آپؐ کی مُہر سے نبوت کا سلسلہ چلتا ہے
بلائوں اور خوف کی افادیت
طاعون بجائے خود انسان کے ایمان کے پرکھے جانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ اب طاعون تو مان نہ مان میں ترا مہمان ہو کر آئی ہے۔ اگر طاعون نہ ہوتی تو سچے مسلمان کا پتہ لگنا ہی مشکل ہوتا جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ اس وقت طاعون کو دیکھ کر جلد تبدیلی کرتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ معمولی موتیں جو ہر روز ہوتی رہتی ہیں۔ یہ گو انسان کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر وہ ان سے عبرت حاصل کرے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ وہ ناکافی ہیں اور وہ دنیا کے تعلقات پر موت وارد کرنے کے لیے اس قدر مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوتی ہیں جس قدر کہ اب طاعون اور اس کی وجہ یہ ہے کہ معمولی موتیں اب معمولی موتیں ہونے کی وجہ سے اس قدر خوفناک نہیں رہی ہیں۔ لیکن اب طاعون کے حملوں سے ایک عالمگیر خوف چھا گیا ہے اور یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو اپنا ماویٰ وملجا بنایا جاوے۔ غور کرکے دیکھو کہ کس قدر وحشت ہوسکتی ہے۔ جب ایک گھر میں دو چار مُردے پڑے ہوں اور کوئی اٹھانے والا بھی موجود نہ ہو۔ غرض طاعون اب انسان کا جو ہر کھول کر دکھادیتی ہے۔ مصیبت اور مشکلات بھی انسان کے ایمان کے پرکھنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت : 3)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں جماعت کو بہت زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ موت سب سے بڑھ کر منذرات میں سے ہے۔ جو تبدیلی اس نظارہ موت سے ہو سکتی ہے وہ دوسری مُنذرات سے نہیں ہوتی۔
خدا تعالیٰ جو تبدیلی چاہتا ہے وہ اسی طرح ہوتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعائیں مانگیں کہ ایک پاک تبدیلی انہیں عطا ہو۔ جن لوگوں کی پاک تبدیلی خدا تعالیٰ دعائوں سے چاہتا ہے ان کی تبدیلی اسی طرح پر ہوتی ہے کہ اُن پر بلائیں اور خوف آتے ہیں۔ جیسے فرمایا
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ۔ الآیۃ ( البقرۃ : 156)
اگر انسان کے افعال سے گناہ دور ہو جاوے تو شیطان چاہتا ہے کہ آنکھ، کان، ناک تک ہی رہے اور جب وہاں بھی اُسے قابو نہیں ملتا تو پھر وہ یہاں تک کوشش کرتا ہے کہ اور نہیں تو دل ہی میں گناہ رہے۔ گویا شیطان اپنی لڑائی کو اختتام تک پہنچتا ہے،مگر جس دل میں خدا کا خوف ہے،وہاں شیطان کی حکومت نہیں چل سکتی۔ شیطان آخر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور الگ ہوتا ہے اور اپنی بڑائی میں ناکام و نامراد ہو کر اسے اپنا بوریا بستر باندھنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں کہ وہ نفسانی قیدوں اور ناجائز خیالات سے الگ ہونا نہیں چاہتے اور کوئی بات ان پر مؤثر نہیں ہوتی۔ آخر خدا تعالیٰ اُن پر یوں رحم کرتا ہے کہ بعض ابتلا آجاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ اُن سے باز آجاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد3صفحہ400تا402۔ایڈیشن 1984ء)
مقامِ خاتم النَّبِيّیٖنﷺ
ہم جس طرح پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیّین مانتے ہیں۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام نبی رکھا یہ بالکل سچی بات ہے۔ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو چشمۂ افادات مانتے ہیں۔ ایک چراغ اگر ایسا ہو جس سے کوئی دوسرا روشن نہ ہو۔ وہ قابل تعریف نہیں ہے مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ایسا نور مانتے ہیں کہ آپؐ سے دوسرے روشنی پاتے ہیں۔
یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (الاحزاب : 41)
یہ بالکل درست ہے۔ خدا تعالیٰ نے آپؐ کی جسمانی ابوت کی نفی کی۔ لیکن آپ کی روحانی ابوت کا استثناء کیا ہے۔ اگر یہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی تو پھر اس طرح پر معاذ اﷲ یہ لوگ آپ کو ابتر ٹھہراتے ہیں، مگر ایسا نہیں آپ کی شان تو یہ ہے کہ
اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ۔ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَالْاَبْتَرُ (الکوثر : 2تا 4)۔
اﷲ تعالیٰ نے ختمِ نبوت کی آیت میں فرمایا ہے کہ جسمانی طور پر آپ اَب نہیں مگر روحانی سلسلہ آپ کا جاری ہے۔ لٰکن، مَافَاتَ کے لیے آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپ خاتم ہیں۔ آپؐ کی مُہر سے نبوت کا سلسلہ چلتا ہے۔
ہم خودبخود نہیں بن گئے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق جو بنایا وہ بن گئے۔ یہ اس کا فعل اور فضل ہے
يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ۔
خدا نے جو وعدے نبیوں سے کیے تھے ان کا ظہور ہوا ہے۔ براہین میں یہ الہام اس وقت سے درج ہے
وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَکَانَ اَمْرًا مَّفْعُوْلًا
وغیرہ اس قسم کے بیسیوں الہام ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہوا تھا۔ اس میں ہمارا کچھ تصرف نہیں۔ کیا جس وقت اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ وعدے فرمائے ہم حاضر تھے؟ جس طرح خدا تعالیٰ مرسل بھیجتا ہے،اسی طرح اس نے یہاں اپنے وعدہ کو پورا کیا۔
(ملفوظات جلد3صفحہ411تا412۔ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭