طارق مسعود صاحب (مربی سلسلہ)
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں اور سبھی نے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ مگر نیک اوراچھے لوگ کبھی نہیں مرتے۔وہ اپنی مادی جسمانی صورت سے تو آزاد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں دلوں میں ہمیشہ گھر کیے رہتی ہیں اور ہم انہیں وقتاً فوقتاً یاد کرتے رہتے ہیں۔ جب بہت پرانے رشتے ٹوٹنے اور بکھرنے لگتے ہیں تو دنیا خود بخود چھو ٹی ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ اگرچہ دنیا نہ تو چھوٹی ہوجاتی ہے اور نہ ہی بڑی مگر رشتوں کے سمٹ جانے پر کسی فرد کے احساسات گویا ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی اچھے لوگوں میں سے خاکسارکا ایک دوست طارق مسعود بھی ہے جو24؍جولائی 2017ء اور ذوالقعدہ کی پہلی تاریخ 1438 ہجری بروز سوموار دوپہر قیدِ جسم سے اپنی شادی سے صرف ایک روز قبل رہاہوگیا۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
خاکسار دفتر سے واپسی پر طارق سے ملاقات کر کے گھر پہنچا اور کھانا کھانے کے بعد قیلولے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ ایک دوست نے مجھے فوری طور پریہ خبر کنفرم کرنے کے لیے کہا جو طارق کے ایک ہمسائے نے واٹس ایپ گروپ میں دی تھی کہ ’’طارق کی حالت سیریس ہے اور کرنٹ لگا ہے‘‘ معلوم ہوا کہ ابھی ہسپتال میں ہے۔بجائے ہسپتال جانے کے ایک دوست کی طرف اس یقین سے گیا کہ دونوں نے تیمارداری ہی تو کرنی ہے تیزی سے ہسپتال پہنچے اور ڈاکٹر کی آواز کی گونج سماعتوں کو چیرتی ہوئی دل کے پردوں میں ہل چل مچا گئی۔ میں باجود سرد جسم کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے اس بات کو ماننے سے انکاری تھا۔ میرا یقین اس وقت ٹوٹا جب تیمارداری،تعزیت میں بدل گئی۔
میں ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا۔1998ء یا 1999ء میں اپنے ننھیال گرمولا ورکاں میں پہلی ملاقات، اور پھر ربوہ شفٹ ہونے کے بعد 2005ءسے 2017ء تک کے بحیثیت کلاس فیلو،روم میٹ،دوست،بھائی، کزن، ہر طرح کے احساس و جذبات آنکھوں میں چلنے لگے۔ 2016ء میں F.A کی تیاری کرتے ہوئے وہ لمحات بھی سامنے آئے جب اپنی بھتیجی ہانیہ کی وفات پر مرحوم نے اپنے جذبات و احساسات کو اپنے دل میں نہ صرف دبائے رکھا بلکہ اس مشکل گھڑی میں امتحان دےکر جنازے میں شرکت کی۔قبرستان میں بغل گیر ہونے اور بغیر بولے اپنے غم کو اشکوں سے چھلکتی آنکھوں سے دوسروں کو حوصلہ دیتے ہوئے نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔
یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ میں کسی کی زندگی کے آخری لمحات اوراس کے سرد پرسکون جسم کو اتنے قریب سے دیکھوں۔ میں جان گیا تھاکہ طارق اب اُس نایاب قبیلے میں شامل ہو گیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
میں اِس اَمر کو تو اچھی طرح جانتا ہوں کہ مشیّت ایزدی یہی ہے کہ جو کوئی بھی اِس دنیا میں آتا ہے اُس نے ایک نہ ایک دن جانا ہی ہوتا ہے لیکن کیا میں زندگی بھراس کی یادوں اس کے ساتھ بیتے لمحات کو بھول پاؤں گا، یہ شاید ممکن نہیں۔
سکول یا جامعہ میں جب بھی طارق کے بارے کسی کو کچھ پوچھنا ہوتا تومیری طرف ہی رجوع کیا جاتا۔طارق کواپنے سکول کےدَور میں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتے دیکھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری پریکٹیکل کی کاپیاں چیک ہونی تھیں اور اس کی بنا پر نمبرز لگنے تھے، پوری رات جاگ کر ایسےطلباء کی کاپیاں بنانے میں مصروف رہے جو کسی وجہ سے بنا نہ سکےتھے۔
تعلیم میں کمزور کلاس فیلوز کو سمجھانے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ کئی طلباء کو مسلسل کئی کئی گھنٹوں تک ایک ہی سبق بار بار یاد کروانے کی کوشش کرتے۔ان کی کوشش ہوتی تھی ہمارے یہ ساتھی کسی طرح کامیاب ہو جائیں۔سکول کے دور سے ہی انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کبھی کسی سے کوئی شرارت نہ کی۔ اگر کوئی دوسرا انہیں تنگ کرنے کی کوشش بھی کرتا تو ہمیشہ مسکرا کر خاموش ہو جایا کرتے۔
میٹرک میں بعض غیر احمدی طلباء کی خصوصی طور پر مالی معاونت بھی کی۔ نیز ان کو تعلیمی طور پر بھی بہتر بنانے کے لیے سکول ٹائم کے بعد بھی لیکچر دیتے۔ جماعتی عزت و وقار کا خاص خیال رکھنے والے تھے۔اگر کسی دوست نے نادانستگی میں کوئی بات کہہ دی ہو تو اس کو بڑے جلالی انداز میں سمجھاتے کہ تم غلط ہو اورجماعت صحیح ہے اور اس کی ساتھ دلیل بھی دے کراگلے کو مکمل طور پر مطمئن کرتے۔
سکول میں غیر از جماعت طلباء کے ساتھ بھی انتہائی مخلصانہ دوستی رکھتے تھے لیکن اگر کوئی دوست جماعت کے خلاف بات کرتا تو فوراً اس کی تردید کرتے اور ثابت کرتے کہ اصل حقیقت ایسی نہیں جسے تم بیان کر رہے ہو۔ ہمارے غیر احمدی اساتذہ نے ایک دو مرتبہ اسلامیات کی کلاس کے دوران جماعتی عقائد سے ہٹ کر یا اس کےخلاف بات کی تو ان کی بات کا ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے سوال کی شکل میں رد کیاجس سے وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔
2007ء میں ہم میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ مرحوم کی شدید خواہش تھی کہ وہ جامعہ میں داخل ہوں۔اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے مسلسل کئی دن تک داخلےکی تیاری کی۔وہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم دین کی خدمت کر سکیںاور باوجود نا مساعد حالات کے انہوں نے وقف کو احسن طریق پر نبھایا۔
جامعہ احمدیہ داخل ہونے کے بعد پڑھائی کی طرف خصوصی توجہ دیتے۔ اکثر اوقات مطالعہ کرتے رہتےتھے۔ممہدہ اوراولیٰ کلاس میں سائیکل پر میرےگھر کی طرف آتے ہوئے سورتیں اور قصیدہ کے اشعاریاد کرتے۔
والدین،بہن بھائیوں اور عزیزوں سے انتہائی محبت کا سلوک کرتے۔ اگر ہم کبھی ربوہ سے باہر چنیوٹ یا فیصل آباد جاتے تو واپسی پر ان کی کوشش ہوتی تھی کہ گھر والوں کے لیے کوئی چیز لازماً خریدیں۔خصوصی طور پر اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کے لیے ان کی کوشش ہوتی تھی کچھ لازمی لےکر جائیں۔انتہائی گرمی کے ایام میں جب ہم کہیں سے آتے تو ناناجان(راجہ عبدالعزیز صاحب سابق اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ ربوہ) کی ایک آواز پر باوجود تھکے ہونے کے انہیں سائیکل پر ہسپتال لےکر جاتے۔
اسی طرح ہم روم میٹس میں سے کوئی بیمار ہو تاتو فکر مندی کا اظہار کرتے اور ہر ممکن خیال رکھنے کی کوشش کرتے۔ کئی مرتبہ اپنی جیب سے دوائی اور کھانے پینے کی چیزیں لےکر آتے۔
درجہ ثالثہ کلاس کے امتحانات کے ایام میں خاکسار کو شدید بخار ہو گیا۔ مرحوم نہایت محنت سے اس کو شش میں رہے کہ کسی طرح خاکسار امتحان دے سکے۔مجھے کہنے لگے کہ آپ سنتے جاؤ میں اونچی آواز میں پڑھ کر یاد کرواتا ہوں۔اور اس طرح تمام امتحانات کی تیاری کروائی۔
انتہائی شریف النفس،ملنسار، ہر دلعزیز اور سب کے غم خوار تھے۔ ہمیشہ نظریں جھکی ہوتی تھیں۔کم گو اور ہمیشہ نپی تلی بات کرنے والے تھے۔دکھی انسانیت کے لیے بہت ہمدردانہ جذبہ رکھتے تھے۔ خلافت کےلیے بے انتہا محبت و عقیدت رکھنے والے تھے۔اکثر جب کمرے میں ہماری بات ہوتی تو مسائل اور ان کے حل کی بات کرتے اور ان مسائل کا آخری حل اور سہارا خلافت کو ہی بتاتے۔درجہ شاہد کے امتحانات میں کامیابی کے بعد بہت فخر سےبتاتے کہ یہ کامیابی خدا کے فضل اور خلیفۃ المسیح کی دعاؤں سے ہی حاصل ہوئی ہے۔
جامعہ میں آپ کو ’’اہلِ سنّت والجماعت کے حنفی فرقوں کا تعارف و عقائد‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھنے کی توفیق ملی۔ مقالہ لکھنے کے بعد آخری نتیجے کا ذکر میرے ساتھ اس طرح کیا کہ یہ تمام فرقے جو اس قدر بدعات مختلفہ میں پڑے ہیں ان سب کی ایک وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس کوئی ایک امام نہیں۔ اگر کوئی محدود پیمانے پرہے بھی تو وہ اپنی علمیت اور دوسروں کو نیچا دکھانے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں نتیجۃً ان کے ماننے والے آپس کی لڑائیوں اورنفرتوںاور بدعات میں پڑے ہیں۔نیز جماعت احمدیہ کے ساتھ تائید خداوندی کا موازنہ دیگر مخالف تنظیموں کے ساتھ کرتے کہ کس طرح باوجود عوام الناس میں مقبولیت اور کثیر التعداد ہونے کے خدا تعالیٰ جماعت کو ہی کامیابیوں سے نوازتا ہے۔
جامعہ احمدیہ کے ایام میں کمرے میں اکثر علمی باتیں کرتے۔اور ان علمی باتوں میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات کا ذکر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ امام وقت نے فیصلہ فرما دیا ہے تواس پر مزید بحث کرنالا یعنی ہے جو فیصلہ ہے اسی کو ماننا ہمارا فرض ہے۔
جامعہ احمدیہ میں نوٹس لیتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ سات سال ہی نہیں ،ہم نے پوری زندگی وقف کی ہے۔ اور پوری زندگی اسلام کے غلبہ کی کوشش کرنی ہے اس لیے ان نوٹس کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
جامعہ پاس کرنے کے بعد آپ کو مکرم نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں مربیان سلسلہ کی سیرت کے حوالہ سے مواد جمع کرنے کی توفیق ملی۔بعد ازاں نظارت ھٰذا میں ہی شعبہ دروس سیکشن میں خدمت کی توفیق ملی۔ یہاں بھی اپنے شعبے کو بہتر بنانے میں ہرممکن کوشش کرتے۔
عموماً عصر کے بعد ہم دریا پر جاتے تھے وہاں ان کو ہمیشہ یہی فکر لگی رہتی کہ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز کے لیے پہنچنا ہے جہاںجماعت کی طرف سے ان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔
اگست2016ءمیں دورہ جات کے سلسلہ میںتمام مربیان کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔مکرم طارق مسعود صاحب کو کسی دوسرے مربی صاحب کی جگہ جو کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے، سندھ نوابشاہ جانے کا حکم ملا۔ جبکہ آپ کی سفر کے لیے کسی بھی قسم کی تیاری اور وہاں ہفتہ عشرہ رہنے کے لیے کوئی زاد راہ تیار نہ تھا۔آپ بغیر کسی حیل و حجت کے اس ہفتہ،عشرہ کے دورہ کے لیے دو سوٹ لےکر نکل گئے اور یہی کہتے کہ جب زندگی وقف کی ہے تونخرے کیا کرنےہیں۔
خاکسار کے تبادلے کی خبر معلوم ہونے پر انہوں نے خصوصی کال کر کے مجھے کہا کہ ہم نے زندگی وقف کی ہے۔ جہاں بھی خدمت کرنے کا حکم ملے اور جیسے مرضی حالات میں جانے کا حکم ہو وہاں خوشی سے جانا چاہیے۔
ان میں صبر کا وصف بہت نمایاں تھا۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے 2016ء میںہم مل کر. F.Aکے امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ جس دن ہمارا انگریزی کا امتحان تھا اسی دن طارق مسعود صاحب کی بھتیجی کی وفات ہو گئی۔ مربی صاحب باوجود انتہائی دکھ کے یہی کہتے نظر آئے ’’ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو‘‘ اور معمولی سی تیاری اور دعاکے بعد امتحان بھی دیا جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوئے۔
مرحوم میں پیچھے رہ کر خدمت کرنے کا جذبہ بہت تھا۔ عموماً اپنی خدمات کا ذکر کسی کے سامنے نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ خدا تعالیٰ کی خاطر خدمت بجا لائی جائے۔ اگر کسی کی کوئی مدد نہ بھی کر سکتے تو اسےایسے بندے کے پاس بھجوانے کی کوشش کرتے جہاں اس کا مسئلہ حل ہو سکتا ہو۔ نیز اسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعائیہ خط اور خود بھی دعا کرنے کی نصیحت کرتے۔
وفات سے قبل خیر پور سندھ کی ایک جماعت میں خدمت کی توفیق ملی۔آپ نے انتہائی محبت اور خلوص سے کام کیا۔ وہاں کے رہنے والے ایک خادم نے بتایا کہ محترم مربی صاحب نے وہاں جا کر ایک فرد خانہ کی طرح کام کیا۔مسجد اور مربی ہاؤس کی صفائی باقیوں کے ساتھ مل کر کی۔آپ خاموش خدمت گزار تھے۔باجود معمولی الاؤنس کے کئی غریبوں کی مد د کرنے والے تھے۔
آپ کا ذکر خیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان الفاظ میں فرمایا :
’’…مکرم طارق مسعود صاحب مربی سلسلہ …۔ یہ مکرم مسعود احمد طاہر صاحب کے بیٹے اور نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں مربی تھے۔ 24؍ جولائی کو ستائیس سال کی عمر میں ربوہ میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے وفات پا گئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑدادا مکرم مہر بخش صاحب کے ذریعہ آئی تھی۔ راجوری کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ مہر بخش صاحب 1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے تھے۔ طارق مسعود صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے 2007ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد جامعہ میں تعلیم حاصل کی۔ اور 2016ء میں ایف۔ اے کا امتحان بھی دیا۔ 2014ء میں جامعہ پاس کیا۔ نوجوان مربی تھے لیکن نہایت مخلص، شریف الطبع، والدین کا خیال رکھنے والے، دوستوں کا خیال رکھنے والےاور غریب پرور۔ بہت سے غریبوں نے بعد میں بتایا کہ اپنے معمولی الاؤنس سے بھی ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک دن کے بعد ان کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کے والدین کے علاوہ تین بھائی مکرم اشفاق احمد ظفر صاحب، سرفراز احمد جاوید صاحب، عطاء الرحیم صاحب اور ایک ہمشیرہ فوزیہ مسعود صاحبہ ہیں۔ ان کی والدہ لکھتی ہیں کہ چندوں میں بڑھ چڑھ کر نہ صرف حصہ لیتے بلکہ ہمیں بھی تلقین کرتے کہ چندوں میں حصہ لیا کریں۔ ان کے والد بیان کرتے ہیں کہ خلافت سے بے انتہا محبت رکھنے والا تھا۔ بہت ہی نیک انسان تھا۔ نماز باجماعت کی ہمیشہ سے عادت رہی۔ مربی بننے سے پہلے بھی اہل خانہ کو نمازوں کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں فجر کی نماز کے بعد آ کر باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے اور انہیں دیکھ کر ہمیں بھی اپنی کمزوریوں پر شرمندگی ہوتی تھی۔ اور بہت محبت سے پیش آنے والا، بہت فرمانبردار بیٹا تھا۔ گھر والوں سے، ماں باپ سے کبھی اختلاف نہیں کیا اور اگر اختلاف ہو بھی تو بڑے تحمل سے سمجھایا کرتا تھا۔ خلافت کی خاطر بڑی غیرت رکھنے والا تھا۔ کہیں بھی اگر کوئی ایسی بات کرتا جو نظام جماعت یا خلافت کے منصب کے خلاف ہوتی تو فوری طور پر ان کو روکتا اور اگر وہ نہ رکتے تو پھر اس مجلس سے اٹھ کے چلا جاتا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍اگست 2017ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ25؍اگست 2017ءصفحہ9)
مرحوم نے آخری شعر جو سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر شیئر کیے تھے وہ کچھ یوں ہے
تُو تو شَہ رگ کے پاس تھا لیکن
طے ہمِیں سے یہ فاصلہ نہ ہُوا…!
گر ہو سکے تو دعا کرو…!
میری شدتوں کو خدا ملے…
مکرم طارق مسعود صاحب 24؍جولائی 2017ءبروز سوموار بوقت 2:45بجےاپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔
آپ کی نماز جنازہ اگلے دن مکرم بشارت محمود صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے پڑھائی۔جبکہ تدفین کے بعد دعا مکرم خالد مسعود صاحب قائم مقام ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے کروائی۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَ ارْحَمْہٗ وَ اَدْخِلْہُ فِی جَنَّاتِ النّعِیم
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
٭…٭…٭