ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور فارسی ادب (قسط نمبر36)
دعا کی قبولیت کب؟
یہ خوب یاد رکھو کہ انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے۔ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے غفلت، فسق وفجورکو چھوڑ دے۔ جس قدر قرب الٰہی انسان حاصل کرے گا اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا۔ اسی لیے فرمایا:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرۃ:187)
اور دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَ اَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ (سبا:53)
یعنی جو مجھ سے دور ہو۔ اس کی دعا کیونکر سنو ں۔ یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے۔ یہ نہیں کہ خدا سن نہیں سکتا۔ وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور ان ارادوں سے بھی واقف ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ مگر یہاں انسان کو قرب الٰہی کی طرف توجہ دلائی ہےکہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق وفجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہوتا جاتا ہے۔ جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے کیا سچ کہا ہے ؎
پیدا است ندارا کہ بلند ہست جنابت
جیسے میں نے ابھی کہا گو خدا عالم الغیب ہے، لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
نادان انسان بعض وقت عدم قبول دعا سے مرتد ہو جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے کہ نوافل سے مومن میرا مقرب ہوجاتا ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 198)
*۔ اس حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے۔
پَیْدَااَسْتْ نِدَارَاکِہْ بُلَنْدہَسْتْ جَنَابَتْ‘‘
ترجمہ:۔ آواز سے ظاہر ہے کہ تیری بارگاہ بہت بلند ہے۔
حافظ کی غزل کے اندر ایک شعر اس طرح ملتا ہے۔
ھَرْنَالِہْ وفَرْیَادْکِہْ کَرْدَمْ نَشَنِیْدِیْ
پَیْدَاسْت نِگَارَا کِہْ بُلَنْداَسْتْ جَنَابَتْ
میں نے جس قدر بھی نالہ اور فریاد کی تو نے نہ سنی۔ اے معشوق ظاہر ہے تیری بارگاہ بہت بلند ہے۔