نماز خاص خزینہ دعائوں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے
(گزشتہ سے پیوستہ)آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکّار سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے،کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتّب نہیں ہوتا۔ نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا۔ آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے۔ اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے۔ پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر ِقلب ہو جاتی ہے۔ مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نما زپڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور روبدنیا اور سِفلی زندگی میں نگونسار ہیں۔ اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے؟ اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے۔ طبیعتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں۔ جیسے اگر ہندو کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چُھو جائے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا۔ زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں۔ اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں۔ جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں۔ یہ بدعت نہیں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو اُن لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی اسی لیے ان کی ترقیات جلدی ہوئیں۔ لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے۔ ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا۔ اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے۔ یاد رکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز۔ صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں۔ یہ قرب کی کنجی ہے۔ اسی سے کشوف ہوتے ہیں۔ اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں۔ یہ دعائوں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں۔ ہم دعائوں سے انکار نہیں کرتے۔ بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعائوں کی قبولیت پر ایمان ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے
اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 61)
فرمایا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایا۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے۔ آپ سے التزام ثابت نہیں ہے۔ اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی۔ تقاضائےوقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی۔ اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ کا سارا ہی وقت دعائوں میں گذرتا تھا۔ لیکن نماز خاص خزینہ دعائوں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے۔ اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کرے اَور طرف توجہ نہ کرے۔ کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص ذوق اور حضورِ قلب کے ساتھ نما زپڑھتا ہے تو پھر خارج نماز بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے۔ ہم تقدیم نما زکی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے۔ مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بُعد ہو گیا۔ مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینانِ قلب پاتا ہے،کیونکہ نماز میں اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اپنی عبودیت کا اقرار، استغفار، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود۔ غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں موجود ہیں۔ ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔ جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے۔ بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں۔ مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں کہتے جاتے ہیں۔ جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں۔
عربی کی بجائے اپنی زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں
سائل : ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نما زاپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیے۔
حضرت اقدسؑ: وہ اور طریق ہوگا۔ جس سے ہم متفق نہیں۔ قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور ربّ جلیل کا کلام ہے۔ اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ہم نے تو ان لوگوں کے لیے دعائوں کے واسطے کہا ہے جو اُمّی ہیں۔ اور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کرسکتے۔ ان کو چاہیے کہ اپنی زبان میں دعا کر لیں۔ ان لوگوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ فتح محمد ایک شخص تھا۔ اس کی چچی بہت بڈھی ہو گئی تھی۔ اس نے کلمہ کے معنے پوچھے تو اس کو کیا معلوم تھا کہ کیا ہیں۔ اس نے بتائے تو اس عورت نے پوچھا کہ محمؐد مرد تھا یا عورت تھی۔ جب اس کو بتایا گیا کہ وہ مرد تھا،تو وہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگی کہ پھر کیا میں اتنی عمر تک بیگانے مرد ہی کا نام لیتی رہی؟
یہ حالت مسلمانوں کی ہوگئی ہے۔
مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امر وہی نے جب حضرت حجۃاﷲؑ تقریر ختم کر چکے تو مستفسر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ صاحب سفر السعادت نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ نماز کے بعد دعا کی حدیث ثابت نہیں۔
(ملفوظات جلد3صفحہ445۔448۔ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭