حضرت سعید بن زیدؓ کی بیوی فاطمہؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا باعث بنیں
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت صحابہحضرت سعید بن زیداور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
جنگِ بدر میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے پہلو میں کھڑے دو انصاری بچوں معاذ اور معوذ نے پلک جھپکتے میں ابوجہل کو واصلِ جہنم کردیا تھا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ جون 2020ء بمطابق 12؍ احسان 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ 12؍ جون 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطا الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج مَیں جن صحابہ کا ذکر کروں گا اُن میں سے ایک ہیں حضرت سعید بن زیدؓ۔ دراز قد،گندمی رنگ اور گھنے بالوں والے سعیدؓ کا تعلق قبیلہ عدی بن کعب بن لوی سے تھا۔ان کا شجرہ نسب چوتھی پشت میں حضرت عمرؓ اور آٹھویں پشت میں آنحضرتﷺ سے ملتا ہے۔ سعیدؓ کی بہن عاتکہ کی شادی حضرت عمرؓ اور حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہ کی شادی آپؓ سے ہوئی تھی۔ حضرت سعیدؓ کے والد زید بن عمرو دینِ ابراہیم پر قائم موحد شخص تھےاور حضرت اسماء بنت ابوبکر کی ایک روایت کے مطابق زید بیٹیوں کو زندہ درگور نہ کیاکرتے بلکہ اگرکسی شخص کے ایسےارادے کی خبر زید کو ہوتی تو وہ اسےاس ظالمانہ فعل سے روکتے اور بچی کا خرچ اور خوراک کی ذمہ دای خود لے لیتے۔ حضورِانور نے فرمایا بعض دفعہ بچےاسلام سے قبل رسول اللہﷺ کے دین کے متعلق سوال کرتے ہیں تو آپؐ سب سے بڑھ کر موحد تھے اور ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ بعثتِ نبوی سے پیشترسعیدؓ کے والد زیدکی حضورِاکرمﷺ سے ملاقات کی ایک روایت صحیح بخاری میں ملتی ہے جس کے مطابق آنحضورﷺ نےغیراللہ کے نام پر ذبیحے کو کھانے سے اجتناب فرمایا اور زید نے اس پر کہا کہ مَیں بھی غیراللہ کے نام پر ذبح کی گئی چیزیں نہیں کھاتا۔
زید بن عمرو نے کفروشرک سے متنفر ہوکر حق کی تلاش میں دُوردراز ممالک کا سفر اختیار کیا اور ملکِ شام میں یہودی و نصرانی علما ءسے ملےجنہوں نےانہیں دینِ حنیف کی پیروی کی تاکید کی۔ زید نے رسول اللہﷺکا زمانہ پایا لیکن بعثت سے پانچ سال قبل وفات پاگئے ۔
عامر بن ربیعہ سے زید بن عمرو نے ایک بار کہا کہ وہ دینِ ابراہیم پر قائم ہیں اوراسمٰعیلؑ کی نسل میں ایک نبی کے منتظر ہیں لیکن اُن کا خیال تھا کہ وہ اُس نبی کا زمانہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ انہوں نے عامر کو نصیحت کی کہ اگر تم اُس نبی کا زمانہ پاؤ تو اسے میرا سلام کہنا۔ عامر بن ربیعہ جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے آنحضرتﷺ کوزید کاپیغام پہنچایا اور سلام عرض کیا۔ آنحضرتﷺ نے سلام کا جواب دیا اور رحمت کی دعا کی۔ پھر فرمایا کہ مَیں نے زید کو جنت میں اس طرح دیکھا کہ وہ اپنے دامن کو سمیٹ رہا تھا۔ایک اَور موقعےپر آپؐ نے زید کےمتعلق فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اکیلے ایک امّت کےبرابر اٹھائے جائیں گے۔
حضرت سعیدؓ بن زید اور اُن کی بیوی فاطمہؓ آنحضرتؐ کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لے آئے تھے۔آپؓ کی اہلیہ فاطمہؓ حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا باعث بنیں جس کی تفصیل حضرت خباب بن ارتؓ کے ذکر میں بیان ہوچکی ہے۔اس واقعے میں کیونکہ حضرت سعیدؓ کا بھی کردار ہے اس لیے حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ‘سیرت خاتم النبیین’ کے حوالے سے اس واقعےکو دوبارہ بیان فرمایا۔
جب حضرت عمرؓ آنحضورﷺ کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے اور کسی شخص کے خبر دینے پر اپنی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زیدؓ کی خبر لینے اُن کے گھر پہنچے اور قرآن مجید کی تلاوت کی آواز اُن کے کانوں میں پڑی توآہٹ سُن کر حضرت خباب ؓ تو چُھپ گئے لیکن حضرت عمرنے سعیؓد کو دبوچ لیا۔ اس وقت عمر اس قدر غصّے میں تھے کہ جب ان کی بہن فاطمہ اپنے خاوند کو بچانےدرمیان میں آئیں تو وہ بھی زخمی ہوگئیں۔
حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے واقعے کو مختصراً بیان کرنے کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ یہ حضرت سعیدؓ تھے جو حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا بھی ذریعہ بنے۔ حضرت سعیدؓ اولین مہاجرین میں سے تھے۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کی مؤاخات رافع بن مالک یا ابی بن کعب کے ساتھ قائم فرمائی تھی۔حضرت سعیؓد غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے تاہم رسول اللہﷺ نے انہیں مالِ غنیمت میں سے حصّہ دیا تھا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اسی لیے مَیں اُن تمام صحابہ کو جنہیں عدم شرکت کے باوجود رسول اللہﷺ نے حصّہ دے کر یا کسی بھی رنگ میں بدر میں شامل فرمایا بدری صحابہ میں شمار کر رہا ہوں ۔
حضرت سعید بن زیدؓ غزوۂ بدر میں اس لیے شامل نہ ہوسکے تھے کیونکہ بدر پر روانگی سے دس روزقبل آنحضرتﷺ نے قریش کے قافلے کی شام سے روانگی کا اندازہ لگا کر خبررسانی کی غرض سےآپؓ اور حضرت طلحہؓ کو روانہ فرمایا۔ ان دونوں اصحاب کی واپسی سے پیشتر ہی آنحضورﷺکو کفّار کےارادوں کی خبر مل گئی اور آپؐ صحابہ کے ہم راہ قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوگئے۔ حضرت طلحہؓ اور سعید بن زیدؓ جس روز مدینہ پہنچے تو یہ وہی دن تھا جب بدر کے مقام پر رسول اللہﷺ کی قریش سے جنگ ہوئی۔ یوں حضرت سعیدؓ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے۔
حضرت سعید بن زیدؓ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے حرا ٹھہرا رہ! یقیناً تجھ پر ایک نبی اور صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ عرض کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں تو سعیدؓ نے کہا رسول اللہﷺ،ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ، علیؓ،طلحہؓ،زبیرؓ،سعدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ۔ یہ نو لوگ تھے۔ دسویں کی بابت دریافت کرنے پر آپؓ نے توقف کے بعد فرمایا کہ وہ مَیں ہوں۔
حضرت عمرؓ کی خلافت میں سعیدؓ شام کے معرکے میں پیدل فوج کی افسری پر متعین تھے۔جنگ کے دوران ہی آپؓ کو دمشق کی گورنری پر مامور کیا گیا لیکن انہوں نے جہاد سے محرومی کے خیال سے معذرت کرلی۔ حضرت سعیدؓ کے سامنے بہت سے انقلاب برپا ہوئے اور بیسیوں خانہ جنگیاں ہوئیں۔ آپؓ اپنے زہدوتقویٰ کے باعث ان سب فتنوں سے کنارہ کش رہے تاہم اپنی رائے کا اظہاربلا تامل کیا کرتے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت پر آپؓ نےفرمایا کہ تم لوگوں نے عثمان کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے اگر احد پہاڑ متزلزل ہوجائے تو کچھ عجب نہیں۔ اسی طرح مغیرہ بن شعبہ نے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کی شان میں گستاخی کی تو آپؓ نے حضرت علیؓ کے عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اسے باز رہنے کی تلقین کی۔
آپؓ انتہائی مستجاب الدعوات تھے،امیر معاویہ کے عہد میں ایک عورت اَروٰی نےآپؓ پر زمین پر قبضے کا الزام لگایا تو آپؓ نے حکام کے رُوبرو کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ مَیں رسول ا للہﷺ سے یہ سننے کے بعدظلم کرسکتا ہوں کہ جو ظلم کی راہ سے ایک بالشت زمین بھی غصب کرے گا قیامت کے دن ساتوں زمینیں اس کے گلے کا طوق ہوں گی۔ پھر آپؓ نے دعا کی کہ اے خدا! اگر اَروٰی جھوٹ بولتی ہے تو اس کو اس وقت تک موت نہ دے جب تک اس کی نظر نہ جاتی رہے اور اس کی قبر اس کے گھر کا کنواں ہو۔ چنانچہ وہ عورت پہلے بصارت سے محروم ہوئی اور پھر اپنے گھر کے کنویں میں گِر کر مر گئی۔
حضرت سعید بن زیدؓ نے پچاس یا اکاون ہجری میں تقریباً ستّر برس کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آپؓ کو غسل دیا جبکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپؓ مدینے میں مدفون ہوئے۔ مختلف اوقات میں سعیدؓ نے دس شادیاں کیں اور آپؓ کے ہاں تیرہ لڑکے اور اُنّیس لڑکیاں پیدا ہوئیں۔
حضرت سعیدؓ کے ذکر کے بعد حضورِانور نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا مختصر ذکر فرمایا۔ آپؓ کا نام زمانہ جاہلیت میں عبدِ عمرو یا عبدالکعبہ تھا۔اسلام لانے کے بعد حضورﷺ نے نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ دیا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ زہرہ بن کلاب سے تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ دراز قد اور سرخی مائل سفید رنگت کے مالک تھے، آنکھیں خوب صورت،سفید اور پلکیں لمبی تھیں۔آپؓ عام الفیل سے دس برس پہلے پیدا ہوئے اور اُن گنتی کےافراد میں شامل تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ،حضرت عمرؓ کی قائم کردہ چھ افراد پر مشتمل انتخابِ خلافت کی شوریٰ کے ممبر بھی تھے۔ ابتدائی اسلام لانے والوں میں آپؓ کا نمبر آٹھواں تھا۔ ہجرت کے بعد آنحضورﷺ نے آپؓ کی مؤاخات حضرت سعد بن ربیعؓ کےساتھ قائم فرمائی تو سعدؓ نے کہا کہ مَیں انصار میں سے مال دار ہوں مَیں اپنے نصف مال اور دو بیویوں میں سےا یک سے دست بردار ہوجاتا ہوں۔ عدت گذرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے انہیں اموال و نفوس میں برکت کی دعا دی اور خودقلیل سرمائے سے تجارت کا آغاز کردیا جس میں خدا نے بہت برکت دی۔
جنگِ بدر میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے پہلو میں کھڑے دو انصاری بچوں معاذ اور معوذ نے پلک جھپکتے میں ابوجہل کو واصلِ جہنم کردیا تھا۔ حضورِانور نے اس واقعے کے کوائف اور تفاصیل پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ واقعہ پہلے بھی ایک دو دفعہ بیان ہوچکا ہے۔ یہ ان سب صحابہ کا آنحضرتﷺ سے محبت اورعشق تھا جس کی وجہ سے ان کو اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں تھی۔ خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے فرمایا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ کروں گا۔
٭…٭…٭