حضرت لاؤتزے علیہ السلام۔ اہل چین کو ہستی باری تعالیٰ سے روشناس کروانے والے برگزیدہ وجود
مسیح علیہ السلام سے مماثلت اورآپ کے ظہورِثانی کی پیشگوئی
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں مشرق ومغرب اور شمال و جنوب کو یکساں فیضیاب کرتی ہیں۔ سورج کی روشنی ہو یا بارش کا پانی ہر ملک و قوم اس سے مستفیض ہوتی ہے۔خدا کا یہ فیضِ عام انسانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیےانبیاء و مرسلین کی صورت میں نازل ہوتا اور ہر خطہ ارضی کو سیراب کرتا ہے۔ قرآن کریم اس آفاقی نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہےکہ
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ ( سور ة الفاطر :25)
یعنی کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا(نبی) نہ گزرا ہو۔ نیز فرمایا:
وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (سورة الرعد: 8)
یعنی ہر ایک قوم کے لیے ایک راہنما ہوتا ہے۔ اسی طرح
لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ (سورة یونس :48)
کہہ کر ہر ملک و قوم میں برگزیدہ ہستیوں کے مبعوث ہونے کی خبر دی گئی ہے۔
اقوامِ عالم میں اس وقت سب سے بڑی قوم چینی قوم ہے۔ چینی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم میں بھی ایسی برگزیدہ ہستیوں کو مامور کرتا رہا جنہوں نے اپنے اخلاقِ فاضلہ کے ذریعہ اور خدائی نور کی بدولت چین میں توحید کی شمع روشن کیے رکھی۔ ان برگزیدہ ہستیوں میں سےکنفیوشس، لاؤتزے اور موتزے کے بارہ میں ایک چینی مصنف لکھتا ہے کہ
’’ انہوں نے اپنی زندگیاں لگا کر اس چینی تہذیب وثقافت کو جنم دیا ہے جسے آج ہم جانتے ہیں۔ ان عظیم دانشوروں نے جو بے مثال روحانی مائدہ تخلیق کیا 2,600سال گزرنے کے بعد بھی چین اس سےمستفیض ہورہا ہے ‘‘
(Lao Tzu and The Bible; A Meeting Transcending Time and Space by Yuan Zhiming Translated by Chen Shangyu page 29)
ان برگزیدہ ہستیوں میں Daoismکے بانی لاؤتزے چینی تہذیب وثقافت پر اثر انداز ہونے والے سب سے نمایاں وجود ہیں۔ آپ کے فکر وفلسفہ کے نقوش نہ صرف چین بلکہ جاپان، تائیوان اور مشرق بعید کے دیگر ممالک پر محیط ہیں۔ اس وقت بھی چین اور تائیوان میں تاؤ مذہب کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ تاؤ کا درست چینی تلفظ ’’داؤ‘‘ ہے لہذا اس مقالہ میں یہی لفظ استعمال کیا جائے گا۔اسی طرح لاؤزتزے کو انگریزی زبان میں Lao TzeیاLao Tzuیا Laozi بھی لکھا جاتا ہے۔یہ آپ کا اعزازی نام ہے جس کا مطلب ہے ’’بزر گ استاد‘‘ یا ’’بوڑھا فلاسفر‘‘۔جبکہ آپ کا ذاتی نام Li Er تھا مگر آپ لاؤتزے کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔
داؤ مت کے بانی ’’لاؤتزے‘‘ دنیا میں چین کے ایک دانا، مفکر اور فلاسفر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ چھٹی صدی قبل مسیح میںZhouبادشاہت کے دَور میں شاہی کتب خانہ کے انچارج تھے۔بعض روایات میں آپ کو کنفیوشس کا استاد ماناگیا ہے تو بعض جگہ آپ کو چینی ادب کا فرضی کردار قرار دیا گیا ہے۔
(Lao-Tzu and the Tao-Te- Ching. Albany by Olivia Kohn and Michael LaFargue, eds :State University of New York Press, 1999, chs. 13)
بعض محققین کے مطابق لاؤتزے ایک ایسے پر اسرار وجود کی مانند ہیں جن کا مقامِ پیدائش،ا صلی نام ، خاندان اور دیگر کوائف سر بستہ راز معلوم ہوتے ہیں۔
(Yang Jialu, Lao Tzu Bai Hua Ju Jie (Interpretation of Lao Tzu) (Taiwan Wen Yuan Shu Ju, 1969), Preface.)
چینی ادب میں آپ کوایک سفید باریش بزرگ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی آپ کو بیل پر سوار ایسی صورت میں دکھایا جاتا ہے جو اس بات پر متفکر ہیں کہ قوم نے آپ کے پیغام کو سننے اور قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ،لہذا آپ اس علاقہ سے ہجرت کرجانا چاہتے ہیں۔
(Fischer-Schreiber, Dictionary, 88-90; Robinet, Taoism, 19, 26.)
روایات کے مطابق آپ کی پیدائش معجزانہ رنگ رکھتی ہے۔ آپ کنواری کے بطن سے پیدا ہوئے اور پیدائش کے بعد دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے تو آپ ساٹھ سالہ بزرگ کے روپ میں تھے اسی وجہ سے آپ کو لاؤزی یعنی بزرگ استاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
(The Best Guide to Eastern Philosophy and Religion by Diane Morgan, page 223. New York: renaissance Books, 2001)
آپ کی پیدائش معجزانہ رنگ رکھتی تھی بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ آپ پیدا ہوتے ہی کلام کرنے لگے تھے۔
(Lao-Tzu: a study in Chinese Philosophy page 16 by T.Watters,M.A Printed at The China Mall Office 1870 )
آپ کی والدہ نے بیٹے کی غیر معمولی صفات کا مشاہدہ کرنے کے بعد آپ کا نام Erرکھا۔جس کا مطلب ہے کان۔نیز آپ کی شکل و شباہت کے بارے میں مذکور ہے کہ آنکھیں غیر معمولی بڑی تھیں۔ ناک خوبصورت اور ہونٹ موٹے تھے۔ ان روایات کے بقول آپ کے پاؤں کے تلووں پر غیر معمولی نشان تھے۔جو کسی غیر معمولی وجود کی خبر دے رہے تھے۔اسی طرح آپ جسمانی لحاظ سے کئی غیر معمولی خوبیوں اور صفات سے متصف تھے۔
(Lao-Tzu: a study in Chinese Philosophy page 16 by T.Watters,M.A Printed at The China Mall Office 1870 )
آپ دنیا کے سامنے نمودار تو ہوئے مگر آپ کا قلب وروح خدا کی تلاش میں گم تھا۔آپ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اس سے بیگانہ نظر آتے۔ جس کا ذکر آپ کی کتاب Dao De Jing(یہ نام تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔Daoیعنی خداDeیعنی اخلاق فاضلہ اورJingسے مراد صحیفہ ہے)میں ان الفاظ میں ملتا ہے :
’’سب لوگ خوش وخرم ہیں جیسے کوئی بڑا تہوار منا رہے ہوں یا موسم بہار میں پہاڑیوں پر چڑھ رہے ہوں۔لیکن ان کے درمیان میں یکہ و تنہاء شیر خوار بچہ کی مانند ہوں جو ابھی مسکرانا بھی نہ جانتاہو اور جواُداس اور خاموش پڑا رہتا ہو۔ مجھے نہیں پتا میری منزل کہاں ہیں ‘‘
(داؤ دِی جِنگ۔ باب 20سطور 2سے5)
لیکن آپ کو یہ عرفان نصیب ہوا کہ آپ کے قلب وروح کا سکون کسی خلعت فاخرہ اور دربار شاہی میں نہیں بلکہ خدا کو پالینے میں پنہاں ہیں۔’’داؤ دِی جِنگ‘‘ میں مرقوم ہے:
’’اصل امن و سکون تو Dao(خدائے عظیم)کے ہاں ہے۔ لیکن لوگ دوسری راہوں پر چلتے ہیں۔دربارِ شاہی توخرابی کا مرکزہے،میدان تو گھاس پھوس اور جڑی بوٹیوں سےاٹے ہوئے ہیں اور اناج اگانے والی کھیتیاں ویران ہیں۔وہ جو عمدہ پوشاکیں پہنتے ہیں،وہ جو چمکتی تلواریں سجائے ہوئے ہیں،وہ جونفیس پکوان کھاتے ہیں اور جو دولتیں جمع کرتے ہیں۔یہ سب خدا ئے عظیم (Dao)کی معصیت ہے‘‘
(داؤ دِی جِنگ۔ باب53سطور 2سے3)
چنانچہ آپ نے شاہی نوکری کوخیر باد کہہ کر ریاستZhouسے ہجرت کرجانے کا فیصلہ کیا۔جب آپ Hanguکے پہاڑی سلسلہ سے گزر رہے تھےتو وہاں کے دربان نے پہچان لیا کہ آپ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ مشہور دانا اور مفکر لاؤتزے ہیں۔چنانچہ دربان نے آپ سے درخواست کی کہ اپنی افکار کو ضبط تحریر میں لائیں اور ابدی سچائی کے علوم کو محفوظ کر لیں تاکہ آئند ہ آنے والی نسلیں اس سے مستفیض ہوتی رہیں۔چنانچہ لاؤتزےنے یہ علمی خزانہ صرف 5,000الفاظ میں تحریر کردیا اور اس طرح Dao De Jing(داؤ مت کا صحیفہ)معرضِ وجود میں آیا۔
(Fischer-Schreiber, Dictionary, 88)
’’داؤ دِی جِنگ‘‘ کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے :
Dao (The Almighty God) that can be spoken of is not the Constant Dao’ The name that can be named is not a Constant Name. Nameless, is the origin of Heaven and Earth; The named is the Mother of all things.
یہ چند جملے لاؤتزے کی تبلیغ کا آغاز ہیں۔ آپ کا پیغام چونکہ صرف پانچ ہزار الفا ظ پر مشتمل تھا لہذا اس کا ہر لفظ نہایت عمیق اور گہرے معانی پر مشتمل ہے۔ ان الفاظ میں آپ نے شد ومد کے ساتھ یہ اعلان کردیا کہ ’’داؤ‘‘ یعنی خدا کو جس طرح سمجھا جارہا ہے یہ تفہیم درست نہیں۔ اصل خدا اس سے کہیں مختلف ہے۔ اس کا کوئی نام نہیں لیکن وہ زمین و آسمان کا منبع ہے اور وہی ہے جو ہر چیز کی ماں (خالق ) ہے۔
گویا آپ کی تعلیم کا مرکز و محور Daoہے۔ داؤ چینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے راستہ،مذہب یا سڑک۔ گویا ’’داؤ‘‘ وہ راہ ِحق ہے جس کے وجود کو آشکار کرنے کا بیڑا لاؤتزے نے اُٹھا یا ہے۔لاؤتزے کا فلسفہ توحید باری تعالیٰ کے پیغام پر مشتمل تھا اور اس زور سے ہستی باری تعالیٰ کا اعلان کر رہا ہے کہ اس کی گونج 2,600سال گزرنے کے بعد آج بھی سنی جاسکتی ہے۔’’داؤ دِی جِنگ‘‘ کے مطابق خدائے عظیم ان صفات کا مظہر ہے:
’’تاؤ اتنا عظیم ہے کہ وہ مشرق میں بھی ہے اور مغرب میں بھی۔جملہ مخلوقات اس کی محتاج ہیں۔وہ ان کی فلاح وبہبود کو کمال تک پہنچاتا ہے۔اور جملہ مخلوقات کا پالنے والا ہے مگر وہ خود غنی ہے۔ تمام مخلوقات اپنی ضروریات کے لئے ا س سے رجوع کرتی ہیں جبکہ وہ خود ان سے بے نیاز ہے۔ اس طرح اسے عظیم ترین کہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی عظمت کا مدعی نہیں۔ بایں وجوہ وہ یقینا ًعظیم ہے۔‘‘
(بحوالہ ’’الہام عقل علم اور سچائی ‘‘حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ۔صفحہ 148)
’’بظاہر وہ روشن نہیں مگر اس کے نیچے کوئی اندھیرا بھی نہیں۔ اس کی لامحدودیت کے باعث اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ اس کا وجود کسی شکل وصورت کا محتاج نہیں۔ وہ ہمارے ادراک سے بالا ہے۔ وہ ازلی ابدی ہے‘‘
(بحوالہ ’’الہام عقل علم اور سچائی ‘‘حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ۔صفحہ 148)
خدا سے شرف مکالمہ
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے Daoسے مراد ہستی باری تعالیٰ ہے۔ اور لاؤتزے کا فکر وفلسفہ دراصل خدا شناسی کے پیغام پر مشتمل ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لاؤتزے پر خدا کا وجود کس طرح منکشف ہوا۔ یقینا ًخدا آپ سے ہمکلام ہوا اور خدا نے ہی اپنا وجود لاؤتزے پر ظاہر فرمایا بعینہ اُسی طرح جس طرح دیگر انبیاء و مرسلین سے خدا نے کلام فرمایا۔ ’’داؤ دِی جِنگ ‘‘ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
’’داؤ۔دنیا کے آغاز سے ہی موجود ہے اور اس کاوجود کبھی اوجھل نہیں ہوا۔تا لوگ اسے پہچان لیں۔ہر چیز کے منبع کے بارہ میں مجھے کیسے علم ہوا ؟ اُسی کی بدولت۔‘‘
(داؤ دِی جِنگ باب21)
یہاں’’اُسی کی بدولت‘‘ کے الفاظ قابل غور ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دیگر برگزیدہ ہستیوں کی طرح خدا کا وجود لاؤتزےپر بھی وحی والہام کی راہ سے منکشف ہوا۔اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :
’’داؤ کی روشنی سے پیوست رہو کہ اس سے تم آفات سے بچائے جاؤ گے۔اسی لئے میں ہمیشہ اس کے راستہ پر چلتا ہوں اور اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کبھی گمراہ ہوجاؤں۔‘‘
(داؤ دِی جِنگ باب 52سطر6اورباب53سطر 1)
آپ کی تعلیم کا خلاصہ
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہےلاؤتزے کی تعلیم کا مرکز و محور Dao ہے۔ داؤ چینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے راستہ،مذہب یا سڑک۔ داؤ مت کے صحیفہDaodejingکے 81ابواب میں سے 36میں داؤ کی حمد وثناء اور صفات بیان کی گئی ہیں۔آپ کی تعلیم کا دوسرا ستون Deکے لفظ میں بیان ہوا ہے۔ دِی کا مطلب ہے اخلاق فاضلہ۔ اس کتاب کے 81میں سے 16بواب میں اخلاقی تعلیم بیان ہوئی ہے۔
گویا آپ کا پیغام حقو ق اللہ او ر حقوق العباد کا امتزاج ہے۔ اس پیغام پر چلنے کے لیے فطرت سے ہم آہنگ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔گویا فطرت سے ہم آہنگ ہو کر ہی خدا سے ہم رنگ ہوا جا سکتا ہے۔پانی کو بطور مثال بیان کرکے انسان کو پانی جیسی نرمی و لطافت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی۔ پانی نشیب و فراز میں بہتا اور ہر کس وناکس کو سیراب کرتا ہے لہذا لاؤتزے اپنے متبعین کو پانی کی مانند بننے کی تلقین فرماتے ہیں۔
لاؤتزے کے پیغام پر عوامی رد عمل
قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آغاز میں انبیاء اور مامورین کی ہمیشہ تکذیب کی گئی اور ان برگزیدہ ہستیوں کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے باجود ان کےلائے ہوئے پیغام کی ہمیشہ ناقدری کی گئی۔لاؤتزے پر وارد ہونے والے ان حالات کا ذکر داؤدِی جِنگ میں یوں محفوظ ہے:
’’میرے الفاظ سمجھنا آسان ہیں اور ان پر عمل کرنا بھی آسان ہے۔ لیکن دنیا میں ایک بھی نہیں جو انہیں سمجھے اور ان پر عمل کرے۔ میرے الفاظ کا ایک نظام ہے اور میرے اعمال کا ایک اصول ہے۔لیکن ان کو کوئی نہیں سمجھتا اس لئے مجھے بھی کوئی نہیں سمجھتا۔ جو مجھے سمجھتے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں‘‘
(داؤ دِی جِنگ باب 70سطور1تا3)
’’داؤ دِی جِنگ ‘‘ کی تصنیف کے بعد آپ کی زندگی ایک رازِ نہاں معلوم ہوتی ہے۔محققین اس عقدہ کو حل کرنےمیں ناکام ہیں کہ اس کے بعد آپ کہاں تشریف لے گئے۔ نیز اس بارےمیں بھی ابہام ہے کہ آپ وفات پاگئے یا آسمانوں کی طرف رخصت ہوگئے۔
(Nan Haijin, Lao Tzu Ta Shuo (Legend of Lao Tzu) (Guo Ji Wen Hua Chu Ban Gong Si, 1991), 32.)
بعض لوگوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ مشرق وسطیٰ یا ہندوستان تشریف لے گئے۔جیسا کہ لکھا ہے:
لاؤتزے کے بارہ میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ آپ ہندوستان تشریف لے گئےاور وہاں دوبارہ بدھا کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔
(Cf. Fischer-Schreiber, Dictionary, 56-57, 90; Morgan, Guide, 225.)
مسیح علیہ السلام سے 10 مشابہتیں
لاؤتزے علیہ السلام کی زندگی کے معلوم واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش سے لے کر وفات تک کئی باتیں مسیح علیہ السلام سے مماثلت رکھتی ہیں۔جیسا کہ
٭…کنواری کے بطن سے پیدا ہونا۔
٭…پیدائش کے ساتھ ہی کلام کرنے کی صفت
٭…اپنے ذاتی نام کی بجائے دوسرے نام سے شہرت دوام حاصل کرنا۔
٭…کئی ناموں کا حامل ہونا۔
٭… بیل پر سوار رہنے کےتصورسے مسیح کی سیاحت کی صفت سے مشابہت ہونا۔
٭…اچانک غائب ہوجانا اور یہ روایات مشہور ہونا کہ آپ ہندوستان یا مشرق وسطیٰ تشریف لے گئے ہیں۔
٭…آسمانوں کی طرف رخصت ہوجانے کا خیال
٭…جب آپ نے دعویٰ کیا تومسیح کی طرح آپ کو قبول نہ کیا گیامگر چند صدیاں گزرنے پرہیTangبادشاہت کے دور میں داؤ مت چین کا سرکاری مذہب قرار پایا۔
٭… مسیح کی مانند دوبارہ دنیا میں آمد کی خبر
٭… دوبارہ ظہور سے جنگوں کےخاتمہ اوردنیا میں امن کے قیام کی خوشخبری
اس موضوع پر چینی زبان کے لٹریچر کےمطالعہ اور تحقیق سےدلچسپی رکھنے والوں کے لیے علم و جستجو کے نئے دروازے کھل سکتےہیں اور اہل چین کو تبلیغ کرنے کے لیے نئے اسلوب پتا چل سکتے ہیں۔ بعض محققین اور علماء آپ کومسیح علیہ السلام اور انبیاء بنی اسرائیل سے مشابہت رکھنے والا وجود قرار دیتے ہیں۔ ایک چینی مصنف لکھتے ہیں :
’’لاؤتزے اور مسیح بھائی ہیں‘‘
(Lin Yutang, Xin Yang Zhi Lu (From Pagan to Christian) (Bejing: Xin Hua Chu Ban She, 2002), 243.)
ڈاکٹر Paul de Vries جو New York Divinity Schoolکے صدرہیں لاؤتزےکی انبیائے بنی اسرائیل سے مشابہت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یوں تو Tao Te Ching چند الفاظ کا ذخیرہ ہے لیکن دراصل یہ دانش کا منبع ہے۔ میں نے کئی بار خواہش کی کہ میں اس بارہ میں کچھ لکھ سکوں کہ کس طرح ’’لاؤتزے‘‘ اور آپ کی کتاب ’’ داؤ دِی جِنگ‘‘ انجیل کے لئےبطور ارہاص ہے اور آپ نے لوگوں کےقلب وذہن کو مسیح کی آمد کے لئے اُسی طرح تیار کیا جیسا یسعیاہ نبی اور دیگرعبرانی پیغمبروں نے کیا ہے۔
(Lao Tzu and The Bible; A Meeting Transcending Time and Space by Yuan Zhiming Translated by Chen Shangyu page 18)
نیز آپ لکھتے ہیں :
لاؤتزےکو کیوں نہ اُن کے ہم عصر یسعیاہ کے روپ میں دیکھا جائے یا پھر یسعیاہ کو کیوں نہ لاؤتزے ہی قرار دیا جائے۔جنہوں نے آنے والے پاک وجود کے لئے راستہ ہموار کیا۔
(Lao Tzu and The Bible; A Meeting Transcending Time and Space by Yuan Zhiming Translated by Chen Shangyu page 17)
بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر Louis Komjathy لکھتے ہیں :
’’Daodejingکو بہت تھوڑے عرصہ میں ہی جو مقام و مرتبہ نصیب ہوا اس نے اس کتاب کو Daoist Bibleاور لاؤزی کو تاریخی مسیح کے درجہ پر فائز کر دیاہے۔‘‘
(Daoist Texts in Translation by Louis Komjathy Boston University page 3)
آمد ثانی کا وعدہ
لاؤتزے جب ’’داؤ دِی جِنگ ‘‘ کی صورت میں اپنا پیغام ضبطِ تحریر میں لاچکے تو گویا آپ نے حق ِ تبلیغ ادا کردیا۔روایات کے مطابق اس کے بعد آپ اپنی دوبارہ آمد کا وعدہ کرتے ہوئے پہاڑی درہ کے دربان کو روتے چھوڑ کر آسمانوں کی طرف رخصت ہوگئےچنانچہ لکھا ہے :
’’لاؤتزےنے،اپنے تمام تر دنیاوی فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد،درہ کے نگہبان سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ ایک ہزار دن کے وقفہ کے بعد اس دنیا کی طرف عود کریں گے اور چنگ یانگ کی بتائی گئی آسمانی بھیڑ ظاہری طور پر آپ کی آمد کا نشان ٹھہرے گی۔پھر آپ ایک بدلی پہ سوار ہوئے،اورروتے ہوئےدرہ کے نگہبان کی نظروں کے سامنے ،آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی میں فضا میں بلند ہوتے ہوئےعالمِ بالا یعنی اپنے گھر جنت کی طرف رخصت ہوگئے۔‘‘
(Lao-Tzu: a study in Chinese Philosophy page 19 by T.Watters, M.A Printed at The China Mall Office 1870)
یہاںمسیح علیہ السلام کے ساتھ آپ کی ایک او ر مشابہت عیاں ہوتی ہے۔یعنی مسیح علیہ السلام کی مانند دوبارہ دنیا میں ظہور کی خبر۔لاؤتزے علیہ السلام کا خاندانی نام چونکہ Liتھا ،لہذا داؤ مت کے عقیدہ کے مطابق آپ Li Hungکی صورت میں دوبارہ دنیا میں ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’داؤ مذہب والوں کا عقیدہ ہے کہ لاؤتزے بذات خود چین کے مغربی علاقہ میں Li Hungکے نام سے دوبارہ ظاہر ہوں گے ‘‘
نیزلکھا ہے کہ
’’آپ ایک وقفہ کے بعد دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے اور امن کو بحال کریں گے۔ نیز بادشاہوں کے لئے دانا مشیرکا کردار ادا کریں گے ‘‘
(Historical Dictionary of Taoism by Julain F.Pas in cooperation with Man Kam Leung published in the united states of America by Scarecrow Press,Inc. Boston. Page 200)
آج سرسری نظر سے دیکھنے والوں کو داؤ مذہب نہایت پیچیدہ فلسفہ نظرا ٓتا اور ’’داؤ‘‘ کے معابد بتوں کی آماجگاہ معلوم ہوتے ہیں۔لیکن در حقیقت لاؤتزے کا فکر وفلسفہ ہستی باری تعالیٰ کے عرفان اور اخلاقِ فاضلہ پر عمل کا نام تھا۔آپ کی قبولیتِ عام اور چینی و جاپانی مذاہب پر Daoismکی گہری چھاپ اس بات کاثبوت ہے کہ رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل جب اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں اور علاقوں کی طرف انبیاء و مرسلین بھیجے تو اہل چین کی رُشد و ہدایت کے لیے لاؤتزے اور کنفیوشس جیسی برگزیدہ ہستیاں مامور کی گئیں۔
امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر ملک و قوم کونصیب ہونے والے اس فیضان عام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہورہا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تاکسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا۔ یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی۔ یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا۔ پس اُس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کردیا۔‘‘
( پیغام صلح ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ443)
فرمایا:
’’خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے ان کے مناسب حال اُن کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے۔ ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو رُوحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے۔ جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔ (فاطر:25)
یا کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا۔‘‘
( پیغام صلح ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ432)
مزید فرماتے ہیں:
’’ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگوں نے ان کو مان لیا ہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کے لئے محبت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گزر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل ان کی سچائی کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی ‘‘
( پیغام صلح ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ452تا453)
٭…٭…٭