متفرق مضامین

آنحضرتﷺکے آباء کا تذکرہ (قسط دوم)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

الدلائل القطعیۃ فی سیرۃ النبویۃﷺ

عبدالمطلب یعنی شیبہ

پورا نام شیبۃ الحمد تھا۔ شاید اس لیے کہ پیدائشی طور پر ان کے کچھ بال سفید تھے۔ عبد المطلب کہلانے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اپنے والد کی وفات کے بعد والدہ کے ساتھ ہی مدینہ میں بنو نجار میں رہتے تھے۔ جب ۷ یا ۸سال عمر ہوئی تو ان کے چچا مطلب کو اطلاع ہوئی کہ ان کی شکل اپنے والد ھاشم سے بہت ملتی ہے اور خوبرو اور نفیس ہیں۔ چنانچہ وہ مدینہ گئے اور ان کو مکہ جانے پر راضی کر لیا پھران کی والدہ سے چھپا کر ان کو مکہ لے آئے۔ راستہ میں لوگ پوچھتے تو ان کو کہتے کہ یہ میرا غلام ہے۔ غلام کہنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی ظاہری حالت اس وقت اچھی نہیں تھی اس لیے مطلب کو انہیں اپنا بھتیجا کہتے ہوئے شرم آتی تھی۔ (الطبری، تاریخ رسل و الملوک جلد ۲ صفحہ ۲۴۶ تا ۲۴۸۔ البلاذری، جمل میں انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ ۷۱۔ ۷۲۔ القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۱، صفحہ ۹۱ )یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ سلمیٰ کامیاب کاروباری خاتون تھیں اور شیبہ کو خوش لباس بتایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب نے ان کی والدہ سے ان کو لے جانے پر اصرار کیا اور کہا کہ اس کی جگہ اپنے خاندان میں ہے اور یہ تمہارا ہی بیٹا ہے خواہ کہیں بھی رہے۔ کچھ بحث کے بعد سلمیٰ نے اجازت دے دی۔ چنانچہ تین دن بعد مطلب اپنے بھتیجے شیبہ کو لے کر مکہ آ گئے۔ (ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر جلد ۱ صفحہ ۶۳ )یہ روایت شیبہ کو غلام بتانے کی کوئی توجیح پیش نہیں کرتی اور غالباً درست نہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ مطلب ان کو بلا اجازت لائے تھے اور راستہ میں اس بات کو چھپانے کی خاطر ان کو اپنا غلام بتاتے رہے۔ ابن قتیبہ نے ان کا ذاتی نام عامر بیان کیا ہے۔ (ابن قتیبۃ، کتاب المعارف، صفحہ ۷۲) یعنی ذاتی نام عامر تھا جبکہ سفید بالوں کی وجہ سے صفاتی نام شیبہ مشہور ہوا اور پھر مطلب کے ساتھ آنے کی وجہ سے عبدالمطلب کہلائے۔

مکہ میں اپنے والد ھاشم کی جائیداد کے معاملہ میں ان کا ایک کنویں کی ملکیت پر اپنے چچا نوفل بن عبد مناف کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ نوفل نے ان کو یتیم و بے یار و مددگار سمجھ کر اس کنویں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اہل مکہ میں سے کوئی شخص اس یتیم کی حمایت کو تیار نہ ہوا۔ باقی اہل مکہ تو ایک طرف رہے بنو ھاشم میں سے بھی کسی نے ان کی حمایت نہیں کی۔ شاید اسی لیے ان کو بعد میں اپنے یتیم پوتے ؐکا خاص خیال رہا۔ چنانچہ ناچار عبد المطلب نے مدینہ سے اپنے ننہال کو مدد کے لیے بلایا۔ اُنہوں نے مدد کے لیے ۸۰سوار بھیج دیے۔ اس فوج کے سامنے اپنے آپ کو بے بس دیکھ کر نوفل کنواں واپس کرنے پر مجبور ہو گیا۔ تاہم اس کے بعد وہ بنو ھاشم میں سے ہونے کے باوجود ان کے مخالف بنو عبد الشمس کے ساتھ مل گیا۔

(الطبری، تاریخ، جلد صفحہ ۲۴۸۔ ۲۵۰۔ البلاذری، جمل من انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۷۷۔ ۷۸)

بتایا گیا ہے کہ عبدالمطلب کے دس بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ بیٹے: عباس، حارث، حمزہ، عبداللہ، عبد مناف یعنی ابو طالب، زبیر، حجلا، مقوم، ضرار، عبد العزیٰ یعنی ابو لھب۔ بیٹیاں: صفیہ، ام حکیم، عاتکہ، امیمۃ، اروی، برہ۔ ان میں سے ام حکیم کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کا نام بیضاء تھا اور حضرت عبد اللہ کی جڑواں بہن تھیں۔ دو مزید بیٹوں، قثم اور غیداق، کا بھی ذکر ملتا ہے۔

(سیرۃ ابن ہشام، جلد ۱ صفحہ ۱۵۴۔ الاندلسی، نشوۃ الطرب، جلد ۱ صفحہ ۳۳۳۔ ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر جلد ۱ صفحہ ۷۳۔ ۷۴)

عبدالمطلب کی عمر۱۴۰ سال بتائی گئی ہے۔ (الاندلسی، نشوۃ الطرب جلد ۱ صفحہ ۳۳۰۔ سھیلی، روض الانف، جلد ۱ صفحہ ۲۴) اپنے والد ھاشم کے بعد دونوں اہم مناصب رفادہ اور سقایہ ان کو ملے تھے۔ (ابن سعد، طبقات، جلد ۱، صفحہ ۶۲۔ الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۲۵۱۔ ) لیکن ان کے وقت تک ان مناصب کی اہمیت بہت کم ہو گئی تھی۔

حفر زمزم

زمزم مکہ کا وہ مشہور کنواں ہے جس کی بنیاد حضرت اسماعیلؑ کے لیے خدائی قدرت سے نکلنے والے پانی کے چشمہ پر ہے۔ جب آپؑ کی اولاد کو مکہ سے نکال دیا گیا تو انہوں نے مکہ چھوڑنے سے پہلے اس کنویں کو بند کر دیا تھا۔ قصی کے مکہ پر دوبارہ تسلط حاصل کر لینے کے باوجود زمزم دریافت نہ ہو سکا۔ اس کی دریافت ِنو کا سہرا عبد المطلب کے سر ہے۔

اس ضمن میں مشہور ہے کہ انہیں مسلسل چار دن تک خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا۔ (ابن ہشام، سیرۃ، جلد ۱، صفحہ ۱۹۰۔ ۱۹۱ )آخر انہوں نے اپنے بیٹے حارث کے ساتھ، جو کہ اس وقت تک ان کا اکلوتا بیٹا تھا، کنواں کھودنا شروع کیا۔ تین دن کی کھدائی کے بعد ایک قدیم کنویں کے آثار نکلے۔ اب بقیہ قریش، جو کہ اس کام کو اب تک بیوقوفی سمجھ رہے تھے، نے بھی حصہ دار بننے کی کوشش کی کہ یہ کنواں تمام بنو اسماعیلؑ کی مشترکہ میراث ہے۔ اس پر طے ہوا کہ بنو سعد کی کاہنہ سے اس جھگڑے کا فیصلہ کروایا جائے۔ اس مقصد کے لیے عبد المطلب کے ساتھ بنو عبد مناف کے ۲۰ لوگ اور بقیہ قریش کی طرف سے بھی ۲۰ لوگ کاہنہ کے پاس جانے کے لیے سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں پانی ختم ہو گیا اور سب کو موت یقینی نظر آنے لگی۔ اس وقت یہ معجزہ رونما ہوا کہ عبد المطلب کی سواری کے سم کے نیچے سے پانی نکل آیا۔ تب قریش نے عبد المطلب کا زمزم پر حق تسلیم کر لیا اور کاہنہ کے پاس جانے کی بجائے واپس لوٹ آئے۔ (ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر جلد ۱ صفحہ ۶۴۔ ۶۶۔ سیرۃ ابن اسحاق، صفحہ ۷۹۔ ابن اسحاق نے تعداد نہیں لکھی )ایسے اتفاقات ممکن تو ہیں تاہم اکثر محض زیب داستان کے لیے گھڑے جاتے ہیں تاکہ کسی شخص یا کام کی خدائی تائید ثابت کی جا سکے۔ اس جگہ مقصد عبد المطلب کی حضرت اسماعیلؑ سے مماثلت ثابت کرنا معلوم ہوتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ زمزم کی کھدائی کے دوران وہاں سے دو سونے کے ہرن، سات تلواریں اور پانچ زرہیں ملیں۔ تلواریں تو کعبہ کے دروازوں پر لٹکا دی گئیں، جبکہ ہرن سے کعبہ کی دیواروں پر سونے کی تختیاں اور دروازے کا سونے کا قفل اور چابی بنوائی گئی۔

(ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر جلد ۱ صفحہ ۶۶)

عبد اللہ کی قربانی

اس کے ساتھ پیوستہ دوسرا واقعہ یوں ہے کہ زمزم کی کھدائی کے وقت عبد المطلب نے منت مانی کہ اگر ان کے دس بیٹے ہوئے تو ان میں سے ایک کو قربان کر دیں گے۔ چنانچہ جب ان کے ہاں دس بیٹے پیدا ہوئے تو انہوں نے خانہ کعبہ میں جا کر سب سے بڑے بت، ہبل، کے سامنے تیروں سے فال نکالی کہ کس بیٹے کو قربان کیا جائے۔ فال عبداللہ کے نام نکلی۔ چنانچہ عبد المطلب نے انہیں اسعاف و نائلہ بتوں کے پاس لے جا کر قربان کرنا چاہا۔ قریش کے اکابرین نے یہ دیکھ کر کہا کہ اگر ایسا ہوا تو پھر انسانی قربانی کا ایک سلسلہ چل نکلے گا۔ کافی بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ حجاز کی ایک مشہور کاہنہ سے مسئلہ کا حل دریافت کیا جائے۔ چنانچہ عبد المطلب مدینہ گئے۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کاہنہ خیبر گئی ہوئی ہے۔ اس پر خیبر پہنچے اور اس کے سامنے سب واقعہ بیان کیا۔ کاہنہ نے سوچ بچار کے بعد اگلے دن فیصلہ سنایا کہ ایک انسان کی دیت، جو کہ دس اونٹ تھی، اور عبد اللہ میں فال نکالو۔ اور پھر جب تک عبداللہ کے نام فال نکلتی رہے اس میں ایک دیت کا اضافہ کرتے رہو۔ اس ہدایت کے مطابق عبد المطلب نے مکہ واپس آ کر ہبل بت کے سامنے دعا کی اور فال نکالی۔ فال میں ہر مرتبہ عبداللہ کا ہی نام نکلتا۔ چنانچہ اونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ آخر سو اونٹوں پر جا کر فال اونٹوں کے نام نکلی۔ عبد المطلب نے کہا کہ جب تک تین مرتبہ اونٹوں کے نام فال نہ نکلے یہ سلسلہ جاری رکھا جائے۔ مگر فال مزید دو مرتبہ اونٹوں کے نام نکلی اور یوں عبداللہ کے بدلے میں سو اونٹوں کی قربانی دی گئی۔

(تاریخ الطبری، جلد ۲ صفحہ ۲۴۰۔ ۲۴۳۔ البیہقی، دلائل النبوۃ، جلد ۱ صفحہ ۸۵۔ ۸۶۔ ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱ صفحہ ۶۹۔ سیرۃ ابن اسحاق، صفحہ ۸۵۔ ۸۹۔ ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، جلد ۳ صفحہ۱۲۔ ۱۳۔ ابن جوزی، المنظم، جلد ۲، صفحہ ۱۹۹۔ ۲۰۰)

بعض روایات میں سو کی بجائے تین سو اونٹوں کی قربانی بھی بتائی گئی ہے۔ (ابن کثیر، البدایہ و النہایہ۔ جلد ۳، صفحہ ۱۳۔ الحلبی، سیرت الحلبیہ، جلد ۱ صفحہ ۱۳۱ )یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبدالمطلب کو خواب آئی کہ اپنی نذر پوری کرو۔ اس پر انہوں نے ایک بھیڑ کی قربانی کر دی۔ پھر خواب آئی کہ اس سے بڑی چیز قربان کرو۔ اب انہوں نے بیل قربان کیا۔ پھر خواب آئی کہ اس سے بڑی چیز قربان کرو۔ اس دفعہ اونٹ قربان کیا۔ پھر خواب آئی کہ اس سے بڑی چیز قربان کرو۔ انہوں نے پوچھا کہ اس سے بڑا کیا ہے؟ جواب ملا کہ اپنی اولاد میں سے ایک جس کی تم نے نذر مانی تھی۔ (القسطلانی، مواھب اللدنیہ، جلد ۱ صفحہ ۱۰۸۔ ۱۰۹) ایک روایت کے مطابق آنحضورؐ کے سامنے ایک بدو نے آپؐ کو یا ابن الذبیحین کہہ کر مخاطب کیا تو آپؐ مسکرا دیے۔ (حاکم، مستدرک، جلد ۲، صفحہ ۶۵۲، روایت نمبر ۴۰۹۴ )اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ذبیحینسے مراد حضرت اسماعیلؑ اور حضرت عبداللہ ہیں۔

اس قصہ کی متعدد تفصیلات میں بلا شبہ مبالغہ کیا گیا ہے اسی لیے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً دیت کے متعلق دیگر روایات میں بتایا گیا ہے کہ سو اونٹ مقرر تھے نہ کہ دس۔ چنانچہ عبد المطلب کے یہودی پڑوسی کو حرب بن امیہ نے قتل کروا دیا تو عبد اللہ بن جدعان نے اس کی دیت ایک سو اونٹ دلوائی۔ اسی طرح لکھا ہے کہ عبد المطلب کے اجداد میں سے نضر نے اپنے سوتیلے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ اس کا خون بہا اس نے ایک سو اونٹ ادا کیا تھا۔ گویا سو اونٹ کی دیت پہلے سے موجود تھی۔

(البلاذری، جمل من انساب الاشراف، جلد ۱ صفحہ ۴۵، ۸۱۔ ۸۲۔ ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ جلد ۱ صفحہ ۶۱۸)

شاید اسی لیے بعض روایات میں بتایا گیا ہے کہ عبد المطلب نے عبد اللہ اور سو اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی تو فال اونٹوں کے نام نکلی۔ (البیہقی، دلائل النبوۃ، جلد ۱، صفحہ ۸۷۔ الطبری، تاریخ رسل و الملوک جلد ۲ صفحہ ۲۳۹۔ الازرقی، اخبار مکہ جلد ۲ صفحہ ۴۳۔ ۴۴) یعنی کاہنہ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مدینہ اور خیبر جانے اور دس مرتبہ مسلسل عبد اللہ کے نام فال نکلنے کا کوئی ذکر نہیں نہ ہی دس اونٹوں کی دیت کا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبد المطلب کی بیٹی نے عبد اللہ کے مقابل پر دس اونٹ رکھ کر فال نکالنے کا کہا تھا۔ (ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱ صفحہ ۶۹۔ ۷۰)یہ بھی کاہنہ والے قصہ کی نفی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ کے ننھیال نے کہا تھا کہ اس کی جگہ سو اونٹ قربان کر دو۔ (تاریخ الطبری، جلد ۱ صفحہ ۲۶۴)

روایات میں اس کاہنہ کا نام، جس کے پاس عبد المطلب مبینہ طور پر رہنمائی کے لیے گئے تھے، نجاح یا سجاح بتایا گیا ہے۔ (سیرۃ ابن اسحاق، صفحہ ۸۹ )سجاح درحقیقت اس کاہنہ کا نام تھا جس نے حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں فتنۂ ارتداد میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ (الطبری، تاریخ رسل و الملوک، جلد ۳ صفحہ ۲۶۹ )گو قریب کے زمانہ میں ایک ہی نام کی دو مختلف مشہور کاہنات کا وجود ناممکن نہیں مگر قرین قیاس یہی ہے کہ مختلف روایات کو خلط ملط کیا گیا ہے۔

امام زہری کی ایک تفصیلی روایت میں بتایا گیا ہے کہ جب عبد المطلب کے ہاں دس بیٹے پیدا ہوئے تو انہوں نے قرعہ اندازی کی۔ قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا تو عبد المطلب نے کہا کہ اے اللہ تجھے یہ زیادہ عزیز ہے یا ایک سو اونٹ؟ اس پر دوبارہ قرعہ اندازی کی تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ چنانچہ انہوں نے سو اونٹ قربان کر دیے۔ (الازرقی، اخبار مکہ جلد ۲ صفحہ ۴۳۔ ۴۴)یہ روایت بہت سے اضافہ جات سے پاک اور حقیقت کے نزدیک معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح کی روایت ابن عباسؓ سے بھی مروی ہے۔واللہ اعلم

(الفاکہی، اخبار مکہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۔ ۱۴)

کیا عبداللہ دسویں بیٹے تھے؟

اس جگہ ایک سوال اور بھی زیر بحث ہے۔ روایات کے مطابق عبد المطلب کے دس بیٹے پیدا ہونے پر ایک کو قربان کرنے کی منت مانی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اس وقت دس بیٹے یہ تھے: حارث، زبیر، ابو طالب، عبداللہ، حمزہ، ابولھب، غیداق جحل، مقوم، ضرار اور عباس۔ (سیرۃ ابن اسحاق، جلد ۱ صفحہ ۸۵۔ ابن سعد، کتاب طبقات الکبیر جلد ۱ صفحہ ۶۹ ) نیز یہ کہ عبداللہ ان میں سب سے چھوٹے تھے۔ (ابن ہشام، جلد ۱، صفحہ ۲۰۰) مگر یہ بات ناممکن ہے کیونکہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں حضرت عبداللہ سے چھوٹے تھے۔ حضرت حمزہؓ تو آنجنابؐ کے ہم عمر تھے۔ اگر عبداللہ قربانی کے وقت سب سے چھوٹے بیٹے تھے تو یہ دونوں اس وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ یوں عبد المطلب کے دس بیٹے نہیں ہو سکتے۔ اور اگر عبد المطلب کے دس بیٹے تھے تو حمزہؓ اور عباسؓ کی موجودگی میں عبداللہ سب سے چھوٹے بیٹے نہیں ہو سکتے۔

اس مسئلہ کو متعدد طریق پر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حسب معمول حقائق پر بات کرنے کی بجائے علماء نے ’’تطبیق‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مختلف امکانی حل پیش کیے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عبداللہ اپنی والدہ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ (العاملی، الصحیح من السیرۃ، جلد ۲، صفحہ ۴۷، ۴۸۔ دار الحدیث، قم، ایران ) لیکن ابن ہشام کی روایت میں صاف باپ کے سب سے چھوٹے بیٹے ہونے کا ذکر ہے۔ (ابن ہشام، جلد ۱ صفحہ ۲۰۰۔ و کان عبداللہ بن عبدالمطلب اصغر بنِي ابیہ۔ الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۲۳۹۔ و کان عبداللہ ابو رسول اللہ اصغر ولد ابیہ ) بعض نے کہا ہے کہ عبدالمطلب کے بڑے بیٹے حارث کے اس وقت دو بیٹے تھے، ابو سفیان اور نوفل، ان کو شامل کر کے عبدالمطلب کے دس بیٹے ہوتے ہیں یعنی پوتوں سمیت۔ لیکن یہ بھی بعید از قیاس ہے۔ جب نذر عبد المطلب نے اپنے دس بیٹے ہونے کی مانی تھی تو پھر حارث کے دو بیٹے اس میں کیونکر شامل ہو سکتے ہیں؟ عبداللہ کو بچانے کے لیے ان کے رشتہ داروں نے اتنی بحث کی، کاہنہ کے پاس دور دراز کا سفر کیا، آخر کو سو اونٹ قربان ہوئے، مگر کسی نے یہ کیوں نہ کہا کہ منت تو دس بیٹوں پر مانی گئی تھی اس لیے ابھی بیٹے کی قربانی کی کیا ضرورت ہے یہ تو ابھی آٹھ ہیں؟ شاید اسی لیے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عبدالمطلب کے ۱۲ یا ۱۳ بیٹے تھے۔ یعنی انہوں نے حضرت عبداللہ کو دسواں، عباسؓ کو گیارہواں اور حمزہؓ کو بارہواں بیٹا قرار دیا ہے۔ اس طور پر روایات میں بظاہر تطبیق ہو جاتی ہے۔ گو یہ بات ناممکن نہیں تاہم بعید از قیاس ہے کہ پہلے حارث کے بعد لمبا عرصہ، کم از کم ۱۲۔ ۱۴ سال کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔ پھر نو بیٹوں کے بعد اسی طرح کم از کم ۲۰سال کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔

[نوٹ:بتایا گیا ہے کہ جب حفر زمزم کا واقعہ پیش آیا تو عبد المطلب کا صرف ایک ہی بیٹا حارث تھا جس کی مدد سے کنواں کھودا گیا۔ وہ قریش کو باپ سے دور رکھتا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ حارث اس وقت کم از کم ۱۲۔ ۱۴سال کا ہو گا۔ جبکہ عبد اللہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی عمر ۲۰۔ ۲۵ سال تھی جب ان کی شادی ہوئی۔ حضرت عباسؓ آنحضورؐ سے ۳ سال بڑے تھے جبکہ حضرت حمزہؓ آپؐ کے ہم عمر تھے۔ گویا یہ دونوں بھائی حضرت عبد اللہ سے کم و بیش ۱۷ اور ۲۰ سال چھوٹے تھے۔]

بعض لغو قصص

فیج اعوج کے مسلمانوں نے بزرگان کے متعلق ایسے قصص بیان کرنا شروع کر دیے تھے جن کی اکثریت خلاف قوانین قدرت اور بعض جگہ قابل شرم اور خلاف شریعت امور پر بھی مشتمل ہے۔ چنانچہ ناقابل اعتبار ہونے کے علاوہ یہ ہر طرح کے فائدہ سے خالی اور لغو بھی ہیں۔ ہمارے ایمان پر ان کا کچھ بھی مثبت اثر نہیں۔ البتہ ان میں موجود بعض خلاف شریعت اور خلاف اخلاق و عقل باتیں نقصان دہ ضرور ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں خاص احتیاط سے کام لینا بہتر ہے۔

کاہن یا اہل کتاب عالم کے قصے

حفر زمزم کا قصہ، عبد اللہ کی قربانی کا قصہ اور ھاشم کا امیہ سے مقابلہ کرنے کے قصہ میں فیصلہ کے لیے ایک کاہن یا کاہنہ کے پاس جانے کا ذکر ملتا ہے۔ اور اس کا فیصلہ عقل پر مبنی، درست، انجام کار مثبت اور خدائی تقدیر کے معجزانہ اظہار کا سبب دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر اہل کتاب کا ذکر ہے کہ انہیں اپنی کتب سے آئندہ ہونے والی ہر بات کا باریکی اور تفصیل کے ساتھ علم تھا۔ یہاں بھی مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ تمام امور پہلے سے طے اور خدائی تقدیر کے مطابق تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ کے متعلق جو قصہ مشہور ہے، اس میں مذکورہ خاتون کو قدیم کتب کی عالمہ بتایا گیا ہے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ ایک یہودی عالم نے عبدالمطلب کو بتایا تھا کہ وہ بنی زھرہ سے تعلق پیدا کریں اس سے بادشاہت و نبوت ملے گی۔ (ابن کثیر، البدایہ و النھایۃ، جلد ۳، صفحہ ۱۴ تا ۱۶۔ )فال نکالنے اور قرعہ اندازی کے متعدد قصص بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جن میں خدائی تقدیر کا اظہار بت کے سامنے قرعہ اندازی اور ایک مشرکانہ عمل سے بتایا گیا ہے!

سواری کے نیچے پانی

حفر زمزم کے واقعہ میں کاہنہ کے پاس جانے اور عبدالمطلب کی سواری کے نیچے سے صحرا میں اچانک پانی نکل آنے والا حصہ بھی افسانوی نظر آتا ہے۔ غالباً یہ قصہ حضرت اسماعیلؑ کے زمزم والے واقعہ کے زیر اثر گھڑا گیا ہے۔ اگر حقیقت میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو اس معجزہ کی جگہ مشہور اور معروف ہوتی جہاں عبدالمطلب کی سواری کے سم کے نیچے پانی دریافت ہوا اور ایک نہ دو پورے چالیس قریش کی جان بچی تھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی کہ لوگ بھول جاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ محض زمزم کی از سر نَو دریافت قصہ خوانوں کو کافی معلوم نہ ہوئی اس لیے عبد المطلب کی سواری کے سم کے نیچے سے صحرا میں پانی کی دریافت کا اضافی اور بے ثبوت قصہ گھڑا گیا۔

نور محمدیؐ کے متعلق شیعہ عقیدہ

ایک عقیدہ جو بعض سنی اور بالخصوص شیعہ میں پایا جاتا ہے نور محمدی کا عقیدہ ہے۔ علماء کے نزدیک یہ نور ازل سے آپؐ کے آباءکی پیشانی میں موجود تھا اور ایک کے بعد دوسرے بزرگ میں منتقل ہوتا رہا۔ (الغرناطی، الانوار فی نسب آل نبی المختار، صفحہ ۱۷۔ ۲۱) چونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے:

اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ

(التوبہ ۹آیت ۲۹)

اس لیے ان کے نزدیک آپؐ کے آبا میں کوئی مشرک ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ آپؐ ایک کے بعد ایک نبی کے صلب میں منتقل ہوئے۔ (بحار الانوار، جلد ۶، صفحہ ۶تا ۹ )لیکن اصل مسئلہ شیعہ علماء کو آنحضورؐ کے بعد کے شجرہ میں پیش آیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نور آگے شیعہ ائمہ میں بھی منتقل ہوا۔ چنانچہ ان کو دو مسائل درپیش ہوئے۔ ایک یہ کہ اس طریق پر باقی ائمہ میں تو نور بیان ہو گیا مگر امام اول یعنی حضرت علیؓ اس سے باہر رہ جاتے تھے۔ چنانچہ توقع کے عین مطابق ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ نور عبد المطلب پر آ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک حصہ تو عبداللہ میں چلا گیا اور دوسرا ابو طالب میں۔ یوں حضرت علیؓ بھی اس نور میں حصہ دار قرار پائے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ حضرت فاطمہؓ اس سے باہر رہ گئیں۔ کیونکہ نور باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتا آ رہا تھا۔ اسی طرح اس نور کو حضرت علیؓ سے حضرت حسینؓ اور باقی ائمہ میں منتقل مانا جائے تو حضرت حسنؓ باہر رہ جاتے تھے۔ چنانچہ یہاں پھر حسب ضرورت روایت موجود ہے کہ آنحضورؐ والا حصہ حضرت فاطمہؓ سے ہو کر حضرت امام حسینؓ میں منتقل ہو گیا اور آگے تمام شیعہ ائمہ میں بھی۔ جبکہ حضرت علیؓ والا حصہ حضرت حسنؓ میں منتقل ہوا۔

تاہم یہ بیان نہیں کیا گیا کہ نور حضرت فاطمہؓ میں کیوں منتقل ہوا جبکہ آپؓ چھوٹی تھیں اور دیگر بیٹیاں بڑی تھیں۔ اسی طرح یہ بھی بیان نہیں کیا گیا کہ عبدالمطلب پر نور منقسم کیوں ہوا اور ان کے دس یا بارہ بیٹوں میں سے صرف دو کو ہی کیوں ملا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ہمیشہ بیٹے میں منتقل ہونے کے باوجود آنحضورؐ پر آ کر بیٹی میں کیوں منتقل ہوا؟ البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ عبداللہ والے حصہ میں نبوت و رسالت تھی اور ابو طالب والے حصہ میں وصیت و قضا۔

یہ سب روایات اور عقائد ایسے غیر معقول اور خلاف قوانینِ روحانیت ہیں کہ ان پر مزید کسی جرح کی ضرورت نہیں۔ نہ تو نور کوئی مادی چیز ہے کہ وہ نسل در نسل منتقل ہو نہ ہی روحانیت اس طرح وراثت میں ملتی ہے جس طرح یہاں بیان کیا گیا۔

آبا ءکے موحد ہونے کا سوال

آنحضور ؐ کے آباء کے موحد ہونے کا معاملہ اپنی جذباتی جہت کی بنا پر سیرت النبیؐ کا ایک بڑا مبحث رہا ہے۔ آپؐ کے والد حضرت عبداللہ کے موحد ہونے پر تو بحث کی ہی گئی ہے بعض علماء نے قرآن کریم کی آیت:

وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ

(الشعراء ۲۶آیت ۲۲۰ )

یعنی ’’اور سجدہ کرنے والوں میں تیرا پھرنا۔‘‘ سے استنباط کیا ہے کہ آدمؑ تک آپؐ کے تمام آبا ہی موحد تھے۔ ان کے نزدیک اس آیت سے یہ مراد ہے کہ آنحضورؐ بطور نطفہ آدمؑ کے وقت سے نسل در نسل ساجدین میں منتقل ہوئے اور یہ تمام آبا خدائے واحد کو سجدہ کرنے والے تھے۔ (الاندلسی، تفسیر بحر المحیط جلد ۷ صفحہ ۴۴۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم جلد ۶ صفحہ ۱۷۱۔ الرازی، تفسیرالکبیر جلد ۲۴ صفحہ ۱۷۳۔ ۱۷۴۔ القسطلانی، مواھب اللدنیۃ، جلد۱صفحہ ۸۶۔ ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱صفحہ ۸۔ بحار الانوار، جلد ۶، صفحہ ۵۰ ) اسی طرح یہ سوال بہت بحث کا موجب بنا ہے کہ آپؐ کے آباء ناجی ہیں اور جنت میں جائیں گے یا نہیں؟ مختلف دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپؐ کے تمام آباء موحد اور مومن اور نجات یافتہ تھے۔ اور یہ کہ آپؐ کے تمام آباء اور تمام امہات توحید کے قائل، قیامت اور یوم حساب پر ایمان رکھتے اور دین ابراہیمؑ کی پیروی کرنے والے تھے۔

(محمود الحسن عارف، محمد رسول اللہﷺ کے آبا و اجداد کا تذکرہ صفحہ ۴۲۔ محمد اشرف شریف، ڈاکٹر اشتیاق احمد، نبی کریمؐ کے عزیز و اقارب، صفحہ ۱۷ )

تاہم ان علماء نے اس بات پر بحث نہیں کی کہ ان آباء میں سے متعدد نے اپنے بچوں کے نام بتوں کے نام پرکیوں رکھے؟ مثلاً قصی نے اپنے ایک بیٹے کا نام عبد مناف رکھا جو کہ ایک بت مناف کے نام پر برکت کے لیے رکھا گیا تھا۔ (البلاذری، جمل میں انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۴۳، ۵۹۔ الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲ م صفحہ ۲۵۴۔ ابن درید، الاشتقاق، صفحہ ۱۶۔ الاندلسی، نشوۃ الطرب، جلد ۱، صفحہ ۳۲۸ )قصی کے دوسرے بیٹے کا نام عبد العزیٰ تھا۔ عزیٰ بھی اہل مکہ کا ایک مشہور بت تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ (النجم ۵۳آیت ۲۰۔ اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی۔ ابن کلبی، کتاب الاصنام، صفحہ ۲۲۔ ۲۳ ) اگلی پیڑھی پر عبد مناف کا اپنا قول ہے کہ اس نے بھی اپنے دو بیٹوں کے نام بتوں کے نام پر رکھے۔ پھر اس سے اگلی پیڑھی پر عبدالمطلب نے بھی اپنے دو بیٹوں کے نام بتوں کے نام پر رکھے۔ ایک ابو لھب جس کا نام عبد العزیٰ تھا اور دوسرے ابوطالب جن کا نام عبد مناف تھا۔ (ابن کلبی، جمھرۃ النسب، صفحہ ۲۸۔ ابن ھشام، سیرۃ، جلد ۱، صفحہ ۱۵۴ )یعنی نسل در نسل اس خاندان میں بیٹوں کے نام ان دو بتوں کے نام پر رکھے جا رہے تھے۔ اور ان کے علاوہ بھی اس خاندان میں بچوں کے مشرکانہ نام تھے مثلاً عبد مناف نے اپنے ایک بیٹے کا نام عبد الشمس رکھا۔ جبکہ کنانہ نے اپنے ایک بیٹے کا نام عبد مناۃ رکھا جو کہ ایک مشہور بت ہے۔ (ابن اسحاق، جلد ۱، صفحہ ۶۸۔ السھیلی، روض الانف، جلد ۱، صفحہ ۱۸۶ )اس سے بڑھ کر یہ کہ ہبل، جو کہ اہل مکہ کا خاص بت تھا، خزیمہ نے ہی کعبہ میں نصب کیا تھا اسی لیے اس کو ’’ہبل خزیمہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یعنی وہ نہ صرف بت پرست تھا بلکہ بت پرستی کا پرچار کرنے والا بھی تھا۔ پس آپؐ کے تمام آبا کے موحد ہونے کا خیال کس طور درست ہو سکتا ہے؟

عجیب بات ہے کہ جب علماء زمانہ جاہلیت کے موحدین اور حنفاء کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں کہیں آپؐ کے آباء کا نام نہیں آتا۔ (البغدادی، المنمق فی اخبار قریش، صفحہ ۱۵۲۔ ۱۵۴ )لیکن جب آپؐ کے نسب پر بات ہو تو تمام آبا اور امہات کو موحد اور حنفاء قرار دیتے اور مستند احادیث کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔

(البیہقی، دلائل النبوۃ، جلد ۱، صفحہ ۱۹۱۔ مسلم، صحیح، کتاب، الایمان، باب ان من مات علی الکفر فھوا فی النار۔ نمبر ۲۰۳۔ اس کی شرح: نووی، شرح مسلم، جلد۱صفحہ ۲۴۱)

تاریخ کی بحث ہمیشہ حقائق پر مبنی ہونی چاہیے، عقائد پر نہیں۔ لغو بحثوں کا ایک نقصان یہ ہے کہ جب ان پر سوالات اٹھتے ہیں تو پھر مزید مضحکہ خیز عقائد گھڑنے پڑتے ہیں۔ اس جگہ بھی جب کوئی معقول دلیل بن نہ پڑی تو یہ کہا گیا کہ آپؐ کے والدین کو دوبارہ زندہ کیا گیا تھا اور وہ آپؐ پر ایمان لے آئے تھے، یا کم از کم آپؐ کی والدہ دوبارہ زندہ ہو کر ایمان لے آئی تھیں۔ (السھیلی، روض الانف، جلد ۱ صفحہ ۲۹۹۔ ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، جلد ۳، صفحہ ۶۷ ) اس بات سے شیعہ علماء بھی متفق ہیں البتہ حسب توقع انہوں نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ والدین نہ صرف کلمہ پڑھ کر آپؐ پر ایمان لے آئے تھے بلکہ انہوں نے حضرت علیؓ کی ولایت بھی تسلیم کی تھی۔ نیز صرف والدین ہی نہیں بلکہ آپؐ کے چچا ابو طالب بھی دوبارہ زندہ ہو کر آپؐ پر ایمان لے آئے تھے۔ اگلی مشکل یہ آن پڑی کہ ان روایات میں والدین کے مکہ میں قبر سے اٹھنے کا ذکر ہے جبکہ تاریخ کہتی ہے کہ آپؐ کے والد مدینہ اور والدہ ابواء میں مدفون ہوئیں۔ چنانچہ اس پر مزید یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ آپؐ کے والدین کی نعشیں بعد میں کسی وقت مکہ لا کر دفن کر دی گئیں یا وہ معجزانہ طور پر مکہ پہنچ گئے ہوں۔ کچھ شیعہ علماء کا خیال ہے کہ آدمؑ سے حضرت عبداللہ تک آپؐ کے تمام آباءنہ صرف مسلمان بلکہ صدیق تھے۔ تاہم ان میں سے بعض نے اپنا ایمان تقیہ کرتے ہوئے چھپایا ہوا تھا۔

(بحار الانوار، جلد ۶ صفحہ ۴۶ تا ۵۰)

آپؐ کے آباء کے مومن، موحد اور جنتی ہونے کی بحث لایعنی ہے۔ نہ تو اس سے آپؐ کی نبوت و رسالت یا مقام میں کچھ اضافہ ہوتا ہے نہ کمی۔ یہ محض ایک جذباتی بحث ہے جسے کھینچ تان کر مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے اور اس پر سینکڑوں صفحات کی بحثیں کی گئی ہیں۔ شیعہ کے نزدیک حضرت علیؓ کی جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر ابو طالب کے مومن ہونے پر بھی بحث ہوئی ہے۔ جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے :

تِلۡكَ أُمَّةٌ۬ قَدۡ خَلَتۡ‌ۖ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَكُم مَّا كَسَبۡتُمۡ‌ۖ وَلَا تُسۡـَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ

(البقرۃ ۲آیت ۱۴۲ )

یہ لوگ گزر گئے اور ان پر ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے اور ہم پر ہمارے اعمال کی۔ خدا تعالیٰ ان کے حالات، کیفیات اور اعمال کو بہتر جانتا ہے۔ کسی کے جنتی ہونے کا فیصلہ بھی اسی نے کرنا ہے۔ اس لیے ان امور پر بحث کرنا اور جنتی ہونے کے فتوے دینا حد سے تجاوز ہے۔ ہمارے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ یہ تمام بزرگ ہمارے نبیؐ کے آبا و اجداد تھے۔ اس نسبت کی وجہ سے جو ان کو آپؐ سے ہے ان سب کا احترام خود بخود ہم میں موجود ہے۔ ان کے انجام اور اخروی زندگی کے حالات کو خدا پر چھوڑ دینا اور بلا ثبوت بحثوں اور عقائد سے پرہیز کرنا چاہیے۔

آپؐ کے آباء کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کےارشادات

آنحضورؐ کے خاندان کے متعلق حضرت مصلح موعودؓفرماتےہیں:

شرافت کا معیار ہر سوسائٹی کے اپنے اپنے قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے آباو اجداد عرب کی سوسائٹی کے مطابق شریف تھے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ معیار اسلام کے مطابق ان میں نیکیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔

…بعض مفسرین نے غلطی سے وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ کے یہ معنے کئے ہیں کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام آباء مومن یعنی ساجد تھے۔ حالانکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ وہ مجھے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت دیدے مگر اللہ تعالےٰ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین کا یہ نظریہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام آباء مومن تھے درست نہیں۔ حضرت عبد المطلب کے متعلق بھی جہاں توحید کی باتوں کا ذکر آتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک دبدبہ کی حالت میں تھے۔ کبھی توحید کی طرف مائل ہو جاتے تھے اور کبھی شرک کی طرف۔ ان کا چاہ زمزم کی تلاش کے وقت یہ نذر مانگنا کہ اگر خدا انہیں دس بچے دے گا اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوں گے تو وہ ان میں سے ایک کو قربان کر دیں گے اور پھر ہبل کے سامنے ان کا قرعہ اندازی کرنا بتا رہا ہے کہ توحید کا صحیح مقام انہوں نے نہیں سمجھا تھا۔

(از تفسیر کبیر حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ، زیر آیت سورۃشعراء ۲۶آیت ۲۲۰۔ جلد۷، صفحہ ۲۹۰۔ ۲۹۳ )

پھر مزید فرماتے ہیں :

اگر یہ معنی کئے جائیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباءو اجداد خدا رسیدہ تھے تو یہ صحیح نہیں، تاریخ اس کے خلاف ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے والدین مشرک تھے…تواریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کے دادا پڑدادا موحد نہیں تھے اسی لئے وہ معنی جو مفسرین کی طرف سے کئے جاتے ہیں صحیح نہیں…آپؐ جب خود اپنے والدین کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ مشرک تھے اور گو وہ رواجاً شرک کرتے تھے مگر کرتے ضرور تھے پھر یہ کہنا کہ آپ کے والدین موحد تھے یہ ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی نہیں ملتی۔ نہ قرآن کریم سے نہ حدیثوں سے اور نہ تاریخ سے۔

(حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ، انوار العلوم جلد ۱۹، صفحہ ۲۵۔ ۲۶ )

چنانچہ واضح ہو اکہ نبی کریمﷺ کے آباء و اجداد بظاہر موحد نہ تھے جیسا کہ بعض روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ نسلِ ابراہیمی کی یہ شاخ خدا تعالیٰ نے اپنی خاص مشیت کے تحت اس سعادت کے لیے چن لی کہ اس کے صلب میں سے ’’وہ نبی‘‘ پیدا ہوا یعنی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم۔ اور خدا تعالیٰ جسے چنتا ہے اس میں وہ خوبیاں، وہ نیکیاں پائی جاتی ہیں جو وہ واحد و یگانہ اور بے نیاز ذات ان میں دیکھنا چاہتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button