خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍جون 2020ء
ابتدائی صحابہ کی قربانیاں بہت زیادہ تھیں ان کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے سرداروں کے سردار ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عبدالرحمٰن آسمان میں بھی امین ہے اور زمین میں بھی امین ہے
غزوہ احد کے دن جب لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ سعادت بھی ملی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے نماز پڑھی … فرمایا کہ نبی کا تمہارے پیچھے نماز پڑھنا اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ تم نیک آدمی ہو
عشرہ مبشرہ میں شامل آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے جن کو جنت کی بشارت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی لیکن پھر بھی ان لوگوں میں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اتنی تھی کہ ہر وقت فکر میں رہتے تھے
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر مت نکلو
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍جون2020ء بمطابق 19؍احسان 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
گذشتہ خطبے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ذکر ہو رہا تھا اور اس کا کچھ حصہ رہ گیا تھا جو آج مَیں بیان کروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے اُمَیَّہ بن خَلَف کے ساتھ پرانے دوستانہ تعلقات تھے۔ اس کی بابت ایک تفصیلی واقعہ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے جس میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے امیہ بن خلف کو خط لکھا کہ وہ مکے میں میرے مال اور جائیداد کی حفاظت کرے اور مَیں اس کے مال و اسباب کی مدینہ میں حفاظت کروں گا۔ جب مَیں نے اپنا نام عبدالرحمٰن لکھا تو امیہ نے کہا کہ مَیں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا۔ تم مجھے اپنا وہ نام بتاؤ، وہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا۔ کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے اپنا نام عبدِعمرو لکھا۔ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو مَیں ایک پہاڑی کی طرف نکل گیا جبکہ لوگ سو چکے تھے تا مَیں اس کی حفاظت کروں تو بلالؓ نے اسے کہیں دیکھ لیا چنانچہ حضرت بلالؓ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ امیہ بن خلف ہے۔ اگر یہ بچ نکلا تو میری خیر نہیں۔ اس پر حضرت بلالؓ کے کچھ لوگ ہمارے یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور امیہ بن خَلَف کے تعاقب میں نکلے کیونکہ یہ اس کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پناہ میں لینے کے لیے نکلے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں ڈرا کہ وہ ہمیں پا لیں گے۔ ہمیں پکڑ لیں گے اس لیے مَیں نے اس کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے ساتھ لڑائی میں مشغول ہو جائیں یعنی بیٹے کے ساتھ وہ مسلمان لوگ جو پیچھے آ رہے تھے لڑائی میں مشغول ہو جائیں اور ہم ذرا آگے نکل جائیں۔ مَیں ان کو محفوظ جگہ پر لے جاؤں۔ چنانچہ انہوں نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بیٹے کو ان لوگوں نے مار ڈالا۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے میرا داؤ کارگر نہ ہونے دیا اور ہمارا پیچھا کیا۔ امیہ چونکہ بھاری بھرکم آدمی تھا اس لیے جلدی ادھر ادھر نہ ہو سکا ۔آخر جب انہوں نے ہمیں پا لیا تو مَیں نے اسے کہا بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ مَیں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ ان میں سے ایک کی تلوار سے میرے پاؤں پر بھی زخم آ گیا۔
(صحیح البخاری کتاب الوکالة باب اذا وکل المسلم حربیا فی دار الحرب حدیث 2301)
تاریخ طبری میں اس کی مزید تفصیل یوں بیان ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مکّے میں امیہ بن خلف میرا دوست تھا۔ اس وقت میرا نام عبدعمرو تھا۔ مکّہ ہی میں جب مَیں اسلام لایا تو میرا نام عبدالرحمٰن رکھا گیا۔ اس کے بعد وہیں جب کبھی وہ مجھ سے ملتا تو کہتا اے عبد عمرو !کیا تم اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام سے اعراض کرتے ہو؟ مَیں کہتا ہاں۔ اس پر وہ کہتا مگر مَیں رحمٰن کو نہیں جانتا۔ مناسب یہ ہے کہ کوئی اَور نام تجویز کرو اس سے مَیں تمہیں مخاطب کروں گا کیونکہ اپنے سابق نام پر تم مجھے جواب نہیں دیتے اور جس بات سے مَیں ناواقف ہوں اس کے نام کے ساتھ مَیں تمہیں نہیں پکاروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ جب وہ مجھے ’اے عبد عمرو!‘ کہہ کر پکارتا تو مَیں اسے جواب نہیں دیتا تھا۔ مَیں نے کہا کہ اے ابوعلی! اس کے متعلق تم جو چاہو مقرر کر دو۔ یہ جو ہے یہ پرانا نام ہے تو مَیں اس کا جواب نہیں دوں گا۔ اس نے کہا اچھا تمہارا نام عبدِالٰہ بہتر ہو گا۔ مَیں نے کہا اچھا۔ چنانچہ اس کے بعد جب مَیں اور وہ ملتے تو وہ مجھے عبدِالٰہ کے نام سے پکارتا۔ مَیں اسے جواب دیتا اور اس سے باتیں کرتا یہاں تک کہ بدر کا دن آگیا۔ مَیں امیہ کے پاس سے گزرا۔ وہ اپنے بیٹے علی بن امیہ کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ میرے پاس کئی زرہیں تھیں جنہیں مَیں نے حاصل کیا تھا۔ مَیں ان کو لیے جا رہا تھا ۔اس نے مجھے دیکھ کر آواز دی کہ اے عبدعمرو! مَیں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تب اس نے کہا اے عبدِالٰہ! مَیں نے کہا ہاں کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کیا مَیں تمہارے لیے ان زِرہوں سے جن کو تم لیے جا رہے ہو زیادہ بہتر نہیں ہوں؟ مَیں نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو آجاؤ۔ مَیں نے زِرہیں وہاں پھینک دیں یعنی اسے پناہ دینے کے لیے اور اس کا اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا آج کے جیسا دن میرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ جیسا کہ آج دن گزرا ہے مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ مَیں ان دونوں کو ساتھ لے کر چل دیا۔ مَیں باپ بیٹے کے بیچ میں ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے چلا جا رہا تھا۔ امیہ نے مجھ سے پوچھا کہ اے عبدِالٰہ ! تم میں وہ کون ہے جس کے سینے پر شتر مرغ کا پَر بطور نشان آویزاں تھا۔ مَیں نے کہا وہ حمزہ بن عبدالمطلبؓ ہے۔ اس نے کہا ہماری یہ حالت اسی کی بدولت ہے۔ یہ جو ہمارا بُرا حال ہوا ہے اس کی بدولت ہے۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں ان کو لیے چلا جا رہا تھا کہ بلالؓ نے اسے میرے ہمراہ دیکھ لیا۔ یہ امیہ مکّے میں حضرت بلالؓ کو اذیتیں دیتا تھا تا کہ وہ اسلام ترک کر دیں۔ وہ ان کو مکےکی صاف چٹان پر جب وہ دھوپ سے خوب تپ جاتی لے جاتا اور اس پر ان کو پیٹھ کے بل لٹا دیتا۔ پھر ایک بڑے پتھر کے متعلق حکم دیتا جس پر وہ پتھران کے سینے پر رکھ دیا جاتا اور پھر کہتا کہ جب تک تو محمدؐ کے دین کو ترک نہیں کرے گا تجھے سزا ملتی رہے گی مگر باوجود اس عذاب کے بلال یہی کہتے ‘اَحَد، اَحَد’۔ یعنی وہ ایک ہے، وہ ایک ہے۔ اس لیے اب جب اس کی نظر اس پر پڑی یعنی حضرت بلالؓ کی امیہ پر جب نظر پڑی تو کہنے لگے کہ امیہ بن خَلَف کفر کا سرغنہ ہے۔ مَیں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اے بلال !یہ دونوں میرے قیدی ہیں۔ بلالؓ نے پھر کہا مَیں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا اے ابن سَوداء! تم سنتے ہو۔ بلال نے پھر کہا میں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے۔ پھر حضرت بلالؓ نے نہایت زور سے چِلّا کر کہا اے اللہ کے انصار! یہ کفار کا سرغنہ امیہ بن خلف ہے۔ میں ہلاک ہو جاؤں اگر یہ بچ جائے۔ ان کی اس آواز پر لوگوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا اور قید سا کر لیا۔ میں اسے بچانے لگا۔ ایک شخص نے اس کے بیٹے پر تلوار ماری اور وہ گر پڑا۔ اس وقت امیہ نے اس زور سے چیخ ماری کہ میں نے اس جیسی کبھی نہیں سنی۔ میں نے کہا بھاگ جاؤ مگر بھاگ نہیں سکتے۔ اللہ کی قسم ! مَیں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا۔ اتنے میں حملہ آوروں نے ان دونوں پر اپنی تلواروں سے حملہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کا کام تمام کر دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ بلالؓ پر رحم کرے ۔ میری زرہیں بھی گئیں اور قیدی کو انہوں نے زبردستی مجھ سے چھین لیا۔
(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 35 باب ذکر وقعۃ بدر الکبری مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جنگِ اُحُد میں بھی شامل ہوئے۔ غزوہ احد کے دن جب لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 95 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
غزوۂ احد کے دن حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اکیس زخم آئے اور پاؤں میں ایسا زخم آیا کہ آپؓ لنگڑا کر چلتے تھے اور سامنے کے دو دانت بھی شہید ہوئے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء3 صفحہ 476 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان چھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی قیادت میں سات سو آدمیوں کو دُوْمَۃُ الْجَندل کی طرف بھیجا۔ اپنے دست مبارک سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ رنگ کا عمامہ ان کے سر پر باندھا جس کا شملہ ان کے کندھوں کے درمیان رکھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا ابو محمد! مجھے دُوْمَۃُ الْجَندل کی طرف سے تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ وہاں مدینے پر حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع ہو رہا ہے۔ تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ادھر روانہ ہو جاؤ۔ سات سو مجاہد تمہارے ساتھ جائیں گے۔ دُوْمَۃُ الْجَندل پہنچ کر وہاں کے سردار اور اس کے قبیلہ کلب کو پہلے اسلام کی دعوت دینا لیکن اگر لڑائی کی نوبت آئے تو دیکھنا کسی کو دھوکا نہ دینا۔ خیانت اور بدعہدی نہ کرنا۔ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور خدا کے باغیوں سے دنیا کو پاک کر دینا۔ ان احتیاطوں کے ساتھ پھر جنگ کی اجازت ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے دُوْمَہ پہنچ کر ان کو تین دن تک اسلام کی دعوت دی۔ وہ تین دن تک انکار کرتے رہے۔ پھر اَصْبَغْ بِنْ عَمْرْو کَلْبِی جو عیسائی تھا اور ان کا سردار تھا اس نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال لکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس سردار کی بیٹی تُمَاضِرْ سے شادی کر لو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓنے اس سے شادی کی اور اس کے ہمراہ مدینہ واپس آئے۔ تُمَاضِرْبعد میں اُمِّ اَبُو سَلَمَہ کہلائیں۔
(روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 106)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ96 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت )
(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 875البدر پبلیکیشنز لاہور )
عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ چودہ ہجری میں جنگ جِسْر کے موقعےپر حضرت عمر ؓکو جب حضرت اَبُو عُبَید بن مسعودؓ کی شہادت کی اطلاع ملی۔ یہ جو جنگِ جِسر ہے پہلے بھی یہ بیان ہو چکا ہے۔ فارسیوں کے ایک ہاتھی نے ان کو کچل دیا تھا۔ بہرحال جب اطلاع ملی اور معلوم ہوا کہ اہل فارس نے آلِ کسریٰ میں سے ایک شخص کو تلاش کر کے اپنا بادشاہ بنایا ہے تو آپؓ نے مہاجرین اور انصار کو دعوتِ جہاد دی اور مدینہ سے روانہ ہو کر صِرَارْ مقام پر قیام کیا۔ صِرار مدینہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ یہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عراق کے راستے پر واقع ایک جگہ ہے۔ بہرحال وہاں آپؓ نے قیام کیا اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو آگے روانہ کیا تا کہ وہ اَعْوَصْ پہنچ جائیں۔ آپؓ نے مَیْمَنَہ یعنی فوج کا جو دایاں بازو تھا اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکو اور مَیْسَرَہ جو فوج کا بایاں بازو تھا اس پر زُبیر بن عوامؓ کو مقرر فرمایا اور حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر کر آئے تھے۔ حضرت عمر ؓنے لوگوں سے مشورہ کیا۔ سب نے آپؓ کو فارس جانے کا مشورہ دیا۔ یہ قافلہ جب روانہ ہوا تھا تو صِرار آنے تک حضرت عمر ؓنے کسی سے مشورہ نہیں کیا تھا۔ یہاں پہنچ کر آپؓ نے مشورہ کیا۔ حضرت طلحہؓ واپس آئے تو وہ بھی ان لوگوں کے ہم خیال تھے۔ پہلے حضرت طلحہؓ وہاں نہیں تھے۔ جب واپس آئے تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے آگے جانا چاہیے۔ مگر حضرت عبدالرحمٰنؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپؓ کو جانے سے روکا اور روکنے کی وجہ بیان کرتے ہوئےحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ آج سے پہلے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان نہیں کیا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا کروں گا مگر آج کہتا ہوں کہ اے وہ کہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں اس معاملے کا آخری فیصلہ آپؓ مجھ پر چھوڑ دیں۔ حضرت عمر ؓجو اس وقت خلیفہ تھے آپؓ نے ان کو یہ جواب دیا ۔ آپؓ وہاں یعنی صِرَار کے مقام پر رک جائیں اور ایک بڑے لشکر کو روانہ فرما دیں۔ شروع سے لے کر اب تک آپؓ دیکھ چکے ہیں کہ آپؓ کے لشکروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ رہا ہے۔ اگر آپؓ کی فوج نے شکست کھائی تو وہ آپ کی شکست کی مانند نہ ہو گی۔ انہوں نے کہا ،جواز پیش کیا کہ اگر ابتدا میں آپؓ قتل ہو گئے یا شکست کھا گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر مسلمان کبھی تکبیر نہیں پڑھ سکیں گے اور نہ ہی لا الہ الا اللّٰہ کی شہادت دے سکیں گے۔ اس وقت جب یہ ساری باتیں ہو رہی تھیں تو حضرت عمرؓ کسی شخص کی تلاش میں تھے جس کوفوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا جائے۔ اسی دوران ان کی خدمت میں، حضرت عمر ؓکی خدمت میں حضرت سعدؓ کا خط آیا۔ حضرت سعدؓ اس وقت نجد کے صدقات پر مامور تھے۔ حضرت عمرؓنے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی باتیں سن کے فرمایا اچھا پھر مجھے کوئی آدمی بتلاؤ کس کو بنایا جائے؟ کس کے سپرد کیا جائے؟ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کہ آدمی تو آپ کو مل گیا۔ حضرت عمر ؓنے پوچھا وہ کون ہے؟ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کچھار کا شیر سعد بن مالکؓ۔ یعنی یہ بہت بہادر انسان ہے۔ بڑا اچھا کمانڈر ہے۔ اس کو کمانڈر بنا کے بھیجیں۔ باقی لوگوں نے بھی اس مشورے کی تائید کی۔ یہ بھی تاریخ طبری کا حوالہ ہے۔
(تاریخ الطبری جزء 3 صفحہ 381-382باب ذکر امر القادسیة مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ287 سنۃ 13 ذکر وقعۃ قس الناطف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 172 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں مختلف قبیلوں اور صحابہ کو رہائش کے لیے جگہ عطا کی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے قبیلے کو مسجد نبویؐ کے عقب میں کھجوروں کے ایک جھنڈ میں رہائش کے لیے زمین عطا کی۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت عمر ؓکو بطور جاگیر بھی زمین عطا فرمائی۔ آلِ عمر سے یہ جاگیر پھر حضرت زبیرؓ نے خرید لی۔ حضرت عمر ؓکی اولاد سے پھر یہ جاگیر حضرت زبیرؓ نے خرید لی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓسے وعدہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب مسلمانوں کے ہاتھ پر شام فتح کرے گا تو تمہارے لیے فلاں حصہ زمین ہو گا۔ چنانچہ حضرت عمر ؓکے دورِ خلافت میں جب ملکِ شام میں اسلام کو فتوحات ملیں تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ان کی زمین دی گئی۔ اس علاقے کا نام سَلِیْل تھا جہاں انہیں زمین دینے کا وعدہ دیا گیا تھا۔
(روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 105-106)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ سعادت بھی ملی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے نماز پڑھی۔ چنانچہ حضرت مُغِیرہؓ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے۔ حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے فجر کی نماز سے پہلے تشریف لے گئے۔ میں نے آپؐ کے ساتھ پانی کا مشکیزہ اٹھایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف واپس آئے جہاں میں فاصلے پہ کھڑا تھا تو میں مشکیزے سے آپؐ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا اور آپؐ نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرۂ مبارک دھویا۔ پھر آپؐ اپنے بازوؤں کو اپنے جبے سے باہر نکالنے لگے لیکن جبہ کی آستینیں تنگ تھیں اس لیے اپنے ہاتھ جبے کے اندر داخل کیے اور اپنے بازوؤں کو جبے کے نیچے سے نکال کر کہنیوں تک دھوئے۔ پھر آپؐ نے اپنے موزوں پر مسح کر کے ان کو صاف کیا۔ پھر آگے چل پڑے۔ مغیرہؓ کہتے ہیں میں بھی آپؐ کے ساتھ آگے چلا یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو پایا کہ وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو آگے کر چکے تھے اور وہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو میں سے ایک رکعت پائی یعنی اس وقت تک فجر کی نماز کی ایک رکعت ہو چکی تھی۔ دوسری رکعت تھی صف میں کھڑے ہو گئے اور آپؐ نے دوسری رکعت لوگوں کے ساتھ پڑھی۔ جب عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے سلام پھیرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ دوسری رکعت جو رہ گئی تھی پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اس بات نے مسلمانوں میں گھبراہٹ پید اکر دی اور بکثرت تسبیح کرنے لگے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز ختم کر لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا یا یہ کہا کہ اچھا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اپنے وقت پر ادا کرنے کی وجہ سے ان پر رشک کا اظہار کیا کہ بہت اچھا کیا۔ حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ جب ہم پہنچے تھے تو اس وقت میں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت عبدالرحمٰن کو پیچھے کر دوں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رہنے دو۔ ان کو نماز پڑھانے دو۔ نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی اپنی زندگی میں امت کے کسی نیک آدمی کے پیچھے نماز ضرور پڑھتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب تقدیم الجماعة من یصلی بھم اذا تاخر الامام حدیث 274)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ95من بنی زھرۃ بن کلاب دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک اَور بڑا اعزاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بخشا۔ نہ صرف یہ کہا کہ بڑا اچھا ہے، نماز پڑھائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ نبی کا، میرا تمہارے پیچھے نماز پڑھنا اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ تم نیک آدمی ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ظہر سے پہلے لمبی نماز پڑھا کرتے تھے یعنی نفل پڑھا کرتے تھے۔ جب اذان سنتے تو فوراً نماز کے لیے تشریف لے آتے۔
(روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 107)
ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا عبدالرحمٰنؓ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور یہ دعا کر رہے ہیں کہ ’اللہ! مجھے نفس کے بخل سے بچائیو۔‘
(روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 110)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ جس سال حضرت عمر ؓخلیفہ منتخب ہوئے اس سال آپؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو امیر حج مقرر کیا تھا۔
(تاریخ الطبری جلد 3صفحہ379-380 باب ذکر ابتداء امر القادسیہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰنؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جوؤں کی کثرت کی شکایت لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیا آپؐ مجھے اجازت فرمائیں گے کہ میں ریشمی لباس پہن لوں۔ اس وقت کسی وجہ سے جوئیں پیدا ہو گئیں۔ سر میں شاید پیدا ہو گئی ہوں گی ۔ عام جو سادہ کاٹن کا لباس ہے اس میں ختم نہیں ہو رہی تھیں تو اس وقت آپؓ نے اجازت لی کہ ریشمی لباس پہن لوں۔ اس سے ذرا بچت ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت عطا فرما دی کہ ٹھیک ہے پہن لیا کرو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ وفات پاگئے اور حضرت عمر ؓخلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اپنے بیٹے ابو سلمہ کے ساتھ حضرت عمر ؓکے پاس حاضر ہوئے۔ ابو سلمہ نے ریشمی قمیض پہن رکھی تھی۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا یہ کیا پہن رکھا ہے؟ پھر انہوں نے یعنی حضرت عمر ؓنے ابو سلمہ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر قمیض پھاڑ دی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓنے حضرت عمر ؓسے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت عنایت فرمائی تھی۔ تو حضرت عمر ؓنے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو اس لیے اجازت عطا فرمائی تھی کہ آپؓ نے ان کے حضور جوؤں کی شکایت کی تھی۔ یہ اجازت آپؓ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 96 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک چادر پہنا کرتے تھے یا کسی وقت ایک چادر پہنی ہوئی تھی جس کی قیمت چار یا پانچ سو درہم تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 97 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
یعنی ایسے حالات تھے کہ انتہائی قیمتی لباس بھی پہنتے تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھیں کہ جب ہجرت کی تو کچھ بھی پاس نہیں تھا لیکن اس کے بعد قیمتی ترین لباس بھی پہنا اور بے شمار جائیداد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پیدا کر دی۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مرض الموت کے وقت حضرت عمر ؓکو اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیا تھا۔ جب آپؓ نے اس کا ارادہ کیا تھا اس وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکو بلایا اور ان سے کہا کہ بتاؤ عمرؓ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓنے کہا اے خلیفۂ رسولؐ !وہ اَوروں کی بنسبت آپؓ کی رائے سے بھی افضل ہیں مگر ان کے مزاج میں ذرا شدّت ہے۔ حضرت ابوبکرؓنے کہا کہ یہ شدّت اس وجہ سے تھی کہ وہ مجھ کو نرم دیکھتے تھے۔ میں بہت نرم تھا اس لیے وہ ذرا شدّت دکھاتے تھے تا کہ معاملہ balanced رہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جب معاملہ ان کے سپرد ہو گا تو اس قسم کی اکثر باتیں وہ چھوڑ دیں گے۔ پھر اس میں شدّت نہیں دیکھو گے۔ پھر فرمایا اے ابومحمد! مَیں نے ان کو بغور دیکھا ہے کہ جس وقت کسی شخص پر کسی معاملے میں مَیں غضبناک ہوتا تھا یعنی حضرت ابوبکرؓ فرما رہے ہیں جب مجھے کسی بات پر غصہ آتا تھا تو عمر مجھ کو اسی پر راضی ہونے کا مشورہ دیتے تھے۔ اس وقت حضرت عمر ؓکا مشورہ نرمی کا ہوتا تھا۔ اور جب کبھی میں کسی پر نرم ہوتا تھا تو مجھ کو اس پر سختی کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اے ابومحمد! یہ باتیں جو مَیں نے تم سے کہی ہیں تم ان کا کسی اَور سے ذکر نہ کرنا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓنے کہا اچھا۔
(تاریخ الطبری جلد 3ذکر استخلافہ عمر بن خطاب صفحہ 352 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
فتح مکہ کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اطراف میں کچھ وفود بھیجے تو حضرت خالد بن ولید ؓکو بنو جَذِیْمَہکی طرف بھیجا۔ بنو جَذِیْمَہ نے جاہلیت میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکے والد عوف اور حضرت خالد کے چچا فاکِۃْبن مغیرہ کا قتل کیا تھا۔ حضرت خالد سے وہاں غلطی سے اس قبیلے کےایک شخص کا قتل ہو گیا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کا علم ہوا تو آپؐ نے ناپسند کیا۔ آپؐ نے اس کی دیت بھی ادا کی اور جو کچھ حضرت خالدؓ نے ان سے لیا تھا اس کی قیمت ادا کر دی۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو حضرت خالدؓ کے اس فعل کا علم ہوا تو حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت خالدؓ کو کہا کہ تم نے اس کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے تمہارے چچا کو قتل کیا تھا؟ حضرت خالدؓ نے جواب میں سختی سے کہا کہ انہوں نے تمہارے باپ کو بھی قتل کیا تھا۔ حضرت خالدؓ نے مزید کہا تم جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے تو تم ان دنوں کو بہت لمبا کرنا چاہتے ہو یعنی ان سے تم بڑا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو ۔یعنی کہ تم ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہو اس لیے بڑا اعزاز سمجھتے ہو۔ اس وجہ سے مجھے یہ بات کہہ رہے ہو۔ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی کیونکہ حضرت خالدؓ نے ذرا غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا میرے اصحاب کو چھوڑ دو۔ قَسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو ان کے معمولی خرچ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان لوگوں کا یہ بہت بڑا مقام ہے۔
(روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 108-109)
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 479 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت )
ان ابتدائی صحابہ کی قربانیاں بہت زیادہ تھیں ان کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے سرداروں کے سردار ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عبدالرحمٰن آسمان میں بھی امین ہے اور زمین میں بھی امین ہے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 2 صفحہ 846 عبد الرحمٰن بن عوف دار الجیل بیروت)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓایک دفعہ اتنے سخت بیمار ہوئے کہ غشی طاری ہو گئی۔ ان کی اہلیہ کے منہ سے چیخ نکل گئی یعنی کافی بُری حالت ہو گئی تو اس غم کی حالت میں ان کی چیخ نکلی۔ بہرحال جب ان کو اس کے بعد صحت میں بہتری بھی آ گئی ۔ طبیعت میں جب ان کو افاقہ ہوا تو کہنے لگے کہ مجھے جب غشی طاری ہوئی تھی تو میرے پاس دو شخص آئے۔ اس وقت جو نظارہ میں نے دیکھا کہ اس حالت میں دوشخص آئے اور انہوں نے کہا چلو غالب امین ذات کے سامنے تمہارا فیصلہ کراتے ہیں۔ تو ان دونوں کو ایک شخص اَور ملا، ایک تیسرا شخص ملا اور کہنے لگا اسے مت لے جاؤ کیونکہ یہ ماں کے پیٹ سے ہی سعادت مند ہے۔ یہ نظارہ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے اپنے بارے میں د یکھا۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ291 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
نَوْفَل بن اِیَاس ھُذَلِی کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ ہماری مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہ بہترین ساتھی تھے۔ ایک دن وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ غسل کر کے باہر آئے اور ہمارے پاس ایک برتن لائے جس میں روٹی اور گوشت تھا۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ رونے لگے۔ ہم نے پوچھا ابومحمد! آپؓ کیوں رو رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اہل خانہ جَو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یعنی جَو کی روٹی بھی پوری طرح نہیں ملتی تھی۔ پھر فرمایا کہ مَیں نہیں سمجھتا کہ جس چیز کے لیے ہمیں تاخیر ملی وہ ہمارے لیے بہتر ہو۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ291 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
یعنی ہمیں جو اتنا عرصہ زندہ رہنے کا موقع ملا ہے یہ ہمارے لیے بہتر ہے یا کوئی ابتلا یا امتحان ہے۔ یہ تھے صحابہ کے جذبات۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کا خوف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والوں کے لیے جذبات کا اظہار۔ انہی جذبات کا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان سے تعلق نہیں تھا بلکہ صحابہ کے لیے بھی اس مثالی محبت کا یہ اظہار ہوتا تھا جو آپس میں صحابہ کو ایک دوسرے سے تھی۔ اسی ضمن میں ایک واقعہ آتا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے پاس ایک روز افطاری کے وقت کھانا لایا گیا۔ انواع و اقسام کے کھانے جب دستر خوان کی زینت بنے تو حضرت عبدالرحمٰنؓ نے ایک لقمہ اٹھایا۔ مختلف قسم کے کھانے آئے اور ایک لقمہ اس میں سے آپؓ نے کھانے کے لیے اٹھایا۔ جب لقمہ منہ میں ڈالا تو رقت طاری ہو گئی اور یہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اٹھا لیے کہ مصعب بن عُمیرؓ احد میں شہید ہوئے۔ وہ ہم سے بہتر تھے۔ ان کی چادر کا ہی کفن پہنایا گیا۔ یعنی کفن کے لیے کپڑا نہیں تھا تو جو چادر انہوں نے اوڑھی ہوئی تھی اسی کاکفن پہنایا گیا اور اس کفن کی کیا حالت تھی؟ اگر پاؤں ڈھانکتے تو سرننگا ہو جاتا تھا، سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن کہنے لگے کہ حمزہؓ شہید ہوئے۔ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے لیکن ہمیں مالی فراخی اور دنیاوی آسائش عطا کی گئی اور ہمیں اس سے حصہ وافر ملا۔ مجھے ڈر ہے کہ ہماری نیکیوں کا اجرہمیں جلد اس دنیا میں مل گیا۔ اس کے بعد وہ رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔ یہ خوف تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خشیت تھی۔
(روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 111-112)
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓآئے اور کہا کہ اے میری ماں! مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ انہوں نے جواب دیا بیٹا خرچ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو کوئی ہلاکت کا سوال نہیں ۔کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی کے بعد وہ دوبارہ مجھے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے یعنی بعض لوگ ایسے ہوں گے کہ اس مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓجب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمرؓسے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے حضرت عمر ؓکو یہ بات بتائی تو حضرت عمر ؓخود حضرت ام سلمہؓ کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتائیے کہ کیا میں ان میں سے ہوں؟ یہ جو آپؓ نے بتایاتھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھ سے نہیں ملیں گے ۔جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے مَیں ان میں سے ہوں؟ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا نہیں۔ حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ نہیں آپؓ ان میں سے نہیں ہیں لیکن آپؓ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکیں گے یا نہیں۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 2 صفحہ 848، 849 عبد الرحمٰن بن عوف دار الجیل بیروت)
یعنی کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ آپؐ کو ضرور دیکھیں گے لیکن یہ بھی واضح ہو جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تو ان لوگوں میں سے ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے جن کو جنت کی بشارت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی لیکن پھر بھی ان لوگوں میں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اتنی تھی کہ ہر وقت فکر میں رہتے تھے اور حضرت ام سلمہؓ کی یہ بات سن کے بھی آپؓ نے فوراً بہت زیادہ صدقہ و خیرات کی۔
ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓشام کی طرف نکلے یہاں تک کہ وہ سَرْغْ مقام پر پہنچے۔ سَرْغْ جو ہے وہ شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں واقع وادیٔ تبوک کی ایک بستی کا نام ہے جو مدینے سے تیرہ راتوں کی مسافت پر ہے۔ یعنی اس وقت جو سواریوں کا انتظام تھا ان کے ساتھ تیرہ راتیں مسلسل چلتے رہیں تو اس کی اتنی مسافت تھی۔ وہاں پہنچے تو آپؓ کی ملاقات فوجوں کے کمانڈر حضرت ابوعُبَیدہ بن الْجرَّاحؓ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ یہ واقعہ اٹھارہ ہجری میں حضرت عمرؓکے دورِ خلافت میں شام کی فتوحات کے بعد کا ہے۔ ان لوگوں نے حضرت عمر ؓکو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے کہا کہ میرے پاس مشورے کے لیے اولین مہاجرین کو بلاؤ۔ شروع کے جو مہاجرین ہیں ان کو بلاؤ ۔ وہ کیا مشورہ دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓنے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی۔ بعض کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے یعنی سفر جاری رکھنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ واپس چلا جائے۔ حضرت عمرؓنے مہاجرین کو بھجوا دیااور پھر انصار کو مشورے کے لیے بلایا۔ ان سے مشورہ لیا مگر انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا۔کچھ نے کہا واپس چلے جائیں اور کچھ نے کہا آگے چلیں۔ حضرت عمرؓ نے انصار کو بھجوایااور پھر فرمایا : قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ۔ قریش کے اُن بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے۔ ان کو بلایا گیا انہوں نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں ۔کوئی ضرورت نہیں۔ وہاں وبا پھوٹی ہوئی ہے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ حضرت عمر ؓنے ان کا مشورہ مان کے لوگوں میں واپسی کا اعلان کروا دیا۔ حضرت ابوعُبیدہ بن جَرَّاحؓ نے اس موقعےپر سوال کیا ’کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے؟‘ آپؓ اس وبا کے ڈر سے واپس جا رہے ہیں تو یہ تو اللہ کی تقدیر ہے، بیماری پھیلی ہوئی ہے کیا آپؓ اس سے فرار ہو سکتے ہیں۔ حضرت عمر ؓنے حضرت ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ اے ابوعبیدہ! کاش تمہارے علاوہ کسی اَور نے یہ بات کہی ہوتی۔ ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی ایک دوسری تقدیر کی طرف جاتے ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓنے آگے ان کو اس کی مثال دی کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا ہے۔ مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں۔ ایک سرسبز ہو اور دوسرا خشک تو کیا ایسا نہیں کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سرسبز جگہ پر چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چراؤ تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہے۔اب اللہ کی تقدیر نے تمہارے اوپر دو آپشن دے دیے ہیں ایک سبز چراگاہ ہے ایک جہاں بالکل خشک جگہ ہے، بنجر ہے، اکا دکا جھاڑیاں ہیں یا تھوڑا بہت گھاس ہے۔ اب تم کہہ دو کہ یہ سبزہ اپنی تقدیر سے اگا ہے اور یہ جو خشکی ہے وہ کسی اور تقدیر سے ہے۔ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیریں ہیں۔ اب تم نے فیصلہ کرنا ہے ۔کون سی بہتر آپشن لینی ہے۔ ظاہر ہے تم سرسبز جگہ پر چراؤ گے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے ان کو یہ باتیں کہیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی آ گئے جو پہلے اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓنے کہا آپ لوگوں سے مشورہ لے رہے ہیں میں بتاتا ہوں مجھے اس کا علم ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر مت نکلو۔ جہاں وبا پھوٹ پڑی ہے وہاں جانا نہیں اور جس علاقے میں رہتے ہو وہاں وبا ہے تو پھر وہاں سے اس وقت باہر نہ نکلو اور اپنے آپ کو وہیں رکھو تا کہ وہ مرض اور وبا جو ہے وہ باہر دوسرے لوگوں میں نہ پھیلے۔
آج کل لاک ڈاؤن میں دنیا اس پر جو عمل کر رہی ہے جنہوں نے وقت پہ کیا وہاں کافی حد تک اس کو محدود کر لیا۔ بیماری کو containکر لیا۔ جہاں نہیں کر سکے اور لاپروائی کی وہاں یہ پھیلتی جا رہی ہے۔ بہرحال یہ بنیادی نکتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں اپنے صحابہ کو بتا دیا۔ اس پر حضرت عمر ؓنے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی اور واپس لَوٹ گئے۔
(صحیح بخاری کتاب الطب باب ما یُذکر فی الطاعون حدیث نمبر 5729)
حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطابؓ جب صحیح حالت میں تھے تو آپ سے درخواست کی جاتی کہ آپؓ کسی کو خلیفہ مقرر فرما دیں لیکن آپؓ انکار فرماتے۔ پھر ایک روز آپؓ منبر پر تشریف لائے اور چند باتیں کہیں اور فرمایا: اگر میں مر جاؤں تو تمہارا معاملہ ان چھ افراد کے ذمے ہو گا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں چھوڑا ہے جبکہ آپؐ ان سب سے راضی تھے۔ حضرت علی بن ابوطالبؓ اور آپؓ کے نظیر حضرت زُبیر بن العوامؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور آپؓ کے نظیر حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت طلحہ بن عُبَیداللہؓ اور آپؓ کے نظیر حضرت سعد بن مالکؓ۔ فرمایا خبردار ! مَیں تم سب کو فیصلہ کرنے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور تقسیم میں انصاف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ ابوجعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطابؓ نے شوریٰ کے اراکین سے کہا کہ اپنے معاملے میں آپس میں مشورہ کرو پھر اگر دو دو ہوں تو پھر دوبارہ مشورہ کرو اور اگر چار اور دو ہوں تو اکثریت کی تعداد کو اختیار کرو۔ زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓنے فرمایا کہ اگر تین اور تین کی رائے متفق ہو جائے تو جس طرف حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں گے اس طرف کے لوگوں کی سنو اور اطاعت کرو۔
عبدالرحمٰن بن سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: صہیبؓ تم لوگوں کونماز پڑھائیں گے یعنی حضرت صہیب ؓکو امام الصلوٰة مقرر کیا اور یہ بات آپؓ نے تین مرتبہ کہی۔ اپنے اس معاملے میں مشاورت کرو اور یہ معاملہ ان چھ افراد کے سپرد ہے۔ جو شخص تمہارے حکم میں تردّد کرے یعنی جو تمہاری مخالفت کرے تو اس کی گردن اڑا دو۔ اگلا حکم جو ہے جب ضرورت پڑے، جب انتخاب خلافت ہو تو ان چھ افراد پر ہو گا۔ اس وقت تک حضرت صہیبؓ جو ہیں وہ امامت کرواتے رہیں گے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے اپنی وفات سے کچھ گھڑی قبل حضرت ابوطلحہ کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا اے ابوطلحہؓ ! تم اپنی قوم انصار میں سے پچاس افراد کو لے کر ان اصحابِ شوریٰ کے پاس چلے جاؤ اور انہیں تین دن تک نہ چھوڑنا یہاں تک کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر نہ منتخب کرلیں۔ اے اللہ ! تُو ان پر میرا خلیفہ ہے۔
اسحاق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہؓ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کچھ دیر حضرت عمر ؓکی قبر پر رکے۔ پھر اس کے بعد اصحابِ شوریٰ کے ساتھ رہے۔ پھر جب ان اصحابِ شوریٰ نے اپنا معاملہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد کر دیا کہ وہ اختیار رکھتے ہیں کہ جس کو بھی امیر مقرر کر دیں تو حضرت ابوطلحہؓ اپنے ساتھیوں سمیت اس وقت تک حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے گھر کے دروازے پر رہے جب تک کہ حضرت عثمانؓ کی بیعت نہ کی گئی۔
حضرت سلمہ بن ابو سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ پھر اس کے بعد حضرت علیؓ نے۔ حضرت عمر ؓکے آزاد کردہ غلام عمر بن عَمِیْرَہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ پھر اس کے بعد سب لوگوں نے بیعت کی۔
(الطبقات الکبریٰ جزء3صفحہ 44 تا 46 ذکر الشوریٰ وماکان من امرھم، ذکر بیعۃ عثمان…،دارالکتب العلمیۃ بیروت،1990ء)
بخاری کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نماز کے شروع میں ہی جب آپ نے اللہ اکبر کہا اور پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت زخمی حالت میں حضرت عمر ؓنے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لیے آگے کر دیا ، وہ قریب تھےاور اس وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے مختصر نماز پڑھائی۔
(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃ البیعۃ و الاتفاق علی عثمان بن عفان حدیث 3700)
حضرت مصلح موعوؓد حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا کردار بیان کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں۔ پہلے دو روایتیں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک جگہ صرف یہ اختلاف ہے۔ باقی تو وہی باتیں ہیں۔ بہرحال حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓجب زخمی ہوئے اور آپؓ نے محسوس کیا کہ اب آپؓ کا آخری وقت قریب ہے تو آپؓ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمان ؓ،حضرت علی ؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپؓ نے اس مشورے میں شریک کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے حضرت صہیب ؓکو امام الصلوٰة مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مِقداد بن اسوؓد کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں۔
پچھلی روایتوں میں حضرت طلحہؓ کا ذکر آ رہا ہے لیکن آپؓ نے مختلف جگہ سے اپنا جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ مقداد بن اسود کے سپرد پہرہ کیا گیا تھا جب تک انتخاب خلافت ہو رہا ہے اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمرؓ ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔ اگر اس فیصلے پر راضی نہ ہوں تو جس طرف حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓہوں وہ خلیفہ ہو۔ حضرت مصلح موعوؓد کے مطابق حضرت طلحہؓ اس وقت مدینہ میں نہیں تھے۔ اس لیے پانچ افراد تھے۔ پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ آخر پانچ افراد نے مشورہ کیا۔ حضرت طلحہؓ کے علاوہ جو باقی پانچ افراد تھے انہوں نے مشورہ کیا۔ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کہا۔ پھر باقی دو نے۔ حضرت علیؓ خاموش رہے۔ آخر انہوں نےحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپرد ہو گیا۔ یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جو بھی فیصلہ کریں گے۔ کوئی رعایت نہیں ، طرف داری نہیں ہو گی۔ جب عہد ہو گیا تو سارا کام حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تین دن مدینے کے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے۔ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظور ہے چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے۔
(ماخوذ از خلافت راشدہ ، انوار العلوم جلد 15صفحہ 484-485)
اس مضمون کی ایک اَور روایت بھی ہے۔ وہ کافی لمبی ہے۔ باقی حصہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ذکر میں آئندہ بیان ہو گا تو اس کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی بعد میں علیحدہ بیان ہو جائے گی ان شاء اللہ۔ یا ہوسکتا ہے کہ وہ لمبی روایت جو میرے خیال میں حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ضمن میں ہے یا حضرت عمر ؓکی زندگی کے بارے میں ہے تو وہ وہاں بھی بیان ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس کے باوجود بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکی زندگی کے واقعات کا، ان کی نیکیوں کا، ان کی سیرت کاکچھ حصہ ہے۔ وہ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں بیان ہو گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 10جولائی 2020ءصفحہ 5تا9)