کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام
مامور کی دعائیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں
دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کر سکتی ہے۔ اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے اس میں بڑی تاثیریں ہیں۔ جہاں تک قضاء و قدر کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کوئی کیسا ہی معصیت میں غرق ہو دُعا اس کو بچا لے گی۔
اللہ تعالیٰ اُس کی دستگیری کرے گا اور وہ خود محسوس کر لے گا کہ اب میں اَور ہوں۔ دیکھو جو شخص مسموم ہے کیا وہ اپنا علاج آپ کر سکتا ہے؟ اُس کا علاج تو دوسرا ہی کرے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تطہیر کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مامور کی دعائیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں۔ دعا کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ دعا کے لیے جب درد سے دل بھر جاتا ہے اور سارے حجابوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت سمجھنا چاہئے کہ دعا قبول ہو گئی۔ یہ اسم اعظم ہے۔ اس کے سامنے کوئی انہونی چیز نہیں ہے۔ ایک خبیث کے لیے جب دعا کے ایسے اسباب میسّر آ جائیں تو یقیناً وہ صالح ہو جاوے اور بغیر دعا کے وہ اپنی توبہ پر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ بیمار اور محجوب اپنی دستگیری آپ نہیں کر سکتا۔ سنّت اللہ کے موافق یہی ہوتا ہے کہ جب دعائیں انتہا تک پہنچتی ہیں تو ایک شعلہ نور کا اُس کے دل پر گرتا ہے جو اُس کی ساری خباثتوں کو جلا کر تاریکی دور کر دیتا اور اندر ایک روشنی پیدا کرتا ہے۔
(الحکم جلد 7، نمبر 8 مورخہ 28 فروری 1903ء ص5-6)