کلمۃ الیقین فی تفسیر خاتم النبیینؐ
خدا ترس مسلمانوں کے لیے قابل غور حقائق
بر صغیر میں مسلمانوں نے اپنا الگ وطن ’’پاکستان‘‘ بنانے کے لیے جب کوششیں کیں تو اُس وقت مولوی شبیر احمد عثمانی صاحب نے لیگ کانفرنس میرٹھ کے خطبہ صدارت میں مسلمان کی تعریف یوں کی کہ ’’ہماری مراد مسلم کے لفظ سے صرف اس قدر ہے کہ اس میں شریک ہونے والا، اسلام کا دعویٰ رکھتاہو اور اس کا کلمہ پڑھتا ہو‘‘ (اخبار ’’صدق‘‘ لکھنؤ 23؍جنوری 1946ء صفحہ 5) لیکن پاکستان بننے کے بعد انہی علماء نے گٹھ جوڑ کر کے’’ختم نبوت‘‘ کو وجہ بنا کر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی تحریک چلائی ۔چنانچہ 1952ء میں اس وقت کے ناظر دعوۃ و تبلیغ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے مولانا عبدالحامد بدایونی صاحب کے نام ایک کھلا مکتوب لکھا جس کے ساتھ ایک مختصر سا کتابچہ ’’کلمۃ الیقین فی تفسیر خاتم النبیینؐ‘‘ بھی بھجوایا جو مضمون کی شکل میں اخبار الفضل میں بھی شائع ہوا۔
یہ مضمون قارئین الفضل انٹرنیشنل کےاستفادے کےلیے شائع کیا جا رہاہے۔
’’ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدام ختم المرسلیںؐ
سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان و دل اس راہ پر قربان ہے
تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب
کیوں نہیں لوگو تمہیں خوفِ عقاب
تمام مسلمان فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ خاتم النبیین ہیں کیونکہ قرآن مجید کی نص
وَ لٰکِنۡ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
میں آپ کو خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے۔ نیز اس امر پر بھی تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لئے لفظ خاتم النبیین بطور مدح و فضیلت ذکر ہوا ہے۔ اب سوال صرف یہ ہےکہ لفظ خاتم النبیین کے کیا معنے ہیں؟ یقیناً اس کے معنے ایسے ہی ہونے چاہئیں جن سے آنحضرتﷺ کی فضیلت اور مدح ثابت ہو۔ اسی بنا٫ پر حضرت مولوی محمدؐ قاسم صاحب نانوتوی بانئ مدرسہ دیوبند نے عوام کے معنوں کو نا درست قراردیا۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہےکہ آپؐ کا زمانہ انبیاءؑ سابق کے زمانہ کے بعد ہے۔ اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِ مدح میں
وَ لٰکِنۡ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتاہے۔ ‘‘ (رسالہ تحذیر الناس صفحہ 3)
سلف صالحین کی کتابوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ خاتم النبیین کا مفہوم واضح کرنے کے لئے چار طریق اختیار کئے گئے ہیں۔
اول: خاتم النبیین کے معنی ہیں ’’آخری صاحب شریعت پیغمبر جس کی شریعت کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ ‘‘ یہ معنے بزرگانِ امت سے بکثرت مروی ہیں۔ حسب ذیل حوالہ جات پر غور فرمائیں:
(۱) حضرت ملا علی القاریؒ تحریر فرماتے ہیں:
فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلُہٗ خاتَمَ النَّبِیّیْن اِذَا الْمَعْنیٰ اَنَّہٗ لَا یَأْتِیْ نَبِیٌّ یَنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ۔
(موضوعات کبیر صفحہ 58 مطبوعہ مصر)
ترجمہ: یہ بات خاتم النبیین کے خلاف نہیں کیونکہ خاتم النبیین کے معنے صرف یہ ہیں کہ ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرتﷺ کی شریعت کو منسوخ کرےیا آپ ؐ کی امت میں سے نہ ہو۔
(۲) حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:
خُتِمَ بِہِ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ مَنْ یَّأْمُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانہٗ بِالتَّشْرِیْعِ عَلَی النَّاسِ۔
(تفہیمات الٰہیہ تفہیم صفحہ 53)
ترجمہ: آپؐ پر بایں معنے نبی ختم ہوئے کہ آپؐ کے بعد کوئی ایسا شخص نہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے صاحب شریعت نبی بنا کر بھیجے۔
(۳) الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن العربی لکھتے ہیں:
’’اِنّ النّبُوَّۃَ الَّتِیْ انْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ اِنَّمَا ھِیَ نُبُوَّۃ التَّشْرِیْعِ لَا مَقَامَھَا، فَلَا شَرْعٌ یَکُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِہٖﷺ وَلَا یَزِیْدُ فِی شَرْعِہٖ حُکْمًا آخَر۔ و ھٰذَا مَعْنی قَوْلہٖﷺ انّ الرِسَالَۃَ وَ النُبُوَّۃَ قَد انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَ لَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیٌّ یَکُوْنُ عَلیٰ شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ۔ ‘‘
(فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 3)
ترجمہ: وہ نبوت جو آنحضرتﷺ کے وجود با جود پر منقطع ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں جو حضورﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے یا آپؐ کی شریعت میں کوئی اضافہ کرے۔ آنحضرتﷺ کی حدیث
انَّ الرِسَالَۃَ وَ النُبُوَّۃَ قَد انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَ لَا نَبِیَّ
کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی کوئی ایسا نبی نہ ہوگا جو میری شریعت کے خلاف شریعت رکھتا ہو بلکہ اگر ہوگا تو وہ میری ہی شریعت کے تابع ہوگا۔
(۴) حضرت السید عبدالکریم جیلانی تحریر فرماتے ہیں:
’’فَانْقَطَعَ حُکْمُ نُبُوَّۃِ التَّشْرِیْعِ بَعْدَہٗ وَ کَانَ مُحَمَّدٌﷺ خَاتَمَ النَبِیّیْن۔‘‘
ترجمہ: آنحضرتﷺ کے بعد تشریعی نبوت کا حکم منقطع ہو گیا اسی لئے آپ ؐ خاتم النبیین قرار پائے۔
(الانسان الکامل باب 36)
(۵) جناب مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی لکھتے ہیں:
’’بعد آنحضرتﷺ کے یا زمانے میں آنحضرت صلعم کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحبِ شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے۔ ‘‘
(رسالہ دافع الوساوس صفحہ 12)
(۶) حضرت امام عبدالوہاب الشعرانی تحریر فرماتے ہیں:
’’وَ قَوْلُہٗﷺ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ لَا رَسُوْلَ المُرَادُ بِہٖ لَا مُشَرِّعٌ بَعْدِیْ۔ ‘‘
ترجمہ: کہ آنحضرتﷺ کی حدیث لانبی بعدی سے مراد یہی ہےکہ میرے بعد کوئی صاحب شریعت پیغمبر نہیں ہوگا۔
(الیواقیت والجواہر جلد 2صفحہ 42)
(۷) جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب لکھتے ہیں:
’’لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہلِ علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ لے کر نہیں آئے گا۔ ‘‘
(اقتراب الساعة صفحہ162)
(۸) حضرت امام محمدؐ طاہر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ھٰذَا اَیْضًا لَا یُنَافِیْ حَدِیْث لَا نَبِیّ بَعْدِیْ لِاَنَّہٗ اَرَادَ لَا نَبِی یَنْسِخُ شَرْعَہٗ۔ ‘‘
ترجمہ: کہ یہ امر لانبی بعدی کے منافی نہیں۔ کیونکہ اس حدیث سے آنحضرتﷺ کی مرادیہی تھی کہ کوئی ایسا نبی نہ ہوگا جو آپؐ کی شریعت کو منسوخ کرے۔
(تکملہ مجمع البحار صفحہ 85)
ان تمام اقتباسات سے ظاہر ہے کہ علمائے امت بالعموم خاتم النبیین کے معنے یہی کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ کی شریعت ہمیشہ قائم رہے گی اور کوئی نبی آپؐ کی شریعت کو منسوخ نہ کر سکے گا۔ ظاہر ہےکہ ان معنوں کی رو سے حضور ؐکی شریعت کا دوام آپؐ کے لئے باعثِ مدح قرار پائے گا لیکن اس سے غیر تشریعی نبی کی آمد کا امکان بھی ثابت ہوگا۔ بہر حال یہ معنے اپنے اندر خوبی رکھتے ہیں اور محققین امت کی بہت بڑی تعداد ان پر حصر کرتی رہی ہے۔
دوم: خاتم النبیین کے دوسرے معنے نبیوں کی مُہر یا انگوٹھی کئے گئے ہیں، حضرت شاہ رفیع الدین صاحب مرحومؒ کے ترجمہ میں آج تک یہی معنے شائع ہوتے رہے ہیں۔ لفظ خاتم مفرد ہونے کی صورت میں مُہر یا انگوٹھی کے معنوں میں ہی مستعمل ہوتا ہے۔ انگوٹھی پہننے والے کے لئے زینت کا موجب ہوتی ہے اس لئے آنحضرتﷺ سب نبیوں کے لئے بمنزلہ فخر و زینت ہیں۔ یہ معنے بھی درست ہیں۔ لغت کی کتاب مجمع البحرین میں لکھا ہے:
’’و مُحمّد خاتَم النّبیین یَجوْزُ فِیْہِ فَتْح التاء و کسرھا، فَالفَتْح بمعنی الزِیْنۃ ماخوذ مِن الخاتَم الذی ھُو زیْنَۃ لِلَابِسِہٖ۔ ‘‘
(زیر لفظ خاتم)
کہ خاتم بمعنے زینت و خوبصورتی استعمال ہوتا ہے کیونکہ انگوٹھی اپنے پہننے والے کے لئے خوبصورتی کا موجب ہوتی ہے۔
تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے:
’’صارَ لَھُم کَالْخَاتَمِ لَھُم الّذی یَخْتِمُوْن بِہ و یَتَزیّنُون بِکوْنِہٖ مِنْھُمْ۔ ‘‘
کہ آنحضرتﷺ انبیاءکے لئے بمنزلہ انگوٹھی قرار پائے اور آپ ؐ ان میں سے ہوکر ان کی زینت کا موجب بنے۔
(جلد 7 صفحہ 386)
مشہور شاعر ابن معتوق کے اس شعر میں بھی اسی مفہوم کو ادا کیا گیا ہے۔ شاعر آنحضرتﷺ کی تعریف میں کہتا ہے
طَوْقُ الرِّسَالَةِ تَاجُ الرُّسْلِ خَاتمُھُمْ
بَلْ زِينَۃٌ لِعِبَادِ اللّٰهِ كُلِّهِمِ
پس خاتم النبیین کا ایک مفہوم یہ بیان ہوا ہےکہ آپؐ جملہ نبیوں کے لئے زینت کا موجب ہیں۔ مُہر تصدیق کا کام دیتی ہے اس لئے آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا مفہوم ’’مصدّق النبیین‘‘ بھی لیاگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ خاتمیت محمدؐیہ کا یہ مفہوم بھی اپنے اندر گونہ مدح و فضیلت رکھتا ہے۔
سوم: خاتم النبیین کے ایک معنے کئے جاتے ہیں’’سب سے آخری نبی‘‘ اگر ’’آخری نبی‘‘ کا فضیلت والا مفہوم لیا جائے تو ان معنوں میں بھی چنداں حرج نہیں۔ تمام زبانوں میں ’’آخری‘‘ کا لفظ اعلیٰ و افضل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ امام جلال الدین السیوطی نے امام ابن تیمیہ کو ’’آخرالمجتھدین‘‘ قرار دیا ہے۔
(الاشباہ والنظائر جلد 3صفحہ 310)
ایک عرب شاعر نے اپنے ممددح کو بنی غالب کا ’’آخری‘‘ قرار دے کر کہا
شَرَی وُدِّی وَ شُکْرِیْ مِنْ بَعِیْدٍ
لِآخِرِ غَالِبٍ أَبَدًا رَبِیْعُ
اس شعر کا ترجمہ دیوبند کے مولوی ذوالفقار علی صاحب نے بایں الفاظ کیا ہے:
’’ربیع بن زیاد نے میری دوستی اور شکر دور بیٹھے ایسے شخص کے لئے جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم المثل ہے، خرید لیا ہے۔ ‘‘ (حماسہ باب الادب)
اس سے ظاہر ہے کہ آخری کے معنے عدیم المثل کے بھی ہوتے ہیں۔ غالباً انہی معنوں کو مد نظر رکھ کر علامہ اقبال نے داغؔ کو دلّی کا آخری شاعر قرار دیتے ہوئے کہا ہے
چل بسا داغؔ آہ میّت اس کی زیبِ دوش ہے
آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے
پس اگر خاتم النبیّین کا ترجمہ آخری نبی بایں معنی ہو کہ آنحضرتﷺ سے بڑا کوئی نبی نہیں تو یہ معنے بھی درست ہیں۔ گویاآنحضرتﷺ افضل ترین رسول ہیں، آپؐ کا مقام و رتبہ سب انبیا٫ سے بلند اور آخری ہے لیکن اگر آخری نبی کے معنے محض زمانہ کے لحاظ سے پیچھے آنے والے نبی کے ہوں تو اوّل تو یہ کوئی مدح نہیں۔ دوسرے ان معنوں کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری نبی قرار پاتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے فرقے ان کی آمد کے قائل اور منتظر ہیں۔
چہارم: خاتم النبیّین کے معنے اپنی مرکب صورت میں افضل النبیّین ہیں یعنی ’’پاک محمدؐ مصطفےٰ نبیوں کا سردار‘‘۔ خاتم النبیین کے یہ معنے عربی زبان کے محاورات کے مطابق ہیں عربی میں خاتم الاولیا٫، خاتم الشعرا٫، خاتم المجتھدین، خاتم المفسرین، خاتم الاکابر،خاتم المعلّمین وغیرہ بیسیوں مرکّب استعمال ہوئے ہیں اور صدہا مرتبہ مقام مدح پر ان کا استعمال ہوا ہے مگر ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں کہ خاتم بصورت مرکّب اضافی مقام مدح پر آیا ہو اور اس کے معنے بجز افضل اور اعلیٰ کے کچھ اور ہوں۔ ہم اپنے مخالفین کو یہاں اور بلا د عربیہ میں چیلنج کر چکے ہیں مگر اس قانون کے خلاف ایک مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
حضرت امام فخرالدّین رازی نے کیا خوب تحریر فرمایا ہے۔ انسانی ارتقا٫ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فأعطاهم العقل وبعث في أرواحهم نور البصيرة وجوهر الهداية فعند هذه الدرجة فازوا بالخلع الأربعة، الوجود والحياة والقدرة والعقل، فالعقل خاتم الكل والخاتم يجب أن يكون أفضل ألا ترى أن رسولنا صلى الله عليه وسلم لما كان خاتم النبيين كان أفضل الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والإنسان لما كان خاتم المخلوقات الجسمانية كان أفضلها فكذلك العقل لما كان خاتم الخلع الفائضة من حضرة ذي الجلال كان أفضل الخلع وأكملها،‘‘
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل عطا فرمائی اور ان کی روحوں میں نورِ بصیرت اور جوہرِ ہدایت پیدا فرمایا۔ اس موقعہ پر انہیں چار خلعتیں نصیب ہوئیں۔
(۱)وجود (۲) زندگی (۳) قدرت (۴) عقل۔ اور عقل ان تمام خلعتوں کی خاتم ہے۔ اور خاتم کے لئے واجب ہے کہ وہ افضل ہو۔ دیکھو جس طرح ہمارے پیغمبرﷺ خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے سب نبیوں سے افضل قرار پائے اور انسان جسمانی مخلوقات کا خاتم قرار پانے کے باعث سب سے افضل ٹھہرا، اسی طرح عقل جب ان خلعتوں کی خاتم ہے تو ضرور ہے کہ وہ ان سب سے افضل و اکمل ہو۔
جناب شیخ فریدالدّین صاحب عطاّ ر تذکرة الاولیا٫ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’مجذوب کے لئے چند درجے ہیں بعض کو ان سے ایک تہائی دیتے ہیں اور بعض کو آدھے اور بعض کو آدھے سے زیادہ جبکہ اس درجہ کو پہنچتا ہے تو وہ مجذوب نبوت کے حصّے کے سبب سے تمام مجذوبوں سے بڑھ جاتا ہے اور خاتم الاولیا٫ ہوتا ہے اور سردار تمام ولیوں کا جیسا کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ خاتم الانبیاء تھے۔ ‘‘
(ترجمہ تذکرة الاولیا٫مطبوعہ کانپور صفحہ 537)
پس خاتم النبیّین کے معنے ہوں گے سب نبیوں سے افضل و برتر۔ یہ معنے محاورہ زبان کے مطابق ہیں، خود قرآن مجید کی متعدد آیات ان معنوں کی تائید کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ آنحضرتﷺ کے افضل النبیین ہونے کا ایک مثبت پہلو ہے اور ایک منفی پہلو ہے۔ حضورؐ کا افضل النبیین ہونا اس امر کو مستلزم ہے کہ آپؐ کے برابر یا آپؐ سے بڑا کوئی نبی نہ ہو، آپ ؐ کی شریعت کو کوئی منسوخ نہ کر سکے یہ اس کا منفی پہلو ہے، عام طور پر پہلے علماء نے اسی پر زور دیا ہے۔ دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیروی اور اتباع کے نتیجہ میں آپ ؐ کی امت کو وہ تمام انعامات اور برکات حاصل ہوں جو پہلے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کو حاصل ہوئی تھیں آنحضرتؐ کی غلامی میں تمام فیوض جاری ہوں کیونکہ کامل کا کمال اس کے افاضہ کمال سے ہی ثابت ہوتا ہے یہ خاتم النبیّین کا مثبت پہلو ہے ان دونوں پہلوؤں کی وضاحت کے لئے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا: الخاتم لما سبق والفاتح لما انغلق (نہج البلاغہ ورق 19) کہ آنحضرت ؐ کے آنے سے انبیا٫ سابقین کے فیوض تو بند ہوگئے مگر آنحضرتﷺ کے فیوض جاری ہوگئے۔
قرآن مجید میں جہاں پر سورت احزاب میں آیت خاتم النبیین آئی ہے، اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ فَضۡلًا کَبِیۡرًا
کہ مومنو ں کو بشارت دو کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل کبیر مقدّر ہے۔ سورہ نسا٫ میں اس فضل ِکبیر کی تفسیر میں فرمایا:
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا۔
کہ آنحضرتﷺ کے متبعین کو سابق انعام یافتہ لوگوں کے جملہ انعامات نبوّت، صدیقیت، شہادت اور صالحیّت ملیں گے یہ ان منعم علیہ لوگوں کے رفقا٫ ہوں گے یہ خدا کا فضل ہے اور اللہ خوب جاننے والا ہے۔
پس ضروری ہوا کہ خاتم النبیّین سے جہاں آنحضرتﷺ کی برابری یا آپ ؐپر افضلیت کی نفی ہو وہاں آپؐ کی اتباع میں فیوض و انعامات کا اجرا٫بھی ثابت ہو۔ اس طرح سے آنحضرتﷺ حقیقی طور پر خاتم قرار پائیں گے۔ حضرت امام راغب اصفہانی اپنی کتاب المفردات میں لکھتے ہیں:
’’الخَتْمُ و الطّبْعُ یُقَالُ عَلیٰ وَجْھَیْن: مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَ طَبَعْتُ وَھُو تأثِیْرُ الشّیْءِ کَنَقْشِ الْخَاتَمِ و الطّابِع۔ والثّانی: الأَثْرُ الْحَاصِلُ عَنِ النَّقْشِ۔ ‘‘ (مفرداتِ راغب)
کہ حقیقی طور پر لفظ ختم دو معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے (۱) مصدری معنے جیسے مُہر اور انگوٹھی کا نقش پیدا کرنا (۲) نقش کرنے سے جو نشان پیدا ہو۔ یہ دو حقیقی معنے ہیں باقی معانی مجازی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیّین کا حقیقی مفہوم آنحضرتﷺ کے کمالات اور فیوض کے اُمّت میں جاری ہونے پہ دلالت کرتا ہے۔
معزز قار ئین کرام! آپ خود غور فرمائیں کہ آنحضرتﷺ کی مدح اور کمال پر ان چاروں معنوں میں سے کون سے معنے دلالت کرتے ہیں؟ آپ ادنیٰ تدبّر سے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین بہترین معنے ہیں۔ یہ معنے آیات، احادیث، لغات اور محاوراتِ زبان کے مطابق ہونے کے علاوہ آنحضرتﷺ کے کمالِ تام پر دلالت کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ لفظ خاتم النبیّین مقامِ مدح پر وارد ہوا ہے، جماعت احمدیہ خاتم النبیین کے یہی معنے مانتی ہے اور رہتی دنیا تک ان کی حفاظت کرتی رہے گی۔
بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام تحریر فرماتے ہیں:
(الف) ’’آنحضرتﷺ کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ اِن معنوں سے خاتم الانبیا٫ ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پرختم ہیں اور دوسرے یہ کہ اُن کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو ان کی امت سے باہر ہو۔ بلکہ ہر ایک کو جو شرفِ مکالمہ الٰہیّہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے نہ کوئی مستقل نبی۔ ‘‘ (چشمہ معرفت صفحہ9)
(ب) ’’اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرتﷺ کو صاحب خاتَم بنایا یعنی آپؐ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ ؐ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہےاور یہ قوتِ قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ ‘‘
(حقیقة الوحی صفحہ 97 حاشیہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جماعت احمدیہ جن معنوں میں آنحضرتﷺکو خاتم النبیین مانتی ہے وہی معنے بہترین ہیں، سابق محقّقین کے معنے بھی ان میں شامل ہیں۔ اندریں حالات بعض لوگوں کا جماعت احمدیہ کے خلاف یہ الزام سراسر بے جا ہے کہ احمدی لوگ ختمِ نبوت کے منکر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خاتمیّت محمدیہ کا صحیح اور جامع مفہوم صرف جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور وہی اس زمانہ میں خاتمیّت محمدیت کی حقیقی وضاحت اور حفاظت کرتی ہے۔ دوسرے لوگ تو صرف نام کی مجالس ’’تحفّظِ ختمِ نبوت‘‘ بناتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ ایک طرف آنحضرتﷺ کی لائی ہوئی شریعت قرآن مجید کی بیسیوں آیات کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے جو مستقل رسول ہیں، چشم براہ ہیں کہ وہ کب آسمان سے اُتر کر امت محمدیہ کی دستگیری کرتے ہیں۔ کیا ہمارے بھائی قیامت کے مواخذہ سے ڈر کر اپنے الزام اور اپنے عقیدہ پر نظر ثانی کریں گے؟ مبارک ہیں وہ لوگ جو آنحضرتﷺ کے حقیقی مقام کو شناخت کر کے آپؐ سے سچّی اور کامل محبّت رکھ کر خدا کے محبوب بنیں۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو توفیق بخشے۔ آمین۔
ایک آخری گزارش
مندرجہ بالا چار معنوں میں مقام پر شان کے لحاظ سے جو معنے مناسب ہیں وہ آپ خود ملاحظہ فرماچکے ہیں اِن معنوں کے رُو سے تمام آیات اور احادیث میں کامل تطابق پیدا ہو جاتا ہے کسی قسم کا تعارض باقی نہیں رہتا کیونکہ جس آیت یا حدیث سے نبی کے آنے کا اثبات ہوتا ہے اس سے صرف آنحضرتﷺ کا امّتی نبی مراد ہے۔ مستقل یا صاحبِ شریعت نبی مراد نہیں۔ اور جہاں جہاں انقطاعِ نبوت کا ذکر ہے اس سے تشریعی یا مستقل نبی مراد ہے۔ موجودہ علما٫کی غلطی یہ ہے کہ وہ شریعت والی نبوت کی بندش پر دلالت کرنے والی احادیث وغیرہ کو ہر قسم کی نبوت کے بند ٹھہرانے کے لئے پیش کرتے ہیں حالانکہ سلف صالحین ان آیات یا احادیث کے یہ عام معنے نہ کرتے تھے بلکہ ان سے صرف شریعت والی نبوت بند مراد لیتے تھے۔
باقی رہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سو وہ غیر تشریعی نبوت ہے جو حضرت خاتم النبیین کے امّتی ہونے کے نتیجہ میں آپؑ کو ملی ہے اور یہ علما٫ خود مانتے ہیں کہ آنے والا مسیح موعود نبی ہوگاپس یہ نزاع کوئی حقیقی نزاع نہیں۔ قابلِ غور امر صرف یہ ہے کہ خاتم النبیین کے کن معنوں سے آنحضرتﷺ کی بلند شان کا اظہار ہوتا ہے؟ ہمارے پیش کردہ معنوں سے یا عوام علما٫ کے ذکر کردہ معنوں سے؟ حضرت امام احمدالزرقانی رحمة اللہ علیہ نے بھی لفظ خاتَم (بفتح التا٫) کے متعلق لکھا ہے:
’’فَمَعْنَاہُ اَحْسَنُ الْاَنْبِیَاء خَلْقًا وَ خُلْقًا لِاَنَّہٗﷺ جَمَالُ الْاَنْبِیَاء کَالْخَاتَمِ الَّذِی یُتَجَمَّلُ بِہٖ۔ ‘‘
(زرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد 3 صفحہ 163 مطبوعہ مصر)
کہ خاتم الانبیا٫کے معنے تمام نبیوں سے حُسنِ خلق اور اخلاق میں اعلیٰ تر ہونے کے ہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام تمام انبیا٫ کے لئے اسی طرح زینت اور خوبصورتی ہیں جیسا کہ انگوٹھی انسان کیلئے موجب زینت ہوتی ہے۔
گویا سرورِ کائنات حضرت خاتم النبیینﷺ جامع کمالاتِ انبیا٫ و مرسلین ہیں اور سب سے افضل واعلیٰ ہیں ؎
حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خُوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری
صلی اللّٰہ عَلیٰ خاتم النبیین سیّدنا مُحمّد و آلہ الطیّبین۔
(مطبوعہ الفضل 13؍جولائی 1952ء صفحہ 4تا 6)
٭…٭…٭
(مرسلہ: جنید اسلم۔ متعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا)