شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں
چھٹی شرط بیعت (حصہ پنجم۔آخری)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے(حصہ سوم)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گذر جاوے گی خواہ تنگی میں گذرے خواہ فراخی میں مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے۔ پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفائی کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اوروہ معصیت سے توبہ کرکے ہرایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کرکے پکارا ہے بچتا رہا تو خدا تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیر ی کرے گا اور وہ اس مقام پر ہوگا کہ خدا اس سے راضی ہوگا اور وہ اپنے ربّ سے راضی ہوگا۔اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لاپرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کاانجام خطرناک ہے۔ اسلئے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ ہے لیکن اگر دین کیلئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منافع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
(ملفوظات۔ جلد ششم۔ صفحہ142)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے کا امام دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جس درد او ر توجہ سے آپ نے اللہ اور اس کے رسولﷺکی حکومت کو دنیا پر قائم کرنے کے لئے اپنی جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں اور جس درد سے نصیحت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ویسا ہی بنادے اور جن شرائط پر آپ نے ہم سے عہد بیعت لیا ہے انکی ہم مکمل پابندی کرنے والے ہوں۔ اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ انکو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں۔ ہماراکوئی عمل کوئی فعل ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ملزم ٹھہرانے والا نہ ہو اور ہم ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کے بعد اب یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچے گا اس جلسہ کی برکات او ر فیوض سے آپ سارا سال بلکہ زندگی بھر فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں میں بھی اللہ، اسکے رسول ﷺ، مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے محبت کا تعلق قائم رکھے۔اللہ تعالیٰ ہماری پچھلی کمزوریوں اور گناہوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں محض اور محض اپنے فضل سے اپنے پیاروں کی جماعت میں شامل رکھے۔ اے خدا تو غفور رحیم ہے۔ہمارے گناہ معاف فرما۔ ہم پر رحم فرما۔ اپنی مغفرت اوررحمت کی چادرمیں ڈھانپ لے۔ہمیں کبھی اپنے سے جدا نہ کرنا۔
آمین یارب العالمین۔
(از اختتامی خطاب۔ برموقع جلسہ سالانہ جرمنی۔ 24؍اگست2003ء)
ساتویں شرط بیعت
’’یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا‘‘
شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں
شیطان چونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھاکہ مَیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگائوں گااور عبادالرحمٰن نہیں بننے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنسائوںگاکہ اس سے نیکیاں سرزد اگرہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ انسان کو آہستہ آہستہ تکبرکی طرف لے جائے گا۔یہ تکبر آخر کاراس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کردے گا۔ توکیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کاانکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسا ن پر آزماتاہے اور سوائے عبادالرحمٰن کے کہ وہ عموماً اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں،عبادت گزار ہوتے ہیں، اس حملہ سے بچتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میںکامیاب ہوجاتاہے۔ یہ ایک ایسی چیزہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے،نخوت نہیں کریں گے، اس کو بکلی چھوڑ دیں گے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیں ہیں، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتارہتاہے۔بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔فرمایا جب تم تکبر کی عادت کوچھوڑوگے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کواگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا توتکبر پھر حملہ کرے گا۔ اس لئے عاجزی کو اپنائو کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں‘‘۔ تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اوراکڑتا پھرے۔ قرآن شریف میںاللہ تعالیٰ فرماتاہے:
ولَاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۔(بنی اسرائیل: آیت38)
اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقینا ًزمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتاہے۔
جیساکہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔کس بات کی اکڑ فوں ہے۔بعض لوگ اپنے آپ کو بادشاہ وقت سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ اوراپنے دائرے میں بیٹھے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑی چیزہیں۔اس کی مثال اس وقت مَیں ایک چھوٹے سے چھوٹے دائرہ کی دیتاہوں، جو ایک گھریلومعاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے۔ بعض مرد اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کررہے ہوتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم بچپن سے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ ظلم کا رویہ رکھاہے۔باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سہم کر اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔کبھی باپ کے سامنے ہماری ماں نے یاہم نے کوئی بات کہہ دی جو اس کی طبیعت کے خلاف ہوتو ایسا ظالم باپ ہے کہ سب کی شامت آجاتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی ہے جس نے ایسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دیاہے اور اکثر ایسے لوگوں نے اپنارویہّ باہر بڑا اچھا رکھا ہوتا ہے اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان جیسا شریف انسان ہی کوئی نہیں ہے۔ اور باہر کی گواہی ان کے حق میں ہوتی ہے۔بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھرکے اندر اور باہر ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا توسب کچھ ظاہر ہو جاتاہے۔ تو ایسے بدخُلق اور متکبر لوگوں کے بچے بھی، خاص طورپر لڑکے جب جوا ن ہوتے ہیں تو ا س ظلم کے ردّعمل کے طورپر جواُن باپوں نے ان بچوں کی ماں یا بہن یا خودان سے کیاہوتاہے، باپوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اور پھر ایک وقت میں جا کر جب باپ اپنی کمزور ی کی عمر کو پہنچتاہے تو اس سے خاص طورپر بدلے لیتے ہیں۔ تو اس طرح ایسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کی اپنے دائرہ اختیار میں مثالیں ملتی رہتی ہیں۔مختلف دائرے ہیں معاشرے کے۔ایک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ۔ اپنے اپنے دائرے میں اگر جائزہ لیں تو تکبر کی یہ مثالیں آپ کو ملتی چلی جائیں گی۔
پھر اس کی انتہااس دائرے کی صورت میں نظر آتی ہے جہاںبعض قومیں اور ملک اور حکومتیں اپنے تکبر کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے سے نیچ سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ اورغریب قوموں کو، غریب ملکوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوتاہے۔اورآج دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ یہی ہے۔ اگر یہ تکبر ختم ہو جائے تو دنیا سے فساد بھی مٹ جائے۔ لیکن ان متکبر قوموں کو بھی، حکومتوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اورتکبر کو توڑتاہے تو پھر ان کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئے۔
(باقی آئندہ)