الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
…………………………
شہید کون ہوتا ہے
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) کی زینت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے بہت سے قتل تو ہوں گے مگر
وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ
تم یہ نہ سمجھنا کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مریں گے وہ مُردہ ہوگئے
بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّاتَشْعُرُوْنَ۔
بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں جو مارا جاوے اسے احیاء کہتے ہیں اور تین طرح سے وہ زندہ ہوتے ہیں جن کو ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے اور متوسط درجہ کا آدمی بھی، ایک مومن بھی سمجھ سکتا ہے۔ گویا ان کی حیات قائم رہتی ہے اسے تو ایک مومن سمجھ سکتا ہے۔ دوسری بات کہ متوسط درجہ کا عرب سمجھ سکتا ہے کہ اہلِ عرب کا محاورہ ہے کہ جس کا بدلہ لیا جاوے اُسے وہ مُردہ نہیں کہتے بلکہ زندہ کہتے ہیں۔ شہید کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تم میں سے مرے گااس کا بدلہ لیا جاوے گا۔ تیسری بات کہ ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ جب میدان ہاتھ آوے اور فتح ہوجاوے تو پھر مُردوں اور مقتولوں کو مُردہ اور مقتول نہیں سمجھتے اور نہ ان کا رنج و غم ہوتا ہے۔ میرا اپنا اعتقاد ہے کہ شہید کو ایک چیونٹی کے برابر بھی درد محسوس نہیں ہوتا اور مَیں نے اس کی نظیریں خود دیکھی ہوئی ہیں۔‘‘ (البدر 20؍مارچ 1903ء)
………٭………٭………٭………
مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ منصورہ شاہد صاحبہ اپنے بھائی مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہید کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ہمارے والد محترم مرزا صفدر جنگ صاحب واپڈا میں .S.D.O تھے۔ دین سے اُنہیں ایسا لگاؤ تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ربوہ شفٹ ہوگئے اور اپنے گھر میں قرآن کریم کی کلاسز شروع کروائیں۔میرے بھائی اور ابوجان کی عادات میں بہت زیادہ مماثلت تھی۔ دونوں کے ہونٹوں پر دھیمی دھیمی مسکراہٹ رہتی۔ دوسروں کی زیادتی پر صبر کرنا اور خاموشی سے دوسروں کی مدد کرنا بھی مشترکہ عادات تھیں۔
جاپان جانے کے بعد بھائی جان نے خود کو دینی کاموں کے لیے وقف کردیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ایک موقع پر آپ کی تقویٰ شعاری اور اطاعت گزاری پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کرے کہ جاپان کی جماعت مرزا ظفر احمد کے نمونے پر چلنے کی توفیق پائے۔‘‘ 1983ء میں شہید مرحوم کو کوریا میں وقف عارضی کا موقع ملا۔ 1993ء میں صدر خدام الاحمدیہ جاپان منتخب ہوئے تو خدام کے ایک گروپ کے ساتھ فیوجی پہاڑ کی چوٹی سَر کی اور وہاں اذان بھی دی۔ 1999ء میں مسجد بیت الفتوح لندن کے سنگ بنیاد کے موقع پر جماعت کی نمائندگی میں شامل ہوئے۔ اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ چندہ دینے اور دیگر خدمت دین میں خرچ کرتے۔آپ ہر ایک کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ اپنی بیمار ساس صاحبہ کی اپنی بیٹی کو پاس رکھنے کی خواہش کے پیش نظر جاپان سے واپس آگئے۔
شہید مرحوم موصی تھے۔ نماز جمعہ باقاعدگی سے ادا کرتے۔ مسجد دارالذکر میں محراب کے قریب امام صاحب کے پیچھے بیٹھتے تھے۔ سانحہ لاہور سے پہلے مجھے مسلسل تین خواب آئے جن سے مجھے یقین ہوگیا کہ بھائی جان کی زندگی زیادہ نہیں۔ ایک خواب میں تو بھائی جان نے پریشانی کے عالم میں مجھے بتایا کہ چار پانچ بندے کہتے ہیں کہ یہاں سے چلا جا ورنہ ہم تجھے مار دیں گے۔
بہرحال آپ کے جانے کا دُکھ تو ہمیشہ رہے گا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے بھائی صاحب کو شہادت کا رتبہ عطا فرمایا۔ جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء کے موقع پر جب حضورانور ایدہ اللہ نے بھائی صاحب کا ذکر کیا تو ہمیں یوں لگا کہ جیسے وہ الفاظ نہیں بلکہ رحمت کے پھول ہیں جو بھائی پر برس رہے ہیں۔ وہ الفاظ سن کر ہم بہنوں نے سجدہ ٔ شکر ادا کیا۔
(شہید مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں یکم اگست 2014ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بھی بن چکا ہے۔)
………٭………٭………٭………
مکرم چودھری محمد نواز ججہ صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ فرزانہ طاہر صاحبہ کی زبانی اُن کے والد محترم چودھری محمد نواز ججہ صاحب شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جسے مکرمہ بشریٰ ماجد صاحبہ نے قلمبند کیا ہے۔
مکرم ججہ صاحب شہید کے آباواجداد کا تعلق اونچا ججہ ضلع سیالکوٹ سے تھا۔آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر قبول احمدیت کی توفیق پائی تھی۔ آپ کی شادی غیرازجماعت فیملی میں ہوئی تھی لیکن آپ کی اہلیہ نے آپ کا حسن سلوک دیکھ کر کچھ عرصے بعد خود احمدیت قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائے۔ آپ نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اس سلسلے میں پیسے کی کبھی پروا نہیں کی۔بچوں کے رشتے کرتے وقت دوسرے خاندان کا صرف جماعت کے ساتھ تعلق مدّنظر رکھا۔ آپ نے اپنے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر فرخ نواز صاحب کو وقف بھی کیا۔ جب وہ گھر کے آرام کو چھوڑ کر نائیجیریا جانے لگے تو بہت گھبرائے اس پر آپ نے اُن کا حوصلہ بڑھایا اور یہی نصیحت کی کہ خلیفہ وقت سے جو عہد کیا ہے اس کو ہر حال میں نبھانا ہے۔
شہید مرحوم اکثر نماز سوزوگداز سے ادا کرتے۔ 1974ء کے فسادات میں شہید ہونے والے احمدیوں کا اکثر ذکرخیر کرتے۔اُن کو شہداء سے خاص محبت تھی۔ شہیدمرحوم کا اپنے ملازمین کے ساتھ تو بہت مشفقانہ سلوک تھا لیکن اُن کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ کئی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک شخص افسوس کرنے آیا تو پچاس ہزار روپے ہمراہ لایا جو انہوں نے اُسے دکان کی ڈیکوریشن کروانے کے لیے بطور قرض دیے تھے۔
شہید مرحوم بوقت شہادت اپنے حلقہ میں بطور محاسب خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ آپ کو مسجد دارالذکر سے خاص لگاؤ تھا کیونکہ اس مسجد کی تعمیر کے وقت ہونے والے وقارعمل میں آپ بھی شریک ہوئے تھے۔ اُس وقت آپ لاہور میں زیرتعلیم تھے۔ شہادت والے دن آپ نے نیا سوٹ اور جوتے پہنے اور حسب عادت کافی وقت پہلے ہی مسجد چلے گئے۔ جب دہشتگردوں کا حملہ ہوا تو آپ تہہ خانے میں چلے گئے لیکن بعد میں گرنیڈ کے حملے میں زخمی ہوکر شہید ہوگئے۔
………٭………٭………٭………
مکرم عبدالرحمٰن صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ مبارکہ صدیقی صاحبہ کے قلم سے ان کے ایک عزیز مکرم عبدالرحمٰن صاحب شہید (ابن مکرم محمد جاوید اسلم صاحب)کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
شہید مرحوم ایک نومبائع نوجوان تھے۔16؍ستمبر 1989ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ایک چھوٹی بہن ہے۔شہید مرحوم بہت ذہین تھے اور ہر جماعت میں اوّل آیا کرتے تھے۔ بوقت شہادت میڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھے۔ اپنی بہن کو بھی پڑھائی میں بہت مدد دیتے۔ آپ اپنی نانی کی وفات کے بعد اپنی امّی، خالہ اور بہن سمیت احمدی ہوچکے تھے لیکن ڈاکٹر بننے تک یہ بات راز میں رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ خدا تعالیٰ کو کچھ اَور ہی منظور تھا۔ 28؍مئی 2010ء کو نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے آپ اپنی یونیورسٹی سے سیدھے دارالذکر پہنچے۔جب حملہ شروع ہوا تو آپ نے اپنی والدہ کو فون کرکے بتایا کہ بہت گولیاں چل رہی ہیں، بس آپ دعا کریں اور فکر نہ کریں۔ پھر آپ کے خالہ زاد بھائی نے آپ کو فون کیا تو آپ نے کہا کہ میری ماما اور بہن کا خیال رکھنا۔ اُس نے گھبراکر پوچھا کہ ایسی باتیں کیوں کررہے ہو۔ آپ نے جواب دیا: بس ویسے ہی، اگر مَیں یہاں سے نہ نکل سکا تو مجھے ربوہ لے کے جانا۔ اس بات کے معاً بعد بم پھٹنے اور گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں جس کے بعد شہید مرحوم سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔ جب دہشتگرد فرار ہوگئے تو پھر فون کیا تو ایک آدمی نے فون پر جواب دیا کہ جن سے آپ نے بات کرنی ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
شہید مرحوم کو اپنی نانی محترمہ سعیدہ جمیل صاحبہ سے بہت پیار تھا جنہوں نے اس خاندان میں احمدیت کو قائم رکھنے کے لیے بہت قربانی دی۔ وہ حضرت مولوی مہردین صاحبؓ (یکے از 313؍اصحاب) کی پوتی تھیں۔ شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ وہ اُن کے نام پر ایک ہسپتال بھی بنائے۔ شہید مرحوم کی والدہ قیصرہ صاحبہ نے بھی بہت مشکلات میں اپنے بچوں کی پرورش کی۔
شہیدمرحوم کی نمازوں میں آخری چار ماہ میں بہت باقاعدگی آگئی تھی۔ رات کو قرآن کریم پڑھ کر سوتے۔ پڑھائی کرتے تھک جاتے تو ایم ٹی اے لگالیتے۔ کبھی کوئی ضد یا فرمائش نہیں کی۔ بہت ہردلعزیز اور خوش اخلاق تھے۔ ان کے غیرازجماعت دوست ان کی شہادت پر بچوں کی طرح رو دیے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2010ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ شہید مرحوم کی عمر شہادت کے وقت اکیس سال تھی۔ ان کے خاندان کے دیگر تین افراد بھی اُس روز شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد جب ان کے غیرازجماعت خالو نے کہا کہ جنازہ ہم یہیں پڑھیں گے تو ان کی خالہ نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، اس بچے کی خواہش کے مطابق ہم اسے ربوہ ہی لے کر جائیں گے۔ احمدی ہوجانے کا علم ہونے پر ان کی خالہ کو اُن کے شوہر نے گھر سے نکال دیا۔ بہرحال شہید مرحوم کے والد کا رویہ جو پہلے سخت تھا اب نسبتاً نرم ہے۔ شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے پہلے خواب میں مجھے دیکھا کہ مَیں اُن کے گھر گیا ہوں۔ ان کی کزن نے خواب میں دیکھا کہ پانچوں خلفاء کی تصاویر لگی ہیں اور ایک راستہ بنا ہوا ہے جس پر لکھا ہے: This is the right way۔ بہرحال ان کے خاندان میں اور محلے میں بڑی سخت مخالفت ہے کہ جماعتی وفد تعزیت کے لیے ان کے گھر بھی نہیں جاسکا۔ شہید مرحوم نے باوجود نَومبائع ہونے کے جو استقامت دکھائی ہے یقیناًیہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے خاص تعلق کی وجہ سے تھی کہ انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃوالسلام کو پہچانا اور اُن کو آپؐ کا سلام پہنچایا تو اس کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
………٭………٭………٭………
مکرم منصور احمد صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ نبیلہ پروین صاحبہ کے قلم سے ان کے بھانجے مکرم منصور احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالحمید جاوید صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مکرم منصور احمد صاحب شہیدلاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ آپ کی شادی مکرمہ مبارکہ صاحبہ سے ہوئی جن سے ایک بیٹی اور تین بیٹے ہوئے۔ سانحہ لاہور کے وقت بڑی بیٹی سات سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا صرف آٹھ ماہ کا تھا۔چاروں بچے تحریک وقف نَو میں شامل ہیں۔شہید مرحوم اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دیتے۔ بچوں کو بہت سی نظمیں زبانی یاد کروائی ہوئی تھیں۔ نمازیں بھی پڑھاتے۔
شہید مرحوم بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ نظر کی کمزوری کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے لیکن بے حد محنتی تھے۔ سکول کی تعلیم مکمل کرکے اپنی نانی کی خدمت کے لیے کراچی چلے گئے۔ پھر چند سال بعد اپنی والدہ کی خدمت کے لیے لاہور واپس آگئے۔ آپ کی والدہ کہتی ہیں کہ میرا بیٹا بہت احساس کرنے والا اور خیال رکھنے والا تھا، میری ہر بات پر اُس نے ہمیشہ ’اچھا امی‘ ہی کہا۔
شہید مرحوم لاہور کے ایک دفتر میں ملازم تھے۔ اپنے احمدی ہونے پر فخر کرتے۔ صوم و صلوٰۃ کے بہت پابند تھے۔ شہادت سے ایک روز پہلے دو نئے سوٹ لائے اور پوچھنے پر بتایا کہ جمعے پر پہن کر جاؤں گا تو ثواب زیادہ ہوگا۔ جمعے کے روز صبح سے ہی تیاری میں لگ جاتے۔ دفتر سے چھٹی لے کر نماز پڑھنے جاتے اور پہلی صف میں بیٹھنے کی کوشش کرتے۔ اکثر اپنے دفتر کے ساتھی کے ہمراہ جمعہ پڑھنے جاتے تھے لیکن سانحہ والے دن اُس سے کہنے لگے کہ تم ہمیشہ مجھے دیر کروادیتے ہو اس لیےآج مَیں جلدی جارہا ہوں، تم بعد میں آجانا۔ چنانچہ جاکر حسب معمول پہلی صف میں بیٹھ گئے۔ شدید زخمی حالت میں اپنی والدہ اور اہلیہ کا فون آنے پر اٹھالیا اور حالات کا بتایا، آکر مدد کرنے کے لیے کہا اور اہلیہ سے یہ بھی کہا کہ بچوں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ دہشتگرد جب پہلی صف کے سامنے والے دروازے سے داخل ہوا تو اس نے گرنیڈ پھینکا جو سامنے کھڑے ہوئے منصور شہید میں پیوست ہوگیا۔ ساتھ ہی اُس نے شدید فائرنگ کی جس سے بجلی بند ہوگئی اور دھواں پھیلنے سے اندھیرا ہوگیا۔ مَیں باہر کی طرف بھاگا تو منصور کی آواز آئی کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ مَیں پیچھے کی طرف مُڑا تو اُسی وقت ایک دہشتگرد نے خودکُش جیکٹ پھاڑ کر زوردار دھماکہ کردیاجس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔
شہید مرحوم کی والدہ کہتی ہیں کہ حملہ ختم ہونے کے بعد کا وقت ہمارے لیے بہت دردناک اور تکلیف دہ تھا۔ اتنے احمدیوں کی شہادت اور اپنے بیٹے کا سوچ کر بہت پریشانی تھی۔ مَیں ساری رات اپنے بیٹے کو ہسپتالوں میں ڈھونڈتی رہی۔ یہ امید تھی کہ شاید وہ زخمی حالت میں مل جائے۔ جب تھک کر گھر آگئی اور جائے نماز بچھاکر دعا کرنے لگی کہ اے خدا! ایک بار میرے بیٹے کی شکل تو دکھادے۔ اُس وقت ہسپتال سے میرے بڑے بیٹے نے فون کیا کہ منصور احمد شہید ہوگئے ہیں۔ تب مَیں نے اپنے بیٹے کی شکل دیکھ لی۔ بہرحال مَیں خدا کے فیصلے پر راضی ہوئی کہ میرے بیٹے کو شہید کا درجہ دیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا: امّی موت ہو تو شہید کی ہو۔ اُس کی شہادت کے بعد اُس کا چھوٹا معصوم بیٹا اپنے بابا کے دفتر سے واپس آنے کے وقت اُن کے کمرے میں جاتا ہے اور مسکراکر باہر نکل کر کہتا ہے کہ بابا اندر ہیں۔ ایک دن سخت گرمی میں بجلی بند تھی جب وہ بچہ اندر کمرے میں جاکر سوگیا۔ اُس کی والدہ اُس کو باہر لائیں تو روتے ہوئے اپنی توتلی زبان میں شکوہ کیا کہ مجھے کیوں لے کر آئی ہیں، مَیں تو بابا کے ساتھ سو رہا تھا۔
………٭………٭………٭………
مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید کا ذکرخیر اُن کی بھتیجی مکرمہ فرزانہ منور صاحبہ اور شہید مرحوم کی ہمشیرہ مکرمہ نصرت مشتاق صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم مبارک علی اعوان صاحب کے دادا حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ اور والد محترم عبدالرزاق صاحب تھے۔ شہید مرحوم کی اہلیہ مکرمہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے والد حضرت مولوی محمد اسحاق صاحبؓ تھے جنہوں نے خسوف و کسوف کا نشان ظاہر ہونے کے بعد اپنی والدہ کے کہنے پر مہدی کی تلاش شروع کی اور پھر قادیان جاکر بیعت کی سعادت حاصل کی۔حضرت مولوی صاحبؓ کی تبلیغ سے ہی حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ نے بھی احمدیت قبول کی۔
محترم عبدالرزاق صاحب کا خاندان ضلع لاہور کے گاؤں لدھیکےنیویں میں آباد ہوا۔ ان کی اہلیہ نے گاؤں کے سینکڑوں بچوں اور بڑوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ انہیں گاؤں میں بے بے جی کہا جاتا تھا۔ ان کے ہاں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں جن میں سے مکرم مبارک علی اعوان صاحب کا نمبر پانچواں تھا جو 1951ء میں پیدا ہوئے۔ گاؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی مکرم منور احمد اعوان صاحب کے پاس سرگودھا چلے گئے اور میٹرک تک وہیں رہے۔ پھر واپس گاؤں آگئے اور قصور میں تعلیم جاری رکھتے ہوئے بی اے اور بی ایڈ کیا۔ پھر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ بوقت شہادت بھی قصور میں رہائش تھی اور سکول میں پڑھانے کے لیے روزانہ لاہور جایا کرتے تھے۔
1974ء میں جب فسادات پھوٹے تو مکرم مبارک علی صاحب قصور میں زیرتعلیم تھے۔ شدید مخالفت کے دنوں میں ایک روز گھر آکر اپنی والدہ سے کہنے لگےکہ بے بے جی! ہم دل سے احمدی مسلمان ہیں ہی، اگر مَیں اوپر اوپر سے کہہ دوں کہ مَیں صرف مسلمان ہوں تو اتنی مشکلات کا سامنا تو نہ کرنا پڑے گا۔ آپ کی والدہ نے یہ سنا تو کوئی جواب دیے بغیر زاروقطار رونے لگیں اور دعا کرنے لگیں کہ اے مولیٰ! اگر صحابہ کی نسل کے دل میں دین کی مخالفت کے خوف سے ایمان کی کمزوری پیدا ہونی ہے تو تُو انہیں اپنے پاس بلالے، میرے بچوں کو میرے سے پہلے اُٹھالے۔ اس سے پہلے بے بے جی کو نماز کے علاوہ کبھی روتے نہ دیکھا تھا۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک مکرم مبارک علی صاحب اپنی والدہ کو مناتے اور معافیاں مانگتے رہے تب وہ راضی ہوئیں۔
شہید مرحوم کے دل میں خلقِ خدا کی مدد کا جذبہ موجزن رہتا تھا۔کہا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ تو لوگوں کے کام لے کر راجہ کے پاس چلے جاتے کہ سب کا یا کسی ایک کا بھی کام بن جائے۔ مَیں بھی یہی سوچ کر لوگوں کے ساتھ چل پڑتا ہوں کہ کام تو ربّ نے ہی کرنا ہے، میرا کام تو ہمّت بڑھانا ہے۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ شہادت سے کچھ دن پہلے کہنے لگے کہ دنیا سے دل بھرگیا ہے، اب تو دل کرتا ہے کہ جنّت میں ہی چلاجاؤں۔ اہلیہ نے ازراہ مذاق کہا کہ جنّت میں جانے کا زادراہ اکٹھا ہوگیا ہے؟ تو جواب دیا کہ کوشش تو کی ہے آگے میرے سوہنے کی مرضی!
شہید مرحوم کے بڑے بھائی ایک عرصے سے فالج کا شکار ہیں اور اُن کی اہلیہ بھی وفات پاچکی ہیں۔ اپنے گھر کے علاوہ اپنے بھائی کے گھر کی کفالت بھی شہید مرحوم ہی کررہے تھے۔
شہید مرحوم بہت مہمان نواز تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ سب بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی اور بہت کوشش کی۔ 28؍مئی 2010ء کو آپ کے سکول میں جلدی چھٹی ہوگئی تو آپ نے دارالذکر لاہور میں ہی جمعہ پڑھ کر پھر قصور واپس جانے کا پروگرام بنایا۔ جب دہشتگردوں نے حملہ کیا تو آپ سے فون پر رابطہ ہوا۔ بعد میں آپ کے زخمی ہونے کا علم ہوا اور پھر شہادت کی اطلاع ملی۔
………٭………٭………٭………
مکرم احسان احمد خان صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم احسان احمد خان صاحب شہید ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب کا ذکرخیر اُن کی کزن مکرمہ طیبہ نصیر صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت منشی دیانت خان صاحبؓ (آف ضلع کانگڑہ)نے اس خاندان میں احمدیت کی بنیاد رکھی۔ مکرم احسان احمد خان صاحب شہیداپنے والدین کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ بوقت شہادت عمر 26 سال تھی۔ اپنے والدین کے بہت تابعدار اور چھوٹے بہن بھائیوں کا بہت احساس کرنے والے تھے۔ تنخواہ ملتی تو ساری اپنے والد کے ہاتھ پر رکھ کر کہتے کہ چندہ دے کر باقی خرچ کرلیں۔ روزانہ رات کو اپنے والد کے پاؤں دباکر سوتے۔
صدقات بھی دیتے اور یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتے۔ بہت اعلیٰ اخلاق تھے۔ ایک رات پریشانی میں بتایا کہ ایک ہزار روپے کسی کے زیادہ آگئے ہیں۔ صبح اُٹھ کر کہا کہ شکر ہے یاد آگئے۔ پھر جاکر اُس کو واپس کرکے آئے۔ وہ شخص حیرانی سے کہنے لگا کہ مجھے آج تک ایسا انسان نہیں ملا جو پیسے واپس کردے۔ شہادت سے پہلے والا جمعہ ادا نہ کرسکے کیونکہ کسی کو ہسپتال لے کر جانا تھا۔ اس کا افسوس کرتے کہ جمعہ کی نماز کارپارک میں پڑھنی پڑی تھی۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ انہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا، کبھی سخت لہجے میں بات نہیں کرتے تھے۔اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کی بہت فکر تھی۔ ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا کہا کرتے۔ مسجد پر حملے کے بعد فون کرکے امی سے بھی یہی کہا کہ سب کا خیال رکھیں خصوصاً ابو کا بہت خیال رکھیں اور میری بیٹی کی بہت اچھی تربیت کریں۔
شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے قبل دو خواب دیکھےتھے جو بعینہٖ آپ کی شہادت کے ساتھ پورے ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہید مرحوم کے لواحقین سے بذریعہ فون تعزیت فرمائی تو شہید مرحوم کی اہلیہ سے یہ بھی فرمایا کہ پہلے بھی آپ نے اپنے بہنوئی کی شہادت پر بڑا صبر دکھایا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سانحہ لاہور سے دو سال قبل شہید مرحوم کی اہلیہ کی بڑی بہن کے میاں کو بھی کراچی میں شہید کردیا گیا تھا۔
………٭………٭………٭………
مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید کا ذکرخیر اُن کی کزن مکرمہ شفقت عزیز صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں 7؍اکتوبر 2016ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔ ذیل میں چند اضافی امور پیش ہیں۔
مکرم منور احمد قیصر صاحب کے دادا حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ تھے جو گوجرہ کے رہنے والے تھے۔ شہید مرحوم بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور خدمت دین کے ہر کام میں پیش پیش رہتے۔ اپنے حلقے میں سیکرٹری ضیافت تھے۔ نیز کئی سالوں سے مسجد دارالذکر کے بیرونی گیٹ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ سانحہ لاہور والے دن نیاسوٹ پہنا تو مَیں نے کہا کہ آپ تو دلہا لگ رہے ہیں۔ جب گیٹ پر ڈیوٹی دے رہے تھے تو آپ کا ایک بیٹا قریب کھڑا تھا۔ آپ نے اسے کہا کہ تم اندر جاکر نماز ادا کرو۔ بیٹا ابھی اندر گیا ہی تھا کہ ایک دہشتگرد نے آپ پر گولی چلائی۔ آپ نے زخمی ہونے کے باوجود اُس دہشتگرد کو پکڑلیا تو اُس کے ایک ساتھی نے پیچھے سے آپ پر گولی چلادی۔ ہسپتال لے جاتے ہوئےآپ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی عمر 58 سال تھی۔
………٭………٭………٭………
مکرم وسیم احمد سفیر صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم وسیم احمد سفیر صاحب شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جسے شہید مرحوم کے والد کی کزن مکرمہ راشدہ منیر صاحبہ نے قلمبند کیا ہے۔
مکرم وسیم احمد سفیر صاحب شہید کے والد مکرم عبدالقدوس صاحب پورنگر ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں۔قبل ازیں شہادت کا رتبہ پانے والے محترم الحاج صوفی عزیز احمد سندھو صاحب سیالکوٹی اور مکرم وحید بشیر صاحب شہید (سابق صدر شاہ کوٹ)کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ شہید مرحوم بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم تھے۔ کمپیوٹر انجینئر تھے۔ عمر 35 سال تھی۔ نرم مزاج اور شریف النفس تھے۔ بچپن سے ہی پنجوقتہ نمازی تھے اور چھوٹی عمر میں بھی سائیکل پر باجماعت نماز ادا کرنے مسجد جایا کرتے تھے۔کپڑوں اور کھانے کے معاملہ میں نہایت سادگی تھی۔ وقت کا ضیاع پسند نہیں تھا۔ فارغ وقت کتابیں پڑھنے میں گزارتے اور قرآن کریم کی تلاوت دل سے کرتے۔آپ اپنی مجلس میں ناظم اطفال کے طور پر خدمت کررہے تھے۔ جمعہ کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ 28؍مئی 2010ء کوپہلی صف میں بیٹھے تھے جب دہشتگردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہوئے۔ آپ کو آٹھ گولیاں لگیں اور ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش کیا۔ شہید مرحوم نے اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی پسماندگان میں چھوڑے ہیں۔ آپ اپنی فیملی کا بہت خیال رکھتے۔
………٭………٭………٭………