پھر جلسۂ سالانہ کے سامان کے دن ہیں
(جلسہ سالانہ کی اداسی میں لکھی گئی تحریر)
کہنے کو تو ہماراجلسہ سال بعد آتا ہے، لیکن بعض شعبے ایسے ہیں جہاں یہ سال بہت جلد گزر جاتا ہے۔ ایم ٹی اے میں بھی جلسے کی تیاریاں نیا سال چڑھتے ہی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر نئے سال کے یہ چھ سات ماہ گویا پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ کیا پروگرام ہوں گے، ان میں کون کون شامل ہوگا، کوئی نئی طرز جس پر یہ پروگرام پیش کیے جائیں، وغیرہ۔
2020ء کا آغاز ہوا۔ ہمارے شعبے نے ابھی تیاریاں شروع ہی کی تھیں کہ فروری کا مہینہ آگیا۔ اور اس سال تو فروری ایسا آیا کہ سبھی کچھ بے یقینی کی وباؤں سے دھندلا کر رہ گیا۔ مگر ہم اپنے خیالات کی ادھیڑ بن میں لگے رہے۔ ایسا کریں گے، ویسا کریں گے۔ اس بار پروگرام کچھ یوں کریں گے، کچھ یہ نیا کرنے کی کوشش کریں گے۔ خواب و خیال میں جلسہ کی تیاری چلتی رہتی۔ خواب و خیال کے اس سلسلہ میں صرف پروگرام اور سٹوڈیو اور کیمرے اور مہمان ہی نہیں۔ اور بھی بہت کچھ ساتھ جڑاچلا آتا۔ حدیقۃ المہدی کی وسیع و عریض جلسہ گاہ۔ حدِ نظر تک پھیلی سفید رنگ کی مارکیاں۔ انگلستان کی کنٹری سائیڈ کی گھاس کی خاص خوشبو۔ گاڑیوں کو راہ دکھاتے، پیلی جیکٹیں پہنے خدام۔ گاڑیوں کے پہیوں سے اڑنے والی گرد۔ سکیننگ پر کارڈ چیک کرتے نوجوان۔ لنگر خانہ کے قطار اندر قطار چولہے اور ان پر چڑھی دیو ہیکل دیگیں۔ وضو کے لیے لگیں قطاریں۔ ریورس ہوتی ہوئی لاریوں اور ٹرکوں کی مخصوص آواز۔ جلسہ کی تیاری کے مراحل کا خیال آتا تو کیا کچھ نہ ساتھ چلا آتا۔
پھر جلسہ کے تین دن۔ مارکیوں میں جمع ہزاروں افراد۔ باہر رہ گئے افراد کو مارکی میں جانے کی تلقین کرتیmegaphone سے نکلتی مبہم آواز جو سمجھ کم کم آتی ہے مگر سب کو پتہ ہی ہوتا ہے کہ اس وقت کیا ہدایت دی جارہی ہے۔ طعام گاہوں کی رونقیں۔ ہر رنگ و نسل کے لوگوں کا ایک خوبصورت اجتماع۔ حضور انور کے جلسہ گاہ میں آنے اور جانے کے ملکوتی نظارے، حضور کے خطابات۔ اور’’ نعرہ تکبیر، اللہ اکبر ‘‘کے فلک شگاف نعرے۔ وہ نعرے جو سال بھر خون کو گرمائے رکھنے کو کافی ہوتے ہیں۔
فروری کے مہینہ میں جب کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو بےیقینی کی ہوا کی لپٹ کبھی آتی کبھی جاتی رہی۔ کبھی اس ہوا میں لُو کی سی تمازت ہوتی، کبھی یکدم خوشگوار ہوا کے جھونکے کی سی نرمی اور امید۔ اس سب میں فروری کا مہینہ گزر گیا۔ مارچ آیا تو دنیا بھر کے ملکوں نے اپنی سرحدیں بیرونی سفر کے لیے بند کردیں۔ شہروں میں لاک ڈاؤن کے انوکھے سلسلے شروع ہوئے اور بےیقینی کے مہیب سائے گہرے ہونے لگے۔
اپریل کے وسط کی بات ہوگی۔ جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے آفیشل نوٹس آگیا کہ اس سال جلسہ سالانہ منعقد نہیں کیا جائے گا۔ دل بیٹھ گیا۔ اورذہن و دل پر کیا کچھ گزر گیا، وہ اظہار اور بیان سے آگے کی بات ہے۔
لاک ڈاؤن کے دن تھے۔ کام گھرسے ہو رہے تھے۔ بچے گھر ہی میں سکول کے کام کرتے تھے۔ سو شام کو ان کی فرمائش ہوتی کہ انہیں کہیں چھوٹی سی ڈرائیو ہی کروادی جائے۔ اس معصوم سی خواہش کو پورا کرنے میں انہیں آدھ پون گھنٹے کے لیے کبھی کہیں اور کبھی کہیں لے جاتا۔ جس دن یہ خبر آئی کہ جلسہ سالانہ نہیں ہوگامیری گاڑی حدیقۃ المہدی کی طرف مڑ گئی۔
بچے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک دوسرے کو یاد دلاتے رہے کہ’’ یاد ہے یہا ں سے ہماری کوچ گزرتی تھی تو ہم یہ دیکھا کرتے تھے۔ یہاں یہ ہوا تھا۔ یہاں ایک دفعہ کوچ کافی دیر ٹریفک میں پھنس گئی تھی۔ یہاں فلاں نے یہ بات کی تھی اوریہاں ہم فلاں بات پر کتنا ہنسے تھے۔ ‘‘
خود مجھے بھی اس راستے پر جلسے کی بہت سی یادیں آتی رہیں۔ کہاں ایک دفعہ کار خراب ہو گئی تھی۔ کہاں ایک دفعہ کس کا فون آیا تھا۔ کہاں کیا پریشانی لاحق ہوئی تھی اور کہاں کس کے فون سے کون سی پریشانی اچانک دور ہو گئی تھی۔ کہاں ٹریفک کا اشارہ سرخ ہوتے ہوتے میں نے کارنکال لی تھی اور کہاں تک یہ سوچتا گیا تھا کہ مجھے رک جانا چاہیے تھا۔
خیالات کے اژدہام میں ہماری گاڑی حدیقۃ المہدی کے سامنے سے گزری۔ جلسہ گاہ کی خوبصورت کشادگی فینس کے پیچھے دور دور تک پھیلی نظر آتی رہی۔ سبز گھاس اور اس پر کھلے زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول۔ وہ کشادگی جہاں اس وقت تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ ہرے بھرے میدان جو اپنے کشادہ سینوں پر وسیع و عریض مارکیوں کو فخر سےپھیلاتے اور سجاتے ہیں۔ وہ زمین جس پر ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ وہ میدان جو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے قدم چومتا ہے۔ وہ زمینیں جن پر تین دن میں کئی ہزار پیشانیاں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ وہ عظیم جلسہ گاہ میری نگاہ کےسامنے تھی۔ بچوں کی معصوم گفتگو تھی اور دل جذبات کو چھپائے رکھنے کی ایک عجیب جنگ لڑ رہا تھا۔
اس دن کے بعد سے میں کئی دفعہ اس راستے پر جا نکلتا ہوں۔ سانسوں میں جلسہ کی خوشبو، کانوں میں جلسے کے نعرے، آنکھوں میں جلسے کی رونق، دل میں جلسے کےدنوں کی چلتی ہوئی نبض کے زیروبم۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے اور گاڑی وقت ہی کی طرح حدیقۃ المہدی کے سامنے سے گزرجاتی ہے۔ پھر زندگی اور زندگی کی مصروفیات اور روزمرہ کے ہنگامے مرہم رکھ کر کچھ آرام دیتے ہیں۔ وہ آرام جوParacetamol کے ڈبے پر درج ہوتا ہے:
For symptomatic relief only
یعنی گہرےزخموںکی ظاہری علامات میںعارضی اور ظاہری آرام۔
مگر ایک دن حدیقۃ المہدی کے سامنے سے گزرتے ہوئے کچھ ایسا خیال ذہن سے گزرا جس نے نہ صرف جذبات کے طوفان کو ٹھنڈا کیا، بلکہ ایک نئے درد کو جنم بھی دے دیا۔ لیکن یہ نیا درد کہیں بہتر تھا اُس در د سے جومحض جذبات کے ریلوں کے ساتھ آتاتھا۔
ہم نے تقسیمِ ہندوستان کی دلدوز داستانیں سن رکھی ہیں۔ پورا برصغیر ہی تاریخ کے ایک کربناک سانحہ سے گزرا۔ ہنگامے، فسادات، لوٹ کھسوٹ۔ سبھی قصے بہت سنے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی قربانی کا احوال بھی کتابوں میں پڑھایابزرگوں سے سنا ہے۔
آئیے تخیلات میں اس دَور میں چلتے ہیں، جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔
’’تو عالمِ تخیل میں ہم اس وقت قادیان میں ہیں۔ 1946ء کا سال ہے۔ ابھی ہندوستان تقسیم نہیں ہوا۔ تقسیم کی باتیں بہت ہو رہی ہیں۔ سنا ہے کہ کسی بھی وقت انگریز حکومت اپنے ہاتھ اور دامن جھاڑ کر اس ملک کو تقسیم کر کے واپس سدھار جائے گی۔ دسمبر آیا چاہتا ہے اور جلسہ سالانہ کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ سیاسی حالات کی وجہ سے بے یقینی کی فضا تو ہے، مگر پھر جماعت احمدیہ تو بے یقینی کے حالات سے گزرنے کی عادی ہے۔ سو ہم سب جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
جلسے کے دن آگئے۔ ہندوستان بھر سے احمدی احباب مسیحِ پاک کی اس پاک بستی میں جمع ہیں۔ اس چھوٹی سی بستی میں مذہبی جوش و خروش کی فضا غالب ہے۔ مگر یہ جوش و خروش بامِ عروج کو تب چھو جاتا ہے جب ’’حضور آگئے، حضور آگئے‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ سب حاضرین اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایڑیوں کے بل اوپر ہو ہو کر اپنے پیارے امام حضرت مصلح موعودؓکی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار ہوئے جاتے ہیں۔ پھر حضورؓ کا خطاب شروع ہوتا ہے۔ سب اسے سنتے ہیں۔ خصوصاً جلسہ کے آخری روز کا خطاب تو بہت ہی توجہ اور انہماک اور فرطِ جذبات کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ آج جلسہ اختتام کو جو پہنچ جانا ہے۔ آج سب نے اپنے اپنے شہروں قصبوں اور دیہاتوں کو واپس لوٹ جانا ہے۔ دل اس خیال سے ملول ہیں۔
مگر ایک خیال ہے جو ڈھارس کا کام کررہا ہے۔ کہ پہلے بھی تو جلسہ گزر ہی جاتا ہے۔ پہلے بھی تو ہم واپس گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اور پہلے بھی تو سال گزر ہی جایاکرتاہے۔ ہم پھر نئے سال کے نئے جلسے پر آہی جایا کرتے ہیں۔ پس دل کروٹ لیتا ہے اور گویا نعرہ لگاتا ہے کہ ہم دوبارہ آئیں گے۔ اس پاک بستی کی خاک کو سر آنکھوں پر رکھنے۔ اپنے محبوب امام کا دیدار کرنے۔ اپنے آقا سے ملاقات کرنے۔ ان کا خطاب براہِ راست سامنے بیٹھ کر سننے۔ ہم اگلے سال آئیں گے۔ ہم ضرور آئیں گے۔
سال گزر گیا۔ اب 1947ء کا سال ہے۔ وہ سال جس میں ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ تقسیم بھی ان دنوں میں ہوا جن دنوں میں ہم یہاں قادیان میں جلسہ کی تیاری شروع کر چکے ہوتے تھے۔ اگست کے مہینے یہ تقسیم عمل میں آئی۔ حضرت مصلح موعودؓ قادیان سے ہجرت کر گئے۔ اُس بستی سے ہجرت کر گئے جہاں سے دوری آپؓ کے قلبِ مبارک پر بہت گراں گزرا کرتی تھی۔ آپ تو جہاں بھی جاتے، سوتے سوتے بھی ہائے قادیاں کہہ اٹھا کرتے تھے۔ آپ نے تو فرمایا تھا کہ
ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب
دیکھ ڈالے پر کہاں وہ رنگ ہائے قادیاں
آپؓ اس قادیان سے ہجرت کر گئے۔ آپ کا بہت ہی پیارا دل کس حال میں ہوگا۔ حضورؓ کے ساتھ ہزاروں احمدی بھی قادیان بلکہ ہندوستان بھر سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ آج کل لاہور میں ہیں۔
ہم حضورؓ کے صدمے کا سوچ کر خود صدمے سے دوچار ہورہے تھے کہ ستمبر آگیا۔ ہم کہا کرتے تھے کہ ستمبر آگیا تو اب صرف اس کے ہم قافیہ تین ہی ماہ رہ گئے۔ اکتوبر، نومبر اور دسمبر۔ مگر ستمبر بھی ہنگاموں کی نظر ہوگیا۔ ہم پاکستان سے حضورؓ اور دوسرے احمدیوں کی خیر خبر کے لیے نظریں بچھائے بیٹھے رہے۔
صبح شام ہنگامے چل رہے ہیں۔ فسادات کا بازار گرم ہے۔ قادیان پر بھی حملے کی سکیمیں ہیں۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ جلسہ سالانہ نہیں ہوگا۔
اکتوبر گزرا۔ نومبر گزرا۔ اور اب دسمبر چڑھ آیا ہے۔ اب یہ احساس کسی برچھی کی طرح صبح و شام دل کے آر پار ہوتا رہتا ہے کہ اس سال جلسہ نہیں ہوگا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ہجرت کے بعد لاہور میں جو پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا وہ ہم تک کچھ دن کی تاخیر سے پہنچا تھا۔ اس کے الفاظ کانوں میں ہر وقت نہ گونجا کرتے تو ہم کیسے ان حالات سے نباہ کرتے؟ کیا ہی ولولہ انگیز الفاظ تھے:
’’ایسے اوقات قربانی اور کام کرنے کے ہوتے ہیں۔ مگر بہر حال، ایک دفعہ تو دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کی بنیادیں بظاہر ہل گئی ہیں اور اب اللہ تعالیٰ امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ از سرنو ان بنیادوں کو مضبوط کیا جائے اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے ہیں جو ایمان اور اخلاص کے میدان میں پورے اترتے ہیں اور کتنے ہیں جو قربانی اور ایثار سے کام لے کر اپنے ایمانوں پر مہر ثبت کرتے ہیں … میں آج جماعت سےصرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اس کے امتحان کا وقت ہے۔ ایسے موقع پر ہر شخص کو مرد میدان ثابت ہونا چاہیے…‘‘
پس ہجرت کے بعد لاہور میں ارشاد فرمودہ خطبے نے ہمیں اپنے قدموں پر کھڑے رکھا۔ ہم ہر دکھ جھیل گئے۔ جلسہ کے دنوں میں قادیان کی گلیاں اور کوچے اور بازار رونق سے پر ہوتے تھے۔ اس سال یہ گلیاں خالی اور سنسان رہیں۔ جلسہ گاہ کے تو پاس سے بھی گزرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ گزر ہو ہی جائے تو نگاہ اٹھا کر اس کی ویرانی کو دیکھ کر کلیجہ پھٹنے کو آتا۔
آئندہ سالوں میں جلسہ کی امید ہوتی تو شاید صبر آجاتا۔ ابھی تو اگلے دن کا پتہ نہیں۔ اگلے سال یا اگلے سالوں کی کیا بات کریں۔ ‘‘
اب واپس اس دَور میں آتے ہیں۔ قادیان کی مقدس بستی پر 1947ء گزرا۔ پھر ایک اور سال گزرا۔ پھر ایک اور۔ پھر ایک دہائی گزر گئی۔ پھر دو دہائیاں، پھر تین۔ پھر چار دہائیاں بھی گزر گئیں۔ جلسے تو ہوتے رہے مگر مسیح کی بستی خلیفۃ المسیح کے دیدار کو ترس گئی۔
اہالیانِ قادیان جنہوں نے بوجھل دل کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت کا دکھ سہا تھا نظریں لگائے بیٹھے رہے۔ اس ہجرتی دکھ میں ہی انہیں حضرت مصلح موعودؓ کے وصال کی دردناک خبر پہنچ گئی۔ پھر خلافتِ ثالثہ کا دَور آیا اور گزر گیا۔ ہجرت کے دائمی دکھ میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے وصال کی خبر بھی اس بستی میں پہنچی۔ پھر خلافتِ رابعہ کا دور آیا۔ ہجرت در ہجرت کا صدمہ جماعت نے جھیلا۔
پھرقادیان میں ہجرکی پانچویں دہائی طلوع ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کےسفرِ قادیان کا سامان ہوا۔ کیا جشن تھا۔ پانچ دہائیوں کا دکھ یک دم خوشیوں میں بدلا تو قادیان کی بستی اور اس کے باسی جھوم ہی تو اٹھے۔ جس نے لڑکپن میں قادیان سے ہجرت کی تھی وہ وجود اب بحیثیت خلیفۃ المسیح قادیان میں واپس پہنچا تھا۔ پس وہ بستی اور اس بستی میں وارد ہونے والا خلیفۃ المسیح۔ فرطِ محبت کا یہ عالم کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ اہالیانِ قادیان نے حضورؒ اور حضورؒ نے اہالیان قادیان کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا۔ جلسہ گاہ پھر اسی طرح آباد ہوئی جس طرح 1946ء تک ہوا کرتی تھی۔ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔
پھر ایک روز یہ رونق بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے وصال کی اندوہناک خبر بھی اسی ہجرکی حالت میں سنی گئی۔
پھر دودہائیاں ہجرکے رنج و الم کی قادیان پر گزریں۔ انتظار طول پکڑ تا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ 2005ء کا سال آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےسرزمینِ قادیان میں ورود فرمایا۔ قادیان کی بستی پھر جھوم اٹھی۔ جو ہجر اس بستی کو 1947ء میں لاحق ہوا تھا، اسے ایک مرہم نصیب ہوا۔ ان چھ دہائیوں میں بہت سے تو حضرت خلیفۃ المسیح کا رستہ تکتے تکتے جان سے گزر گئے۔ مگر جاتے جاتے یہ کہہ گئے کہ
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
سو چمن میں پھر بہار آئی۔ ان ترسی نگاہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا استقبال بڑے ہی جوش اور جذبے اور محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا۔ کیا ہی نظارہ تھا۔ حضور قادیان کی گلیوں میں سے گزرتے تو دونوں طرف لوگوں کے سمندر کو بند باندھنا پڑتا۔ عشق و محبت کا یہ سمندر ٹھاٹھیں مارتا اپنے امام کے دیدار کو امڈا پڑتا۔ حضور کی ایک نظر ان پر پڑ جاتی تو انہیں لگتا کہ زندگی کی تمام مرادیں پوری ہو گئیں۔ نسلیں سنور گئیں۔ جلسہ سالانہ ہوا اور قادیان کی جلسہ گاہ ایک بار پھر حقیقی معنوں میں آباد ہوئی۔ 1946ء کا آخری جلسہ دیکھنے والے تب بھی کچھ لوگ قادیان میں آباد تھے۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ ان کی جلسہ گاہ میں حضرت خلیفۃ المسیح رونق افروز ہیں۔ محبوب کے انتظار میں تو سات لمحے بھی طویل لگتے ہیں۔ یہ تو قریب سات دہائیوں کے ہجر کا گہرا زخم تھا۔
اب گذشتہ پندرہ سال سے قادیان اور اہالیانِ قادیان حضرت خلیفۃ المسیح کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔
اب عالمِ تخیل میں ربوہ چلتے ہیں :
’’یہ 1983ء کا سال ہے۔ جلسہ سالانہ بڑے جوشیلے رنگ میں اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس جلسہ کے آخری خطاب کے آخر پر فرمایا کہ
’’اپنے حقوق مٹتے ہیں تو مٹنے دیجیے۔ اپنی جائیدادیں چھنتی ہیں تو چھننے دیجیے۔ آج اسلام کی زندگی آپ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام کے نام پر ہر موت قبول کرلیں، مگر محمد مصطفیٰﷺ کے دین کو نہ مرنے دیں، نہ مرنے دیں، نہ مرنے دیں۔ خدا آپ کے ساتھ ہو! خدا آپ کے ساتھ ہو! اور ہمیشہ اسلام کے لیےہر قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے!‘‘
یہ خطاب سن کر ہم پاکستان کے احمدی اور ربوہ کے احمدی یہ عزم لے کر اٹھے کہ ہم لبیک کہیں گے۔ ہر موت کو قبول کر لیں گے مگر اسلام کو نہیں مرنے دیں گے۔ یہ عزم دل میں لے کر جلسےسے رخصت ہوئے کہ اگلے سال ہم آئیں گے تو ہم اسلام کی راہ میں زیادہ قربانیاں پیش کرنے والی جماعت کے طور پر جلسہ گاہ میں اپنے امام کے سامنے حاضر ہوں گے۔
لیکن کچھ ہی ماہ گزرے تھے۔ اپریل کا مہینہ تھا۔ پاکستان کے جابر فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کردیا۔ اس کے مطابق پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مذہبی سرگرمیاں ناممکنات میں شامل کر دی گئیں۔ باجماعت نمازیں، اذانیں، محلے کے اجلاسات، اجتماع سبھی کچھ کیسے ہوگا؟ ہر احمدی کے ذہن میں یہ سوالات کلبلا رہے تھے۔ اور جلسہ سالانہ کا سوچ کر تو دل بیٹھ جاتا تھا۔ ہم تو نسلوں سے اس جلسہ کے عادی تھے۔ ہم اس کے بغیر کیسے رہیں گے۔ دسمبر کا مہینہ اور جلسہ ندارد؟ کیاہم یہ صدمہ برداشت بھی کر پائیں گے؟
انہی سوالات کی ادھیڑ بُن میں الجھے ذہن ربوہ کی مسجد مبارک میں معمول کے مطابق نماز پڑھنے پہنچے۔ نماز کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تشریف لے جانے سے پہلے پلٹے۔ اور فرمایاکہ میں نے آپ سے کچھ نہیں کہنا۔ میں صرف آپ کو نظر بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے آپ سب سے ایسی محبت ہے کہ کیا ہی کسی ماں کو اپنے بچے سے ہوتی ہوگی۔ پھر حضور ہمیں کچھ نصائح فرما کر تشریف لے گئے۔
ہم گھروں کو لوٹے اوران محبت بھرے الفاظ کی گود میں سر رکھ کر کچھ دیر کو سو لیے۔ اٹھے تو ان چند گھنٹوں میں گویاصدیاں گزر چکی تھیں۔ معلوم ہوا کہ حضورؒ علی الصبح پاکستان سے ہجرت کر کےلندن تشریف لے گئے ہیں۔ ہم پاکستانی احمدیوں نے تو کبھی خواب میں بھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ہمارے درمیان میں نہ رہیں گے۔ ہم ربوہ کے رہنے والے تو کسی نماز پر مسجد مبارک نہ جاسکتے تو یہ تسلی ہوتی کہ چلو اگلی نماز حضور کے پیچھے پڑھ لیں گے۔ یا کل پڑھ لیں گے۔ یا پرسوں۔ جب جی چاہے گا حضورکے پیچھے نماز پڑھنے اور دیدار کرنے مسجد مبارک چلے جائیں گے۔
اب کیا ہوگا؟ جلسہ سالانہ اول تو ہوتا نظر نہیں آتا، لیکن اگر ہوا بھی تو اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نہ ہوں گے۔ اور اگر حضور نہ ہوئے تو جلسہ جلسہ لگے گا بھی؟ کیا ربوہ کی گلیاں جلسے کی رونق سے محروم رہ جائیں گی؟
پھر یاد آیا کہ آخری جلسہ سالانہ پر حضورؒ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ دین کی راہ میں جان جاتی ہو جانے دینا۔ پیچھے نہ ہٹنا۔ پس ہم نے اپنے عہد کو دلوں میں دہرایا اور قسم کھا لی کہ جو بھی امتحان آیا۔ جو بھی ابتلا آئی۔ ہم اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اللہ کے دین کی خاطر، خلیفۃ المسیح سے کیے عہد کی خاطر اپنے قدم میں لغزش تک نہ آنے دیں گے۔ ‘‘
قارئینِ کرام۔ اب واپس اِس دَور میں آتے ہیں۔ 80 کی دہائی گزر گئی۔ 90کی گزر گئی۔ نئی دہائی، نئی صدی اور نیا ہزاریہ شروع ہوگیا۔ پھر اس صدی کی بھی دوسری دہائی شروع ہوچکی ہے۔ پاکستان کے احمدی، ربوہ کے گلی کوچے آج تک خلیفۃ المسیح کی راہ تکتے ہیں۔ اسی ہجرکے دکھ میں انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے وصال کی خبر بھی پہنچی۔
اس عرصہ میں ایک عجیب بات پاکستان کے احمدیوں کے ساتھ یہ ہوئی کہ ان کے درمیان ایک درویش رہتا تھا۔ پاکستان کے احمدی اس درویش میں معرفت کی چمک دیکھتے۔ پاکستان اور بالخصوص ربوہ کے احمدی اس درویش منش بزرگ سے محبت کرنے لگے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے وصال کی خبر پاکستان پہنچی، تو یہ درویش انتخابِ خلافت کی ذمہ داری نباہنے کے لیے عازمِ لندن ہوا۔ ربوہ کے احمدیوں نے اس درویش کو رخصت کیا۔ کچھ خوش نصیب لاہورائیر پورٹ تک الوداع کہنے بھی آئے۔ اس خیال سے کہ کچھ روز اب ملاقات نہ ہو سکے گی، ان خوش نصیبوں نے اس درویش کوبوجھل دل سے روانہ کیا۔
یہ قافلہ یہ سوچتا ہوا واپس لوٹا کہ جب یہ درویش منش بزرگ لوٹے گا تو تفصیل سے احوال سنیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جنازے کا احوال۔ انتخاب خلافت کے بعد نئے خلیفہ کو دیکھ کر اور مل کردل کی کیفیت کیسی تھی۔ یہ سب کچھ سنیں گے۔
مگر کچھ روز بعد یہ خبردنیا بھر کی طرح پاکستان بھی پہنچی کہ خلیفۃ المسیح الخامس کا انتخاب ہوگیا ہے۔ پاکستان کا الگ ذکر اس لیے کہ پاکستان کے احمدیوں کے لیے اس خبر کا مطلب تھا کہ اب وہ درویش لوٹ کر آنے والا نہیں۔ وہ عظیم المرتبت بزرگ جو ربوہ کی گلیوں میں بڑی سادگی سے دفتر آتا جاتا نظر آتا۔ جو کسانوں کی طرح شام کو اپنی زمینوں میں کام کرتا۔ جو ہر احمدی کے لیے ہر وقت موجود رہتا۔ جو پاکستان جیسے ڈوبتے ملک کا واحد تعویذ تھا۔ وہ اب پاکستان واپس نہیں آئے گا۔ کیونکہ خدا نے اسے خلافتِ خامسہ کے منصب پر بٹھا دیا ہے۔ اب پاکستان کے قوانین اپنے اس واحد تعویذ کے راستے اس ملک پر بند کربیٹھے ہیں۔
پاکستان کے احمدیوں کو ایک اور دھچکا لگا۔ اب وہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو ٹی وی کی سکرین پر دیکھنے لگے۔ وہ جو اُن کے درمیان تھے، وہ ہزاروں میل دور ہوگئے۔ اب صرف خطوں کے ذریعہ ملاقات ہونے لگی۔ یا ایم ٹی اے کے ذریعہ۔ کچھ احمدی احباب جلسہ سالانہ پر آکرمل جاتے۔ اکثر کے لیے ویزا کا حصول ہی ناممکن کے برابر۔ ویزا لگ گیا تو زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے ٹکٹ کا حصول۔ کچھ صرف ایک مرتبہ آئے اور انہیں معلوم ہے کہ اب آئندہ کبھی نہیں آسکیں گے۔ کچھ کو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ نہ کبھی ملاقات کے لیے جاسکے ہیں، نہ کبھی جا سکیں گے۔ یہ حسرت اب صرف ایم ٹی اے یا خطوں کے ذریعہ پوری کرنا ہوگی۔
پس پاکستان کے احمدیوں کے لیے 1983ء کے بعد جلسہ سالانہ کی رونق خواب و خیال ہو گئی۔ کچھ عرصہ تک تو ہر سال جلسہ کے لیے درخواست دی جاتی رہی جسے حکومت نامنظور کر کے واپس لوٹا دیتی اور پھر حکومت نے اس درخواست کا جواب دینا ہی مناسب نہ سمجھا۔ ہر سال جلسہ سالانہ کا تنظیمی ڈھانچہ بنتا ہے، روٹی پلانٹ وغیرہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تا کہ جلسہ کی تیاری رکھی جائے۔ لیکن تین دہائیاں بیت گئیں۔ نہ جلسہ ہوا۔ نہ حضرت خلیفۃ المسیح واپس پاکستان تشریف لے جاسکے۔
ان خیالات میں ڈوبا میں کہیں کا کہیں نکل گیا۔ گاڑی واپس موڑی اور پھر حدیقۃ المہدی کے سامنے سے گزاری۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ ایک جلسہ نہیں ہورہا تو اس قدر مہیب اداسیاں دل پر طاری کر لیں ؟ آئندہ تو ہوگا۔ ان شاءاللہ ہر سال ہوتا آیا ہے۔ ان شاءاللہ ہر سال ہوگا۔ ایک سال نہیں ہوا تو شاید یہ احساس دلانے کے لیے ہی نہیں ہوا کہ انسان بہت ناشکرا اورناقدرشناس ہے۔
مجھے کئی جلسے یاد آئے۔ جن میں بارش ہوگئی تھی۔ موسم کو برا بھلا کہا تھا۔ کئی جلسوں سے پہلے شدید بارش کی موسمی پیشگوئی دیکھ کر دعائیں کی تھیں کہ یا اللہ! بارش نہ برسانا۔ یا اللہ بہت زیادہ گرمی بھی نہ۔ یا اللہ! بارش بھی نہ ہو اور گرمی بھی بہت نہ ہو! کیسا کیسا نخرہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا۔
جلسہ پر بارش ہوئی تھی تو جوتوں اور جرابوں کو کیچڑ میں لت پت دیکھ کر کیسی کوفت محسوس کی تھی۔ جن جلسوں پر دھوپ شدید تھی اور موسم خشک تھا، اس میں جوتوں پہ جمی گرداور شدید گرمی سے بہتے پسینے پر کیسی الجھن محسوس کی تھی۔
اے اللہ!ہم کیسی ناشکری کرتے رہے۔ ہمیں معاف کردے۔ آئندہ بارش ہو۔ دھوپ ہو۔ کچھ بھی ہو۔ ہمارا جلسہ ہونے دینا۔ جلسہ گاہ میں دنیا بھر کے ممالک کے جھنڈے ہر سال لہراتے رہیں۔ حضرت امیرالمومنین جلسہ سالانہ میں جلوہ افروز ہوتے رہیں۔ ہم ان کے پر اثر کلمات اپنے دلوں میں اترتے محسوس کرتے رہیں۔ ہمارے جلسوں کی رونقیں قائم رہیں۔
بس یونہی نور سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل
یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس
اے خدا! ہمارے جلسہ سالانہ کو سلامت رکھ۔ ہمیں احسان فراموش نہ بنا۔ اور قادیان اور پاکستان کے احمدیوں کے دلوں کی تسکین کا بھی اب جلد سامان پیدا فرما۔
ہم ایک جلسہ نہ ہونے سے تڑپ رہے ہیں۔ وہاں تو دہائیوں پر دہائیاں بیت گئیں۔
میں نے ایک نظر بھر کر اپنی پیاری جلسہ گاہ حدیقۃالمہدی کو دیکھا۔ کانوں میں ’’نعرۂ تکبیر!اللہ اکبر!‘‘ کے نعرے گونجتے محسوس ہوئے۔ جلسہ گاہ کی زمین کی نبض دھڑکتی محسوس ہوئی۔ دل نے عہد کیا کہ آئندہ بارش ہو، کیچڑ ہو، گرمی ہو اور پیاس سے جان لبوں پر آجائے۔ جو بھی ہو جائےکچھ پروا نہیں۔ پرہماراجلسہ ہمیشہ ہوتا رہے۔
دل و دماغ کی اتھا گہرائیوں میں اتر کر جذبات کو موہ لینے والی تحریر جسے محترم آصف صاحب کی اپنی آواز میں سن کر ایساعجیب لطف آیا کہ جس لطف نے مغموم بھی کردیا اورداغ کایہ شعر بے اختیار زبان پر جاری ہوا
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے