حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلامی تعلیم کے لیے ہمارا رہ نما قرآن شریف ہے

چھٹی شرط بیعت (حصہ سوم)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پس رسم و رواج سے بچنا اور ہوا و ہوس سے بچنا اسلامی تعلیم کا حصہ ہے اور اس تعلیم کو سمجھنے کیلئے ہمارے لئے رہنما قرآن شریف ہے۔ اور اصل میں تو اگر ایک مومن قرآن شریف کو مکمل طور پر اپنی زندگی کا دستور العمل بنالے تو تمام برائیاں خودبخود ختم ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی ہوا وہوس کا خیال تک بھی دل میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ پاک کتاب ہے جو ایک دستور العمل کے طور پر شریعت کو مکمل کرتے ہوئے، انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک دل پر نازل فرمائی اور پھر جہاںضرورت تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اپنے فعل سے اپنے قول سے اس کی وضاحت فرمادی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو اپنے سرپر قبول کرو اس سلسلہ میں قرآن کریم حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کرتا ہوں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ(القمر:آیت18)

اور یقیناًہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟

حدیث میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ایسا مومن جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے اس کی خوشبو بھی اچھی ہوتی ہے اور ایسا مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اسپر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ تو لذیز ہوتاہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحان (نیازبو) کی طرح ہوتی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اس کاذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال حنظل کی طرح ہوتی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور خوشبو بھی ناگوار ہوتی ہے۔

(صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب اثم من رای بقراۃ القرآن او تاکل بہ اوفخربہ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’…قرآن عمیق حکمتوں سے پر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیامیں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی دوبارہ قائم ہوگئی‘‘۔

(تحفہ قیصریہ ۔روحانی خزائن۔ جلد12۔صفحہ282)

قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑدو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیںگے وہ آسمان پر عزت پائیں گے ۔جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ‘‘۔

(کشتی نوح ۔روحانی خزائن۔ جلد19۔صفحہ13)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلاکر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے ۔وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتاہے ۔اور ہر ایک جو اس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیروہے، خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتاہے ‘‘۔

(چشمہ ٔمعرفت۔روحانی خزائن۔جلد23۔صفحہ308-309)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’سو تم ہوشیار رہو اورخدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھائو ۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتاہے ۔حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اورباقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْآن کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے ۔پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں‘‘۔

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد 19۔ صفحہ26-27)

پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کس حد تک قرآن سے محبت کرتا ہے اس کے حکموں کو مانتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت کے اظہار کے بھی طریقے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری چیز جو ہراحمدی کو اپنے اوپر فرض کر لینی چاہئے وہ یہ ہے کہ بلا ناغہ کم از کم دو تین رکوع ضرور تلاوت کرے ۔پھر اگلے قدم پر ترجمہ پڑھے اور ہر روز تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھنے سے آہستہ آہستہ یہ حسین تعلیم غیر محسوس طریق پر دماغ میں بیٹھنی شروع ہو جاتی ہے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button