آبادیٔ مرکزِ نو اور جشن ِبہاراں
میرے اللہ! مرے آقا کی حفاظت کرنا
اور مبارک یہ نیا قصرِ خلافت کرنا
لمحہ لمحہ وہاں تائید و حمایت کرنا
خود نئی شان سے اس دیں کی اشاعت کرنا
سیدی! آپ کے مسکن سے ہے وابستہ سکوں
وہ سکوں جس کو ہے انتھک حرکت میں ہی قرار
چل گیا چل گیا ہاں تیری محبت کا فسوں
کھل گیا حسن کا، احساں کا، عطا کا دربار
آپ ہیں جانِ چمن، آپ ہی ہیں شانِ چمن
آپ نے ہاتھ سے سینچے ہیں نہالانِ چمن
آپ کی فصلیں یہ پاتی ہیں نمو آپ سے ہی
آج عرفان کے ہیں جام و صبو آپ سے ہی
ترے ہونے سے ہی فصلوں پہ نکھار آتا ہے
آج اس باغ کے ہر پھول پہ پیار آتا ہے
اے خدا اس کو وہی مرکزِ توحید بنا
جس کو ہر آن پہنچتی رہے کعبہ کی دعا
مرکزِنو رہے کعبہ کے ہی مقصد کا سفیر
اور اس کے لیے ملتے رہیں سلطانِ نصیر
آج سے سولہ برس پہلے تھا ایسا ہی نکھار
آمدِ دوست کی خاطر جو تھی جوبن پہ بہار
آج بھی چاروں طرف دیکھیے مہکے ہیں گلاب
آج بھی دید ہے ہم سب کو وہی کارِ ثواب
آج جب مژدۂ نو لائی ہے پھر بادِ بہار
پھر سے جذبوں نے کیا دل کو سپردِ اشعار
سیدی! آپ کے آنگن میں صدا پھول کھلیں
پھول ایسے کہ خزاں بھی ہو گریزاں جن سے
سال بھر ہوتا رہے جشنِ بہاراں جن سے
امن کی گود میں ہر ایک بشر آ جائے
دشتِ ظلمت پہ بہت جلد سحر آ جائے
قومِ یوسف کو بھی یوسف کی خبر آ جائے
روزِ روشن کی طرح حُسن نظر آ جائے