میدان عمل میں دلچسپ تبلیغی مواقع
قادیان میں گزرے بچپن کی خوشگوار یادوں میں ایک نمایاں امر یہ یاد آتا ہے کہ ہم بچوں میں بھی تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ حضرت مصلح موعود ؓکے خطبات وغیرہ تو اس زمانہ میں کم ہی سمجھ میں آتے ہوںگے، تاہم ان خطبات یا ماحول کے زیر اثر تبلیغی جذبہ ضرور تھا۔ ہمارے محلہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو احمدیوں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو ’احراری‘ کہلانا پسند کرتے تھے۔ ہم احمدی بچوں کی ان کے بچوں سے باقاعدہ مجالس ہوتی تھیں۔ اختلافی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ ہماری طرف سے بولنے والوں میں بڑے بھائی عبد المجید نیاز صاحب (مرحوم) اور شیخ عبد المجید صاحب نمایاں ہوتے تھے۔ اس وقت کی باتیں تفصیلی طور پرتو اب یاد نہیں مگریہ ضرور یاد ہے کہ مجلس ختم ہونے پر دوبارہ ملاقات کی تفصیل بھی زیر بحث آتی تھی اور اس طرح یہ مجالس چلتی رہتی تھیں۔
تبلیغ کے سلسلے میں یہ بھی یاد آتا ہے کہ قادیان میں بڑے اہتمام سے یوم تبلیغ منایا جاتا تھا۔ اس دن وفود قادیان کے نواحی دیہات میں اس غرض سے جاتے تھے اور بالعموم اس کی رپورٹ اخبار الفضل میں شائع ہوا کرتی تھی۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہےکہ اس زمانے میں تبلیغ کی ممانعت یا زبان بندی کے کالے قوانین کا کوئی تصور نہیں تھا۔
تبلیغی واقعات لکھنے سے پہلے ایک اَور یاد کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں جب جامعہ احمدیہ احمد نگر میں ہوتا تھا تو خاکسار ایک دفعہ لاہور سے احمد نگر جارہا تھا۔ سردیوں کے دن تھے۔ مسافر بالعموم کھیسوں یا کمبلوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے تھے۔ چنیوٹ سے بس آگے نکلی تو احمدیت کی بات شروع ہوگئی۔ بس مخالفوں سے بھری ہوئی تھی۔ طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں۔ ایک شخص نے مزاح کے رنگ میں کہا کہ انگریزوں کی نوکری کرنے والے بھی نبوت کا دعویٰ کرنے لگے۔ سب مسافر اس کی اس بات پر خوش ہوکر اسے داد دے رہے تھے۔ خاکسار ان کے سامنے ایک بچہ تھا جو اتنے مجمع میں بات کرنے سے بھی ہچکچا رہا تھا۔ تاہم اس کی بات پر میں نے کہا کہ سورہ یوسف میں حضرت یوسف کی کسی بادشاہ کی نوکری کا ذکر آتا ہے۔ میری بات ماحول کے خلاف تھی ایک دم سناٹا اور خاموشی سی ہوگئی۔ پھر ایک معمر دیہاتی جو کھیس کی بُکل مارے ہوئے بیٹھا تھا، کہنے لگا:
’’بھئی سچ ہی کہتے ہیں ڈانگ کی چوٹ تو سہی جاسکتی تھی مگر چھلتر کی درد نہیں سہی جاتی۔ یہ دیکھو! چھوٹا سا بچہ بھی اتنی بڑی بات کہہ گیا ہے۔‘‘(چھلتر پنجابی میں پھانس کو اور ڈانگ لاٹھی کو کہتے ہیں)
یہ باتیں اس لیے بیان کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایسا بچپن نصیب ہوا تھا۔ اسی ماحول میں جامعہ احمدیہ اور جامعۃ المبشرین کی تعلیم بھی میسر آگئی اور آسمان احمدیت کے درخشندہ ستاروں سے کسب فیض کرنے کی سعادت ملی۔ خاکسار کی تعلیم کے بعد پہلی تقرری کراچی کی جماعت میں ہوئی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی کی جماعت کئی وجوہ سے منفرد اور نمایاں جماعت تھی۔ کراچی کے امیر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کے چھوٹےبھائی حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحبؓ تھے جو انتظامی امور کی مہارت کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی مہارت بھی رکھتے تھے۔ کراچی کے مربی حضرت مولانا عبد المالک خان صاحب تھے جو اپنی غیر معمولی جماعتی خدمات اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتے تھے۔ کراچی میں ایسے کارکن جماعتی عہدوں پر مامور تھے جو بالعموم جس باقاعدگی سے اپنے دفتروں میں جاتے تھے اسی باقاعدگی سے جماعتی کاموں میں بھی برابر حصہ لیتے تھے۔ جماعت کراچی تعداد کے لحاظ سے ایک بڑی جماعت تھی اور بالعموم انصار، خدام، لجنہ اور اطفال کے علم انعامی اس کے حصے میں آتے تھے اور خوش قسمتی سے افراد جماعت کی مستعدی اور چوکسی کی وجہ سے خدمت کے مواقع بھی زیادہ ملتے تھے۔
خاکسار کےلیے ربوہ سے باہر رہنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے خاکسار نے غیر مسلموںمیں تبلیغ کا پروگرام بنایا۔ کراچی میں اس وقت یہودی بھی پائے جاتے تھے مگر وہ تبلیغی لحاظ سے زیادہ کھلتے نہیں تھے۔ ان کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کی کوشش میں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہ پر‘مسجد’ لکھا ہوا ہے۔ اس بات پر حیرت ہوئی کہ ہم اپنی مساجد کو اس نام سے پکاریں تو ملاؤں کو بہت ناگوار گزرتا ہے،مگر یہودیوں کی عبادت گاہ پر مسجد کا لکھا ہونا ان کی ‘ غیرت’پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
خاکسار ’مسجد بنی اسرائیل‘ پہنچا،ان کے مربی سے ملاقات ہوئی۔ وہ کسی گفتگو کےلیے تیار نہیں تھے۔ میرے اصرار پر انہوں نے مجھے اپنے پریذیڈنٹ کا پتہ دیا اور کہا کہ آپ ان سے مل کر بات چیت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے جو پتہ دیا وہ ہمارے احمدیہ ہال کے قریب ہی تھا۔ میں ان کو ملنے گیا۔ پہلے تو وہ کچھ حیران سے ہوئے کہ یہ اجنبی کون اور کیوں آیا ہے۔ تاہم جب انہوں نے مجھے اپنی خوب سجی سنوری ہوئی بیٹھک میں بٹھایا تو وہاں میرے ایک پرانےجاننے والے بھی بیٹھے تھے۔ میں نے اپنی آمد کا مقصد بتایا تو ان کی بجائے میرے جاننے والے نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کہ اسے میں بچپن سے جانتا ہوں، اسے مذہب کا کچھ پتہ نہیں ہے ایک اچھا اور امیر تاجر ہونے کی وجہ سے اسے عہدیدار بنا لیا گیا ہے۔ اس یہودی نے اس بات کا کوئی برا نہ منایا بلکہ ایک طرح سے اس کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا اس سال کے آخر میں اسرائیل جانے کا ارادہ ہے وہاں سے معلومات حاصل کرکے آئوں گا پھر آپ اگر آئیں تو شاید میں آپ کے سوالوں کا جواب دے سکوں گا۔ اس کے بعد ان سے ملاقات کی نوبت نہ آئی کیونکہ انہیں تبلیغ سے بالکل کوئی دلچسپی نہ تھی۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں عیسائیوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو توریت کی بجائے اپنی دوسری کتابوں کو ترجیح دیتے اور تبلیغی لحاظ سے ان سے مدد لیتے ہیں۔ ان کے بعض فرقے تبلیغی لحاظ سے بہت مستعد ہیں مگر عام عیسائی انہیں بدعتی اور غیر مسیحی سمجھتے ہیں جیسے ’’یہوواہ وٹنسز‘‘ میں عیسائی چرچوں میں جاکر گفتگو کرتا رہا۔ اس سلسلہ میں بہت سے مسیحیوں سے واقفیت بھی ہوگئی۔
اس زمانے میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے مارٹن روڈ میں ایک فری ڈسپنسری اور دارالمطالعہ بنایا۔ عام لوگ وہاں استفادہ کےلیے آتے تھے۔ میرا بھی وہاں آنا جانا رہتا تھا۔ ایک دن میں وہاں گیا تو ہمارے بعض خدام نے بتایا کہ آج یہاں ایک عیسائی آیا تھا۔ اس نے بہت اعتراض کیے اور ہم اس کو جواب نہیں دے سکے۔ انہوں نے بتایا کہ اس نے توسورۃالبقرۃ کی پہلی آیت پر ہی بہت سے اعتراض کیے اور ہم عربی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اسے جواب نہیں دے سکتے تھے۔ بہرحال خاکسار نے کہا کہ اس سے ملاقات کی کوئی صورت نکالیں …. اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے اسی طرح تیزی سے ایک کے بعد دوسراسوال کرنا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنی تیزی کو بھول کر نارمل ہوگئے۔ باتوں باتوں میں مَیں نے انہیں بتایا کہ میں چرچ کے فلاں فلاں بشپ کو مل چکا ہوں تو اس نے پوچھا کہ آپ فلاں بشپ کو بھی ملے ہیں۔ (اس نے جو نام لیا وہ اس وقت یاد نہیں آرہا) خاکسار نےجواب دیا کہ میں نے ان کی شہرت سنی ہے اور یہ بھی کہ وہ اسلام کے متعلق اچھی معلومات رکھتے ہیں اس لیے ان سے ملنے کی خواہش تو ہے مگر ابھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ بھی اس کی ایک چال تھی کیونکہ اس نے اپنا نام لے کر ہی سوال کیا تھا اور اس کا مقصد تھا کہ اگر میں کہوں کہ ہاں میں اس سے بھی ملا ہوں تو وہ مجھے بآسانی غلط ثابت کرسکتا ہے۔ دراصل یہ صاحب مسلمانوں میں سے مرتد ہوکر اسلامی ملکوں میں رہ کرآئے تھے اور اس طرح اسلام اور عربی کے متعلق واقفیت تو رکھتے تھے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پر زندہ ثابت کرنا تو باقی عیسائیوں کی طرح ان کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔
ایک پادری صاحب اکثر خاکسار سے ملتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس کراچی نے ’’ہاکس بے‘‘ جانے کاپروگرام بنایا۔ پادری صاحب نے بھی خواہش کا اظہار کیا اور میرے ساتھ وہاں گئے۔ سمندر کے کنارے پرکراچی کے خوشحال اور آزاد منش لوگ کثرت سے گئے ہوئے تھے۔ پادری صاحب نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خیال میں یہ لوگ احمدی ہو جائیں گے۔ خاکسار نے انہیں کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ابتدائی ایمان لانے والے عام ماہی گیر تھے اگر ان سے یہ سوال کیا جاتا تو جوان کا جواب ہوتا وہی میرا جواب ہے۔
کراچی کے بے شمار واقعات ہیں مگر اختصار کی خاطر نظر انداز کرتے ہوئے ایک بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ حلقہ مارٹن روڈ میں ایک مکان میں کچھ نوجوان کرایہ پر ایک جگہ رہتے تھے ان میں چند نوجوان احمدی بھی تھے۔ وہ مختلف مسائل کے متعلق خاکسار سے پوچھتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے ساتھی نوجوانوں نےکسی مولوی صاحب کو دعوت دی ہوئی ہے،اگر آپ بھی وہاں آسکیں تو ہمارے لیے مفید رہے گا۔ خاکسار کے ساتھ ایک نوجوان پادری صاحب بھی تھے۔ وہ مولوی صاحب کسی معروف جماعت سے نہیں تھے اور ان کا کہنا یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ بھی دوسرے انبیاء کی طرح ایک نبی ہی تھے۔ ہم بلاوجہ انہیں افضل الانبیا ؐ قرار دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں خاکسار کوآنحضرت ﷺ کی فضیلت ثابت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہوئی کہ غیر از جماعت نوجوانوں کو جب معلوم ہوا کہ میرے ہم راہ ایک پادری صاحب ہیں تو وہ ان کے سامنے اسلام کی فضیلت بیان کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس میں کبھی کوئی غلطی راہ نہیں پا سکتی۔ اگر اس میں کوئی زیر یا زبر کی غلطی ہو جائے تو وہ خود بخوددور ہو جاتی ہے۔ وہ پادری صاحب کہنے لگے کہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔ میں مسلمان نہیں ہوں۔ میں ایک دوجگہ زبر کی جگہ زیر کر دیتا ہوںپھر اس قرآن کو کسی محفوظ جگہ رکھ دیتے ہیں اور جو عرصہ آپ تجویز کریں اس کے بعد دیکھ لیں گے۔ اگر آپ کے کہنے کے مطابق وہ غلطی از خود درست ہوگئی ہوگی تو میں فوراً مسلمان ہو جاؤں گا … پادری صاحب کو موقع ملا اور وہ مسیحی مذہب کی سچائی اور فضیلت بیان کرنے لگے۔ وہ نوجوان لاجواب ہوکر شرمندہ سے ہو رہے تھے خاکسار نے گفتگو میں دخل دینا چاہا تو وہ پادری صاحب خود ہی کہنے لگے کہ آپ کی بات تو شروع ہی اس طرح ہوگی کہ ’’حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں‘‘ اور میرا سارا استدلال وہیں ختم ہو جائے گا۔
کراچی میں بہائیوں کا مرکز بھی تھا۔ خاکسار وہاں اکثر جاتا تھا۔ ان سے گفتگوکا موقع بھی ملتا تھا۔ اس وقت ان کے جو اکابر تھے ان میں سے اکثر سے وہاں ملاقات ہوئی۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی جن میں بالعموم یہ بات ضرور آجاتی تھی کہ آپ لوگ قرآن مجید کی بجائے جس شریعت پر عمل کرتے ہیں اسے پوشیدہ کیوں رکھتے ہیں۔ وہ حسب موقع کوئی جواب دیتے تھے مگر اس موضوع پر انہیں لا جواب ہی ہونا پڑتا تھا۔ ایک دفعہ بہت ہی زچ ہوکر ان میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ ٹھیک ہے میں اگلے ہفتہ آپ کو ‘ اقدس’(ان کی شریعت کی کتاب) لادوں گا۔ اگلے ہفتہ وہ ایک کتاب لےکر آئے اور اپنے ہاتھ میں لیے دکھا کر کہنے لگے کہ یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق آپ اکثر سوال کیا کرتے ہیں۔ اب آپ نے یہ کتاب دیکھ لی ہے۔ اُمید ہے آئندہ آپ یہ سوال نہیں کریں گے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کتاب تو دیکھنے پڑھنے کےلیے ہوتی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر تو میں نہ اسے دیکھ سکتا ہوں نہ پڑھ سکتا ہوں۔ اس طرح تو دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے اور میرا سوال اسی طرح ہے جس طرح پہلے ہوتاتھا۔ اس پر انہوں نے بادل ناخواستہ یہ کہہ کر کتاب مجھے تھما دی کہ آپ یہاں بیٹھے بیٹھے اسے دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے کتاب دیکھ کر انہیں بتایا کہ یہ تو بمبئی کی آپ کے مخالفوں کے ہاں سے چھپی ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کی مصدقہ کتاب نہیں ہوسکتی۔ اور باتوں کے علاوہ انہوں نے پھر اپنی بات دہرائی کہ اب آپ یہ اعتراض تو نہیں کر سکتے کہ آپ کو کتاب دکھائی نہیں گئی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ جناب اب تو میرا سوال پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگیا ہے کیونکہ آپ کے ‘بااختیار شارح’ اور لیڈر عبد العباس نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس کتاب کو شائع نہیں کرنا … آپ نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجھے یہ کتاب کیوں دی ہے اور کیوں شائع کی ہے۔ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا۔ تاہم ان کی مسکراہٹ قابل دید تھی۔
کراچی کے بعد خاکسارکو ملتان میں خدمت بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کراچی میں جماعت کی مستعدی کی وجہ سے خدمت کے مواقع خوب ملتے تھے۔ ملتان کو یہاں کے مدرسوں کی وجہ سے خاص مقام حاصل ہے۔ قریباً تمام اسلامی کہلانے والی جماعتوں کے اہم مراکز اور مدارس وہاں ہیں، اس وجہ سے وہاں بھی خوب وقت گزرا۔ سب واقعات تو یاد بھی نہیں ہیں اور ویسے بھی بات لمبی ہو جاتی ہے۔ مختصر طور پر دلچسپی کے بعض امور درج ذیل ہیں:
ملتان کے دیہات کے دورہ کے سلسلہ میں خاکسار ایک گا ؤں میں گیا۔ پتہ چلا کہ وہاں ایک ہی برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ آدھا گاؤں احمدی ہے اور باقی آدھا گاؤں احمدی نہیں ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہاں ایک بڑی مسجد ہے اور ایک مولوی صاحب بھی موجود ہیں اور اگر ان کو بلایا جائے تو وہ ضرور آجائیں گے۔ نماز سے قبل ان کو بلانے کےلیے آدمی بھیجا گیا۔ ہم نماز سے فارغ ہوئے تووہ تشریف لے آئے۔ سردیوں کے دن تھے مولوی صاحب نے کھیس کی بُکل ماری ہوئی تھی۔ ہم نے ان کا استقبال کیا خاکسار نے کہا کہ آپ کو یہاں گاؤں میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ گائوں والوں کو جب بھی کوئی مشکل ہوتی ہے یا جب بھی کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے تو وہ آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ آپ کی بات کو اسلام کی تعلیم یا خدا اور رسولؐ کی بات سمجھتے ہیں۔
مولوی صاحب ان باتوں پر خوب خوش نظر آتے تھے۔ خاکسار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک ہی برادری کے لوگ رہتے ہیں احمدی تو میری بات مانتے ہیں اور دوسرےلوگ آپ کی بات مانتے ہیں(اپنے آدمیوں سے خاکسار نے پوچھا تو انہوں نے بآواز بلند کہا کہ ہم آپ کی بات ضرور مانیں گے) کیوں نہ ہم دونوں ایک معاہدہ کرلیں اورآج جمعہ کی نماز اکٹھے ایک جگہ ادا کریں۔ مولوی صاحب نے اس پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ خاکسار نے شرائط بیعت نکال لیں اور کہا کہ میں ایک ایک کرکے یہ شرائط پڑھتا جائوں گا۔ آپ کو اگر کوئی اشکال یا اعتراض ہو تو مجھے ساتھ ساتھ بتائیں تاکہ میں وضاحت کرسکوں … خاکسار ایک ایک کرکے سب شرائط پڑھ چکا، مولوی صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کوکوئی اعتراض نہیں تو ہم دونوں اس پر دستخط کرتے ہیں …مولوی صاحب کو وہاں موجود افراد میں سے بعض نے اسی طرح مولانا عبد الحکیم جوزا (مرحوم) نے بھی بااصرار کہا مگر انہوں نےمکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ آہستہ سے یہ بھی کہا کہ دو روٹیوں کا سوال ہے، آپ کیوں میری روٹیاں ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ باہر سے کوئی آوازآئی اور مولوی صاحب یہ کہہ کر اُٹھ گئے کہ مجھےکوئی بلا رہا ہے۔
ملتان کے دیہات میں دورے کے سلسلے میں خاکسار اپنے ساتھی مکرم عبد الحکیم جوزا صاحب کے ہم راہ میلسی نامی ایک قصبہ میں گیا۔ مکرم جوزا صاحب میرے ساتھی مربی تھے۔ انگریزی اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ تاہم بہت ہی سادگی اور انکساری ان کا نمایاں وصف تھا۔ بہت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے خود تو شایدکبھی نہیں بتایا تھا لیکن مجھے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بہت سادگی اور قناعت سے زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے معمولی وظیفہ میں سے بچت کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی کی اعلیٰ تعلیم کےلیے اس کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے احترام میں اَور اضافہ ہوا۔ فجزاہ اللّٰہ خیراً۔
میلسی میں ہمارے ایک دوست تھے،اگر میں غلطی نہیں کررہا تو ان کا نام نثار صاحب تھا۔ انہیں تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سکول کے ہیڈ ماسٹر نے مجھے کہا تھا کہ جب آپ کے مربی صاحب یہاں آئیں تو ان سے ملاقات کروانا … ہم جب سکول میں ان سے ملنے کےلیے گئے تو انہو ں نے وہاں باقاعدہ مناظرہ کی مجلس بنائی ہوئی تھی۔ تمام اساتذہ اور شہر کے بعض اکابر بیٹھے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے متعلق قصبہ میں مشہور ہے کہ وہ احمدی ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اس ’’غلط فہمی‘‘ کو دور کرنا چاہتے تھے اور اسی غرض سے انہوں نے ہم سے گفتگو اور شہریوں کو بلانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ان سے مختلف مسائل پر بات ہوئی۔ وہاںبڑے اہتمام سے عربی کے استاد صاحب کو بھی بٹھایا گیا تھا۔ خاکسار نے دوران گفتگو عرض کیا کہ حضورﷺ کے ارشاد
’’اِلَّااَنْ یَّکُوْنَ نَبِیًّا‘‘
سے معلوم ہوتا ہے کہ کان یکونُ تکوین میں اسی اُمت سے کسی کے پیدا ہونے اور آنے کا ذکر ہے۔ کسی غیر اُمتی یا پرانے نبی کے آنے کا ذکر نہیں ہے۔ عربی کے استاد فوراً بولے کہ قرآنی محاورہ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق کانکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی پیدا ہوتا ہے۔ نعوذ باللہ۔
موقع کی نزاکت کے لحاظ سے خاکسار نے فوراً جواب دیتے ہوئے بڑی جرأت سے کہا کہ مولوی صاحب آپ یہی عربی اپنے شاگردوں کو سکھاتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کانَکی دو قسمیں ہوتی ہیں… خدا تعالیٰ کے فضل سے مولوی صاحب بلکہ اور حاضرین پر بھی کچھ ایسا اثر ہوا کہ بات چیت کا رنگ ہی بدل گیا اور مناظرہ کی بجائے ہیڈ ماسٹر صاحب ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے بعد سارا عرصہ مولوی صاحب بالکل خاموش بیٹھے رہے۔
ملتان چھائونی میں ہمارےایک احمدی دوست دکان دار تھے۔ سفید رنگت، خوبصورت چہرہ، سفید داڑھی اور پگڑی کے اہتمام اور تبلیغ کے شوق کی وجہ سے بہت پیارے اور اچھے لگتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ہمارے علم کے بغیر اپنے ہاں گفتگو کا اہتمام کیا اور شرائط وغیرہ بھی طے کرلیں۔ جب خاکسار کو پتہ چلا تو میں نے انہیں بتایا کہ اس قسم کے پروگرام کےلیے پہلے سے علم ہونا چاہیے بلکہ باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم چونکہ اس پروگرام کی آپ کےماحول میں تشہیر بھی ہوچکی ہے لہٰذا میں حاضر ہو جائوں گا۔ شرائط میں یہ بات بھی موجود تھی کہ دونوں طرف سے 20-20آدمی موجود ہوں گے۔ وفات مسیح علیہ السلام پر بحث ہوگی۔ بحث قرآن مجید کی روشنی میں ہوگی وغیرہ۔ جب وقت مقررہ پر سب لوگ ان کے ہاں پہنچ گئے تونشست فرشی تھی، ہم بیٹھ ہی رہے تھے کہ ایک آواز آئی کہ پہلے دعا کر لینی چاہیے۔ خاکسار نے بیٹھتے ہی بلا توقف دُعا کےلیے ہاتھ اُٹھا کر بآواز بلند درود شریف پڑھ کر دعا شروع کردی۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہماری اقتدا میں دعا کرنے لگے۔
خاکسار نے اس آیت کے حوالے سے جس میں غیر اللہ کو اللہ پکارنے کا ذکر ہے پوچھا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کرکے پکارا جاتا ہے ؟ و ہ صاحب اپنی باری پر اور باتوں کا ذکر تو کرتے رہے مگر اس سوال کے جواب سے گریز کرگئے۔ خاکسار نے دوسری اور پھر تیسری باری پر بھی اپنا سوال دہرایا اور باصرار ان سے جواب پوچھا تو ان کو یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو غلط طور پر اللہ پکارا جاتا ہے۔
ہمارے میزبان(ان کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا) بہت خوش تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جس طرح آپ نے دعا شروع کی تھی،آدھا کام تو اس وقت ہی ہوگیا تھا اور یہ بھی آج پتہ چلا ہے کہ احمدی علم کلام سے لوگ کس طرح لاجواب ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔
خاکسار کو جب ضلع ملتان میں خدمت کا موقع ملا،تواس وقت یہ ضلع بہت بڑا تھا اور بورے والا بھی اسی ضلع میں تھا۔ بورے والا اپنی منڈی اور گندم کا علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اچھا خوش حال علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ خاکسار وہاں گیا تو ہمارے میزبان باتوں باتوں میں پوچھنے لگے کہ آپ کو شیعہ مذہب کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہے۔ مجھے اس سوال سے کچھ تعجب ہوا مگر تفصیل کاعلم ہونے پر پتہ چلا کہ وہاں بعض ایسے شیعہ اصحاب موجود ہیں جو گفتگو کے ماہر ہیں اور اپنی باتوں سے لاجواب کردیتے ہیں۔ خاکسار کے کہنے پر ان کو پیغام بھیج کر بلوایا گیا۔ ان سے بہت خوشگوار ماحول میں بات شروع ہوئی لیکن ابھی گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ ان کو اپنی کسی کمی کا احساس ہوا اور انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ آئندہ کسی مقررہ تاریخ پر گفتگو ہوگی اور ساری رات بات چیت ہوگی۔ ہم اس کے لیے تیاری کرلیں گے، آپ بھی تیاری سے آئیں۔ بہرحال ان سے تاریخ وغیرہ کا تعین ہوگیا۔ مقررہ تاریخ پر خاکسار اور مکرم مولانا عبد الحکیم صاحب بورے والا پہنچ گئے۔ احباب ایک ایک کرکے آنے لگے۔ شیعہ احباب میں دو صاحب جو نمایاں تھے وہ ماموں بھانجا تھے۔ بھانجا صاحب پہلے آگئے اور شاید اپنی تیاری کی وجہ سے یا ہوشیاری کی وجہ سے انہوں نے ماموں کی آمد سے پہلے ہی گفتگو شروع کردی اور کہنے لگے کہ ساتھی اور صحابی تو کوئی بھی ہو سکتا ہےمگر وصی اور خلیفہ تو کوئی قریبی ہی ہوسکتا ہے جیسے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑ کے خلیفہ حضرت ہارون ؑکا ذکر ہے۔
خاکسار نے جواباً ان کی تعریف کی کہ انہوں نے بات قرآن مجید کی روشنی میں کی ہے جبکہ عام طور پر روایات سے باتوں کو الجھادیا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کی یہ دلیل بہت مضبوط اور قوی ہوتی اگر حضرت ہارون ؑہی حضرت موسیٰ ؑکے خلیفہ ہوتے حالانکہ حضرت ہارون تو حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے اور حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع تھے…اس بات پر وہ کچھ حیران سےہوگئے۔ اتنی دیر میں ان کے ماموں بھی آچکے تھے۔ وہ میری بات دہرا کر کہنے لگے ’’ماموں یہ تو ایسے کہتے ہیں ‘‘۔ ماموں بھی اس بات سے بھانجے جتنے ہی واقف معلوم ہوتے تھے۔ وہ گفتگو جو ان کے کہنے کے مطابق رات بھر ہونی تھی، چند منٹوں میں ختم ہوگئی اور بورے والا کے مذہبی حلقوںمیں بعد میں بھی اس کا چرچا ہوتا رہا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر شکر ادا کرتے ہوئے یہ مجلس اختتام کو پہنچی۔
ملتان شہر میں ہماری مسجد کے قریب ہی ایک صاحب کی دکان تھی۔ ہم انہیں حیدری صاحب کے نام سے جانتے تھے۔ وہ ہمارے خادم سید عبد السبحان ناصر صدیقی کے دوست تھے۔ کبھی کبھی گفتگو کےلیے ہماری مسجد میں بھی آجاتے تھے۔
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے ایک گمنام سپاہی یعنی سید عبد السبحان صاحب کا تھوڑا تعارف کروادیا جائے۔ ناصر صاحب سہارنپور انڈیا کے رہنے والے تھے۔ بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے ان کی سننے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی، باوجود اس معذوری کے اچھی مذہبی معلومات رکھتےتھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ بعض دفعہ اسی شوق کی وجہ سے ان کی پٹائی بھی ہوئی مگر وہ راضی برضا رہتےاور تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ ہر وقت لٹریچر ساتھ رکھتے تھے۔ ان کا حلقہ واقفیت اسی وجہ سے خاصا وسیع تھا۔ بالعموم اپنے گلے میں ایک سلیٹ لٹکائے رکھتے تھے اور بات چیت میں اس سے مدد لیتے تھے۔ خاکسار نے اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ کوشش کی تھی کہ اگر ان کا علاج ممکن ہو یا کوئی آلہ ان کےلیے مفید ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ اس سلسلہ میں خاکسار نے بعض احباب سے لندن میں رابطہ بھی کیا تھا۔ مگر افسوس کہ ان کاعلاج نہ ہوسکا۔ خاکسار ملتان سے تبادلہ کے بعد مختلف جگہوں پر رہا۔ وہ ربوہ بھی ملنے آتے تھے۔ جوانی میں ہی بیمار ہوکر وفات پاگئے۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
خاکسار ان کی بیماری کے وقت ان کے پاس نہیں تھا اورنہ ہی کوئی خدمت کرسکا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کا کوئی نزدیکی رشتہ دار بھی نہیں تھا
اے خدا برتربت او ابر رحمت ہا ببار
مکرم حیدری صاحب بہت پکے شیعہ تھے۔ اپنے مذہب کی تائید میں کوئی بات سن یا پڑھ لیتے تو بڑے جوش سے ملنے کےلیے آتے مگر جب ان کو مُسکت جواب ملتا تو خاموش ہو جاتے۔ مگر ان کے چہرے کارنگ بدل جاتا اور بہت غصے میں نظر آنے لگتے،مگر یہ وقتی کیفیت ہوتی کیونکہ پھر پہلے کی طرح ان سے ملاقاتیں شروع ہو جاتیں۔
ایک دفعہ آیت مباہلہ پر کچھ سوچ کر آئے، کہنے لگے کہ اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ پنجتن پاک ہی پکے مومن تھے اسی لیے حضور ﷺ نے اپنی چادر میں لیا۔ خاکسار نے موقع کے مطابق ان سے کہا کہ آپ نے جن کا ذکر کیا ہےوہ بہت محترم اور مکرم و معزز ہستیاں ہیں، مگر آیت میں تو جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بحث کو ختم کرنے کےلیے میں آپ کی تشریح کو تسلیم کرتا ہوں مگر خدا تعالیٰ نے تو کم از کم 3+3+3 =9آدمی لانے کا ذکر فرمایاتھا۔ پانچ کا آپ نے ذکرکردیا ہے آپ کوئی بھی اورنام لے لیں تو میں تسلیم کرلوںگا۔ حیدری صاحب پریشان اور خاموش ہو گئے۔
ایک مرتبہ ان کا پیغام ملا کہ وہ کسی عالم دین کے ہم راہ آرہے ہیں۔ ہم نے ان کو خوش آمدید کہا۔ ان کے ہم راہ ایک نوجوان تھے جو غالباً نجف اشرف سے کوئی ڈگری اور ٹریننگ لےکر آئے تھے مگر انہیں کوئی تجربہ نہ تھا۔ چند منٹ کی گفتگو کے بعد خود حیدری صاحب نے بھی یہ بات محسوس کی اور کوشش کی کہ وہ خود ہی بات چیت کریں، جس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حسن اتفاق سے ایک عالم دین سے استفادہ کا موقع ملا ہے اس لیے آج تو آپ خاموش ہی رہیں۔ آپ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اس دن حیدری صاحب عام دنوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی زچ نظر آئے۔
حیدری صاحب ایک دفعہ ملے تو بہت خوش نظر آرہے تھے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ ہجرت کے وقت آنحضرتﷺ نے حضرت علی ؓکو اپنا قائم مقام بنایا،ان کو امین سمجھا اور اپنے بستر پر سونے کی سعادت بخشی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ یہ آپ نے کوئی نئی بات نہیں کی اور حضرت علی ؓکی فضیلت کا میں قائل ہوں۔ آپ نے جو فضیلت بیان کی ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں ہے مگر قرآن مجید نے جس فضیلت کو قابل ذکر سمجھا وہ حضرت ابوبکر ؓکی سفر ہجرت میں شمولیت تھی۔ ان سے کافی مفصل بات ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہجرت کی مشکلات دیکھ کر تو حضرت ابو بکر ؓرونے لگ گئے تھے۔ ان کویہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی اور خاکسار نے عرض کیا کہ وہاں پر تو حضرت ابوبکر ؓ کو ایک بے مثال فضیلت حاصل ہوئی جس میںوہ ہر طرح منفرد تھے کیونکہ قرآن نے تو کہا کہ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا غم نہیں کرو خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ ایسی معیت کا اور کسی کےلیے قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے۔ مہاجروں کو ملنے والی قرآنی بشارتوں کا بھی ذکر آیا۔
حیدری صاحب کاذکر کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے تاہم ایک اور دلچسپ بات یاد آرہی ہے اسے بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک دفعہ ان کا پیغام آیا کہ میں فلاں وقت ملنے آئوں گا اور میرے ساتھ کوئی اَور صاحب بھی ہوںگے۔ حسب معمول ان کو عزت و احترام سے بٹھایا گیا۔ جو صاحب ان کے ساتھ تھے ان کو دیکھ کر میں فوراً ہی انہیں پہچان گیا مگر وہ تو بالکل بھی نہیں جانتے تھے کہ میں ان کو پہچانتا ہوں۔ دراصل یہ صاحب قادیان میں رہ چکے تھے۔ ان کو اپنے نام کے ساتھ بعض اور احراری اکابرین کی طرح فاتح قادیان لکھنے کا شوق تھا۔ اس وقت وہ دیکھنے میں ایک کھدر پوش سادہ دیہاتی لگ رہے تھے مگر دراصل وہ احراریوں کےایک مشہور عالم اور مناظر محمد حیات صاحب تھے جو بے ریش تھے اور عام طور پر ’’حیات کھودا‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے بڑی ٹھیٹھ پنجابی بولنے لگے۔ میں نے ان سے کہا کہ حیدری صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ اثنا عشری خیالات کے ہیں۔ آپ بھی تو شیعہ ہوںگے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں میں سنی ہوں مگر ختم نبوت کے معاملہ میں ہم ایک ہیں۔ وہ اپنی چادرکےکونے میں ’’تشحیذ الاذہان‘‘ کا ایک پرچہ اس طرح باندھ کر لائے ہوئے تھے جیسے چادر کے کونے میں گڑ یا شکر باندھی ہوئی ہو۔ وہ اس پرچہ سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توکوئی دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا۔ بعد میں لوگوں نے ان کی طرف یہ عقیدہ غلط طور سے منسوب کردیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قسم کے تمام سوالوں اور اعتراضات کامکمل جواب ’’ ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ میں دے چکے ہیں۔ وہی جواب ان کو دیے گئے۔ تاہم حیدری صاحب کی خوشی کی کوئی بات نہ ہوسکی۔
خاکسار کو ضلع جہلم میں خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ تاریخ احمدیت میں جہلم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر جہلم، مقدمہ جہلم اور حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ کے اخلاص و محبت کے واقعات کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل ہے۔ جہلم کے خواجہ صاحبان اور سیٹھی صاحبان میں سے بعض افراد کو میں قادیان کے زمانہ سے جانتا تھا۔ سب احباب نے خوب تعاون بلکہ احترام کا سلوک کیا اور اس طرح وہاں کا قیام بھی یادگار بن گیا۔
یہاں صرف ایک بات کا ذکر کر دیتا ہوں۔ یہ بتانے کی تو شاید ضرورت نہیں کہ سفر جہلم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف مخلوق کا معجزانہ رجوع ہوا تھا۔ اسی وجہ سے وہاں مخالفت بھی بہت تھی۔ شہر کی ایک مرکزی جگہ پر ایک خوبصورت بڑی مسجد تھی۔ وہاں کے مولوی صاحب جماعت کی مخالفت میں نمایاں ہونے کی کوشش میں رہتے تھے اور کبھی کبھی اپنے وعظوں اور درسوں میں جماعت کی مخالفت شروع کردیتےتھے اور اپنے جھوٹے الزامات دہراتے رہتے تھے۔ خاکسار اپنے احباب اور عام لوگوں کو حقیقت حال سمجھانے کےلیے اپنی مسجد میں ان کے سوالوں کا جواب بیان کردیا کرتا تھا۔ مولوی صاحب نے مخالفت کو آگے بڑھانے کےلیے ایک پمفلٹ کی شہر میں خوب اشاعت کی۔ ہماری طرف سے اظہار الحق کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا گیا جس میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد حسب ضرورت ایک اور ٹریکٹ اظہار الحق نمبر 2بھی شائع کیا گیا۔
مولوی صاحب کو یہ بات کچھ عجیب لگی اس طرح برابر جواب ملنے کی غالباً وہ توقع بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مولوی صاحب نے ‘معزز لوگوں’کا ایک وفد تیار کیا اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے احتجاج کرنے کےلیے گئے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ہمیں بھی یاد کیا۔ خاکسار اور وہاں کے اس وقت کے امیر مولوی عبد الکریم صاحب لون ڈی سی صاحب کو ملنے گئے۔ وہاں ان کے میز پر ’’ اظہار الحق‘‘ ٹریکٹ پڑے تھے اور اس میں کئی جگہ سرخ قلم سے نشان بھی لگے ہوئے تھے جو مولوی صاحب نے افسر مذکور کو دکھانے کےلیے نمایاں کیے ہوئے تھے۔ خاکسار نے اس ٹریکٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہر وہ شخص جو آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کا منتظر اور معتقد ہے وہ ‘ختم نبوت’کا منکر ہے۔ مولوی صاحب اس پر بہت برہم تھے کہ ہمیں منکر ختم نبوت کہا گیا۔ اس پر تھوڑی دیر بحث ہوئی مگر ڈی سی صاحب اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک ضلعی پولیس آفیسر نے کہا کہ ہمیں مذہبی معاملات کا زیادہ علم نہیں ہے۔ ہمیں تو قانون کی پابندی سے غرض ہے اور یہ بھی کہ علاقے میں امن و امان رہنا چاہیے۔ اس لیے آپ کے درس اور وعظ کی آواز مسجد سے باہر نہیں آنی چاہیے… مولوی صاحب نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ بہت غصہ اور ناراضگی سے اپنےساتھیوں کو کہا کہ اُٹھو اُٹھو ہم واپس جارہے ہیں۔ ہم شکایت لےکر آئے تھے لیکن ہمیں مجرم سمجھا جارہا ہے… پولیس آفیسر اچھے سمجھدار لگتے تھے انہوں نے مولوی صاحب سے بڑے احترام سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں آرام سے تشریف رکھیں۔ ہم دونوں فریق کو برابر ایک ہی بات سمجھا رہے ہیں۔ جب مولوی صاحب ان کے کہنے پر بیٹھ گئے تو راجہ صاحب (پولیس آفیسر) کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ بہت غیرت منداور بہادر آدمی لگتے ہیں۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نہتے اور قانون پسند لوگوں کے سامنے تو بہت بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں، مگر آپ کی غیرت اور بہادری اس وقت کہاں تھی جب ہندوئوں نے کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا اوروہاں سے مسلمان عورتوں کو اغوا کرلیا گیا تھا اور مسلمانوں کا ہر لحاظ سے بہت نقصان ہوا تھا… مولوی صاحب اس بات کا کیا جواب دیتے۔ شکایت کرنے گئے مگر شرمندہ ہوکر واپس آئے۔ یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور تبلیغ سے روکنے اور شعار اسلامی کے استعمال سے منع کرنے کا بدنام زمانہ کالا قانون ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ مخالفت تو ضرور ہوتی تھی مگر انصاف اور قانون کی پابندی نسبتًا بہتر تھی۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں میں تمام لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ سینکڑوں دیہات ایسے تھے جہاں ایک ہی مسجد میں احمدی اور دوسرے لوگ باری باری نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔ شادی،بیاہ، رشتہ داریاں باہم برابر سطح پر تھیں اور یہ بات کبھی ناگوار نہیں ہوتی تھی۔ گائوں کی کسی بچی کی شادی ہوتی تو سب لوگ اسے اپنی بچی سمجھ کر رخصت کرتے۔ ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ جب یہ کہا جاتا تھا کہ ہمیں احمدیوں کے عقائد سے اختلاف ضرور ہے مگر یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ ہر وہ دردمند مسلمان جو غیر مسلموں کو ان کے اسلام پر اعتراضات کا جواب دینا چاہتا تھا،وہ احمدی علم کلام سے استفادہ کرتاتھا۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ مسیحیوں یا ہندوؤں کے مناظرہ کےلیے قادیان سے علماء کو بلایا جاتا اور اس طرح اِسلام کے دفاع کا جہاد کیا جاتا اور احمدی مناظروں کی کامیابی اسلام اور مسلمانوں کی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔ (خاکسار بیان تو کچھ اور کررہا تھا مگر ضمنی طور پر یہ بات درمیان میں آگئی ہے)
شیعہ احباب سے ملاقات کے بعض واقعات درج کرچکا ہوں۔ یہاں ایک اور بات یاد آگئی جو مفید اور دلچسپ ہونے کی وجہ سے یہاں ذکر کررہا ہوں۔
تنزانیہ (مشرقی افریقہ) میں ٹبوراایک مشہور پرانا قصبہ ہے۔ حضرت شیخ مبارک احمد صاحب جو پہلے احمدی مبلغ تھے انہوں نے اسی جگہ کو اپنا پہلا مرکز بنایا تھا۔ وہاں محرم کے دنوں میں ایک ذاکر صاحب تشریف لائے۔ خاکسار ان سے ملنے گیا ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہی۔ خاکسار نے ان کی ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت امام حسین علیہ السلام کے متعلق ارشادات بھی پڑھ کر سنائے۔ ایک دن خاکسار ان سے ملنے گیا ان کا ایک اور ملاقاتی وہاں بیٹھا تھا اور مولوی صاحب اپنے بعض کارناموں کا ذکرکر رہے تھے۔ ’’ہم کسی کے پیچھے نہیں پڑتےلیکن اگر کوئی جھوٹا ہمارے پیچھے پڑنے کی کوشش کرے تو اسے گھر تک چھوڑ کر آتے ہیں ‘‘ اپنی بعض تصانیف کا بھی ذکر کیا۔ ان کے اس موڈ کو دیکھ کر خاکسار نے عرض کیا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ایک شیعہ عالم سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔ میری بعض الجھنیں ہیں امید ہے آپ ان کوسلجھا سکیں گے۔ مولوی صاحب نے بڑی فراخ دلی اور بشاشت سے جواب دینے کا وعدہ کیا۔
خاکسار نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ حضرت امام حسینؓ کوفہ کیوںتشریف لے گئے تھے؟ مولوی صاحب ذاکروں والی روایتی تقریر کرنے لگے۔ خاکسار نے معذرت کرتے ہوئے ان کی قطع کلامی کی اور کہا کہ یہ تقریریں تو میں بہت سن چکا ہوں لیکن میرےذہن میں تو حضرت امام حسینؓ کے وہ الفاظ آرہے ہیں جو کربلا میں روکے جانے پر آپ نے فرمائے تھے۔ آپ نے اپنے مخالفوں کو فرمایا تھا کہ
نمبر1مجھے یزید کے پاس جانے دو۔
نمبر 2 مجھے واپس مکہ جانے دو۔
نمبر 3مجھے سرحد پر جانے دو میں وہاںجہاد میں شامل ہو جاؤں گا۔
یہ باتیں شیعہ اور سنی مسلمات میں سے ہیں۔ ان سے تو کہیں بھی یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آپ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے گئے تھے۔ آج کل ہمیں ذاکر صاحبان جو باتیں بتاتے ہیں وہ تاریخی حقائق کے خلاف ہیں۔
دوسری الجھن خاکسار نے یہ پیش کی کہ شیعہ لٹریچر اور ذاکر صاحبان کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ سے حضرت امام حسینؓ کو ہزاروں کی تعداد میں خطوط ملے تھے،جن میں حضرت امام کو وہاںبلانے کی دعوت دی تھی اور ان کی تائید و تصدیق کا وعدہ کیا تھا۔ مولوی صاحب نے اس امر کو تسلیم کیابلکہ زیادہ مدلل طریق پر بتایا کہ واقعی ہزاروں لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی۔ خاکسار کے پوچھنے پر انہوںنے کوفہ کے باسیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ کوفہ کے وہ شیعہ جنہوں نے حضرت امام معصوم و مظلوم کو دعوت دی تھی انہوں نے ہی آپ کامقابلہ کیا۔ اور آپ کی اتنی مخالفت کی جو حضرت امام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر منتج ہوئی چونکہ وہ کوفیوں کی امداد، کوفیوں کی تعداد کے متعلق اسی مجلس میں اقرار کرچکے تھے اس لیے انہیں اس بات کا جواب دینے میں کافی دقت ہو رہی تھی اور بالآخر انہیں خاموشی سے یہ بات تسلیم کرنی پڑی۔
خاکسار نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ میدان کر بلا کے لرزہ خیر واقعات جو آج بھی اس طرح بیان کیے جاتے ہیں جیسے کوئی آنکھوں دیکھا حال بیان کررہا ہو، ان واقعات کو بیان کرنے والا پہلا راوی کون ہے۔ مولوی صاحب نے فوراً حضرت زینب ؓکا نام لیا،جس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت زینبؓ ایک پردہ نشین خاتون تھیں اور وہ بہرحال اپنے خیمہ میں ہی موجود ہوںگی۔ دوسرا ممکن راوی امام زین العابدین تھے جو اپنی شدید بیماری کی وجہ سے میدان میں نہیں جاسکے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی ان واقعات کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر تھے اور ان حالات سے پتہ چلتا ہے کہ واقعات جو ہمارے سامنے بیان کیے جاتے ہیں وہ بعد میں بیان کیے گئے اور یقیناً مخالفین کے لشکر میں سے ہی کسی نے بیان کیے ہوں گے…جیسا کہ خاکسار بیان کرچکا ہے وہاں ایک صاحب پہلے سے بیٹھے تھے انہوں نے ٹبورا کے مذہبی حلقوں میں یہ بات خوب مشہور کی کہ ’’مرزائی کی کسی بات کا مولوی صاحب جواب نہ دے سکے‘‘ یہاں یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت امام حسینؓ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار سمجھتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق حضرت امام کے موقف کو ہی صحیح اور درست سمجھتی ہے اور یزید اور اس کے ساتھیوں کو ظالم اور فسادی مانتی ہے۔
٭…٭…٭