حاصل مطالعہ
باہمی اخوت و محبت
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ جوشخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اٹھالیتے اور رسول کریم کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے۔
مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے ربّ کریم کو یاد رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں۔ سو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے نجات تیار کی گئی ہے۔
جوشخص شرارت اور تکبر اور خود پسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہوگا۔ میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لائوں جو اس گروہ کے دلوں پر کار گر ہوںخدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جوان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دُور کردیں۔ میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہر یک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دُور جا پڑیں گے اور اپنے ربّ سے ڈرتے رہیں گے …ہاں نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شے ہے۔ جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجودوقیام نہ ہو۔ دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کے لیے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔ ‘‘
(شہادۃ القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ397-398)
(مرسلہ:ظہیراحمدطاہر۔ جرمنی)
کورونا لاک ڈاؤن کے احکامات کی تعمیل میں قادیان سمیت ہندوستان بھرکے احمدی مسلمان صفِ اوّل میں ہیں:انڈین پولیس
بھارتی اخبار’’دی ایسٹرن ہیرلڈ‘‘ کی رپورٹ
٭…دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار THE EASTERN HERALD کے مطابق انڈین پولیس نےاس بات کو سراہا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے بارہ میں جاری کردہ حکومتی احکامات پرعملدرآمد کرنے اور کروانے میں احمدی مسلمان سب سے آگے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے :
Ahmadis are at the front in obeying the lockdown rules:
Government instructions are fully implemented in the city of Qadian, which is the national headquarter of the Ahmadiyya Muslim Jama’at in India. Ahmadi Muslims are observing their prayers in homes. A senior police officer of this district told the media, “Qadian is number one in this district in obeying the rules of the lockdown.” Not just Qadian, Ahmadi Muslims all over India have valued the instructions of the government. A senior police officer of Kulgam Kashmir had this to say at the funeral of an Ahmadi Muslim, “This community has systematically obeyed all instructions of lockdown. I did not have to give any instructions to them, instead, they themselves did everything in a well-organised manner.”
ترجمہ :
’’لاک ڈاؤن کے قوانین کی تعمیل کرنے میں احمدی صفِ اوّل میں ہیں۔
قادیان شہر میں، جوکہ احمدیہ مسلم جماعت بھارت کا نیشنل ہیڈ کوارٹر ہے، حکومت کے جاری کردہ احکامات پرپوری طرح سے عملدرآمد ہورہا ہے۔ احمدی مسلمان گھروں میں نمازیں ادا کر رہے ہیں۔
اس ڈسٹرکٹ کے ایک سینئرپولیس افسر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’لاک ڈاؤن کے قوانین کی تعمیل بجالانے میں قادیان پہلے نمبر پر ہے۔ ‘‘
نہ صرف قادیان بلکہ ہندوستان بھرمیں احمدی مسلمانوں نے حکومتی احکامات کااحترام کیا ہے۔
چنانچہ کلگام، کشمیرکے ایک سینئرپولیس افسر نے ایک احمدی مسلمان کی تدفین کے موقع پرکہا کہ’’یہ کمیونٹی لاک ڈاؤن سے متعلق احکامات کی باقاعدہ طورپر تعمیل کررہی ہے۔ انہوں نے ایسے منظم طریق پر خود ہی سب کچھ کرلیا کہ مجھےانہیں کسی قسم کی ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ ‘‘
رپورٹ میں جماعت احمدیہ کا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ان تازہ ہدایات کا ایک جامع خلاصہ بھی شائع کیاگیا ہے جوآپ نے کورونا وائرس کی وبا کے حوالہ سے دنیا بھر کے احمدیوں کو جاری فرمائیں۔
اخبارنے اس بات پرافسوس کااظہارکیا کہ انڈیا میں ہونے والے بعض حالیہ واقعات کے نتیجہ میں وائرس کے پھیلاؤ کاالزام مسلمانوں کےسرتھوپ دیا گیا اورپھر اس کی آڑ میں مذہبِ اسلام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایاگیا، جبکہ حالات پہلے سے ہی کافی حساس نوعیت اختیارکرچکے ہیں۔
جماعت احمدیہ کی جاری کردہ ایک وضاحت کےحوالہ سے اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں حکومت کے جاری کردہ قواعدوضوابط کی تعمیل مسلمانوں کا مذہبی فریضہ شمارہوتی ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیں:
https://www.easternherald.com/news/corona-ahmadiyya-muslim-india-56305/
(مرسلہ:طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)
اگر تم اپنے اندر تذلّل نہيں محسوس کرتے تو پھر کوئی ترقی ترقی نہيں بلکہ تنزل ہے
٭…حضرت خليفة المسيح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں:
’’تم سکول بناؤ، کالج بناؤ، يونيورسٹي بناؤ، کچھ بناؤ اگر تمہارے مد نظر يہ بات نہيں کہ يہ سب ضمني باتيں ہيں، اصل مقصد خدا تعاليٰ کا قرب اور اُس کا فضل حاصل کرنا ہے تو پھر کچھ بھي نہيں۔ تمام قسم کي ترقيوں کے باوجود اگر تم اپنے اندر تذلل نہيں محسوس کرتے تو پھر کوئي ترقي ترقي نہيں بلکہ تنزل ہے۔ بيداري نہيں بے ہوشي ہے، زندگي نہيں موت ہے۔ اس کو مد نظر رکھنا اور اس کے پيدا کرنے کي کوشش کرنا ہر احمدي کا اوّلين فرض ہے۔ اصل کوشش اس بات کي ہوني چاہيے کہ نفسوں کے اندر يہ باتيں پيدا ہو جائيں۔ ميں کبھي کبھي اشعار ميں جو بظاہر عشقيہ معلوم ہوتے ہيں خاص باتوں کي طرف اشارہ کر جاتا ہوں۔ ميں نے ايک شعر ميں اسي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے ؎
خلق و تکوينِ جہاں راست پہ سچ پوچھو تو
بات تب ہے کہ ميری بگڑي بنائے کوئي
يعني دنيا کي ترقي مجھے کيا نفع دے سکتي ہے اگر ميرے اندر کوئي ترقي نہيں پيدا ہوئي۔ اِس ميں مَيں نے جماعت کو يہ بتايا ہے کہ ہمارے مد نظر يہ مقصد ہو کہ ہم کو يہ چيز حاصل ہو۔ اگر ہميں حاصل نہيں تو پھر ايسي ہي مثال ہے کہ ايک شخص تو ريوڑياں کھارہا ہے اور دوسرا منہ چِڑا رہا ہے۔ اِس نقّال کو کيا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اِس کي کوشش تو يہ ہوني چاہیے کہ بجائے دوسرے کے منہ کي شيريني پر منہ مارنے کے اِس کے منہ ميں شيريني آجائے۔ پس ہر احمدي کو روحانيت کي ترقي کي طرف توجہ کرني چاہیے اور اس کے لیے کوشش کرني چاہیے۔ ‘‘
(خطابات شوريٰ جلد اوّل صفحہ 520)
’’ميں‘‘کي قرباني
٭…’’خدا کو پانے کے لیے مال کي، جان کي، ارادوں کي، علم کي، وقت کي قرباني کافي نہيں۔ خدا تعاليٰ اِس احساس کي کہ مَيں ہوں قرباني چاہتا ہے۔ جب تک کوئي انسان اس مَيں کو مٹا نہيں ديتا اس وقت تک خدا اسے قبول نہيں کرتا کيونکہ وہ مشرک ہوتا ہے۔ ايسا انسان باوجود لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا نعرہ لگانے کے اس ميں شُبہ نہيں اپنے آپ کو ايک الگ وجود تصور کرتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے ميں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا قائل ہوں تو وہ خود اپنے اس دعوے کو ردّ کرتا ہے کيونکہ اگر مَيں ہے تو پھر وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ نہيں کہہ سکتا۔ اگر اللہ تعاليٰ کسي چيز کي قرباني کا مطالبہ کرتا ہے تو مَيں کي قرباني کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم اپنے نفس کو مٹا دو۔ تمہاري مرضي نہ ہو بلکہ ميري مرضي ہو۔ صرف مَيں رہوں اور ميرا کوئي شريک نہ ہو حتي کہ تم بھي نہ ہو۔ لوگ مال و جان قربان کرتے ہيں مگر اِس ميں اِن کي مرضي اور خواہش ساتھ ہو گي اور جب تک کوئي مَيں قربان نہيں کرتا اُس کي قرباني کي خدا تعاليٰ کے نزديک کوئي حقيقت نہيں۔ يہي وجہ ہے کہ بعض لوگ بڑي بڑي قربانياں کرتے ہيں مگر خدا تعاليٰ کے حضور قبول نہيں کي جاتيں کيونکہ انہوں نے اپنے نفس کو مارا نہيں ہوتا۔ ‘‘
(خطابات شوريٰ جلد اوّل صفحہ 215تا216)
نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دِمار
(براہین احمدیہ حِصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ144)
(مرتبہ:سید احسان احمد، مربی سلسلہ ،الفضل انٹرنیشنل )
٭…٭…٭