سعداللہ لدھیانوی کی ہلاکت…نمونیا پلیگ سے
ہر قدم پر میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں
ہر عدُو پر حجتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کی بگڑی ہوئی دینی حالت کو ازسرنودرست کرنے اوراسلام کوایک دفعہ پھردنیامیں مضبوط بنیادوں پرقائم کرنے کے لیے حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام کومسیح موعوداورمہدی معہودکے طورپرمبعوث کیا۔ آپ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں قرآن مجید،احادیث نبویہؐ اوربزرگانِ امت کے اقوال پیش کیے۔ 80سے زائدکتب شائع فرمائیں۔
تاہم مسلمانوں کی اکثریت نے آپ کے دعویٰ نبوت کوماننے سے انکارکردیا۔ اورآپ کے ماننے والوں کونفرت اور حقارت سےدیکھا۔اورخصوصاًبعض ممالک میں ظلم اوربربریت کابازارگرم کردیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے خداتعالیٰ سے علم کی بنیاد پر اور آنحضورﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق اپنے آپ کو سب مذاہب کے ماننے والوں کے لیے حَکَم قرار دیا۔ اس طرح آپ کےخلاف تمام مذاہب کی طرف سے مخالفت کاایک شوربرپاہوگیا۔ مختلف مذاہب کے عالم جوکہ عام طورپرایک دوسرے کے شدیدمخالف ہوتے ہیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مخالفت اوردشمنی میںمتحدہوگئے اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایذارسانی کے منصوبے بنانے لگا۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء اورسجادہ نشین آپؑ کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے۔ اورآپ پرکفرکے فتوے لگانے لگے۔ اس تکفیربازی کے فتووں اور غلیظ مشغلوں کے خاتمہ کی خاطر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ملک کے کئی علماء اورسجادہ نشینوں کے نام لے کران کومباہلے کی دعوت دی تاکہ حق اورباطل میں فیصلہ ہوسکے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اسی نے مجھے حکم دیاہے کہ تا مَیں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں تاجوراستی کادشمن ہے وہ تباہ ہوجائے اورجواندھیرے کوپسندکرتاہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے۔ پہلے مَیں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اورنہ چاہا کہ کسی پربددعاکروں۔ عبدالحق غزنوی ثم ّامرتسری نے مجھ سے مباہلہ چاہا مگرمَیں مدت تک اعراض کرتارہا۔ آخراس کے نہایت اصرارسے مباہلہ ہوامگرمَیں نے اس کے حق میں کوئی بددعانہیں کی لیکن اب مَیں بہت ستایاگیااوردکھ دیاگیامجھے کافرٹھہرایاگیامجھے دجال کہاگیا۔ میرانام شیطان رکھاگیا۔ مجھے کذاب اورمفتری سمجھاگیا۔ مَیں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یادکیاگیا۔ مَیں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکاراگیا۔ میری تکفیرپرآپ لوگوں نے ایسی کمرباندھی کہ گویاآپ کوکچھ بھی شک میرے کفرمیں نہیں۔ ہریک نے مجھے گالی دینااجرعظیم کاموجب سمجھااورمیرے پرلعنت بھیجنااسلام کاطریق قراردیاگیا۔ پران سب تلخیوں اوردکھوں کے وقت خدامیرے ساتھ تھا…سواب اُٹھواورمباہلہ کے لئے تیاہوجاؤ۔‘‘
(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ64-65)
پھرحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اب مَیں پھراپنے کلام کواصل مقصد کی طرف رجوع دے کران مولوی صاحبوں کانام ذیل میں درج کرتاہوں جن کومَیں نے مباہلہ کے لئے بلایاہے اورمَیں پھران سب کواللہ جل شانہٗ کی قسم دیتاہوں کہ مباہلہ کےلئے تاریخ اورمقام مقررکرکے جلدمیدان مباہلہ میں آویںاوراگرنہ آئے اورنہ تکفیراورتکذیب سے بازآئے توخداکی لعنت کے نیچے مریں گے۔ ‘‘
(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ 68تا69)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے ان معاندین کے ناموں پر مبنی جنہوں نے آپ کو کافر،مفتری،کذاب اوردجال کہا انجام آتھم میںایک فہرست شائع فرمائی۔ اس فہرست میں ایک نام ’’سعد اللہ نو مسلم مدرس لدھیانہ ‘‘صفحہ نمبر70کی پہلی سطرکے آغازپر لکھاہے۔
سعد اللہ لدھیانوی وہ شخص ہے جس نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے معاندین اورمخالفین میں سے آپؑ کے خلاف سب سے زیادہ گندی زبان استعمال کی۔ ماسٹرسعداللہ لدھیانوی جولدھیانہ کارہنے والاتھا۔ یہ شخص کسی قدرعربی سے بھی واقف تھا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی مخالفت میں انتہائی قابل نفرت اور گندی زبان استعمال کرتا تھا۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اس کی بدگوئی اوربدزبانی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’جب منشی سعداللہ لدھیانوی بدگوئی اوربدزبانی میں حدسے بڑھ گیااوراپنی نظم اور نثرمیں اس قدراُس نے گالیاں دیں کہ مَیں خیال کرتاہوں کہ پنجاب کے تمام بدگودشمنوں میں اول درجہ کاوہ گندہ زبان مخالف تھا۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ435)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’…میں باورنہیں کرسکتاکہ جب سے دنیاپیداہوئی ہے کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اورمرسل کودی ہوں جیساکہ اُس نے مجھے دیں۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ436)
اس نے ایک کتاب ’’شہاب ثاقب برمسیح کاذب‘‘ بھی لکھی تھی جس کے معنی ہیں کہ اس جھوٹے مسیح پرآگ پڑے گی۔ اس نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نسبت پیشگوئی کی تھی جس کے فارسی زبان میں دواشعاردرج ذیل ہیں۔
اخذ یمین وقطع وتین است بہر تو
بے رونقی و سلسلہ ہائے مزوّری
اکنون باصطلاح شما نام ابتلا است
آخر بروزِ حشر و بایں دار خاسری
ان اشعارمیں سعداللہ لدھیانوی نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو مخاطب کرکے لکھاکہ
’’خداکی طرف سے تیرے لئے مقدرہوچکاہے کہ خداتجھے پکڑے گااورتیری رگ ِجان کاٹ دے گا۔ تب تیرے مرنے کے بعدیہ جھوٹاتیراسلسلہ تباہ ہوجائے گااوراگرچہ تم لوگ کہتے ہوکہ ابتلا بھی آیاکرتے ہیںمگرآخرتوحشرکے دن اورنیزاس دنیامیں زیاں کاراورنامرادمرے گا‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ448)
اس کےبعد
آیتلَوۡتَقَوَّلَ عَلَیۡنَا
لکھ کرحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو مخاطب کرکے کہتاہےکہ توہرجگہ ذلت پائے گااوراس جہان میں اوراُس جہان میں تیرے لئے عزت نہیں۔
سعداللہ لدھیانوی کی بدزبانی روزبروزبڑھتی چلی گئی۔ آخراس نے 16؍ستمبر1894ء کوحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق ایک نہایت ہی گندی اورناپاک تحریرشائع کی۔ جس میں اُس نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو(نعوذباللہ)ابترلکھا۔ اس کی اس کارروائی کوحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نہایت رنج وقلق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضورمیں پیش کرکے دُعاکی اورجوکچھ اللہ تعالیٰ نے اُس کی نسبت آپؑ پرانکشاف فرمایااسے آپ نے اپنی تصنیف’’انوارالاسلام‘‘ کے مشمولہ اشتہاروں میں سے تیسرے اشتہارمیں درج فرمایا جوتین ہزار روپے انعام کی شرط سے شائع کیاگیا۔ اس میں حضور ؑسعد اللہ لدھیانوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حق سے لڑتا رہ۔ آخر اے مردار دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگااے عدوّاللہ تومجھ سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے لڑرہاہے بخدامجھے اسی وقت ۲۹؍ستمبر۱۸۹۴ء کوتیری نسبت یہ الہام ہواہے۔ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالۡاَبۡتَرُ۔ ‘‘
(انوارالاسلام،روحانی خزائن جلد9صفحہ85تا86)
اس الہام سے مراد یہ تھی کہ سعداللہ جونعوذ باللہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکو ابتر کہتا تھا ایسا ہرگزنہیں ہوگا۔ بلکہ وہ خودابتررہے گا۔
ان تحریروں کی اشاعت کے بعدحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاں تین لڑکے پیداہوئے۔ مگرسعداللہ لدھیانوی کے گھرمیں لڑکاپیدانہ ہوا۔ اورجواولاداس کے ہاں پیداہوچکی تھی وہ پہلے ہی مرچکی تھی۔ چنانچہ اپنے اس دکھ اور رنج وغم کااظہاروہ اپنے ان اشعارمیں کرتاہے۔ جواس کی ایک مناجات میں ہیںجن کاعنوان’’قاضی الحاجات‘‘ہے۔
جگر گوشہ ہا دادی اے بے نیاز
ولے چند زانہا گرفتی توباز
دل من بنعم البدل شاد کن
بلُطف از غم وغصہ آزاد کُن
ز ازوج و اولادم ذوالمنین
بود ہریکے قُرّۃ العینِ من
جگر پار ہائے کہ رفتند پیش
ز مہجوریٔ شان دلم ریش ریش
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ449)
ترجمہ:یعنی اے بے نیاز تونے مجھے اولاددی تھی۔ مگران میں سے بعض کوتونے واپس لے لیا۔ اب میرے دل کوان کے عوض میں اوراچھی اولاددے کرشادکراوراپنے لطف کے ساتھ مجھے رنج وغم سے آزادکر۔ اے احسانوں والے!میری ازواج اور اولاد کومیری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔ میرے جگرکے ٹکڑے جوفوت ہوچکے ہیں۔ ان کے رنج وجدائی سے میرادل ٹکڑے ٹکڑے ہے۔
ان اشعار کے حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ان دردناک اشعار پرنظرڈال کرہر ایک شخص سوچ سکتاہے کہ اولادکے نہ ہونے اورمرجانے سے کس قدرحسرتیںاس کے دل میں بھری ہوئی تھیں جن سے وہ نجات نہ پا سکا اور جیسا کہ اس کی کتاب سے ثابت ہوتا ہے سولہ برس تک اپنی کثرت اولاد کے لئے وہ دعائیں کرتا رہا ۔ آخرجنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی اُن تمام دعاؤں سے نامرادرہ کرچندگھنٹوںمیں لدھیانہ میں نمونیا پلیگ سے مرگیااوروہ نہیں چاہتاتھا کہ میری زندگی میں اُس کی موت ہوبلکہ یہ چاہتاتھا کہ اُس کی زندگی میںمیری موت ہو۔اس بارے میں اس نے پیشگوئی بھی شائع کی اور وہ نہیں چاہتا تھاکہ میری اولادہویامیری جماعت ترقی کرے اپنی اولاد کی کثرت چاہتاتھااور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میرے سلسلہ کی کوئی مددکرے مگران تمام آرزؤوں سے نامرادرہ کراس ذلت کے ساتھ مرگیاکہ کوئی مراد اس کی پوری نہیں ہوئی۔
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ449-450)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی وہ پیشگوئی جس میں سعد اللہ کی ذلت اورنامرادی سے موت کاذکرہےوہ آپؑ کی تصنیف انجام آتھم میںعربی شعروں میں ہے ۔اس کا ایک شعر اس طرح ہے۔
انی اراک تَمِیۡسُ بِالۡخُیَلَاءِ
أنسیت یوم الطعنۃ النجلَاءِ
میں تجھے دیکھتا ہوں کہ نازاورتکبر کے ساتھ تو چلتا ہےکیاتجھے وہ دن یاد نہیں آتا کہ جب توطاعون زخم کرنےوالی کے ساتھ ہلاک ہوگا۔
اس شعرمیں واضح طورپراشارہ کردیاگیاہے کہ سعداللہ نمونیاپلیگ سے مرے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’طعنہ کا لفظ طاعون کی طرف اشارہ کرتاہے اور نجلاء عربی زبان میں فراخِ زخم کوکہتے ہیںاورنمونیاپلیگ کی بھی یہی صورت ہوتی ہے کہ پھیپھڑہ زخمی ہوکرپھٹ جاتاہےاوراس میں فراخ زخم ہوجاتاہے اورعجیب تریہ ہے کہ جس زمانہ میں یہ پیشگوئی کی گئی اُس زمانہ میں اس مُلک میں طاعون کانام ونشان نہ تھاپس یہ اس قادرعلیم کے عمیق در عمیق علم کاایک نمونہ ہے کہ اُس نے سعداللہ کی اس قسم کی موت کی اُس وقت خبر دی جبکہ یہ تمام ملک طاعون سے پاک تھا۔
…سعداللہ نے میری موت کی نسبت اورتمام جماعت کے مرتد اورمنتشرہونے کی نسبت پیشگوئی اپنی کتاب شہاب ثاقب میں شائع کی تھی۔ اوراس میں اُس نے صاف طورپر لکھاتھاکہ یہ شخص کذاب اورمفتری ہے اس لئے وہ ذلت کی موت سے مرے گا اوراس کی جماعت متفرق اورمنتشرہوجائے گی۔ اوربہت گندے الفاظ کے ساتھ میری ہلاکت کی خبر دی تھی اس لئے خداتعالیٰ کی غیرت نے جووہ صادقوں کے لئے رکھتاہے اُس کی پیشگوئی کواُسی پراُلٹادیا۔بدقسمت سعداللہ نے اپنی کتاب میں جس کانام اس نے رکھاہے شہاب ثاقب بَرمسیح کاذب جس کے معنی ہیں کہ اس جھوٹے مسیح پرآگ پڑے گی اوراس کوہلاک کرے گی۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ447تا448)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اس کے ان کلمات سے ظاہر ہے کہ وہ میری نسبت کیاآرزورکھتاتھا۔ جس کووہ ہزاروں حسرتوں کے ساتھ اپنے دل میں لے گیا یہ مقام منصفین کے بڑی غور کے لائق ہے کہ یہ دوطرفہ پیشگوئیاں مباہلہ کے طورپر تھیںیعنی اس نے میری موت کی خبردی تھی جس کو وہ خیال کرتا تھا جواس کی زندگی میں ہی میری موت نہایت نامرادی سے ہوگی اورمیری موت کے لئے وہ بہت دعائیں کرتاتھااوراس کویقین تھاکہ ایسا ہی ہوگا۔ دوسری طرف اس کی پیشگوئی سے چاربرس بعدمجھے خدانے خبردی کہ وہ میری زندگی میں ہی ذلّت کی موت سے مرے گااورطاعون کی ایک قسم سے ہلاک ہوگااورمَیں اپنی پیشگوئی کی تصدیق کیلئے اس کی موت کے بارے میں دعائیں کرتاتھاآخر خدانے مجھے سچاکیااوروہ میری پیشگوئی کے مطابق میری زندگی میں ہی جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی ہلاک ہوا۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ448)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ عجب بات ہے کیاکوئی اس بھیدکوسمجھ سکتاہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اورمفتری اوردجال تومَیں ٹھہرامگرمباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں۔ کیانعوذُباللہ خداسے بھی کوئی غلط فہمی ہوجاتی ہے؟ایسے نیک لوگوں پرکیوں قہر الٰہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے پھرذلت اوررسوائی بھی…۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ238)
ہے کوئی کا ذب جہاں میں لاؤ لو گو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائید یں ہوئی ہوں بار بار
٭…٭…٭