الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اعتراضات کے جوابات
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈامارچ 2012ء میں مکرم مولاناعطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی جلسہ سالانہ یو کے 2011ء کے موقع پر کی جانے والی تقریر شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس پرکیے جانے والے بعض اعتراضات کا ردّ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ازل سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے رسول مبعوث فرماتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی نبی یا رسول آتا ہے، دنیا کے لوگ بالعموم اس کا انکار کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (سورۃ یٰس)۔ لیکن اس انکار اور استہزاء کے باوجود خدا کے نبی کا حق و صداقت پر مبنی پیغام بالآخر دنیا میں پھیلتا اور غالب آتا چلا جاتا ہے۔ خواہ کافر نا پسند کریں۔ (سورۃ الصف)
حضرت مسیح پاک علیہ السلام پر اعتراضات کا سلسلہ آپ کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ آپ نے ان اعتراضات کے جوابات ساتھ کے ساتھ اپنی کتب میں شائع فرمائے مگر جھوٹ پر زندگی بسر کرنے والے نام نہاد علماء کا گروہ ان اعتراضات کونئے نئے رنگ دے کر بار بار دہراتا رہا۔ اور عملاً اس حدیث کی صداقت کا گواہ بنا جس میں چودھویں صدی کے ایسے علماء کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ بھی فرماتے ہیں کہ آنے والے مسیح اور امام مہدی کی سب سے زیادہ مخالفت کرنے والے اُس زمانہ کے خود ساختہ اور نام نہاد علماء ہوں گے۔ (فتوحاتِ مکیہ)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں بار بار کہتا ہوں اگر یہ تمام مخالف مشرق اور مغرب کے جمع ہوجاویں تو میرے پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکتے کہ جس اعتراض میں گزشتہ نبیوں میں سے کوئی نبی شریک نہ ہو۔‘‘ (تتمہ حقیقۃالوحی)
٭…… ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپؑ کا نام مرزا غلام احمد ایک مرکب نام ہے جبکہ نبی کا نام مفرد ہونا لازمی ہے۔ یہ اعتراض خود ساختہ اصول پر مبنی ہے جس کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ حدیث میں۔ نیز واقعاتی طور پر بھی یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسمٰعیلؑ، حضرت ذوالکفلؑ اور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کے اسماء مرکب ہیں بلکہ حضرت عیسیٰؑ کا چار لفظوں سے مرکب نام توقرآن میں آیا ہے۔
٭…… ایک اعتراض یہ ہے کہ آپؑ نے ملازمت اختیار کی۔اس اعتراض کی تردید میں قرآن و حدیث میں معین مثالیں موجود ہیں۔ حضرت یوسُفؑ نے عزیز مصر کی طرف سے ملازمت کی پیشکش ہونے پر اپنی خواہش سے مالیات کے شعبہ کا انتخاب کیا۔ حضرت موسیٰ ؑنے اپنے خسر کے ملازم کے طور پر آٹھ دس سال تک بکریاں چرانے کا معاہدہ کیا اور پھر اس کو پورا کیا۔
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی دعویٔ نبوت سے قبل حضرت خدیجہؓ کے تجارتی معاملات کی نگرانی فرماتے رہے۔ نیز چھوٹی عمر میں معمولی معاوضہ پر بکریاں چراتے تھے۔ حدیث میں مذکور ہے: کُنْتُ اَرْعَا ھَاعَلَی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ۔
جہاں تک حضرت مسیح موعودؑ کے سیالکوٹ کی ایک عدالت میں کام کرنے کا تعلق ہے یہ آپؑ کی اپنی خواہش سے نہ تھا بلکہ محض اپنے والد محترم کے حکم کی اطاعت کے طور پر تھا۔ ایک ملازم نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا آپؑ کو یہ ملازمت پسند ہے تو فرمایا ’’قید خانہ ہی ہے‘‘۔یہ عرصہ آپؑ نے مجبوراً مگر نہایت پاکدامنی اور دیانت داری سے گزارا۔ اور جونہی والد نے واپسی کی اجازت دی آپؑ فوراً ملازمت چھوڑ کر قادیان واپس آگئے۔
٭…… ایک اَور اعتراض آپؑ کے تعلیم پانے سے متعلق ہے جس کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ جس کو خدا نبی کے طور پر بھیجتا ہے وہ کسی کا شاگرد نہیں ہوتااور نہ کسی سے تعلیم پاتا ہے۔
دراصل جملہ انبیاء میں سے صرف آنحضرتﷺ واحد نبی ہیں جن کی امتیازی صفت النبیّ الامّی بیان ہوئی ہے۔ اگر یہی بات کسی اَور نبی کے لیے تسلیم کی جائے تو آ نحضورﷺ کا امتیازی نشان اور انفرادیت قائم نہیں رہتی۔مزید یہ کہ یہ خود ساختہ اعتراض واقعاتی اعتبار سے بھی بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے حضرت خضر سے کہا تھا: کیا میں اس غرض سے آپ کی پیروی کرسکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم پڑھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے (سورۃ الکہف :67)اور پھر ایک عرصہ تک آپ ان کے ساتھ رہ کر تعلیم حاصل کرتے رہے۔
بخاری میں ہے کہ حضرت اسمٰعیلؑ نے جُرہمقبیلہ کے افراد سے عربی زبان سیکھی۔ ویسے بھی پڑھا لکھا ہونا منصب نبوت کے ہر گز خلاف نہیں۔ حضرت موسیٰ، حضرت دائود، حضرت سلیمان، حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس علیہم السلام کے پڑھے لکھے ہونے کا ذکر احادیث اور تفاسیر کی کتب میں ملتا ہے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح پاکؑ نے کسی سکول میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ البتہ قرآن مجید، صرف و نحو، منطق اور حکمت کے چندابتدائی اسباق بعض اساتذہ سے لیے۔ لیکن روحانی امور میں آپؑ کا معلّمِ حقیقی آپؑ کا خدا تھاجس نے آپؑ کو قرآن مجید کے گہرے مطالب اور علم و معرفت کے خزانے عطا فرمائے۔ عربی زبان کے 40ہزار مادے ایک رات میں سکھا دیے۔ الغرض آپؑ نے جملہ علوم و معارف براہِ راست اللہ تعالیٰ سے پائے اور اپنے آقا ﷺ کی شاگردی کی برکت سے روحانیت کے اسرار آپؑ کو عطا فرمائے گئے۔ چنانچہ فرمایا:
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ
حقیقت میں میرا کوئی اور استاد نہیں۔ میں نے جو کچھ پایا وہ سب اپنے آقا محمد عربی ﷺ کی درس گاہ سے پایا ہے!
٭…… ایک اعتراض آپؑ کے حج ادا نہ کرنے پر کیا جاتا ہے۔ جبکہ جماعت احمدیہ، اسلام کے ایک بنیادی رکن کے طور پر اس پر کامل یقین رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزارہا احمدی اس فریضے کو ادا کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیںجن میں مسیح پاکؑ کے دو خلفاء، متعدد صحابہ اور بزرگان شامل ہیں لیکن یاد رہے کہ یہ فریضہ بعض شرائط سے مشروط ہے جیسا کہ قرآن مجید نے مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا میں فرمایا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’حج کرنے کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہوبلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔‘‘ (ملفوظات،جلد پنجم، صفحہ 248)
علماء کے فتاویٰٔ قتل کی وجہ سے چونکہ آپؑ کے لیے امن اور حفاظت کے ساتھ حج ادا کرنے کی صورت میسر نہ تھی۔نیز مختلف عوارض کی وجہ سے آپؑ کی صحت بھی اس لمبے سفر کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ اس وجہ سے آپ پر حج کرنا ان حالات میں فرض نہ تھا۔ آنحضور ﷺ کا بابرکت نمونہ بھی یہی تھا کہ جب کفار نے آپؐ کو مکّہ میں داخلے سے قبل حدیبیہ کے مقام پر روک لیا توآپؐ زبردستی آگے نہیں بڑھے اور وہیں سے واپس ہوگئے۔ اسی اسوۂ رسول ؐکی روشنی میں حضرت اقدسؑ نے بھی خود فریضۂ حج ادا نہیں فرمایا البتہ آپؑ کی طرف سے حاجی احمداللہ صاحب نے حج بدل ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
٭……حضرت اقدسؑ کی ذات پر ایک اعتراض شعر کہنے کا لگایا جاتا ہے۔ بعض لوگ تحریف سے کام لیتے ہوئے ایک آیت کا نصف حصہ پیش کرتے ہیں کہ
وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ (سورۃ یٰس)
کہ ہم نے اس رسول کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی اسے زیب دیتا تھا۔ اگر وہ دیانت داری سے پوری آیت پر نظر کرتے تو پورا مضمون کھل کر سامنے آجاتاکہ
اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌیہ
تو محض ایک نصیحت ہے اور واضح قرآن ہے۔ اس آیت میں قرآن مجید کے شعر ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ کہ یہ قرآن کریم کسی شاعر کا کلام نہیں اور نہ ہی قرآن مجید شعر ہے۔دراصل عربی محاورہ میں شعر کا لفظ جھوٹے کلام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کا ردّ کیا گیا ہے۔ ورنہ شاعری ایک خوبصورت اندازِ بیان اور خداداد ملکہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ بعض شعر حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حضرت حسانؓ بن ثابت دربار نبوی کے شاعر تھے اور آپؐ کی موجودگی میں اپنا پُرحکمت کلام سنایا کرتے تھے۔ خود آنحضور ﷺ نے بھی بعض مواقع پر شعری انداز میں پُر حکمت ارشادات فرمائے۔غزوہ ٔحنین کے موقع پر آپؐ نے فرمایا:
اَنَاالنَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
ایک اور موقع پر فرمایا:
ھَلْ اَنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمَیْتِ
وَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا لَقِیْتِ
حضرت اقدسؑ کا شعری کلام بھی سنت نبوی ؐکی طرز پر، حکمت ودانائی اور نیک مقصد پر مشتمل تھا۔ آپؑ نے خود فرمایا:
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
٭……حضرت مسیح موعودؑ کی ذات کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے بہت سے اعتراضات ایسے ہیں جو بشری کمزوریوں، طبعی عوارض اور بیماریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب نبی بشریت میں دیگر انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں آنحضرتﷺ کی زبانی اعلان کروایا گیا کہ:
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (سورۃ الکہف :111)
کہ اے لوگو! میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں۔ پس کیا آپؐ بشری تقاضے کے تحت بعض جسمانی عوارض میں سے نہیں گزرے؟کیا حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ایوبؑ پر بیماری کے ادوار نہیں آئے؟ حضرت مسیح موعودؑ کے لیے تو یہ عوارض وجہ اعتراض کی بجائے آپؑ کی صداقت کا نشان ہیں۔ حدیث میں ہے کہ موعود مسیح دو زرد چادروں میںظہور فرمائے گا۔ علم تعبیر کی رُو سے زردچادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں۔ آپؑ نے خود وضاحت فرمائی ہے کہ ان میں سے ایک بیماری دورانِ سر کی تکلیف ہے اور دوسری ذیابیطس کی۔ گویا یہ دونوں بیماریاں صداقت کا نشان ہیں۔
ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ نعوذباللہ آپؑ کو مراق یعنی جنون تھا۔ حالانکہ یہ بات کلیۃً بےبنیاد ہے۔آپؑ نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایاکہ آپ کو مراق کا عارضہ تھا۔ انبیاء کے دشمن تو ہمیشہ سے نبیوں کو یہی الزام دیتے آئے ہیں:
اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡنُوۡنٍ۔ (سورۃالصٰفٰت:37)
طبی لحاظ سے مراق کا شمار امراض خبیثہ میں ہوتا ہے یعنی ایسے امراض جو لوگوں کے لیے نفرت کا موجب ہوں جیسے جنون، مالیخولیا اورجذام وغیرہ اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ان امراض خبیثہ سے حفاظت کا وعدہ دے رکھا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس (خدا )نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہریک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوںگا۔‘‘ (اربعین نمبر 3)
حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں نسیان کے بعض واقعات کا ذکر ملتا ہے۔لیکن یہ بات منصبِ نبوت کے ہر گز خلاف نہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں نماز پڑھاتے وقت رکعات کی تعداد میں کمی بیشی کا ذکر ملتا ہے۔ پھر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کئی دفعہ آپؐ کو خیال گزرتا تھا کہ گویا کوئی کام کرلیا ہے حالانکہ آپؐ نے وہ نہ کیا ہوتا تھا (صحیح بخاری)۔ خود آنحضورﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ میں بھی تو ایک انسان ہوں، تمہاری طرح بعض اوقات میں بھی بھول جاتا ہوں۔ (مسند احمد)
پھر مخالفینِ احمدیت حضرت مسیح پاکؑ پر الزام لگاتے ہیںکہ آپؑ کو دن میں سو سو بار پیشاب کی حاجت ہوتی تھی۔ اصل حقیقت خود حضورؑ کے الفاظ سے واضح ہوجاتی ہے کہ ایسا کبھی کبھی ذیابیطس کی شدّت میں ہوتا تھا نہ کہ ہر روز کا معمو ل۔لیکن معاندین احمدیت ہر بات میں جھوٹ شا مل کرنا فرض سمجھتے ہیں۔
اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ بشری عوارض کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کوکس طرح غیر معمولی رنگ میں فعال اورمفید زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائی۔احیائے اسلام کی خاطر عملاً آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ وقف تھا۔ خدائے رحیم و کریم نے آپؑ کی دونوں بیماریوں کو نہ صرف آپؑ کی صداقت کا نشان بنا دیابلکہ مزید کرم یہ ہوا کہ آپؑ کو آقائے نامدار محمد مصطفیٰﷺ کی طرح بیماریوں کے بد اثرات سے محفوظ رکھا۔ کوئی بیماری آپؑ کی خدمت ِاسلام کی راہ میں روک نہ بن سکی۔ اسلام کے دفاع میں آپؑ کوقریباً 90 بلند پایہ تصانیف کی توفیق ملی۔ اس قلمی جہاد میں شاندار کامیابی کے ساتھ جب آپؑ دنیا سے رخصت ہوئے تو مخالفین نے آپؑ کو ایک فتح نصیب جرنیل کہا۔
٭……حضورؑ کی پاکیزہ زندگی میں معاندین صرف قابل اعتراض باتوں کی تلاش میں اس طرح رہتے ہیں جیسے وہ مکھی جو پاکیزہ چیزوں کو چھوڑ کر صرف غلاظت پر منہ مارتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تعصب کی آنکھ سے ہر بات قابل اعتراض نظر آتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق آپؑ کو ایسی حیات طیبہ عطا فرمائی کہ آیت کریمہ
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
کو بنیاد بناتے ہوئے آپ نے کس تحدّی سے بیان فرمایا : ’’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے۔ تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے۔ جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین)
اس امرکابرملا اعتراف اُس زمانہ کے عمائدین نے بھی کیا۔ بچپن کی حالت میں آپ کو ایک صاحب کرامت بزرگ غلام رسول صاحب نے دیکھا تو فرمایا: ’’اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتاتو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔‘‘ (حیات طیبہ صفحہ11)
مولوی ظفر علی خان کے والد منشی سراج الدین صاحب نے گواہی دی: ’’ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔‘‘ (اخبار زمیندار۔مئی 1908ء)
اور آپؑ کی وفات پر اخبار وکیل نے لکھا: ’’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی۔‘‘ ( اخبار وکیل امرتسر۔30مئی 1908ء)
٭……معاندین نے حضرت اقدسؑ کی زندگی میں چند ایسے واقعات پربھی طعن و تشنیع کی ہے مثلاً یہ کہ بعض اوقات جوتا پہنتے وقت جوتا الٹا پہناگیایا قمیص کے بٹن اوپر نیچے لگ گئے۔
عقل مند شریف انسان تو ان باتوں کو طبیعت کی سادگی اور محویت سے تعبیر کرے گا۔ خدا تعالیٰ کے مقربین انقطاع الیٰ اللہ کی پاکیزہ حالت کی وجہ سے دنیاوی رکھ رکھائو سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں آنحضورﷺ کی زبان مبارک سے یہ اعلان مذکور ہے کہ
مَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ (سورۃ ص)
کہ میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں اور یہی بات حضرت مسیح موعودؑ کے اسوۂ مبارکہ میں نظر آتی ہے۔ آپ کا طرز عمل دنیاوی تکلفات سے بہت بالا تھا۔
٭…… حضرت مسیح موعودؑ کی ذات پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ایک موقع پر امرتسر میں رمضان کے دوران آپؑ نے تقریر کے دوران چائے پی لی۔ اس اعتراض کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق سفر میں روزہ نہیں رکھا جاتا۔ قرآن مجید میں بھی واضح حکم ہے اور بخاری و مسلم میں واضح حدیث ہےکہ سفر کی حالت میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ خود آنحضور ﷺ کی سنت مبارکہ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ بخاری میں مذکور ہے کہ ماہ رمضان میں رسول پاکﷺ سفر میں تھے تو آپ نے پانی کا برتن دونوں ہاتھوں سے بلند فرمایا تاکہ سب لوگ آپ کو پانی پیتا دیکھ لیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الصیام)
یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقع پر بائیں ہاتھ سے پانی پیاجو شرعی احکام کے خلاف ہے۔ اس کا جواب قرآن مجید میں بیان فرمودہ یہ بنیادی اصول ہے کہ
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا
کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ پس اگر کوئی بات ایسی ہو کہ کوئی شخص واقعی اسے بجا نہ لاسکتاہو تو اس پر حرف گیری کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں گرنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اس وجہ سے آپ کو پانی کا برتن اٹھانے میں دقت تھی۔ اس جائز مجبوری کی وجہ سے اگر آپؑ نے کسی موقع پر بائیں ہاتھ سے پانی پی لیا تو اس پر کیا اعتراض ؟ ( سیرت المہدی،حصہ اول، روایت نمبر 187)
٭…… حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے حوالے سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپؑ کا الہام تھا کہ ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس جگہ حضور علیہ السلام نے یہ الہام درج کیا ہے اسی جگہ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ’’اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہوگی جیساکہ دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیاتھا۔ اسی طرح یہاںبھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ قبل ازموت مدنی فتح نصیب ہوگی۔ خود بخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 503)
حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے جو تشریح خود بیان فرمائی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پورا فرما دیا۔ اس تشریح کو چھوڑ کر اس پر اعتراض کرنا جانتے بوجھتے حق و صداقت اور انصاف کا خون کرنا ہے۔
٭…… پھر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے لکھا تھا کہ میری عمر 80سال ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ
ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِنْ ذٰلِکَ (تذکرہ،صفحہ 149)
کہ تیری عمر80سال یا اس کے قریب ہوگی۔ پھر ایک اور الہام میں یہ وضاحت آئی کہ ’’اسّی یا اس پر پانچ چارزیادہ یا پانچ چارکم‘‘ (حقیقۃ الوحی)
امر واقعہ یہ ہے کہ ان الہامی خبروں کے عین مطابق حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا وصال 75-76سال کی عمر میں ہوا۔
٭…… پھر ایک اعتراض حضرت اقدس کی وفات کی جگہ کے حوالہ سے کیا جاتا ہے جو سرتاپا جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ اس کا مختصر جواب قرآنی الفاظ میں یہ ہے :
ھٰذَابُھْتَانٌ عَظِیْمٌ اور لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔
کسی بھی واقعہ میں چشم دید گواہوں کی شہادت کی اوّلیت ایک مسلم اصول ہے۔ خاندان کے بزرگ افراد اور صحابہ کرام کی عینی گواہیاں موجود ہونے کے باوجود جھوٹ اور افتراء کی نجاست پر منہ مارنے والوں پر رسول مقبول ﷺ کا یہ ارشاد صادق آتا ہے کہ کسی کے جھوٹے ہونے کا یہ ثبوت بہت کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا چلا جائے۔ (صحیح مسلم)۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مخالفین احمدیت کا یہ افترائے عظیم بالکل اسی انداز کا ہے جو ایک معاند اسلام نے رسول پاک ﷺ کے بارہ میں بیان کیاہے۔ اس کا ذکر علامہ شیخ رشید رضا سابق مفتی مصر نے اپنی کتاب ’’الوحی المحمدی‘‘ میں صفحہ 18 پرکیا ہے۔یہ بھی ایک عجیب خدائی تصرف ہے کہ اس غلیظ اور جھوٹا الزام لگانے میں مخالفینِ احمدیت اور معاندین ِ اسلام میں ایک قدرِمشترک پیدا ہوگئی ہے جو
تَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ
کی ایک عبرتناک مثال ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور علیہ السلام کا وصال کس بیماری سے ہوا ؟ اس کا فیصلہ ان ڈاکٹروں سے بہتر اَور کون کرسکتا ہے جو آپؑ کی خدمت پر مامور تھے۔ یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ آپؑ کا وصال وبائی ہیضہ سے ہر گز نہیں ہوا۔کیونکہ وبائی ہیضہ کی کوئی علامت بھی آپؑ میں نہ تھی۔ اور ڈاکٹر سِدرلینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لا ہور اور ڈاکٹر کننگھمسول سرجن لاہور کے جاری کردہ سرٹیفکیٹس میں آپؑ کی وفات کی وجہ اسہال سے ہونے والی اعصابی کمزوری تھی۔ لیکن بُرا ہو اندھی مخالفت اور تعصب کا کہ حضور علیہ السلام کی نعش مبارک قادیان لے جانے کے لیے لاہور کے ریلوے سٹیشن لائی گئی تو شرپسند مخالفین نے سٹیشن ماسٹر کو کہا کہ چونکہ مرزا صاحب کی وفات وبائی ہیضہ سے ہوئی ہے اس لیے ان کی نعش قانونی طور پر بذریعہ ٹرین نہیں جاسکتی۔ سٹیشن ماسٹر نے یہ بات سن کر وقتی طور پر انکار کر دیا لیکن جب ڈاکٹرز کا سرٹیفکیٹ دیکھا تو اس نے فی الفوراجازت دے دی اور جنازہ بذریعہ ٹرین لاہور سے روانہ ہوا۔یہ سارا واقعہ اس اعتراض کو ردّ کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔
٭……ان سب اعتراضات کا ایک اصولی اور منطقی جواب بھی ہے۔یعنی وہ شخص جو مخالفین کی نظر میں اس قابل نہیں کہ منصبِ نبوت پر فائز ہو۔ کیا اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی وہ ویسا ہی تھا؟
یہ حقیقت آفتابِ نصف النہار کی طرح واضح ہے کہ احمدیت کے سب دشمن،سچے مسیح محمدی ؐ کے مقابل پر اپنی ساری تدبیروں میںخائب و خاسر رہے۔ اوراللہ تعالیٰ کا فرستادہ اور محبوب بندہ ہر میدان میں کامیاب اور دشمنوں پر غالب رہا۔
٭ خدا تعالیٰ نے اسے کہا کہ میں تجھے عزت و اکرام دوں گااور تجھے عجیب طور پر بزرگی عطاکروں گا۔ آج دنیا میں کروڑوں عشاقِ اسلام آپؑ کی غلامی پر فخر کرتے ہیں!
٭ خدا نے فرمایا کہ میں تجھے زمین کے کناروں تک شہرت دوں گا۔ آج عالم احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا!
٭ خدا نے وعدہ دیا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ ہم نے یہ وعدہ پورا ہوتے بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے! آپ نے کیا خوب فرمایا ہے:
ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار
کیا خدا تعالیٰ کا یہ محبت بھر ا سلوک، ساری زندگی اس کی تائیدو نصرت اور اللہ تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت نہیں کہ امام الزمان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خدا کے سچے فرستادہ اور مؤ یّد من اللہ تھے؟ دوسری طرف آپ فرماتے ہیں: ’’جو شخص خدا تعالیٰ کے مامور کی مخالفت کرتا ہے وہ اس کی نہیں بلکہ حقیقت میں وہ خدا کی مخالفت کرتا ہے۔ یاد رکھو خدا تعالیٰ اگرچہ سزا دینے میں دھیما ہے مگر جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اور بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں کا اقرار کرکے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں، اُلٹے خدا تعالیٰ کے رسول کو ستاتے اور دکھ دیتے ہیں، وہ آخرکار پکڑے جاتے ہیں اور ضرور پکڑے جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات، جلد پنجم، صفحہ412-413)
آپؑ کس تحدّی اور جلال سے فرماتے ہیں:
اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اِک کذاب کی
کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے، کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار
ہے کوئی کاذب جہاں میں لائو لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار
حضورؑ نے کس درد سے ازراہِ نصیحت فرمایا ہے: ’’ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو۔ گالیا ں دو جس قدر چاہو۔ اور ایذاء اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو۔ اور میرے استیصال کے لئے ہر قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو۔ جس قدر چاہو۔ پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اس کا ہاتھ غالب ہے۔‘‘
(اربعین نمبر4، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے۔ تم خدا سے مت لڑو۔تم اس کو نابود نہیں کرسکتے۔ اس کا ہمیشہ بول بالا ہے۔… اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بےقدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا۔ اور یقینا ًسمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتاتو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہوجاتا۔ … سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو۔ کم سے کم یہ تو سوچو کہ شاید غلطی ہوگئی ہو اور شاید یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو۔‘‘
(اربعین نمبر 4۔روحانی خزائن، جلد 17، صفحہ21)
حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں محض نصیحتاً لِلہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی۔ لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیںگی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیںکرتے بھی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں۔ اور آنسوئوں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہوجائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں۔ جوشخص میرے پر بد دعا کرے گا وہ بد دعا اسی پر پڑے گی۔ جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اُس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں۔‘‘ (اربعین نمبر 4)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے وہ لوگو! جو اپنی طاقت اور کثرت کے بل بوتے پر ظلم میں بڑھتے چلے جارہے ہو اس خدا سے ڈرو جو کہتا ہے
سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُوْنَ (الاعراف:183)
(اور ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے جن کو وہ جانتے نہیں ہلاکت کی طرف کھینچ لائیں گے) پس اپنی ہلاکت کو آواز نہ دو۔ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور زمانے کے منادی کی آواز پر کان دھرو کہ وہ بھی آیت اللہ ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تمہاری مخالفت تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کو اپنی فتح پرمحمول نہ کرو۔ یہ ڈھیل تو تمہیں خدا تعالیٰ کے قول
اُمْلِیْ لَھُمْ
(کہ میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں) کی وجہ سے مل رہی ہے۔لیکن اس کے بعدکے انذاری الفاظ پر بھی ذرا غور کرو جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ۔ (الاعراف:183)
(کہ میری تدبیر مضبوط ہے)۔ پس جب اللہ تعالیٰ حد سے بڑھے ہوئوں کے خلاف تدبیر کرتا ہے تو وہ انسانی سوچ کے دائرے سے باہر ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا تدبیر ہوگی۔لیکن یہ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرتا ہے اور پورا کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘
(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء)