احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباو اجداد
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان(چہارم)
خدائی وحی سے فارسی الاصل ہونے کی تائید
اس امر کے واضح ہونے کے بعد کہ آنے والے موعودامام الزمان کے خاندان کا ذکر احادیث میں ہے اور یہ کہ وہ فارسی الاصل ہوگا۔اور یہ کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہوگا۔حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ دعویٰ فرمایا کہ آپؑ ہی وہ موعود امام الزمان ہیں جس کے بارہ میں یہ پیشگوئیاں تھیں۔البتہ ایک بات ایسی تھی کہ جو قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتلایا کہ آپؑ کا خاندان فارسی الاصل ہے نہ کہ مغل۔لیکن حیرت انگیز بلکہ تعجب انگیز امر ہے کہ جب یہ الہام ہوا کہ آپؑ فارسی الاصل ہیں تو آپؑ اس قسم کا کوئی دستاویزی یا تاریخی ثبوت اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا اوروہ یہ کہ بظاہر سارے دستاویزی شواہد اس الہام کے خلاف جاتے تھے اور اس خاندان کے مغل ہونے کا ہی چرچا اور شہرہ تھا۔اس وقت کی کتابوں اور گورنمنٹ کے کاغذات وغیرہ سب جگہ پر بھی یہی مغل ہی مذکور تھا اوریہ الہام براہین احمدیہ میں شائع ہوایعنی اس وقت کہ جب آپ کی کوئی شہرت تھی نہ کوئی دعویٰ۔اگر آپؑ اپنے الہام و کلام کے دعویٰ میں نعوذباللہ جھوٹے تھے،مفتری تھے اوراپنے پاس سے الہام گھڑ لیتے تھے جیسا کہ آپ ؑ کے مخالفین کا دعویٰ تھا۔تو یہ الہامات جن میں آپؑ کے فارسی الاصل ہونے کا اعلان تھا آپؑ کبھی شائع نہ کرتے یا نعوذباللہ نقل کفر کفرنہ باشد کبھی آپؑ یہ الہام نہ بناتے۔کیونکہ یہ تو آپؑ کے ہی خلاف جارہاتھا۔
خاندان کی ظاہری شہرت اور ثبوتوں کے برعکس…آپؑ کا ان الہامات کو شائع کردینا بتاتاہے کہ آپؑ معصوم تھے۔آپؑ اپنے خداکے منہ کی نفیری تھے۔ خود بولتے ہی نہ تھے جب تک بلائے نہ جاتے۔آپؑ اپنے آقا و مطاعؐ کی غلامی میں
وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(النجم 4-5)
کے معصومانہ مقام پر فائز تھے۔اور یہ سارے الہامات لکھنے کے بعد آپؑ خود فرماتے ہیں کہ’’میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں‘‘
( تحفة گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ116)
سبحان اللہ !!
خداکی بات پوری ہوئی
آخر خداکی بات پوری ہوئی اورگو کہ اس وقت اس کوردیہہ بستی قادیان میں رہتے ہوئے آپ علیہ السلام کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا کہ آپ ؑ فارسی الاصل ہیں۔لیکن جب تاریخ کی کتابوں سے کھوجناشروع کیاگیا تویہ حقائق سامنے آنے لگے کہ خدا تعالیٰ کا الہام ہی سچا تھا کیونکہ ثابت ہوا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا خاندان دراصل فارسی الاصل ہے نہ کہ مغل۔
حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب دردؓ نے ایک تفصیلی مقالہ لکھا جس میں اپنی اعلیٰ اور زبردست تحقیقات سے یہ ثابت فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان فارسی الاصل ہے اور یہ کہ مغل کا نام غلطی سے یا وسعتِ استعمال کی بنا پر اس خاندان کے ساتھ لگایاگیاتھا۔44صفحات پرمشتمل یہ تحقیقی مقالہ ماہنامہ ریویوآف ریلیجنزدسمبر 1934ء میں شائع ہوا۔
تاریخ احمدیت جلداول، باب خاندانی حالات صفحات 23-31 پر محترم ومکرم مولانا دوست محمدصاحب شاہد نےاسی مقالہ کی ایک قسم کی تلخیص اور مزید تحقیق کے ساتھ حضرت اقدسؑ کو فارسی الاصل ثابت کیا ہے۔
اس کے بعد جو کچھ تحقیقات سامنے آئیں ان کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے ایک اَورریسرچ سکالر محترم شیخ عبدالقادرصاحب جوکہ ‘محقق بائبل’کے نام سے معروف تھے انہوں نے کچھ مزید دلائل اسی موضوع پر اکٹھے کیے جو ایک مقالہ کی صورت میں شائع ہوئے۔وہ مقالہ بھی قارئین کی معلومات میں مزیداضافہ کا باعث ہوگا۔یہ مقالہ ماہنامہ’’الفرقان‘‘ مئی 1973ء میں زیرِ عنوان ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فارسی الاصل ہیں نسل برلاس پر جدید تحقیق !!‘‘ شائع کیا گیا۔
ضمناً یہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ جب یہ کہاجاتاہے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام فارسی الاصل ہیں تو اس سے یہ مرادنہیں کہ آپؑ ضرور حضرت سلمان فارسی ؓ کی نسل سے ہیں۔بلکہ مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت سلمان فارسی ؓ عرب نہیں تھے بلکہ اہل فارس میں سے تھے اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام بھی فارس والوں میں سے ہیں۔ اوریہی مراد تھی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد مبارک کی جس میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جب ایمان ثریا پر چلاجائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یعنی ایک فارسی الاصل انسان اسے ثریا سے زمین پر لائے گا اور ساتھ ہی حضرت سلمان فارسی ؓپر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا کہ وہ انسان ان لوگوں میں سے ہوگا۔یعنی ابنائے فارس میں سے۔
حضرت میرمحمداسماعیل صاحبؓ نے اسی موضوع پر ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی قومیت‘‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون تحریر فرمایا جو روزنامہ الفضل 21؍ ستمبر1944ء صفحہ3،جلد32نمبر221میں شائع شدہ ہے۔
حارث /حرّاث زمیندارہ خاندان
آنحضرت ﷺ نے اس آنے والے موعود کو جہاں فارسی الاصل بتایا وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ ’’حارث‘‘ یعنی زمیندارہ خاندان سے ہوگا۔اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام نے جو تشریح فرمائی وہ درج ذیل ہے:
’’یعنی روایت ہے علی کرم اللہ وجہہ سے کہ کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک شخص پیچھے نہر کے سے نکلے گا یعنی بخارا یا سمرقند اس کا اصل وطن ہو گا اور وہ حارث کے نام سے پکارا جاوے گا یعنی باعتبار اپنے آباو اجداد کے پیشہ کے افواہ عام میں یا اس گورنمنٹ کی نظر میں حارث یعنی ایک زمیندار کہلائے گا پھر آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیوں حارث کہلائے گا اس وجہ سے کہ وہ حرّاث ہوگا یعنی ممیّز زمینداروں میں سے ہوگا اور کھیتی کرنے والوں میں سے ایک معزز خاندان کا آدمی شمار کیاجاوے گا۔ پھر اس کے بعد فرمایا کہ اس کے لشکر یعنی اس کی جماعت کا سردار وسرگروہ ایک توفیق یافتہ شخص ہو گا جس کو آسمان پر منصور کے نام سے پکاراجاوے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ اس کے خادمانہ ارادوں کا جو اس کے دل میں ہوں گے آپ ناصر ہوگا۔ اس جگہ اگرچہ اُس منصور کو سپہ سالار کے طور پر بیان کیا ہے مگر اس مقام میں درحقیقت کوئی ظاہری جنگ وجدل مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی فوج ہوگی کہ اُس حارث کو دی جائیگی جیسا کہ کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھامخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے، مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اُس دوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھااور اُسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے، وہ میری اس بات کو سنکر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیاجائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی
كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِاِذْنِ اللّٰهِ (البقرة:250)
پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے خوشحال ہے مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اُس کے پہچاننے سے قاصر رکھا لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایاجائے۔ اب بقیہ ترجمہ حدیث کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ حارث جب ظاہر ہوگا تووہ آل محمد کو (آل محمدکے فقرہ کی تفسیر بیان ہوچکی ہے) قوت اور استواری بخشے گا اور ان کی پناہ ہوجائے گا یعنی ایسے وقت میں کہ جب مومنین غربت کی حالت میں ہوں گے اور دین اسلام بیکس کی طرح پڑا ہو گا اورچاروں طرف سے مخالفوں کے حملے شروع ہوں گے۔ یہ شخص اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے بقوت تمام اُٹھے گا اور مومنین کوجہال کی زبان سے بچانے کے لئے بجوش ایمان کھڑا ہو گا اور نور عرفان کی روشنی سے طاقت پاکر انکو مخالفوں کے حملوں سے بچائے گا اور اُن سب کو اپنی حمایت میں لے لے گا اور ایسا انہیں ٹھکانا دے گا جیسے قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیا تھا یعنی دشمن کے ہرایک الزام اورہر یک باز پُرس اور ہریک طلب ثبوت کے وقت میں سب مومنوں کے لئے سپر کی طرح ہو جائے گا اور اپنے اُس قوی ایمان سے جو نبی کی اتباع سے اُس نے حاصل کیا ہے صدیق اور فاروق اور حیدر کی طرح اسلامی برکتوں اور استقامتوں کو دکھلا کر مومنوں کے امن میں آجانے کا موجب ہوگا۔ ہریک مومن پر واجب ہے جو اس کی مدد کرے یا یہ کہ اس کو قبول کر لیوے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک ایسا عظیم الشان سلسلہ اس حارث کے سپرد کیاجائے گاجس میں قوم کی امداد کی ضرورت ہو گی۔ جیسا کہ ہم رسالہ فتح اسلام میں اس سلسلہ کی پانچوں شاخوں کا مفصل ذکر کر آئے ہیں اورنیز اس جگہ یہ بھی اشارتاً سمجھایاگیا ہے کہ وہ حارث بادشاہوں یا امیروں میں سے نہیں ہو گا تا ایسے مصارف کا اپنی ذات سے متحمل ہوسکے اور اس تاکید شدید کے کرنے سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اُس حارث کے ظہور کے وقت جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا لوگ امتحان میں پڑ جائیں گے اور بہتیرے اُن میں سے مخالفت پر کھڑ ے ہوں گے اور مدد دینے سے روکیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ اس کی جماعت متفرق ہوجائے اس لئے آنحضرت صلعم پہلے سے تاکید کرتے ہیں کہ اے مومنو تم پر اُس حارث کی مدد واجب ہے ایسا نہ ہو کہ تم کسی کے بہکانے سے اس سعادت سے محروم رہ جاوٴ۔‘‘
( ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3صفحہ148-151حاشیہ)
اس کے بعد حضرت اقدسؑ نے اپنے خاندان کے تفصیلی حالات رقم فرمائے ہیں کہ کس عالی شان کا یہ زمیندارہ خاندان تھا۔اوریہ خاندان جب اپنے عروج وزوال کی منازل طے کرتاہوا انگریزی عہدحکومت کے ماتحت قادیان میں آیا تو حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’خدائےتعالیٰ…ابررحمت کی طرح ہمارے لئے انگریزی سلطنت کو دُور سے لایااور وہ تلخی اور مرارت جو سکھوں کے عہد میں ہم نے اُٹھائی تھی گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ آکر ہم سب بھول گئے۔اور ہم پر اور ہماری ذرّیّت پر یہ فرض ہو گیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گذار رہیں۔ انگریزی سلطنت میں تین گاوٴں تعلقداری اور ملکیت قادیان کا حصہ جدّی والد صاحب مرحوم کو ملے جو اَب تک ہیں اور حرّاث کے لفظ کے مصداق کے لئے کافی ہیں۔ والد صاحب مرحوم اس ملک کے ممیّز زمینداروں میں شمارکئے گئے تھے گورنری دربارمیں اُن کو کُرسی ملتی تھی۔‘‘
( ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 166حاشیہ)
٭…٭…٭