سے متعلق حضور علیہ السلام کے بابرکت ارشادات جمع کیے گئے ہیں۔یہ ارشادات روحانی خزائن،ملفوظات اوراشتہارات سے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ان بابرکت الفاظ سے ان کتب کے مطالعہ کی اہمیت و برکات،ان کا مقام و مرتبہ،علوم و معارف پر مشتمل اس بیش بہاعلمی خزانہ کی عظمت و شوکت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔نیز ان کتب کی تحریر کے لیے ،باوجود بیماریوں کے آپ کی انتھک محنت اور جانفشانی کا پتہ چلتا ہے۔
مطالعہ کتب کی تلقین
٭…’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پید اہوتی ہے۔ جس کو علم نہیں ہوتا مخالف کے سوال کے آگے حیران ہو جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلدچہارم صفحہ 361)
کوئی حصّہ تکبّر کا تم میں نہ ہو
٭…’’اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبّر سے ایک حصّہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبّر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصّہ تکبّر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 403)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جا تا ہوں
٭…’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں کسی کتاب کا مضمون لکھنے بیٹھتا ہو ں اور قلم اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جا تا ہوں۔اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے۔خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آجاتا ہے اور میرا ایمان تو یہ ہے کہ جنت ہو یا نہ ہو۔خدا تعالیٰ پر پورا یقین ہونا ہی جنت ہے ۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 270)
مُردہ دلوں کے لیے آب حیات
٭…’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔وہ زندگی بخش باتیں جومیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آبِ حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی توتمہارے پاس اس جُرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اُس کے سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا ۔‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 104)
تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے
٭…’’یَا اَحۡمَدُفَاضَتِ الرَّحۡمَۃُ عَلٰی شَفَتَیۡکَ۔کَلَامٌ اُفۡصِحَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ رَبٍّ کَرِیۡمٍ۔
درکلام تو چیزے ا ست کہ شعرار ادران دخلےنیست۔
رَبِّ عَلِّمۡنِیۡ مَاھُو خَیۡرٌعِنۡدَکَ۔
اے احمد!تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔ اے میرے خدا مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 105تا106)
محمدی برکتیں
٭…’’یہ تو معلوم ہے کہ محمدی برکتیں معارف اور اسرار اور نکات اور کلم جامعہ اور بلاغت اور فصاحت ہے سو میری کتابوں میں اُن برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے۔ براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی اُستاد کے جاری کئے ہیں اور جس قدر میں نے اپنی عربیّتمیں باوجود نہ پڑھنے علم ادب کے بلاغت اور فصاحت کا نمونہ دکھایا ہے اُس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں۔ مگر انصاف کی پابندی کے لئے بہتر ہو گا کہ اوّل تمام میری کتابیں براہین احمدیہ سے لے کر فریاد درد یعنی کتاب البلاغ تک دیکھ لیں اور جو کچھ اُن میں معارف اور بلاغت کا نمونہ پیش کیا گیا ہے اس کو ذہن میں رکھ لیں اور پھر دوسرے لوگوں کی کتابوں کو تلاش کریں اور مجھ کو دکھلاویں کہ یہ تمام امور دوسرے لوگوں کی کتابوں میں کہاں اور کس جگہ ہیں۔ اور اگر دکھلا نہ سکیں تو پھر یہ امر ثابت ہے کہ محمدی برکتیں اس زمانہ میں خارق عادت کے طور پر مجھ کو عطا کی گئی ہیں جن کے رو سے مہدی موعود ہونا میرا لازم آتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بغیر انسانی توسط کے یہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عنایت فرمائیں جن کی وجہ سے آپ کا نام مہدی ہوا یعنی آپ کو بلاواسطہ کسی انسان کے محض خدا کی ہدایت نے یہ کمال بخشا ایسا ہی بغیر انسانی توسط کے یہ رُوحانی برکتیں مجھ کو عطا کی گئیں اور یہی مہدیٔ موعود کی نشانی اور حقیقتِ مہدویّت ہے ۔‘‘
(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد 14صفحہ 406)
کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے
٭…’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوںکیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اُردو یا فارسی دو حصّہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیںپڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ واﷲ اعلم۔ (۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پرہے اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہ نمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434تا435)
وہی تمہیں یقین کا دودھ پلائے گا
٭…’’وہ خدا جو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے پستان میں دودھ ڈالتا ہے اس نے تمہارے لئے تمہارے ہی زمانہ میں تمہارے ہی ملکوں میں… ایک بھیجا ہے تا ماں کی طرح اپنی چھاتیوں سے تمہیں دودھ پلاوے۔ وہی تمہیں یقین کا دودھ پلائے گا جو سورج سے زیادہ سفید اور تمام شرابوں سے زیادہ سرور بخشتا ہے۔ پس اگر تم جیتے پیدا ہوئے ہو مردہ نہیں ہو تو آؤ اس پستان کی طرف دوڑوکہ تم اس سے تازہ دودھ پیو گے۔ اور وہ دودھ اپنے برتنوں سے پھینک دو کہ جو تازہ نہیں اور گندی ہواؤں نے اس کو متعفن کر دیا ہے اور اس میں کیڑے چل رہے ہیں جن کو تم دیکھ نہیں سکتے۔ وہ تمہیں روشن نہیں کر سکتا بلکہ اندر داخل ہوتے ہی طبیعت کو بگاڑ دے گا کیونکہ اب وہ دودھ نہیں ہے بلکہ ایک زہر ہے۔‘‘
(گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے،روحانی خزائن جلد 18صفحہ648تا649)
٭…’’آسمان سے بہت دُودھ اُترا ہے محفوظ رکھو۔‘‘ اس کی تشریح میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’آسمان سے بہت دُودھ اُترا ہے یعنی معارف اور حقائق کا دُودھ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 105)
روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیے گئے
٭…’’چنانچہ منجملہ ا ن شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اِس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں اور انسانی تکلّف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیئے گئے۔‘‘
(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 12)
صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیاگیا
٭…’’محب واثق مولوی حکیم نور الدین صاحب اس جگہ قادیان میں تشریف لائے اور انہوں نے اس بات کے لئے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق و نیز اور ایسے چند مجمل الفاظ ہیں اُن کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی جائے لیکن چونکہ ان دنوں میں میری طبیعت علیل اور دماغ ناقابل جدوجہد تھا اس لئے میں اُن تمام مقاصد کی طرف توجہ کرنے سے مجبور رہا صرف تھوڑی سی توجہ کرنے سے ایک لفظ کی تشریح یعنی دمشق کے لفظ کی حقیقت میرے پرکھولی گئی اور نیز ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیاگیا کہ ایک شخص حارث نام یعنی حر ّاث آنے والا جو ابوداؤد کی کتاب میں لکھاہے یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کی رُو سے ایک ہی ہیں۔ یعنی ان دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے جو یہ عاجز ہے۔ ‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد3صفحہ 135حاشیہ)
میری زبان کی تائید میں ایک اَور زبان بول رہی ہے
٭…’’میں نے اس بحث کو اس کتاب میں بڑی دلچسپی کے ساتھ کامل اور قوی دلائل سے انجام تک پہنچایا ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس تالیف (ازالہ اوہام۔ناقل)میں میری وہ مدد کی ہے جو میں بیان نہیں کر سکتا اور میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دُور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس مشت ِخاک کو کھڑا کردیاہے۔ ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں۔ کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں۔ کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 403)
بجائے ان واعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں اِن ملکوں میں بھیجی جائیں
٭…’’سنّت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ خزائن معارف و دقائق اُسی قدر ظاہر کئے جاتے ہیں جس قدراُن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سو یہ زمانہ ایک ایسازمانہ ہے جو اس نے ہزارہا عقلی مفاسد کو ترقی دے کر اور بے شمار معقولی شبہات کو بمنصۂ ظہور لا کر بالطبع اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان اوہام و اعتراضات کے رفع ودفع کے لئے فرقانی حقائق و معارف کا خزانہ کھولا جائے…
میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُ ن علوم او ر برکات کو ایشیااور یورپ کے ملکوں میںپھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ امریکہ اور یوروپ میںتعلیم اسلام پھیلانے کے لئے کیاکرنا چاہیئے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ بعض انگریزی خوان مسلمانوں میں سے یورپ اور امریکہ میں جائیں اور وعظ اورمنادی کے ذریعہ سے مقاصد اسلام اُن لوگوں پر ظاہر کریں۔ لیکن میں عمومًا اس کا جواب ہاں کے ساتھ کبھی نہیں دونگا۔ میں ہرگز مناسب نہیں جانتا کہ ایسے لوگ جو اسلامی تعلیم سے پور ے طور پر واقف نہیں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے بکلی بے خبر اور نیز زمانہ حال کی نکتہ چینیوں کے جوابات پرکامل طور پر حاوی نہیں ہیں اور نہ روح القدس سے تعلیم پانے والے ہیں وہ ہماری طرف سے وکیل ہوکر جائیں۔ میرے خیال میں ایسی کارروائی کاضرر اس کے نفع سے اقرب اور اسرع الوقوع ہے اِلّا ماشاء اللہ۔ بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ یورپ اور امریکہ نے اسلام پر اعتراضات کرنے کا ایک بڑا ذخیرہ پادریوں سے حاصل کیا ہے اور ان کا فلسفہ اور طبعی بھی ایک الگ ذخیرہ نکتہ چینی کا رکھتا ہے۔ میں نے دریافت کیا ہے کہ تین ہزار کے قریب حال کے زمانہ نے و ہ مخالفانہ باتیں پیدا کی ہیں جو اسلام کی نسبت بصورت اعتراض سمجھی گئی ہیں حالانکہ اگر مسلمانوں کی لاپرواہی کوئی بدنتیجہ پیدا نہ کرے تو ان اعتراضات کا پیدا ہونا اسلام کے لئے کچھ خوف کا مقام نہیں۔ بلکہ ضرور تھا کہ وہ پیدا ہوتے تااسلام اپنے ہر یک پہلو سے چمکتا ہوا نظر آتا لیکن ان اعتراضات کاکافی جواب دینے کے لئے کسی منتخب آدمی کی ضرورت ہے جو ایک دریا معرفت کا اپنے صدر منشرح میں موجود رکھتا ہو جس کی معلومات کو خدائے تعالیٰ کے الہامی فیض نے بہت وسیع اور عمیق کر دیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایساکام ان لوگوں سے کب ہو سکتاہے جن کی سماعی طور پر بھی نظر محیط نہیں اور ایسے سفیر اگر یورپ اور امریکہ میں جائیں تو کس کام کو انجام دیں گے اورمشکلات پیش کردہ کا کیا حل کریں گے۔ اور ممکن ہے کہ اُن کے جاہلانہ جوابات کا اثر معکوس ہو جس سے وہ تھوڑا سا ولولہ اور شوق بھی جو حال میںامریکہ اور یوروپ کے بعض منصف دلوں میںپیدا ہوا ہے جاتا رہے اور ایک بھاری شکست اور ناحق کی سُبکی اور ناکامی کے ساتھ واپس ہوں۔ سومیری صلاح یہ ہے کہ بجائے ان واعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں اِن ملکوں میںبھیجی جائیں۔ اگر قوم بدل وجان میری مدد میں مصروف ہو تو میں چاہتا ہوں کہ ایک تفسیر بھی تیارکر کے اور انگریزی میںترجمہ کرا کر اُن کے پاس بھیجی جائے۔ میں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا جیسا اس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ میں ہی داخل ہے۔ ہاں اس قدر میں پسند کرتا ہوں کہ ان کتابوں کے تقسیم کرنے کے لئے یا اُن لوگوں کے خیالات اور اعتراضات کوہم تک پہنچانے کی غرض سے چند آدمی ان ملکوں میںبھیجے جائیں جو امامت اور مولویت کا دعویٰ نہ کریںبلکہ ظاہر کردیں کہ ہم صرف اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ تا کتابوں کو تقسیم کریں اور اپنی معلومات کی حد تک سمجھاویں اور مشکلات اور مباحث دقیقہ کاحل ان اماموں سے چاہیں جو اس کام کے لئے ملک ہند میں موجود ہیں…
پیارو یقیناً سمجھو کہ خداہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتا ہے مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کرلیتا ہے اوراُس پر علوم لدنیہ کے انوار نازل کرتا ہے۔ سو اُسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا دل کھول دیا۔ میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں۔بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اس کا اور اس کے رسول کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں۔ مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا۔ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے۔ ہاں مَیں اس میں لذّت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اُس نے مجھ پر ظاہر کیا وہ میں سب لوگوں پر ظاہرکروں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیاگیا وہ دوسروں کو بھی دُوں۔ اوردعوت مولیٰ میںان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں۔ میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریباً سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں۔ لیکن جو امر میرے اختیار میں نہیں میں خداوند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے۔ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے۔ اور اگرچہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح ناتواں اور ضعیف البنیان ہوں تاہم میں دیکھتاہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے اور نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتا ہے اور میں جو کہتاہوں کہ اِن الٰہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہرکے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور امید رکھتا ہوںکہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کردے گا۔ ‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 515تا520)
جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے خزانے ہیں
٭…’’وہ خداجو رحمٰن ہے وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم ومعارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی۔ یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔اس جگہ بادشاہت سے مراددنیاکی بادشاہت نہیں اورنہ خلافت سے مراد دنیاکی خلافت بلکہ جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے خزانے ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوںگاکہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 566)
تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے
٭…’’کیا آپ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ جس کو خداتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الٰہی سے وہ مشرف ہوجاوے اور اس پر ظاہر کردیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہنچ جائے تو اس کے لئے یہی لازم ہوگا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے۔ اور اگر مطابقت محالات میں سے ہو اور کسی صورت سے نہ ہوسکے تو بدرجہ ناچاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو۔ کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں۔ لیکن یہ سراسر الحاد اور کفر ہوگا کہ ہم ایسی حدیثوں کی خاطر سے کہ جو انسان کے ہاتھوں سے ہم کو ملی ہیں اور انسانوں کی باتوں کا ان میں ملنا نہ صرف احتمالی امر ہے بلکہ یقینی طور پر پایا جاتا ہے قرآن کو چھوڑ دیں !!! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزّاسمہٗ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ ان کے ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آ ہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کردیتا ہے اب میں اس خداداد نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہورہا ہے کیونکر اس سے انکار کروں۔‘‘
(مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ 21)
ایک ایک حَرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتاہے
٭…’’اس کے بعد ذکر چل پڑا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے حضرت اقدس کوتمام مقابلہ کی تحریروں میں مدددیتا رہا کہ اکثراوقات حضرت اقدس بیمار تھے اور میعاد و مقابلہ نزدیک آگئی تو پھر اسی حالت میں بڑی سختیوں سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر کتابیں لکھیں حضور نے فرمایا کہ
’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خداتعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔ بارہالکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خداکی روح ہے جو تیررہی ہے۔ قلم تھک جایاکرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا ۔طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 482تا483)
یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا
٭…شہرہ آفاق کتاب’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘کے متعلق فرمایا:
’’یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے۔اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہوجائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے…یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف وگزاف کے داغ سے منزہ ہے…مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہوجائیں گی…میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی۔تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ
اَللّٰہُ اَکۡبَرۡ خَرِبَتۡ خَیۡبَر۔
اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں۔جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی ہے یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلددوم صفحہ 293تا294)
تائید الٰہی سے مضامین کا دل پر نزول
٭…’’تائیدات الٰہیہ ایک تو بین اور ظاہر طور پر ظہور پذیر ہوتی ہیں اور عام لوگ ان کو دیکھ سکتے ہیں،مگر بعض مخفی تائیدات ایسی ہوتیں ہیںجن کے لئے میری سمجھ میں کوئی قاعدہ نہیں آتا کہ عوام الناس کو کیوں کر دکھا سکوں۔مثلاً یہی عربی تصنیف ہے۔میں خوب جانتا ہوں کہ عربی ادب میں کہاں تک دسترس ہے،لیکن جب میں تصنیف کا سلسلہ شروع کرتا ہوں،تو یکے بعد دیگرے اپنے اپنے محل اور موقع پر موزون طور پر آنے والے الفاظ القاء ہوتے جاتے ہیں۔اب کوئی بتلائے کہ ہم کیوں کر اس تائید الٰہی کو دکھلا سکیںکہ خدا کیونکر سینہ پر الفاظ نازل کرتا ہے۔اور دیکھو اس ایام الصلح میں اکثر مضامین ایسے ہیں جن کا میری پہلی تصانیف میںنام تک نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس سے پہلے وہ کبھی ذہن میں نہ گزرے تھے،لیکن اب وہ ایک ایسے طور پر آکر قلب پر نازل ہوئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آسکتا،جب تک خود تائید الٰہی شامل حال ہو کر اس کو اس قابل نہ بنا دیوے اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ایسے بندوں پر کرتا ہے جن سے کوئی کام لینا ہوتا ہے۔یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ تصنیفات کے لئے جب تک صحت اور فراغت نہ ہو،یہ کام نہیں ہو سکتا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ان لوگوں ہی کو ملتا ہے جن سے وہ کوئی کام لینا چاہتا ہے۔پھر ان کو یہ سب سامان جو تصنیف کے لئے ضروری ہوتے ہیں،یکجا جمع کر دیتا ہے۔‘‘
( ملفوظات جلداو ل صفحہ 176تا177)
گویا مَیں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں
’’اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی کہ گویا مَیں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں۔دوسری شاخ اخراجات کی جس کے لئے ہر وقت میری جان گذارش میں ہے سلسلہ تالیفات ہے۔ اگر یہ سلسلہ سرمایہ کے نہ ہونے سے بند ہو جائے تو ہزارہا حقائق اور معارف پوشیدہ رہیں گے اس کا مجھے کس قدر غم ہے؟ اس سے آسمان بھر سکتا ہے۔ اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سے میرے دل میں ڈالا گیا ہے مَیں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں۔ دُور رہنے والے کیا جانتے ہیں مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکر مَیں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں۔ میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں۔ لیکن اگر کتابوں کے چھپنے کا سامان نہ ہو اور عملہ مطبع کے خرچ کا روپیہ موجود نہ ہو تو مَیں کیا کروں جس طرح ایک عزیز بیٹا کسی کا مَر جاتا ہے اور اس کو سخت غم ہوتا ہے۔اسی طرح مجھے کسی ایسی اپنی کتاب کے نہ چھپنے سے غم دامنگیر ہوتا ہے جو وہ کتاب بندگان خدا کو نفع رساں اور اسلام کی سچائی کے لئے ایک چراغ روشن ہو۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ160تا161)
ہر احمدی کے لیے تین نصائح
٭…مونگھیرسے محمد رفیق صاحب بی اے اورمحمد کریم صاحب تشریف لائے ہوئے تھے ۔دونوں نے نماز فجر کے وقت حضرت اقدس سے بیعت کی ۔بیعت کر چکے تو حضور نے فرمایاکہ
’’ہماری کتابوںکو خوب پڑھتے رہوتاکہ واقفیت ہو اور کشتی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہاکرو اورہمیشہ خط بھیجتے رہو۔ ‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 502)
اے میرے ربّ صلیب کا ٹوٹنا مجھے دکھلا
یَا رَبِّ أَرِنِیْ یَوْمَ کَسْرِ صَلِیْبِہِمْ
یَا رَبِّ سَلِّطَۡنِیْ عَلٰی جُدْرَانِہِمْ
اے میرے رب صلیب کا ٹوٹنا مجھے دکھلا
اے میرے رب ان کی دیواروں پر مجھ کو مسلط کر
فَإِذَا تَکَلَّمۡنَا فَسَیْفٌ قَوْلُنَا
رُمْحٌ مُّبِیْدٌ لَا کَمِثْلِ بَیَانِہِمْ
اور جب ہم کلام کریں تو ہماری کلام ایک تلوار ہے
ایک نیزہ ہلاک کرنے والا ہے نہ ان کے بیان کی طرح
(نور الحق حصہ اولی،روحانی خزائن جلد 8صفحہ 128)
فصیح و بلیغ بے نظیر عربی تصنیفات محیرالعقول عظیم معجزہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تحریرات ایک بے نظیر اور محیر العقول معجزہ ہیں ۔آپؑ نے کسی کالج یا مدرسہ سے عربی علم ادب کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ بعض غیر معروف اساتذہ سے عربی کی چند کتب پڑھی تھیں۔ آپ کے دعویٰ کے ابتدا میں آپ کے مخالفین نے لوگوں کو آپ سے بد ظن کرنے کے لیے مشہور کیا کہ آپ عربی زبان سے نابلد ہیںاور عربی زبان کا ایک صیغہ تک نہیں لکھ سکتے۔آپ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے اور’’جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے اس زبان میں کامل کردے اوراس کی فصاحت اور بلاغت میں مجھے بے نظیر بنادے۔‘‘
(نجم الہدی)
خدائے سمیع و علیم نے آپ کی ان متضرعانہ دعاؤں کو سنا اور اپنی بارگاہ میں انہیں شرف قبولیت سے نوازا۔یہاں تک کہ ایک ہی رات میں آپ کو عربی زبان کاچالیس ہزار مادہ سکھا دیا۔ آپ کا عربی زبان کا علم وہبی تھا ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ آپ کو عربی زبان کا لازوال علم عطا کیا تھا۔آپ نے عربی زبان میںبیس سے زائدکتب اور رسالے تحریر فرمائے۔ان کتب کی نظیر اور مثال لانے پر عرب و عجم کو للکارا،بیش بہا انعامات مقرر فرمائے۔لیکن کوئی بھی ان فصیح و بلیغ کتب کا جواب لانے پر قادر نہ ہوسکا۔اور درحقیقت کوئی دنیا کا عالم مقابلہ بھی کس طرح کرسکتا تھا۔کیونکہ اس سلطان القلم کی کتب تو خارق عادت طور پر محض قدرت خداوندی کا محیرالعقول ثبوت تھیں۔آپ خود فرماتے ہیں کہ ان تحریرات کے لکھنے کے وقت مجھے ایسے لگتا ہے کہ ’’کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے‘‘(نزول المسیح)
’’عربی تحریروں کے وقت میں صدہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں یا کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے فقرات دکھا دیتا ہے۔‘‘(نزول المسیح)خطبہ الہامیہ کے متعلق فرمایا’’خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے‘‘(حقیقۃ الوحی)
آپ کی عربی تحریرات کے بے نظیر اور پر اثر ہونے کا ایک بنیادی سبب آپ کی کثرت دعا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’عربی تصانیف کے دوران …ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ول)’’عربی تصنیفات میں ایک ایک لفظ دعا ہی کا اثر ہے‘‘(ملفوظات جلد ول)
پس اس عظیم خارق عادت معجزہ کے پیچھے اس فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔دعاؤں کے نتیجے میں ان تحریرات میں خدا تعالیٰ نے وہ شوکت اور طاقت پیدا کردی جس سے اکناف عالم میں روحانی مردے زندہ ہورہے ہیں۔ پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ رہے ہیں اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہورہے ہیں ۔اس کلام نے یہ خارق عادت معجزہ پہلے بھی دکھلایا،اب بھی دکھا رہا ہے اور قیامت تک دکھلاتا چلا جائے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عربی زبان میں پرشوکت اور عظیم کلام سے متعلق حضور علیہ السلام کے درج ذیل بابرکت ارشادات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کلام کا مقام مرتبہ کیا ہے،یہ کلام کتنا پرشوکت اور مؤثر ہے اور یہ کتنا بڑا معجزہ ہے جو تشنہ روحوں کی سیرابی کا سامان کا موجب ہے۔
کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا
٭…’’یَا اَحۡمَدُ فَاضَتِ الرَّحۡمَتُ عَلٰی شَفَتَیْکَ
۔دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۷۔ ترجمہ۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی جاویگی۔ بلاغت اور فصاحت اور حقائق اور معارف تجھے عطا کئے جاویں گے۔ سو ظاہر ہے کہ میری کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس الہام کے بعد بیس۲۰ سے زیادہ کتابیں اور رسائل میں نے عربی بلیغ فصیح میں شائع کئے مگر کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔ خدا نے ان سے زبان اور دل دونوں چھین لئے اور مجھے دے دئے۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ 510)
زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی
٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب خطبہ الہامیہ میں فصیح و بلیغ عربی زبان میں فی البدیہہ اور پر معانی تقریرکے متعلق فرماتے ہیں :
’’عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہو اکہ کچھ عربی میں بولو چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی ۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے ۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 588)
خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے
٭…’’11؍اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کَلَامٌ اُفۡصِحَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ رَبٍّ کَرِیۡمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔ چنانچہ اس الہام کو اُسی وقت اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور اخویم حکیم مولوی نور دین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے اور ماسٹر عبد الرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی۔اے اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی۔ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الھامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو۲۰۰ کے قریب ہو گی۔ سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہ بیان کر سکے۔ یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 375تا376)
میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے اس زبا ن میں کامل کرے
٭…’’اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عربی زبان میں ایک ملکہ خارق عادت مجھے عطا فرمایا ہے تاکہ فکرؔ کرنے والوں کے لئے وہ نشان ہو اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں بجز اندک اور حقیر شد بود کے جس کو علمیت نہیں کہہ سکتے عربی نہیں جانتا تھا ۔ پس علماء نے میرے علم کی لکڑی کوخم دینا اور توڑنا چاہا اور میرے علم کی عیب گیری اور نکتہ چینی شروع کی تاکہ عوام کو مجھ سے اور میرے سلسلہ سے بیزار کر دیں اور اپنی طرف سے یہ شہرت دے دی کہ یہ شخص عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا اور اس سونے میں سے ایک ریزہ کا بھی مالک نہیں ۔ پس میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے اس زبا ن میں کامل کرے اور اس کی بلاغت فصاحت میں مجھے بے نظیر بنادے اور میں نے نہا یت عاجزی اور تضرع سے اس دعا میں الحا ح کیا اور جناب الٰہی میں گرا اور گڑگڑایا اور صدق ہمت اور اخلاص جان اور کوشش بلیغ کے ساتھ اس سوال کو با ر بار جناب الٰہی میں کیا ۔ پس دعا قبول کی گئی۔ اور جو میں نے چاہا تھا وہ مجھے دیا گیا۔ اور عربیت کے نوادر اور لطائف ادب کے دروازے میرے پر کھو لے گئے یہا ں تک کہ میں نے عربی میں کئی نو طرز رسالے اور بلاغت سے آراستہ کتابیں تالیف کیں۔ پھر میں نے اس ملک کے علما ء پر وہ کتابیں پیش کیں اور کہا کہ اے فاضلو اور ادیبو! تمہارا میری نسبت یہ گمان تھا کی میں اُمّی اور جاہل ہوں اور در حقیقت میں ایسا ہی تھا اگر خدا تعالیٰ کی تائید میرے شامل حال نہ ہوتی ۔ پس اب اللہ جلّ شانُہٗ نے میری تائید کی اور خاص فضل اور رحمت سے اپنے پاس سے میر ی تعلیم فرمائی۔ سو اب میں ایک ادیب اور متفرد انسان ہو گیا اور میں نے کئی رسالے بلاغت اور فصاحت کا لباس پہنا کر تالیف کئے پس دانشمندوں اور منصفوں کے لئے میری طرف سے یہ ایک نشان ہے اور خداتعالیٰ کی تم پر یہ حجت ہے ۔ پس اگر تم میری سچائی اور میری کمال زبان دانی میں شک رکھتے ہو اور میرے بیان اور عمدہ طور پر اظہار مطالب میں تمہیں کچھ شبہ ہے اور میری اس شان پر ایمان نہیں اور گمان کرتے ہو کہ میں کاذب ہوں۔ پس تم بھی کوئی ایسی کتاب بنا کر لائو اگر تم سچے ہو۔ اور اگر تم حق پر ہو گے جیسا کہ تمہارا گمان ہے ۔ پس خدا تعالیٰ ضرور تمہاری عزت ظاہر کرے گا اور غالب ہو گے اور تمہیں کچھ نقصان نہیں ہو گا ۔ پھر بعد اس کے کوئی عتاب کرنے والا تمہیں عتاب نہیں کرے گا اور کوئی مخاطب عیب گیری پر قادر نہیں ہو گا اور لوگ یقین کر لیں گے کہ تم امین اور صالح ہو ۔ اور اگر تم بباعث قلت علم اور عقل کے مقابلہ کی قدرت نہیں رکھتے ۔پس اٹھو اور ان لوگوں کو بلا لو جو تحریر اور تقریر میں تم میں مشہور ہیں اور ادیب ہونے میں شہرت رکھتے ہیں اور میں نے ایسا امر تم پر پیش کیا ہے جس میں سچے کی عزّت اور جھوٹے کی ذلت ہے اور جو جھوٹے ہیں ان کو ذلت اور لازمی عذاب پہنچ رہے گا ۔ پس اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے ڈرو۔مگر ان لوگوں نے نہ تو میری کلام کی نظیر پیش کی اور نہ اپنے انکار سے باز آئے۔ اور ان کے منہ پر سیاہی اور خشکی اور لاغری اور گدا زش ظاہر ہو گئی اور نامرادی اور پیچھے ہٹنا ان کے لاحق حال ہو گیا اور تمام لاف وگزاف کو بھول گئے اور کلام کرنے کی جگہ نہ رہی اور بہتوں نے توبہ کی اور بہتوں پر قول آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا صادق آیا ۔ پھر اے سننے والو یہ بھی یاد رکھو کہ میں نے اس نشان کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی روحا نیت سے لیا ہے اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ اور بعض نادانوں نے کہا کہ یہ دعویٰ قرآن کے دعویٰ سے مشابہ ہے۔ اس لئے یہ حسنِ ادب اور ایمان سے دور ہے ۔ مگر یہ ان لوگوں کا قول ہے جن کو ولایت کی حقیقت پر اطلاع نہیں اور نا بینائی کا اندھیرا ان کے طاری حال ہو رہا ہے اور ہم پہلے اس سے ذکر کر چکے ہیں کہ کرا مات معجزات کا دائمی سایہ ہیں اور برکاتِ نبوت کے زیادہ ہو نے کا موجب ہیں ۔ اور تو سنت اور قرآ ن کو اس مسئلہ کے بیان کرنے والے پائے گا اور اس واقعہ پر گواہ دیکھے گا۔ اور بجز ایک گمراہ اور عاصی آدمی کے اور کوئی شخص اس سے انکا ر نہیں کر سکتا کیونکہ عام لوگوں کی آنکھیں حقیقتوں تک نہیں پہنچتیں اور دقائق شریعت ان پر چھپے رہتے ہیں اس لئے وہ لوگ ولایت کے کمالات میں نبوت کی کسرِشان دیکھتے ہیں باوجودیکہ اہل معرفت اور تحقیق کے نزدیک اصل امر اس کے بر خلاف ہے ۔‘‘
(نجم الہدی،روحانی خزائن جلد14صفحہ107تا115ترجمہ از عربی عبارت)
اپنی صداقت پر چار قسم کے نشانات
٭…’’میں نے بار ہا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے نشان مجھے دئے ہیں۔جن کو میں نے بڑے دعوے کے ساتھ متعدد بار لکھا اور شائع کیا ہے۔
اول۔عربی دانی کا نشان ہے۔اور یہ اس وقت سے مجھے ملاہے،جب سے کہ محمد حسین (بٹالوی صاحب )نے یہ لکھا کہ یہ عاجز عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا۔حالانکہ ہم نے پہلے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ عربی کا صیغہ آتا ہے۔جو لوگ عربی املاء اور منشاء میں پڑے ہیں وہ اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیںاور اس کی خوبیوں کالحاظ رکھ سکتے ہیں۔مولوی صاحب (مولوی عبدالکریم صاحب سے مراد تھی)شروع سے دیکھتے رہے ہیں کہ کس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اعجازی طور پر مدد دی ہے۔بڑی مشکل آکر یہ پڑتی ہے۔جب ٹھیٹھ زبان کا لفظ مناسب موقع پر نہیں ملتا،تو اس وقت اللہ تعالیٰ وہ الفاظ القاء کرتا ہے۔نئی اور بناوٹی زبان بنا لینا آسان ہے،مگر ٹھیٹھ زبان مشکل ہے۔پھر ہم نے ان تصانیف کو بیش قرار انعامات کے ساتھ شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ تم جس سے چاہو،مدد لے لو اور خواہ اہل زبان بھی بلا لو۔مجھے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ ہر گز قادر نہیں ہو سکتے،کیونکہ یہ نشان قرآن مجید کے خوارق میں سے ظلی طور پر مجھے دیا گیا ہے۔
دوم۔ دعاؤں کاقبول ہونا۔میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیںقبول ہوئی ہیں۔ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تو مستثنیٰ کرتا ہوں۔(کیونکہ ان کے طفیل اور اقتداء سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے)اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی۔میں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دو لاکھ یا کتنی اور بعض نشانات قبولیت کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالم ان کو جانتا ہے۔
تیسرانشان پیش گوئیوں کا ہے یعنی اظہار علی الغیب…
چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے،کیونکہ معارف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے،جس کی تطہیر ہو چکی ہے۔
لَاۡ یَمَسُّہٗ اِلَّا الۡمُطَھَّرُوۡنَ(الواقعہ:۸۰)
میں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سورۃ کی تفسیر کریں اور میں بھی تفسیر کرتا ہوں۔پھر مقابلہ کر لیا جاوے،مگر کسی نے جرأت نہیں کی۔محمد حسین وغیرہ نے تویہ کہہ دیا کہ ان کو عربی کا صیغہ نہیں آتا اور جب کتابیں پیش کی گئیں تو بودے اور رکیک عذر کر کے ٹال دیا کہ یہ عربی تو ارْوی کچالوہے ،مگر یہ نہ ہو سکا کہ ایک صفحہ ہی بنا کر پیش کردیتا اور دکھا دیتا کہ عربی یہ ہے۔غرض یہ چار نشان ہیں جو خاص طور پر میری صداقت کے لیے مجھے ملے ہیں ۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 182تا183)
تیس ہزاردعائوں کی قبولیت
٭…’’لوگ اس امر کو بھی جھوٹ جانیں گے۔جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ میری تیس ہزاردعائیں کم از کم قبول ہوئی ہیں،مگر میرا خدا خوب جانتا ہے کہ یہ سچ ہے اور اس میں ذرابھی جھوٹ نہیں۔کیونکہ ہر ایک کام کے لیے خواہ دینی ہویا دنیوی ۔دعاکی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے موزو ن اورطیّب بنا دیا ہے۔
عربی تصنیفات میں دعا کے اثرات
٭…عربی تصنیفات میں ایک ایک لفظ دعا ہی کا اثر ہے،ورنہ انسانی طاقت کا کام نہیں کہ تحدّی کرے۔ اگر دعا کا اثر نہیں تو پھر کیوں کوئی مولوی یا اہل زبان دم نہیں مار سکتا۔یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اہل زبان کے رنگ اور محارہ پر ہماری کتب تصنیف ہوئی ہیں،ورنہ اہل زبان بھی سارے اس پر قادر نہیں ہوتے کہ کل مسلم محاورات زبان پر اطلاع رکھتے ہوں پس یہ خداہی کا فضل ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 184)
عربی نویسی میں مقابلہ
٭…اس امر کا تذکرہ تھا کہ بعض نادان ملاں جب ہر طرح مقابلہ سے عاجز آجاتے ہیں اور ان پر اتمام حجت کے لیے کہا جاتا ہے کہ فصیح بلیغ عربی نویسی میں مقابلہ کر لو تو یہ کہہ کر پیچھا چھوڑاتے ہیں کہ ان کتابوں میںغلطیاںہیں ۔حضور ؑنے فرمایا کہ
’’غلطیاں نکالنے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس میں تویہ امر بجائے خود تنقیح طلب ہے کہ جو غلطی انہوں نے نکالی ہے خودان کی اپنی ہی غلطی تو نہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب نے جب عَجِبْتُ لِاَمۡرِیۡ پر اعتراض کیا تھا کہ صلہ لام نہیں بلکہ مِنۡآتا ہے تو اسے کیسا شرمندہ ہونا پڑا۔ بالمقابل لکھ کر تو بتائیں۔دعوت تو بالمقابل لکھنے کی ہے نہ غلطیاں نکالنے کی اور پھر ایسی حالت میں یہ بہانہ کب چل سکتا ہے جب نکالی ہوئی غلطیوں میں خود ان کی ہی غلطیاں ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلددوم صفحہ 479)
کھلی کھلی عربی میں چند کتابیں تالیف کروں
٭…’’ پس جب ہند کی زمین میں ایسا زلزلہ آیا کہ ساری زمین ہل گئی اور علماء میں مَیں نے بخل اور حسد پایا تو میں نے اپنے دل میں ٹھان لیا کہ ان لوگوں سے اعراض کروں اور مکہ کی طرف بھاگوں اور صلحاء عرب اور مکہ کے برگزیدوں کی طرف توجہ کروں کیونکہ وہ آزادی کی مٹی سے پیدا کئے گئے اور اہلیت کے دودھ سے پرورش پائے ہیں۔سو خدا تعالیٰ نے اس حاجت کے پیدا ہونے کے وقت میرے دل میں یہ القا کیا کہ میں کھلی کھلی عربی میں چند کتابیں تالیف کروں۔ سو میں نے خدا کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی توفیق سے ایک کتاب تالیف کی جس کا نام تبلیغ ہے پھر دوسری کتاب تالیف کی جس کا نام تحفہ ہے پھر تیسری کتاب تالیف کی جس کا نام کرامات الصادقین ہے۔پھر چوتھی کتاب تالیف کی جس کا نام حمامۃ البشریٰ ہے اورحمامۃ البشریٰ میں ان لوگوں کے لئے بشارتیں ہیں جو حق کے طالب ہیںاور نیز ہر ایک اس امر کی تفصیل ہے جس کو ہم پہلی کتابوں میں بیان کرچکے ہیں اور جو کچھ پہلی کتابوں سے متفرق طور پر فوائد علمیہ کی بارش ہوتی ہے یہ کتاب حمامۃ البشریٰ بھوکوں کے لئے ایک ہی جگہ پر پیش کر دیتی ہے اور اس کی نسبت دوسری کتابوںکی طرف ایسی ہے جیسی درخت کی اپنے بیج کی طرف اور خدا کی حمد اور شکر ہے کہ یہ کتاب مبسوط اور مبارک ہے اور قیمت کے بارہ میں حال یہ ہے کہ یہ کتابیں ملک حجاز اور بلاد شام اور عراق اور مصریوں اور افریقیوں کے لئے تو مفت بطور ہدیہ ہیں اور ایسا ہی اس کے لئے بھی جو عالم اور منصف مزاج اور تہیدست ہو اور دوسروں کو قیمت سے ملیں گی … اور میں نے ان کتابوں کو صرف زمین عرب کے جگر گوشوں کے لئے تالیف کیا ہے اور میری بڑی مراد یہی تھی کہ ان مقدس جگہوں اور مبارک شہروں میں میری کتابیں شائع ہو جائیں۔‘‘
(نور الحق حصہ اولی،روحانی خزائن جلد8صفحہ 19,20ترجمہ از عربی عبارت)
عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں
٭…عربی تحریروں کے معجز نما،خارق عادت ، اور بے نظیر کلام ہونے کے حوالے سے فرمایا:
’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوںکیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اُردو یا فارسی دو حصّہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیںپڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ واﷲ اعلم۔ (۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہ نمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔ مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اُس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنے ہیں بسیاری عیال۔ یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصّہ سے چُپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دِل پر وحی ہوئی کہ وجوم ۔ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا اُن کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے۔ اور بعض اوقات کچھ مُدّت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القا ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے۔ یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے اُن زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میںکچھ نمونہ اُن کا لکھا گیا ہے اور مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے کہ یہی عادت اﷲ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میںدرج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصّے بیان کرکے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصّے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے علمِ غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا۔ پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے مَیں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں ورنہ انسان کیا چیزاور ابن آدم کیا حقیقت کہ غرور اورتکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بُلاوے …لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا ناپیدا کنار دریاہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمۃ اﷲ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لَایَعۡلَمُہٗ اِلَّا نَبِی یعنی اس زبان کو اوراس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجُز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کرسکتا۔ اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر یک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پُورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے…ماسوا اس کے ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں۔ اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طو رپر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الٰہی کا خادم بنایا جائے۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434تا 437)
مجھے اپنی جناب سے فہم سلیم اور عقل مستقیم عطا کی
٭…’’اور قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے دیکھا اور مجھے قبول کیا ۔مجھ پر احسان کیا اور میری پرورش کی ۔اور مجھے اپنی جناب سے فہم سلیم اور عقل مستقیم عطا کی اور کتنے ہی نور ہیں جو اس نے میرے دل میں ڈالے جن کے باعث میں نے قرآن سے وہ کچھ جان لیا جو میرے غیر نہیں جانتے اور میں نے اس سے وہ کچھ پایاجو میرے مخالف نہیں پاتے اور میں اس کے سمجھنے میں اس مرتبہ پر پہنچ گیا جس سے اکثر لوگوں کے فہم قاصر رہتے ہیں ۔اور یہ اس کا سراسر احسان ہے اور وہ سب سے بہتر احسان کرنے والا ہے۔‘‘
(حمامۃ البشری،روحانی خزائن جلد7صفحہ 284تا285ترجمہ عربی عبارت)
عِلۡمِیۡ مِنَ الرَّحۡمٰنِ ذِیۡ الْآلاَئِ
بِاللّٰہِ حُزۡتُ الۡفَضۡلَ لَا بِدَہَائِ
میرا علم خدائے رحمن کی طرف سے ہے جو نعمتوں والا ہے۔میں نے خدا کے ذریعہ فضل الٰہی کو حاصل کیا ہے نہ کہ عقل کے ذریعے سے
أُعۡطِیۡتُ مِنۡ إِلۡفٍ مَعَارِفَ لُبَّہَا
أُنزِلۡتُ مِنۡ حِبٍّ بـِدَارِ ضِیَائِ
مجھے محبوب کی طرف سے معارف کا مغز عطا کیا گیا ہے۔اور میں اپنے محبوب کی طرف سے روشنی کی جگہ میں اتارا گیا ہوں ۔
إِنّیۡ کَتَبۡتُ الۡکُتُبَ مِثۡلَ خَوَارِقٍ
اُنظُرۡ أَ عِنۡدَکَ مَا یَصُوۡبُ کَمَائِیۡ
میں نے معجزات کے رنگ میں کتابیں لکھی ہیں۔دیکھ کیا تیرے پاس ایسا پانی ہے جو میرے پانی کی طرح برسے
إِنۡ کُنۡتَ تَقۡدِرُ یَا خَصِیۡمِ کَقُدۡرَتِیۡ
فَاکۡتُبۡ کَمِثۡلِیۡ قَاعِدًا بِحِذَائِیۡ
اے میرے مخاصم!اگر تو میری طرح قدرت رکھتا ہے تو میری طرح میرے سامنے بیٹھ کر لکھ۔
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 716تا720)
مجھے میرے رب نے اپنی کتاب کے علوم سکھائے
وَاِنَّ کَلَامِیۡ مِثۡلِ سَیۡفٍ قَاطِعٍ
وَاِنَّ بَیَانِیۡ فِیۡ الصُّخُوۡرِ یُؤَثِّرُ
میرا کلام تلوار کی طرح کاٹ دینے والا ہے۔
اور میرا بیان چٹانوں میں بھی اثر پیدا کردینے والا ہے
وَ عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ عُلُوۡمَ کِتَابِہ
وَاُعۡطِیۡتُ مِمَّا کَانَ یُۡخۡفَی وِ یُسۡتَرُ
مجھے میرے رب نے اپنی کتاب کے علوم سکھائے
اور مجھے وہ علم دیا گیا جو مخفی اور مستور تھا
وَ اَسۡرَارُ قُرۡآنٍ مجیدٍ تَبَیَّنَتۡۡ
عَلَیَّ وَ یَسَّرَ لِیۡ عَلِیۡمُٗ مُیَسَّرُ
اور قرآن مجید کے بھید مجھ پر ظاہر ہوگئے۔آسانی پیدا کرنے والے خدائے علیم نے پیرے لئے آسانی پیدا کردی
(حمامۃ البشری،روحانی خزائن جلد 7صفحہ332تا334)
قلمی جہاد کے لیے سلطان القلم کی انتھک محنت اورمجاہدہ
بدن تو تکلیف کے واسطے ہے
٭…بکثرت مضمون نویسی اور کاپی وغیرہ دیکھنے میں جو تکلیف انسان کو ہوتی ہے اس کو مد نظر رکھ کر ایک خادم نے (ظہر کے وقت) اس تکلیف میں حضور کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
’’بدن تو تکلیف کے واسطے ہے۔اور کس لئے ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 572)
نیت تو ساری رات کی تھی
٭…فجر کے وقت فرمایا کہ
’’میں کتاب تو ختم کر چکا ہوں۔رات آدھی رات تک بیٹھا رہا۔نیت تو ساری رات کی تھی مگر کام جلدی ہی ہو گیا۔اس لئے سو رہا۔اس کا نام مواہب الرحمٰن رکھا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 691)
میں گرنے کے قریب ہو گیا
٭…مضمون زیر قلم کی نسبت ایک استفسار پر فرمایا کہ
’’یونہی امتحاناًمیں نے دیکھنا چاہا تھا کہ کچھ لکھ سکتا ہوں کہ نہیں مگر چند ہی حرف لکھنے کے بعد سر کو چکر آگیا اور میں گرنے کے قریب ہو گیا۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 538)
خدا کے کام کےلیے جاگنا جہاد ہے
٭…فجر کے وقت فرمایا کہ
’’رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کاپیاں اور پروف صحیح ہوئے۔مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت علیل تھی وہ بھی جاگتے رہے۔وہ اس وقت تشریف نہیں لا سکیں گے۔یہ بھی ایک جہاد ہی تھا۔رات کو انسان کو جاگنے کا اتفاق تو ہواکرتا ہے مگر کیا خوش وہ وقت ہے جو خد اکے کام میں گذارے۔ایک صحابی کا ذکر ہے کہ وہ جب مرنے لگے تو روتے تھے ۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا موت کے خوف سے روتے ہو تو کہا موت کا کوئی خوف نہیں مگر یہ افسوس ہے کہ یہ وقت جہاد کا نہیں ہے۔جب جہاد کیا کرتا تھا۔اگر اس وقت یہ موقعہ ہوتاتو کیا خوب تھا۔‘‘
فرمایا کہ’’میرے اعضاء توبے شک تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا۔وہ چاہتا ہے کہ کام کئے جاؤ۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 691)
انسا ن کی خو ش قسمتی
٭…’’اگر ہو سکے تو د ین کی خد مت کر نی چا ہیئے ۔اس سے زیا دہ خو ش قسمتی اور کیا ہے کہ انسا ن کا وقت ، وجو د ،قو یٰ ،مال ، جان خدا کے د ین کی خد مت میں خر چ ہو ۔ہمیں تو صر ف مر ض کے دورہ کا ا ند یشہ ہو تا ہے۔ ورنہ دل یہی کر تا ہے کہ سا ر ی ساری رات کئے جا ویں۔ ہما ری تو قریباً تما م کتا بیں ا مر اض وعوارض میں ہی لکھی گئی ہیں ۔ازالہ وہا م کے وقت میں بھی ہم کو خا ر ش تھی۔ قریباًایک بر س تک وہ مر ض رہاتھا۔‘‘
(ملفوظات جلدسوم صفحہ 112)
اپنی زندگی کو اسی راہ میں فدا کردیں
٭…’’ اس وقت ہم پر فرض ہوگیا ہے کہ بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کی خرابیوں کی اصلاح کرنے کے لئے بدل و جان کوشش کریں اور اپنی زندگی کو اسی راہ میں فدا کردیں اور وہ صدق قدم دکھلاویں جس سے خدائے تعالیٰ جو پوشیدہ بھیدوں کو جاننے والا اور سینوں کی چھپی ہوئی باتوں پر مطلع ہے راضی ہوجائے۔ اسی بنا پر میں نے قصد کیا ہے کہ اب قلم اٹھا کر پھر اس کو اس وقت تک موقوف نہ رکھا جائے جب تک کہ خدائے تعالیٰ اندرونی اور بیرونی مخالفوں پر کامل طور پر حجت پوری کر کے حقیقت عیسویہ کے حربہ سے حقیقت دجّالیہ کو پاش پاش نہ کرے۔ لیکن کوئی قصد بجز توفیق و فضل و امداد و رحمت الٰہی انجام پذیر نہیں ہوسکتا اور خدائے تعالیٰ کی بشارات پر نظر کر کے جو بارش کی طرح برس رہی ہیں اس عاجز کو یہی امید ہے کہ وہ اپنے اس بندہ کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنے دین کو اس خطرناک پراگندگی میں نہیں چھوڑے گا جو اب اس کے لاحق حال ہے۔‘‘
(نشان آسمانی،روحانی خزائن جلد 4صفحہ 406تا407)
بہت اچھا مضمون ہے۔ جزاک اللّٰه