میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر ِقلب ہو جاتی ہے
مولوی سید محمود شاہ صاحب نے جو سہار نپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور جب آپ نماز مغرب سے فارغ ہو کر شہ نشین پر اجلاس فرماہوئے۔ یہ عرض کیا کہ میں نے آج تحفہ گولڑویہ اور کشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں۔ میں ایک امر جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر چہ وہ فروعی ہے لیکن پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں،لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے۔ اس پر حضرت اقدس ؑنے فرمایا:
اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں۔ اور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندو ستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں۔ گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔ اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق اُنس اور سرور بڑھتا ہے۔ مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضورِ قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لُطفی پیدا ہوتی ہے۔ میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں،بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔ عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضورِ قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لیے اُمُّ الادعیہ
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ
دعا مانگی جاتی ہے۔ انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اِقَامُ الصَّلٰوۃ نہ کرے۔
اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ
اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص اِقَامُ الصَّلٰوۃ کرتے ہیں تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں۔ نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اُسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا۔ ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے۔ اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی ا سے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا۔
مومن کو ہمیشہ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں۔ مگر نماز کے بعد جو دعائوں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے۔ بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے۔ میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوار و یہ بھی دعا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں۔ پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں۔ کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا۔ اس کایہی سبب ہے کہ وہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی نمازوں کے لیے ویلآیا ہے۔ دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جوہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے پھینک دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ اوّل اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوںکو بھی سنبھالے۔ اس لیے نما زکو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے۔
سائل:۔ الحمد شریف بیشک دعا ہے مگر جن کو عربی کا علم نہیں ان کو تو دعا مانگنی چاہیے۔
حضرت اقدسؑ:۔ ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطےکی طرح مت پڑھو۔ سوائے قرآن شریف کے جو ربِّ جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھیں۔ نماز بابرکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو۔ اس لیے ہرشخص کو جو عربی زبان نہیں جانتا ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعائوں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے۔ ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں۔ اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نما زکے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں۔ اور ہم بھی کر لیتے ہیں اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں۔ مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ ربُّ العزّۃ میں عرض کرنا چاہیے۔ میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نما زکا تعہد کرو۔ جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو۔ فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ باقی نوافل اور سُنن کو جیسا چاہو طُول دو۔ اور چاہیے کہ اس میں گریہ وبکا ہو تاکہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے۔ نماز ایسی شے ہے کہ سیّئات کو دور کر دیتی ہے جیسے فرمایا
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود : 115)
نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے۔ حسنات سے مراد نما زہے۔ مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکّار سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے،کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتّب نہیں ہوتا۔ نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا۔ آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے۔ اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے۔ پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر ِقلب ہو جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد3صفحہ443۔446۔ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭