لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سِوا اَور زمانے بھی ہوتے ہیں۔
عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ اک پُرسوز جاں عشق الٰہی میں اس طرح گداز ہوئی کہ مقام قابِ قوسین کو چھولیا اور پھر وہاں سے نسخہ کیمیا لے کر عالم ناسوت میں واپس آئی اور اپنی قوت قدسی سے ہرگوشۂ ویراں کو دامانِ باغبانِ کفِ گل فروش بنادیا ۔انسانیت کو جہالت اور نسل پرستی کی زنجیروں سے رہائی دلائی ۔ مولائے کل ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے نہ عربی کو عجمی پر۔ نہ گورا کالے سے افضل ہے نہ کالا گورے سے۔ بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو تقویٰ ہے ‘‘
اس حیاتِ آفریں پیغام کے معجزہ سے انسانیت کو صدیوں کی توہم پرستی کےبوجھ سے رہائی ملی ۔
مشہور مؤرخ ٹائن بی کے مطابق
‘Under the first successors of the prophet, Islam liberated Syria and Egypt from a Hellenic domination which had weighed on them for nearly a thousand years.’
(ARNOLD J TOYNBEE, CIVILIZATION OF TRIAL, Oxford University Press, 1948 )
قرآن نے عقل کو شرف عطا کیا جسے ماضی میں مردود سمجھا جاتا تھا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشارد فرمایا:
وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ
(سورۃ الملک:11)
اس تصور سے انسان اس قابل ہوا کہ عقل کی بدولت ستاروں کی گزرگاہیں ڈھونڈنے لگااور سائنس کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کی۔
لیکن اس سائنس کےطفیل بعض نسل پرستی کے تصورات بھی سیاسی حلقوں میں داخل ہو گئے جسے انہوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
‘The Concept of race, evil ethnocentrism, and seeds for genetic racism began before the 18th Century with growth of the biological sciences.’
(Joseph A. Bailey II M. D. F. A. C. S: ECHOES OF ANCIENT AFRICAN VALUES, 2005, P-186)
سوشل ڈارون ازم کے تصور کے مطابق جس طرح بعض Speciesبعض Speciesکے مقابلہ میں زیادہ باصلاحیت ہوتی ہیں اسی طرح بعض قومیں بعض قوموں کے مقابلے میں زیادہ استعداد کی حامل ہوتی ہیں لہٰذا ان کے حقوق زیادہ ہیں۔
‘The Church sanctioned Negro Slavery …with indirect support by the Church and by science, ‘authorities’ took the separation to mean that some races were superior and others were inferior. It was greedy desire that pushed bogus science to give ‘proof’ of African’s inferiority in order to justify the profits of slavery.‘‘
(Joseph A. Bailey II M. D. F. A. C. S: ECHOES OF ANCIENT AFRICAN VALUES, 2005 P-186-7)
جب مذہب اور سائنس کمزور قوموں کے استحصال کو جواز فراہم کر رہے تھے ۔ قادیان کے گمنام گوشے سے ایک شخص اسلام کی ابدی سچائیوں کے دفاع میں نکلااور انسانیت کو متنبہ کیا کہ سچی روحانیت سے دور اور ناانصافی پر مبنی تصورات انسانیت پر تباہی لائیں گے۔ آپ نے 1907ء میں فرمایا:
’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں ۔ اور اے جزائر کے رہنے والو !کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرےگا ۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کوویران پاتا ہوں ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 269)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ارباب ِ بست و کشاد کو جنگ ِعظیم دوم سے پندرہ سال قبل آگاہ کر دیا تھا کہ اگر اسلام کی عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات کو لیگ آف نیشنز کے لیے مشعلِ راہ نہ بنایا گیا تو دنیا ایک اَور عالم گیر جنگ کی تباہی سے بچ نہیں سکے گی ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ وقتاً فوقتاً خلفائے احمدیت دنیا کو انتباہ کرتے رہے ہیں کہ اگر اسلام کی تعلیمات کو مشعلِ راہ نہ بنایا گیا تو تہذیب کی کشتی وقت کے سمندر میں چھ ہزار سال کا فاصلہ طے کر آئی ہے اب خوفناک چٹانوں سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 2012ء سے خطوط کے ذریعے مختلف سربراہانِ مملکت کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرتے رہے ہیں ۔ اس وقت دنیا مختلف مسائل سے نبردآزما ہےاور جن میں ایک مسئلہ نسل پرستی کا بھی ہے اور اسلام اس وقت بھی اپنا تاریخی کردار ادا کرے گا جس طرح اس نے دنیا کو ماضی میں ذات پات اور نسل پرستی کے توہمات سے نجات دلائی تھی ۔ چنانچہ مشہور مؤرخ ٹائن بی لکھتا ہے ۔
‘If the present situation of mankind were to precipitate a ‘race war’ Islam might be moved to play her historic role once again.’
(ARNOLD J TOYNBEE, CIVILIZATION. 1948)
٭…٭…٭