ایڈیٹر کے نام خطوط
کسوف وخسوف کے نشان کے ساتھ مسیحؑ کے نزول پر جماعت احمدیہ کی جانب سے ایک ارب روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا تھا
جناب ایڈیٹر صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ایک بہت بڑا اور بھاری نشان رسول اللہ ﷺ کی ایک مہتم بالشان پیشگوئی کے مطابق چاند اور سورج گرہن کا ظہور ہے۔ گذشتہ دنوں جو سورج گرہن ہوا اس کا حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت سے براہِ راست تعلق تو نہیں تھالیکن جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ کسوف میں فرمایا تھا کہ
’’اس زمانے میں کسوف و خسوف کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی تعلق ہے…‘‘
(خطبہ کسوفِ شمس فرمودہ 20؍مارچ 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍اپریل2015ءصفحہ1)
نیز خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ
’’…گرہن کی نشانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے ایک خاص تعلق ہے۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍ مارچ 2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍اپریل2015ءصفحہ5)
اس ضمن میں خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کےایک درس القرآن کا ایک حوالہ یاد آیا جس میں حضور ؒنے گرہن کے حوالے سے ایک چیلنج دیا تھا۔ اس سے قبل ایک اور امر کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ایک یہ بھی منفرد مقام حاصل ہے کہ احادیث میں بیان شدہ نشانات اور آپ کے الہامات کا ظہور بھی کئی رنگوں میں ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے اپنے دَورخلافت کے پہلے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب فرمودہ26؍دسمبر 1982ء میں تاریخ کے عود آنے کا ذکر فرمایا ۔ یہ صرف دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ایسے امور ظہور میں آتے رہےاور دنیا کی سعید فطرتوں نے اس بات کامشاہدہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی کرشمہ ساز ذات نے خلیفۃ المسیح کی مبارک اور پاک زبان سے نکلے الفاظ نہ صرف ایک شان سے پورے فرمائےبلکہ مخالفین کا بغض و عناد بھی پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوا۔ حضورؒ فرماتے ہیں کہ
’’میں نے اپنی خلافت کے بعد پہلے خطاب میں جماعت کو متوجہ کیا تھاکہ یاد رکھو یہ غیر معمولی دن ہیں جن میں ہم داخل ہوئے ہیں۔ 1882ء میں پہلا ماموریت کا الہام ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کواور 1982ء ہی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے منصبِ خلافت پر فائز فرمایا۔ یہ میری شان نہیں ہے کیونکہ میں تو اپنے آپ کو ہرگز اس لائق نہیں سمجھتا ، میں اس خلافت کے دَور کی بات کر رہا ہوں۔ اس خلافت کے آغاز سے جس پہ خدا نے مجھے قائم فرمایا۔ اس خلافت کے بعد سے وہ ساری تاریخ 1982ء سے لے کر آخر تک دہرائی جا رہی ہے اور دہرائی جائے گی۔ وہ ساری برکتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا کرنی شروع کی تھیں یہ اسی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ سب اس میں شریک ہیں۔ میں نہیں،آپ سب۔ وہ ساری جماعت جس کو خدا نے آغاز سے لے کر آخر تک کے لئے ان برکتوں کو دیکھنے کے لئے چن لیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے ہم میں سے کتنے ہیں جو کتنی برکتیں دیکھیں گے۔ مگر دعا ہمیں یہی کرنی چاہئے کہ ہم میں سے بھاری تعداد ایسی ہو جو بیاسی(1982ء) سے لے کر آخر تک کم از کم 2008ء سال تک زندہ رہ کر اللہ کے فضلوں کے گواہ بنتے رہیں اور یہ وہ مبارک عظیم دور ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اس کے شکر کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ ناممکن ہے۔ یہ وہ جادو ہے جو میں کہہ رہا ہوں جس کے نشے میں ہم چل رہے ہیں اور یہی وہ جادو ہے جو حقیقت بن کر دنیا کی تقدیر بدلے گا۔ آپ پر اس جادو کا نشہ طاری ہے تو یاد رکھیں کہ پھر اس سے دنیا میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ اس روح کے ساتھ آپ ترقی کی اس راہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ دشمن تکلیفیں پہنچاتا ہے پہنچاتا رہے فضلوں کی راہ نہیں روک سکتا، نہیں روک سکتا، نہیں روک سکے گا۔ جو چاہے کر لے ۔لیکن آپ وفا کے ساتھ اس راہ پر قدم رکھتے رہیں۔اس سے قدم ہٹائیں نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہر آنے والا دن ہمارے لئے اور برکتیں لے کے آئے گا۔ ہر آنے والا ہفتہ ہمارے لئے اور برکتیں لے کے آئے گا۔ہر آنے والا مہینہ ہمارے لئے اور برکتیں آسمان سے انڈیلے گا۔ہر آنے والا سال برکتوں کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کرے گا۔ہر جانے والا سال برکتیں چھوڑ کر ہمارے لئے جائے گا۔ یہ عظیم دور ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔ پس خدا کے شکر کے گیت گاتے ہوئے اس کی حمد وثناء کرتے ہوئے محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر دردو بھیجتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ، کوئی نہیں جو تمہاری راہ روک سکے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍مارچ 1994ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل1؍اپریل1994ءصفحہ9-14)
خسوف و کسوف کے نشان کے سو سال مکمل ہونے پر دونوں گرہن بھی ظہور میں آئے۔ اور ایک بار نہیں بلکہ پہلے کی طرح دو بار مختلف کرہ ہائے ارض پر ظاہر ہوئے۔ 1894ء کو سو سال مکمل ہونے پر 1994ء میں اللہ تعالیٰ نےدرج ذیل تاریخوں میں چاند اور سورج گرہن کو ظاہر فرمایا۔
٭…10؍مئی 1994ء:
Solar Eclipse (Annular)
٭…24-25؍مئی 1994ء:
Lunar Eclipse (Partial)
٭…3؍نومبر 1994ء:
Solar Eclipse (Total)
٭…17-18؍نومبر1994ء:
Lunar Eclipse (Penumbral)
(https://www.timeanddate.com/eclipse/1994)
جماعت احمدیہ کی جانب سے ایک ارب روپے کا انعام
سورج گرہن کے ضمن میں اور خصوصاً حضرت عیسیٰ ؑ کے آخری زمانہ میں نازل ہونے سے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مسلم امہ کو خصوصاً اور عیسائی پادریوں کو بھی چیلنج دیا تھا کہ وہ چاند سورج کی گواہی کے ساتھ مسیح کو جسم سمیت آسمان سے اترتا دکھادیں تو پہلے اس کو ایک ارب روپیہ جماعت احمدیہ کی طرف سے انعام دیا جائے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ درس القرآن میں فرماتے ہیں کہ
’پھر مطالبہ ہورہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایسے ہی معجزے دکھائیں۔ ایسے معجزوں کی حیثیت کوئی نہیں۔ قرآن کریم کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ ان جہالت کے چکروں سے اور ان توہمات کے چکروں سے دنیا کو نکالا اور اندھیروں سے روشنی میں لے آیا اور وہ اعجاز نمائی کی ہے جو چاند سورج کی طرح اونچے ہوکر گواہی دیتے ہیں وہ نشانات اور ان پر نہ سائنس کی طرف سے کوئی اعتراض وارد ہوسکتا ہے نہ عقل کی طرف سے۔ کوئی معمولی عقل رکھنے والابھی ان کو توہمات کی دنیا کی باتیں قرار نہیں دے سکتا۔ قطعی رونما ہونے والی باتیں ہیں اور ایسے معجزے جو مسیح نے دکھائے مسیح کے بھی ایسے معجزے ہیں جن کو یہ کچھ حیثیت نہیں دیتے۔ ان معجزوں کو بھی قرآن کے معجزوں نے اپنالیا اور ان کے پاس عیسائی دنیا کے پاس کچھ بھی نہ چھوڑا باقی۔ مسیح نے اپنی آمد ثانی کے متعلق چاند اور سورج کے اندھیرے ہوجانے کو گواہ بنایا تھا۔ یہ ایک ایسا اعجاز ہے جو شعبدہ بازی نہیں ہےجو فلکیات کی امور سے تعلق رکھتا ہے، قانون قدرت سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن نے بھی وہ پیشگوئی کردی۔ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو قرآن کا جو اعجاز ہے یہ بائبل کی نقل ہے اور اس کی نقل مار کے قرآن نے اپنا اعجاز دکھایا ہے۔ یہ بھی معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ میں اس آیت کی طرف حوالہ دے رہا ہوں لیکن قرآن کا اعجاز دیکھیں کہ مسیح کا معجزہ جو مسیح نے ایک عظیم پیشگوئی کے طور پر دکھایا تھا اس کا ذکر کیا اور اسے اپنا اس طرح لیا کہ وہ مسیح ان کی دنیا میں تو نہ آیا مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی دنیا میں اتر آیا۔ اب اعجاز اور کس کو کہتے ہیں۔ یہ اب قیامت تک بیٹھے انتظار کرتے رہیں، ان کے ہاں وہ مسیح کا معجزہ سچا نہیں ہوگا۔ جب تک قرآن کے حوالے سے اس کی سچائی نہ ڈھونڈیں۔ اس کو کہتے ہیں معجزہ اپنالینا اور ثابت کردینا کہ یہ سچا خدا ہے جس نے پرانے سچے کی بھی گواہی دی ہے اور اگر تم اس کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہو تو اس رستے سے داخل ہوپھر تمہیں وہ مسیح دکھائی دے گا دوبارہ اترتا ہوا جس کے لیے چاند اور سورج نے ان تاریخوں میں گواہی دے دی جن کے متعلق وہ ذکر آتا تھا۔ یہ 1894ء کا سو سال بعد آنے والا سال جو گزرا ہے یعنی 1994ء اس نے اس معجزے کو دوبارہ زندہ کرکے دکھادیا ہے۔
اب عیسائیوں کو چیلنج ہے اگر مسیح کا معجزہ الگ تھا اور قرآن نے نقل ماری تھی تو نقال تو سچا ثابت ہوگیا۔ اس نے تو ایک ایسی بات دکھادی جو جب سے دنیا بنی ہے کسی کے حق میں اعجاز کے طور پر ظاہر نہیں ہوئی۔ اور ان کو دو ہزار سال ہونے کو آئے ہیں ان کا مسیح اس چاند سورج کی گواہی کے ساتھ نہ اترا نہ اتر سکتا ہے کبھی۔ اگر اتار کے دکھادیں تو وہی جو میں نے چیلنج دیا تھا باقی مسلمانوں کو علماء کو وہ میں ان کے لیے بھی کرتاہوں۔ جو ان کے پادری ہیں وہ اگر اسی طرح چاند سورج کی گواہی کے ساتھ مسیح کو جسم سمیت آسمان سے اترتا دکھادیں تو جو اس کی طرف اشارہ کرے گا، آنے والے کو دکھائے گا پہلے اس کو ایک ارب روپیہ جماعت احمدیہ کی طرف سے انعام دیا جائے گا۔ اور اگر یہ کہیں کہ ہم نے پہلے، ہم نے پہلے دیکھا تھا تو ہم اس بحث میں پڑیں گے ہی نہیں سب کو دے دیں گے۔ سب کی بات مان جائیں گے اور جب بہت سے دعویدار ہوں اور کوئی تفریق کی وجہ نہ ہو تو سب کی بات ماننی چاہیے۔ ‘
(ماخوذ از درس القرآن7؍رمضان بمطابق8؍فروری 1995ء نکات درس الفضل انٹرنیشنل 24؍فروری 1994ء صفحہ 1)
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نشان خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑمسیح موعود و مہدیٔ معہود سے پہلے کسی بھی مدعی کے لیے کبھی ظاہر نہیں کیا۔ اس بارے میں ایک حوالہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ حوالہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ 1994ء کی اختتامی خطاب میں پیش فرمایا تھا۔ حضورنے فرمایا تھا:
‘اس طرح پہلے بھی علماء کی توجہ بعض دوسرے مہدویت کے دعویداروں کے تعلق میں مبذول ہوئی تھی۔ اس ضمن میں حضور نے تفسیر حقانی کے مشہور مصنف اور مشہور فقیہ و متکلم مولانا عبد الحق حقانی دہلوی کا ایک حوالہ پیش فرمایا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ
اکبر کے عہد میں سید محمد جونپوری نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا جن کے مرید اب تک دکن میں موجود ہیں ان کا مہدی بھی وہ مہدی نہیں کیونکہ جس قدر علامات امام مہدی کے ہیں ان میں سے کوئی بھی محمد جونپوری میں نہ پائی گئی۔ نہ ان کے عہد میں دجال موجود تھا نہ نصاریٰ سے مقابلہ ہوا نہ اشاعتِ دین ہوئی نہ اس مہینے میں دوبار کسوف و خسوف ہوا۔’
(حقانی عقائد اسلام مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور)
(خلاصہ اختتامی خطاب جلسہ سالانہ یوکے 31؍جولائی 1994ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اگست 1994ء صفحہ 13کالم 2)
اس حوالے سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑسے قبل کسی نے خسوف و کسوف کا نشان نہیں دکھایا اور آئندہ کے لیے جماعت احمدیہ کی طرف سےکیے جانے والے چیلنج کو 26سال سے زائد عرصہ ہونے کو ہے لیکن کوئی شخص جسمانی طور پر نہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ اس نے حدیث دار قطنی کے مطابق کسوف و خسوف کو بطور نشان پیش کیا۔
تھک گئے ہم تو انہیں باتوں کو کہتے کہتے
ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے
آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے
والسلام،خاکسار
ابو الفارس محمود
ماشاء اللہ بہت عمدہ مضمون ہے۔ جزاک اللّہ
الحمدللہ بہت اعلیٰ مضمون ھے اور اور تاریخی اعتبار سے نہایت مفید معلومات اپنے اندر سمو ے ہوئے ہے اللہ تعالیٰ اپکے علم وعرفان میں برکت ڈالے آمین