ایک احمدی عورت اپنے گھر اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاق کی ضامِن ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ (البقرۃ :149)
اور ہر ایک کے لیے ایک مطمحِ نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران:111)
تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہو۔
قرآن کریم کی رُو سے سب سے بہتر جماعت کے اعلیٰ اخلاق کے معیار کیا ہیں؟
فرمایا:اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ۔ (الحجرات: 14)
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سےزیادہ متقی ہے۔ اور اعلیٰ اخلاق تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر پہنچ کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم وہ تمام آداب سکھاتا ہے جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے… اسکی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے۔ گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ91تا92)
انسانی فطرت کے نزدیک ترین آداب و اخلاق کے مکمل مظہر ہمیں اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول محمد عربیﷺمیں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںآپؐ کےمتعلق فرماتا ہے کہ
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُول اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22)
کہ یقیناًتمہارے لیے اللہ کے رسول(ﷺ )میں نیک نمونہ ہے۔
اسی طرح آپؐ کے متعلق فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ (قلم:5)
اور یقیناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔
عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے میں مکہ کی امیرترین خاتون حضرت خدیجہؓ اپنا سارا تجارتی مال آپؐ کے سپرد کر دیتی ہیں تو آپؐ کے حسنِ اخلاق، نیکی، راستبازی اور انتہائی بلند درجہ دیانتداری جیسے اوصاف کی شہرت سن کر۔
پھر انہی نیک، اعلیٰ و ارفع اخلاق کی بنیاد پروہ آپﷺ کوشادی کاپیغام بھجواتی ہیںاورنزولِ نبوت کےوقت آپﷺ کے اخلاق فاضلہ کی شہادت دیتے ہوئے تسلی بھی دلاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
اسی طرح آپؐ کی ایک اَور زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ آپؐ کے متعلق فرماتی ہیں کہ
کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ
کہ آنحضرتﷺ کے اخلاق قرآن کی عملی تصویر تھے۔
خدا تعالیٰ کے رسولﷺ اپنے نیک نمونے کے ساتھ اُن خلقِ عظیم پر فائز تھے جن کی برکتوں کے طفیل عرب کے وحشی انسان بن گئے، ظلم و بربریت اور جاہلیت سے بھرے معاشرے کی حیرت انگیز اصلاح ہو گئی۔
آج اپنے گھروں اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاق رائج کرنے کی ضامِن’’احمدی عورت‘‘قرار دی گئی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ احمدی عورت خدائے واحد، اس کے فرستادہ پیغمبر محمد عربیﷺ اور امام آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر صدق دل سے ایمان لاتی ہے۔ کلام اللہ کے تابع ہو کر زندگی گزارنے کے اسلوب سیکھتی ہوئی ان راہوں پر گامزن ہے جس کے ہر قدم پر اسے زندہ و تابندہ خلافت عظمیٰ کا مضبوط کڑا حبل اللہ کی صورت میں سہارا دیے ہوئے ہے۔
ہمارے پیارے آقاحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ہر عورت ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ وہ کون ہے؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور ان کے عہد کیا ہیں؟
کیا عہد وہ کر رہی ہیں؟ ایک احمدی مسلمان عورت اور لڑکی معاشرے میں انقلاب لانے کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ کہ معاشرے کی رونقوں کا حصہ بننے کے لئے‘‘۔
(ازخطاب لجنہ جلسہ سالانہ جرمنی 2012ء)
’’ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی قوم میں عورت کا کردار قوم کو بنانے میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اگر عورت تعلیم والی ہو گی تو پھر ہی تعلیم دینے والی ہو گی۔ ایک احمدی عورت اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنے گھر کی نگرانی کرتی ہے اوراپنی اولاد کی اخلاقی اور روحانی نگرانی کرتی ہے۔ ‘‘
(ازخطاب لجنہ جلسہ سالانہ جرمنی2007ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’اولاد کے لئے ایسی تربیت کی کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت۔ اتحاد۔ جرأت۔ شجاعت۔ خودداری۔ شریفانہ آزادی پیدا ہو۔ ایک طرف انسان بنائو۔ دوسری طرف مسلمان‘‘۔
(خطباتِ نور صفحہ75)
یاد رکھیں کہ سب سے پہلے گھر کی چار دیواری ہی اخلاقیات کی وہ اصل بنیاد ہے۔ جہاں سے اعلیٰ اخلاق کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ گھر کے اندر کا ماحول۔ میاں بیوی کا آپس میں محبت و احترام کا سلوک۔ والدین کی صورت میں بچوں کے ساتھ ماں باپ کا رویہ۔ بچوں میں گفتگو کا سلیقہ۔ اخلاقی، ادبی لحاظ۔ ماں باپ کا اپنا نمونہ۔ قول و فعل میں مطابقت۔ سچائی۔ گھر میں رزقِ حلال میں برکت پر ایمان۔ ماحول کی صفائی وپاکیزگی جیسے عوامل انسانی عادات پر اثر انداز ہوتے ہیںاور ایسے ماحول میں پرورش پانے والے پاکیزہ ذہن پاکیزہ خیالات کی آماج گاہ ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس گھر میں جھوٹ۔ تلخ رویّے۔ جائز ناجائز آمدنی کے ڈھیر۔ عدم اعتمادی۔ لڑائی جھگڑے۔ مارکٹائی ایسے نامناسب ماحول میں پرورش پانے والے ذہن بھٹکے ہوئے پریشان خیالات کی آماجگاہ ہوتے ہیں۔ اور گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے ارد گرد کے ماحول میں اس کا اثر ہوتا ہے۔
گھر ہی وہ بنیادی درس گاہ ہے جس کی اعلیٰ تربیت سے ایک صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے۔ گھر میں دین کی طرف بچوں کو راغب کرنا، نماز، قرآن، دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا ماحول گھر میں بنانا اورپھر اس تعلیم پرعملی طورپر کاربند ہونے کی کوشش کرتے رہنا ہی آج احمدی عورت کی اصل ذمہ داری ہے۔
ہمیں چاہیے کہ سچ ہمارا شعار ہو، جھوٹ سےنفرت ہو، دیانت داری ہمارے اندرہو، رحم دلی، خوش خُلقی اور خوش گفتاری ہمارا وصف ہو۔ بری عادتیں چھوڑ کر نیک اخلاق اور نیک اطوار اختیار کرنا بھی قربانی ہے۔ گھروں کے اندر ماں باپ کی مکمل اطاعت، بہن بھائیوں رشتہ داروں سے محبت و شفقت کا سلوک ہو۔ اگر گھروں میں لڑائی جھگڑے ہوں گے تو معاشرے میں بھی اتحاد اور اچھے سلوک کی روح قائم نہیں رکھی جا سکتی۔
اپنے گھروں کو امن و سکون کا گہوارہ بناتے ہوئے جنت نظیر گھروں کی تعمیر کریں۔ جب گھروں کا ماحول نیک، پر سکون اور پاکیزہ ہو گا تو معاشرے میں خود بخود امن و سکون اور پاکیزگی پھیلتی چلی جائے گی اور گھروں کا براماحو ل معاشرے میں بدیاں اور بے چین یاں پھیلاتا چلا جائے گا۔ !
انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر اسے اعضاء اور قویٰ بھی ویسے ہی عطا ہوئے ہیںکہ وہ اچھے برے کی پہچان کر سکتا ہے۔ اگر سطحی نظر سے جائزہ لیا جائے تو کوئی انسان بھی اپنے آپ کو بد اخلاق تصور نہیں کرتا۔ وہ سوچتا بھی نہیں کہ کیسی عادات و اطوار کا مالک ہے؟اچھی یا بری؟اچھائی یابرائی ساتھ لےکر جب وہ گھر کی چار دیواری سے باہر اس معاشرے میں قدم رکھتا ہے تو معاشرہ اس کے کردار، اس کے اخلاق کا جائزہ لیتا ہے۔
ایک معاشرہ جو انسانوں کا ایک ہجوم ہے جس میں مختلف ماحول، قوم اور رنگ و نسل کے افراد مل جل کر باہم مصروفِ عمل ہیں ان کا مقصد ملکی ترقی کے لیے کام کرنااور معاشرے میں ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اگر معاشرے میں نیک اور مفید کاموں کی بجائے فساد اور شر پھیلنا شروع ہو جائے تو وہ اسی معاشرہ کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیںکہ آج معاشرے میں چاہے مغربی ہو یا مشرقی ہر طرف اخلاقیات کی تباہی ہے۔ ہوا و ہوس، برا ئیاں اور فساد ہے کہ پھیلتا ہی جا رہا ہے کہیں سکون اور امن نہیں ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ لجنہ اماء اللہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے تمہیں ہراول دستہ بنایا عاشقانِ محمدﷺ کا۔ تمہارے اندر مہدی ؑپیدا ہوا اور عظیم ذمہ داریاں اُٹھانے کی صلاحیت خدا نے تمہیں بخشی۔ اس نے دیکھا کہ تم اگر اس صلاحیت کی صحیح نشو و نما کرو تو دنیا کی عورت کے لئے ایک نمونہ بن سکتی ہو۔ تمہارا کام ہے کہ…اس کی نشوونما کو انتہا تک پہنچا کر دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جاؤ۔ ‘‘
(خطاب مستورات جلسہ سالانہ ربوہ1978ء۔المصابیح صفحہ 350)
آج دنیا اپنے خالق حقیقی کو بھلا بیٹھی ہے۔ اس لیے ایک احمدی عورت کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر اسے سچے خالق سے ملانے والی اوراس کے وجود کا یقین دلانے والی بن جائے۔
جس طرح ایک درخت میں پھول لگتے ہیں تو ارد گرد کی فضا میں ان پھولوں کی خوشبو رچ بس جاتی ہے، پھر پھل نکلتے ہیں اور درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح مذہب کی سچائی کا علم اس مذہب کے ماننے والوں کے اعلیٰ اخلاق سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’پس وہی معاشرہ صحیح معاشرہ ہے جو آپ کو دنیا میں پیش کرنے کا حق ہے۔ جو اسلامی تعلیم پر مبنی ہے۔ اور اس معاشرے کا کوئی رنگ نہیں ہے۔ نہ وہ مشرق کا ہے نہ وہ مغرب کا۔ نہ وہ سیاہ ہے نہ سفید۔ وہ نورانی معاشرہ ہے۔ پس اس حد تک اس معاشرےکو(یونیورسلائز) آفاقی کرنا چاہیئے اس کو تمام دنیا میں پھیلانا چاہیئے۔ جس حد تک کسی معاشرے کے پہلو اسلام سے روشنی پا رہے ہیں۔ اور اس کی بنیادیں اسلام میں پیوستہ ہیں…اس لئے احمدی خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن اور طرزِ معاشرت کو اسلام کے مطابق بنائیں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوخواہ وہ مغرب سے تعلق رکھتی ہوں‘‘۔
(حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ۔ صفحہ44)
ہمیں چاہیے کہ اپنے عمل، اخلاق، قربانیوں اور حسنِ سلوک سے دنیا پر واضح کر دیں کہ صداقت ہمارے پاس ہے۔ آج حقیقی اسلام کی تصویر احمدیت کے آئینے میں موجود ہے۔ وہی تصویر جو مدھم ہو چکی تھی اورجسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر دنیا کو دکھایا۔
وسعتِ حوصلہ، رواداری اور برداشت سے کام لیتے ہوئے خوش اسلوبی سے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچائیں۔ دنیا کی چکا چوند، لغویات اورمذہب سے دُور کرنے والی بدرسموں سے بچیں۔
ذیل میں خاکسار بعض اعلیٰ اخلاق کا ذکر کرے گی جن کو ہمیں اپنانا چاہیےتاکہ ہمارے اعلیٰ کردار اوراعلیٰ اوصاف کی خوشبو سے یہ معاشرہ اور ہمارا گلشنِ احمدیت مہک اٹھے۔
آنحضورﷺ کا ارشاد کہ
اَفْشُو السَّلَامَ بَیْنَکُم۔
آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ پر عمل پیرا ہوں۔
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست، یہود سب ملے جلے بیٹھے تھے آپﷺ نے ان کو السلام علیکم کہا اور فرمایا:
’’تم ہر ملنے والے کو سلام کروخواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں‘‘۔
(بخاری باب الاستیذان)
ہم بھی اجنبیت کی فضا کودُور کرتے ہوئے سلام کی عادت کو رواج دیں اور ایک دوسرے کی سلامتی کا باعث بنیں۔
مہمان نوازی ایک پیغمبرانہ وصف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مہمانوں کی عزت و تکریم کا واقعہ قرآن کریم کس شان سے بیان فرماتا ہے۔ آنحضرتﷺ اپنے مہمانوں کے آرام و طعام کا بہت خیال رکھتے۔ خوداپنے مبارک ہاتھوں سے مہمان کا گند سے بھرا ہوابستر صاف کیا کہ وہ میرا مہمان ہے۔ اس نبی معظم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہمانوں سے بہت شفقت، مہربانی اور خاص محبت کا سلوک فرماتے اور خود بڑھ کر خدمت کرنا اپنا فرض ِاولین خیال کرتے۔ انہی راہوں پر چلتے ہوئے ہمیں بھی اس خوبصورت فریضہ کو دل و جاں سے اداکرنا ہے۔
آنحضرتﷺکی ازواج مطہرات و صحابیاتؓ ہمیں جہاں عرب کے معاشرے میں مخلوقِ خدا کی خدمت اور
فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرات
میں نہایت وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں وہیں ہمیں اس زمانے میں بھی نہایت عجز و انکساری، محبت و شفقت کانمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کارضی اللہ عنہاکی زندگی میں نظر آتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’خدیجہ‘‘کا لقب ملا۔ آپؓ غربا کی امداد کرتیں۔ مصیبت زدوں کی مدد۔ یتیموں کی پرورش کرتیں۔ مزدوروں کو ان کی مزدوری زیادہ دیتیں تاکہ وہ خوش ہو جائے۔ غریبوں کی شادیوں میں غیر معمولی مدد فرماتیں۔
ایک مرتبہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لیے بھجوا دی۔ حضرت اماں جانؓ نے نہایت بشاشت قلبی سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اوراسے درست کر کے واپس بھجوا دیا۔
(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ326)
حضرت اماں جانؓ جیسی بلند مرتبہ خاتون نے اس رضائی کی مرمت کر کے جن صفاتِ حسنہ کا عملی ثبوت پیش کیا وہ ہمارے لیے قابل تقلید مثال ہے۔ جب تک عجز و انکسار نہ ہو ایسا کام کرناناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
حضرت سیدہ صغریٰ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ جو جماعت میں احتراماً’’اماں جی‘‘ کے لقب سے پہچانی جاتی ہیں۔ نادار، یتیم بچوں کی پرورش کرتیں۔ مستحق، قابل امداد عورتوں کا ان کے ہاںمستقل قیام کرنا۔ ان کی صبر، شکر، توکل اور وقار سے درویشانہ، سادہ، ہمدردیٔ خلائق سے بھر پورزندگی ہمارے لیے نشان راہ بن گئی۔
(ماخوذازمحسنات246تا249)
معاشرے کی بھلائی کے جذبے سے سرشار سینکڑوں معززو مکرم خواتین ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔
نازاں ہو جس پہ آج بھی اور کل بھی ہو فدا
ہم زندگی کریں تو کریں ایسی اختیار
ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہماراہر ایک سے ایسا بےلوث بے غرض حسنِ سلوک ہونا چاہیے کہ دوست دشمن سب جان لیں کہ اس احمدی عورت سے بڑھ کر کوئی دنیا کا خیر خواہ نہیں۔ کوئی سچا وفادار نہیں۔ کوئی دکھ سکھ میں شامل ہونے والا نہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بہت ساری باتیں، بہت سارے دلائل آپ دنیا کو دیتے ہیں لیکن دنیا یہ دیکھتی ہے کہ آپ میں خود ان پر عمل کرنے کی کس حد تک صلاحیت ہے اور کس حد تک کر رہی ہیں۔ اگر خود اپنے عمل ایسے نہیں تو کبھی دنیا پہ اس بات کا اثر نہیں ہوتا‘‘۔
(ازخطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی 2011ء)
ہر قوم اور ملک کی اچھی اور بری باتیں ہوتی ہیں۔ ایک مومنہ وہ ہے جو ہر اچھی بات کو اپنائے اور جو برائیاں ہیں انہیں رد کر دے۔ ہم جوگھروں میں بیٹھی یا معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے والی احمدی خواتین ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ دنیا میں جہاں بھی ہوںاپنے ملک کی وفادار ہوں، قومی زبان سیکھیں، ملکی قوانین کا احترام، وقت کی پابندی، نظم و ضبط قائم رکھنے والی ہوں۔ اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی کو دکھ نہ دینے والی ہوں۔ دوسروں کی عزت نفس اور جذبات کا خیال رکھنے والی ہوں۔
اسلام امن کا پیغام دیتا ہے۔ ’’محبت سب کے لیے۔ نفرت کسی سے نہیں‘‘کا بہترین نمونہ اپنی ذات سے پیش کرنے والی ہوں۔ احمدی ہونے کے ناطے ہمارا کردار ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو جس سے اسلام اور احمدیت کی جھلک نمایاں ہو۔ ایسا نمونہ ہو کہ دوسرے آپ کے عمدہ اخلاق کو دیکھ کر خود کھنچے چلے آئیں۔ ہم دوسروں سے مدد لینے کی بجائے خود آگے بڑھ کر مدد دینے والی ہوں۔ ہمارے ہاتھ مانگنے والے نہ ہوں۔ خوددوسروں کودینے والے ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کابہت خوبصورت شعر ہے۔
تو سب دنیا کو دے لیکن
خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو
دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہوئے معاشرے کے لیے نافع الناس وجودبنیں۔ بچوں کو خود غرض بنانے کی بجائے سکولوں یونیورسٹیوں میں تعلیم کے دوران ایک دوسرے کی مدد کرنے کی عادت ڈالیں۔ ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے کی عادت ڈالیں۔ کبھی نیک باتیں اور علم سکھانے میں بخل سے کام نہ لیں۔ یہ نیکیاں صدقہ جاریہ ہیں۔
شہیدانِ احمدیت کے واقعات کوئی صدیوں پرانے نہیں ہیں۔ ہر شہید کی شہادت کے بعد ان کے اعلیٰ اخلاق و اعلیٰ اقدار کی گواہیاں ان کے ارد گرد کا معاشرہ دیتا ہے۔ ان کے دوست احباب ہمسائے احمدی کیا غیر احمدی سب رطب اللّسان ہوتے ہیں کہ ایسا نیک، عبادت گزار، ہمدرد، سچا، مخلص، نفع رساں وجود ہماری کمپنی میں کوئی اورنہیں تھا۔ ایسا دکھ درد کا ساتھی کوئی اور ہمسایہ نہیں تھا جس کا جب چاہو دروازہ کھٹکھٹا دو۔ ایسا نیک فرد پورے محلہ میں کوئی نہیں تھا۔ جس کے وجود سے ہر امیر غریب فیض پا رہا تھا۔ غریبوں پردستِ شفقت۔ ان کی یہ خوبصورت ادائیں، اعلیٰ اخلاق ان کی نیکیاں خدا کے حضور اتنی مقبول ہوئیں کہ خدا نے انہیں ہمیشہ کے لیے آسمان کے روشن چمکتے ستارے بنا دیا۔
خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی دنیا کتنی وسیع اور خوبصورت ہے۔ وہ ہوائیں جو قدرت نے ہمارے سانسوں کو تازگی، پاکیزگی اور زندگی دینے کے لیے چلائی ہیں وہ ہوائیں آج معاشرے کی بداخلاقی، نفسا نفسی اور خود غرضی جیسی بد عادات سے متعفن ہوتی جا رہی ہیں۔ آج ہمار ا اور صرف ہمارا احمدی خواتین کا فریضہ ہے کہ انہیں اپنے نیک طور اطوار سے پاک معطر بنا دیں۔ ایسی امن و سکون کی فضا پیدا کریں کہ آئندہ آنے والی ہماری نسلیں ان فضاؤں میں گھٹن محسوس کرنے کی بجائے آزادانہ سانس لے سکیں۔ ایسے پیارے نیک وجوداس معاشرے کو دے کر جائیں جو سچے کھرے، اصولوں کے پابند، محبت و اطاعت سے سرشار، اسلام و احمدیت کے سچے علمبردار ہوں۔
آج احمدی عورت نے ہلاکت کے کنارے پر کھڑی دنیا کو حق اور سلامتی کا راستہ دکھانا ہے۔ دنیا کو ایک سچا اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ عطا کرنا ہے۔ بہادر ہو کر اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے صدق اور نیک نیتی سے اطاعت امام میں فنا ہوتے ہوئے خلافت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرناہے۔
اسلام و احمدیت کی فتح و نصرت میں مہدیٔ دَوراں کے عظیم روحانی سپہ سالار کے دست وبازو بنتے ہوئے دعاؤں کے ہتھیار سے مدد کرنی ہے۔ اپنی راتوں کو زندہ کرتے ہوئے دعاؤں کے زور سے اس دنیا کی قسمت بدل ڈالنا ہےاوراپنی آنے والی نسلوں کے لیے دعاؤں کے خزانے جمع کر نے ہیں۔
خاکسار اس مضمون کا اختتام اپنے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ کے ساتھ کرتی ہےجو ہمیں دعوت عمل دے رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’پس غور کریں اور اپنے جائزے لیں، ہمارے مقاصد بہت اونچے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے بہت اعلیٰ مقاصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ دنیا کے پیچھے چلنے کے لئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کے لئے پیدا کیا ہے۔ خیرِ امت بنایا ہے کہ اب دنیا کی رہنمائی آپ نے کرنی ہے…ترقی کے راستوں کا تعین اب آپ نے کرنا ہے۔ نیک اعمال آپ نے بتانے ہیں‘‘۔
(ازخطاب لجنہ اماء اللہ جلسہ سالانہ جرمنی 2012ء)
خدا تعالیٰ ہمیں اپنے مقام اور ذمہ داریوںکو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭