خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ جون 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت صحابہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عثمانؓ اور عبدالرحمٰنؓ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے دو خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں
حضرت سعد بن معاذؓ غزوۂ بدر،اُحد اور خندق میں رسول اللہﷺ کے ہم راہ شامل ہوئے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ جون 2020ء بمطابق 26؍ احسان 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ 26؍ جون 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطا الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ خطبے میں بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ذکر ہورہا تھا بقایا جو حصّہ رہتا ہے وہ آج بیان کروں گا۔ آپؓ حد درجہ سخی تھے چنانچہ آپؓ نے وصیّت کی تھی کہ ان کے ترکے میں سے جنگِ بدرکے شرکا میں سے ہرایک کو چارسو دینار دیے جائیں، اُس وقت ان اصحاب کی تعداد سو تھی۔غزوۂ تبوک کے موقعے پر جب مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک ہوئی تو آپؓ نے ایک سو اَوقیہ (تقریباً چار ہزار درہم )پیش کیے۔آنحضورﷺ نے فرمایا کہ عثمانؓ اور عبدالرحمٰنؓ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے دو خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ایک موقعے پر آپؓ نے چالیس ہزار دینار مالیت کی زمین خریدکرضرورت مندوں اور امہات المومنین میں تقسیم کردی۔ حضرت عائشہؓ نے آپؓ کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! تُو عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو جنت کے چشمے سلسبیل کا مشروب پلا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میرے اہلِ خانہ کی خبرگیری کرنے والا شخص سچا اور نیکوکار ہوگا چنانچہ عبدالرحمٰنؓ امہات المومنین کا بےحد خیال کرتے اور حج کے لیے انہیں بڑے وقار سے لےکر جاتے۔
ایک بار مدینے میں اجناسِ خوردنی کا قحط تھا۔ اس دوران حضرت عبدالرحمٰن ؓ کاسات سو اونٹوں کا قافلہ شام سے پہنچا جس پر گندم اور اشیائے خوردنی لدی ہوئی تھیں۔ جب حضرت عائشہؓ کو اس کا عِلْم ہوا تو آپؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ عبدالرحمٰن جنّت میں گھٹنوں کے بَل داخل ہوگا۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰن نے سارا غلّہ حتیٰ کہ اونٹوں کے پالان تک خدا کی راہ میں دے دیے۔ ایک موقعے پر آپؓ نےتیس تیس غلام ایک ہی دن میں آزاد کیے۔
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے فرمایا کہ تم کیونکہ مال دار ہو اس لیے جنّت میں رینگتے ہوئے داخل ہوگےپس خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ آپؓ کے دریافت کرنے پر کہ کیا خرچ کروں ۔آنحضورؐ نے فرمایا جو موجود ہے وہ خرچ کرو چنانچہ عبدالرحمٰن تعمیلِ ارشاد میں روانہ ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد آپؐ نے عبدالرحمٰن کو بلوایا اور فرمایا کہ جبرئیل نے کہا ہے کہ مہمان نوازی کرو،مسکین کو کھانا کھلاؤ اور سوالی اور رشتے داروں کا خیال رکھو۔
عبدالرحمٰن بن عوفؓ نےایک مرتبہ چالیس ہزار درہم، ایک بار چالیس ہزار دینار، ایک دفعہ پانچ صد گھوڑے، دوسری دفعہ پانچ صد اونٹ راہِ خدا میں وقف کیے۔ اسی طرح اپنے ترکے میں سے پچاس ہزار دینار راہِ خدا میں دینےاور امہات المومنین کےلیےچار لاکھ درہم مالیت کے ایک باغیچےکی وصیت فرمائی۔ آپؓ کی وفات اکتیس یا بتیس ہجری میں 72 یا 78برس کی عمر میں ہوئی۔ حضرت عثمانؓ یا زبیر بن العوامؓ نےنمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔
حضورِانور نے دوسرا ذکرحضرت سعد بن معاذؓ کا فرمایا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبدالاشہل سے تھااور آپؓ اوس قبیلے کے سردار تھے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ آپؓ کے طفیل بنوعبدالاشہل اسلام قبول کرنے والا انصار کاپہلا گھرانہ ثابت ہوا۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کی مؤاخات سعد بن ابی وقاصؓ یا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کےساتھ قائم فرمائی۔
حضورِانور نے حضرت سعد بن معاذؓ کے قبولِ اسلام سے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی رقم فرمودہ تفاصیل پیش فرمائیں۔ اسلام لانے سے پیشتر حضرت سعدؓ اس نئے دین کے پھیلاؤ سے ناخوش ہونے کے باوجود مدینے میں سب سے پہلے مسلمان ہونے والےاپنے خالہ زاد بھائی اسعد بن زرارہؓ کی وجہ سے خاموش تھے۔ آپؓ نے قبیلے کے ایک اور بااثر شخص اُسید بن حضیر کو مصعب بن عمیرؓ اور اسعد بن زرارہؓ کے پاس بھجوایا تاکہ وہ انہیں تبلیغِ اسلام سے باز رکھیں۔حضرت مصعبؓ نے اسید بن حضیر کو قرآن شریف سنایا اور بڑے محبت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا چنانچہ اسید بن حضیر نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔حضرت اُسیدؓ نے سعد کو ان دونوں کے پاس بھجوایا جو بڑے غضب ناک انداز میں اسعد بن زرارہؓ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو۔ حضرت مصعبؓ نے انہیں بھی نہایت دِل کش پیرایہ میں تبلیغ کرتے ہوئے اسلامی اصول کی تشریح بیان فرمائی جس کے نتیجے میں حضرت سعد بن معاذؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت اسید بن حضیر ؓدونوں ہی چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سعد بن معاذؓ کی نسبت لکھتے ہیں کہ انہیں انصارِ مدینہ میں وہی پوزیشن حاصل تھی جو مہاجرینِ مکّہ میں حضرت ابوبکرؓ کی تھی۔
ہجرتِ نبوی کے بعد قریشِ مکّہ کی طرف سے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی طرف ایک تہدیدی خط آیا کہ تم محمد(ﷺ) کی پناہ سے دست بردار ہوجاؤ ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ ان منافقین کے دلوں میں پہلے ہی اسلام کے خلاف کینےپنپ رہے تھے چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کردی۔ جب یہ اطلاع حضور اکرمﷺ کو پہنچی تو آپؐ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ مجھ سے جنگ کی صورت میں تم لوگ اپنے ہی بیٹوں، بھائیوں ا ور باپوں کےخلاف لڑو گے اس لیے جنگ سے باز رہو۔ جب قریشِ مکّہ کو اپنے اس ارادے میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے مدینے کے یہود کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا۔ دراصل کفّارِ مکّہ کی غرض یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو اسلام کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔ وہ اس بات کا تہیہ کیے بیٹھے تھے کہ مسلمانوں کوچین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔
کفّارِ مکّہ کے خونی ارادوں کاعِلْم بخاری میں درج ایک تاریخی واقعے سے ہوتا ہے۔سیرت خاتم النبیینؐ میں مرقوم تفصیل کے مطابق ہجرتِ نبوی کے کچھ عرصے بعد حضرت سعد بن معاذؓعمرے کے ارادے سے مکّہ گئے اور امیّہ بن خلف کےپاس قیام کیااوراسے کہاکہ وہ فتنے سے بچنے کے لیے آپؓ کو اپنی موجودگی میں طواف کروادے۔ دوپہر کے وقت جب آپؓ طوافِ کعبہ کر رہے تھے ابو جہل اس جانب آنکلا اور سعدؓ کو دیکھ کر غصّے کا اظہار کیا اور کہا کہ تم کیا گمان کرتے ہو کہ اُس مرتد (نعوذ باللہ)محمد(ﷺ)کو پناہ دینے کے بعد امن سے کعبے کا طواف کر سکو گے۔ حضرت سعدؓ فتنے سے بچنا چاہتے تھے لیکن آپؓ کی رگوں میں ریاست کا خون اور دل میں ایمانی غیرت جوش زن تھی۔ کڑک کر بولے واللہ! اگر تم نے ہمیں کعبے سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی شامی راستے پر امن نہیں مل سکے گا۔امیّہ نے سعد کی یہ بات سنی تو آپؓ کو ابو جہل کے سامنے آوازنیچی رکھنے کو کہا۔ سعدؓ نے فرمایا کہ اس بات کو چھوڑو واللہ! مجھے حضورﷺ کی یہ پیش گوئی نہیں بھولتی کہ تم ایک دن مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاؤ گے۔ اس پر امیّہ اس قدر خوف زدہ ہوا کہ گھر لوٹ کر اپنی بیوی سے کہا کہ مَیں تو مسلمانوں کے خلاف مکّے سےنہیں نکلوں گا۔ لیکن تقدیر کے نوشتے پورے ہوئے اور بد ر کے موقعے پر امیّہ کو مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلنا پڑا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
ایک روایت کے مطابق جب بدر کے موقعے پر کفّارِ مکّہ روانہ ہونے لگے تو امیّہ نے پس وپیش سے کام لیا۔ اس پر ابوجہل نے امیہ سے کہا کہ تم وادی کے رؤسا میں سے ہو ایک دو دن کے لیے ہی ساتھ چلو چنانچہ وہ دودن کے لیےان کے ساتھ چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کرادیا۔
حضرت سعد بن معاذؓ غزوۂ بدر،احد اور خندق میں رسول اللہﷺکے ہم راہ شامل ہوئے۔ غزوۂ بدر کے روز اوس کا جھنڈا آپؓ کے پاس تھا۔
غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت سعدؓ کی آنحضرتﷺ سے محبت و فدائیت کا اظہار اس واقعے سے ہوتا ہے کہ بدر کے میدان سے ایک منزل کے فاصلے پر جب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ تجارتی قافلے کی حفاظت کے لیے قریش کا ایک بڑا جرار لشکر مکّے سے آرہا ہے،آنحضرتﷺ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور مشورہ طلب فرمایا۔ بعض نے اس رائے کا اظہارکیا کہ بہتر یہی ہے کہ قافلے سے سامنا ہو لیکن آنحضرتﷺنے اس رائے کو پسند نہ فرمایا۔ اکابر صحابہ نے اس مشورے کو ردّ کرتے ہوئے جاں نثارانہ تقاریر کیں اور اپنے اخلاص کا اظہار فرمایا۔حضورﷺ نے یہ تقریریں سنیں تو آپؐ کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔مگر اس موقعے پر آپؐ انصار کے جواب کے منتظر تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی انصار سردار بھی ایسے ہی اخلاص کا اظہار کرے چنانچہ ان تمام تقاریر کے باوجود آپؐ یہی فرماتے کہ اچھا! پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذؓ رئیس اوس نے آپؐ کا منشا سمجھتے ہوئے انصار کی طرف سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! شاید آپؐ ہماری رائے پوچھتے ہیں۔ خدا کی قسم ! جب ہم آپ کوسچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے ہیں تو پھر آپؐ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ ہمیں سمندر میں کودجانے کو کہیں تو ہم کود جائیں گے۔ آپؐ ہم سب کو لڑائی میں ان شاء اللہ صابر پائیں گے۔ آنحضورﷺ نے حضرت سعدؓ کی اخلاص و محبت سے پُر یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ بقیہ ذکر ان شاءاللہ اگلے خطبے میں بیان ہوگا۔