الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت حافظ حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ

ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ربوہ جولائی2012ءمیںحضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب بھیروی ؓکا ذکرخیر مکرم رانا کاشف نذیر صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔

حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحبؓ بھیرہ کی ایک معزز خواجہ فیملی میں 1842ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ آپؓ کی بیعت 1891ء کی ہے۔ آپؓ کی دونوں بیویوں حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ اور حضرت مریم بی بی صاحبہؓ نے بھی ساتھ ہی بیعت کی سعادت حاصل کی۔

آپؓ سلسلہ کی خدمت دل کھول کر کرتے تھے۔ ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؓ کے صدق و اخلاص اور مالی قربانی کا ذکر ہے۔ ایک روز آپؓ نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ یہاں (قادیان میں) مَیں نکمّا بیٹھا کیا کرتا ہوں، مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس القرآن دیا کروں گا، یہاں مجھے شرم آتی ہے کہ مَیں حضورؑ کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بے کار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آپ کا بے کار بیٹھنا بھی جہاد ہے اور یہ بے کاری ہی بڑا کام ہے۔

آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورعلیہ السلام نے بڑے دردناک اور افسوس بھرے الفاظ میں قادیان نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا کہ یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کے حضور میں عرض کیا تھا کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں اور خداتعالیٰ نے ان کی تکذیب کردی۔

آپؓ نے قادیان میں مطبع ضیاءالاسلام قائم کیا جس میں حضورعلیہ السلام کی کتب چھپتی تھیں۔ اس کے علاوہ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ اور کتب خانہ حضرت اقدسؑ کے مہتمم بھی رہے۔ لنگرخانہ کا کام بھی آپؓ کے سپرد تھا۔ حضورعلیہ السلام کے ساتھ چار گروپ فوٹوز میں شامل ہونے کا اعزاز آپؓ کو حاصل ہوا۔ حضورؑ ’’ازالہ اوہام‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’حبّی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نورالدین کے دوستوں میں سے اور اُن کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حُبّ لِلّہ کی شرط کو بجالارہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اسلام کی حقّانیت پھیلانے میں اُسی عشق کا وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نوردین صاحب کو دیا گیا ہے۔ وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کا احسن انتظام ہوجائے۔‘‘

حضورعلیہ السلام نے اپنی متعدد کتب مثلاً ’’فتح اسلام‘‘، ’’تحفہ قیصریہ‘‘، سراج منیر‘‘، ’’کتاب البریہ‘‘ اور ’’آریہ دھرم‘‘ میں بھی اپنی پُرامن جماعت اور چندہ دہندگان کے ضمن میں آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ ضمیمہ رسالہ ’’انجام آتھم‘‘ میں حضورؑ حاشیہ کے ایک نوٹ میں آپؓ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’حکیم صاحب مال اور جان سے اس راہ میں ایسے ہیں کہ گویا محو ہیں۔‘‘

حضرت حکیم صاحبؓ کی وفات 8؍اپریل 1910ءکو لاہور کے سفر کے دوران ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں عمل میں آئی۔ آپؓ کی اولاد نہیں تھی۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 29؍ نومبر 1996ء، 22؍ ستمبر 2000ء اور 6؍ فروری 2015ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘میں بھی آپؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔

………٭………٭………٭………

نشہ آور اشیاء کی ممانعت

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ ستمبر 2012ء میں نشہ آور اشیاء کے استعمال سے ممانعت کے بارے میں ایک نصیحت آموز مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو، ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو۔ انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لیے عادت کرلیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو۔‘‘ (کشتی نوح)

حضورعلیہ السلام نے مزید فرمایا:

’’جو لوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آگئی ہے۔ وہ موافق نہیں آتی۔ دراصل وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قویٰ کو نابود کردیتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم)

حضورؑ کو امریکہ کے کسی شخص کا تمباکو نوشی کے نقصانات سے متعلق ایک اشتہار سنایا گیا تو آپؑ نے فرمایا:’’ہم اس لیے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نوعمر لڑکے، نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہوجاتے ہیں… اصل میں تمباکو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے۔ اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے لہٰذا اس سے پرہیز ہی اچھا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم)

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’(تمباکو پینا) فضول خرچی میں داخل ہے۔… ابتدا تمباکونوشی کی عموماً بری مجلس سے ہوتی ہے۔‘‘ (بدر 16؍مئی1912ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا ارشاد ہے: ’’حقہ بہت بُری چیز ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

(منہاج الطالبین)

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک بار فرمایا:

’’دوستوں کو سگریٹ اور حقہ پینے کی عادت نہ ہونی چاہیے لیکن اگر کسی کو اس کی ایسی عادت پڑگئی ہے کہ وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تو اسے چاہیے کہ پبلک جگہوں پر یعنی بازاروں میں برسرعام سگریٹ یا حقہ نوشی نہ کرے۔‘‘ (خطبات ناصر جلد پنجم)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کا نمونہ بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 1892ء میں جالندھر تشریف لے گئے تھے۔ حضورؑ کی رہائش بالائی منزل پر تھی۔ کسی خادمہ نے گھر میں حقّہ رکھا اور چلی گئی۔ اسی دوران حقّہ گر پڑا اور بعض چیزیں آگ سے جل گئیں۔ حضورؑ نے اس بات پر حقہ پینے والوں سے ناراضگی اور حقّہ سے نفرت کا اظہار فرمایا۔ یہ خبر جب نیچے احمدیوں تک پہنچی جن میں سے کئی حقّہ پیتے تھے اور اُن کے حقّے بھی مکان میں موجود تھے، انہیں جب حضورؑ کی ناراضگی کا علم ہوا تو سب حقّہ والوں نے اپنے حقّے توڑ دیے اور حقّہ پینا ترک کردیا۔ جب عام جماعت کو بھی معلوم ہوا کہ حضورؑ حقّہ کو ناپسند فرماتے ہیں تو بہت سے باہمّت احمدیوں نے حقّہ ترک کردیا۔‘‘ (خطبات مسرور جلد اوّل)

………٭………٭………٭………

مکرم ماسٹر نعمت اللہ لون صاحب آف آسنور

مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان ستمبر 2012ء میں مکرم عبدالقیوم لون صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم ماسٹر نعمت اللہ لون صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جوسرینگر کے ایک ہسپتال میں 20؍جون 2012ء کو 65 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ مرحوم نے بیوہ کے علاوہ چار بیٹے پیچھے چھوڑے ہیں جن میں سے ایک بیٹا واقف زندگی ہے۔

مکرم ماسٹر نعمت اللہ لون صاحب کے دادا حضرت مولوی حبیب اللہ لون صاحبؓ اور نانا حضرت خواجہ عبدالرحمان ڈار صاحبؓ تھے۔ یعنی آپ حضرت حاجی عمر ڈار صاحبؓ کے نواسے تھے جنہیں 1894ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی، 1914ء میں آپ نے وفات پائی اورآسنورمیں واقع اپنے باغ میں دفن کیے گئے۔آپؓ کی بدولت آسنور کا سارا گاؤں احمدیت کی آغوش میں آیا اور اب تک وہاں فعّال جماعت موجود ہے۔

مکرم ماسٹر نعمت اللہ صاحب کے والد مکرم محمد عبداللہ لون صاحب فاضل کو 1947ء کے فسادات کے دوران جموں میں شہید کردیا گیا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے شہداء کے ذکر پر مشتمل خطبات میں ان کا بھی ذکر فرمایا۔ مکرم ماسٹر صاحب نے یتیمی کی حالت میں اپنی والدہ کی تربیت میں رہتے ہوئے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی۔ آپ نہایت شریف النفس، صابر، شاکر، غریب پرور اور عبادت گزار وجود تھے۔ خدمت دین میں پیش پیش رہے۔ انیس سال تک جماعت احمدیہ آسنور کے صدر کے طور پر اور قبل ازیں قائد مجلس خدام الاحمدیہ، زعیم انصاراللہ اور دو سال تک صوبائی قاضی کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔تعلیم الاسلام احمدیہ پبلک سکول آسنور میں پرنسپل بھی رہے۔ بوقت وفات امین اور سیکرٹری وصایا تھے۔

مرحوم علاقے بھر میں شرافت، امانت داری اور صدق گوئی میں معروف تھے۔جس جس علاقے میں بھی آپ نے ملازمت کی وہاں عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے۔

مالی قربانی میں السابقون الاوّلون میں شمار ہوتے تھے۔ محکمہ تعلیم میں ملازمت کے دوران تنخواہ ملتے ہی لازمی چندے ادا کرتے۔ دیگر چندے بھی بروقت ادا کرتے۔ 4؍نومبر 2011ءکو تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جن احباب کی مالی قربانیوں کا ذکر کیا اُن میں ماسٹر صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ حضورانور نے تحریک جدید کے نمائندے کی رپورٹ کے حوالے سے مرحوم کے جذبات کا ذکر اُنہی کے الفاظ میں یوں فرمایا کہ ’’جب تک مَیں زندہ ہوں خلیفہ وقت کے فرمان پر لبّیک کہتا رہوں گا۔ یہ کہتے ہی اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ جب خدا نے میرا دنیاوی ادویات کا بجٹ بڑھا دیا ہے تو مَیں آخرت کے بجٹ میں کیوں کمی کردوں۔ چنانچہ ان کے ارشاد کی تعمیل میں موصوف نے نہ صرف بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ اپنا نصف چندہ اُسی وقت ادا بھی کردیا۔‘‘

………٭………٭………٭………

آئس ہاکی (Ice Hockey)

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ دسمبر 2011ء میں کینیڈا کے قومی کھیل ‘آئس ہاکی’ کے بارے میں مکرم شاہد احمد شیراز صاحب کا ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔

آئس ہاکی کا کھیل ایسے تمام ممالک میں کھیلا جاتا ہے جہاں برف باری زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا آغاز کہیں سے بھی ہوا ہو مگر کینیڈا کے شہر مونٹریال کو اس کھیل میں جدّت اور ترقی دلانے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آئس ہاکی کا پہلا Indoor مقابلہ 3؍مارچ 1875ء کو Montreal’s Victoria Skating Rink پر دو ٹیموں کے درمیان ہواتھا۔ اس کے بعد بیسویں صدی عیسوی کی ابتدا میں پروفیشنل آئس ہاکی کے دَور کا آغاز ہوا۔1904ء میں پہلی انٹرنیشنل پروفیشنل ہاکی لیگ کا آغاز ہوا۔ انٹرنیشنل آئس ہاکی فیڈریشن کے 68ممبر ممالک ہیں اور یہ کھیل اولمپکس میں بھی شامل ہے۔ پروفیشنل آئس ہاکی کا کھیل 20منٹ کے تین پیریڈز پر مشتمل ہوتا ہے جس کے دوران آئس سکیٹس کے علاوہ بھرپور حفاظتی سامان پہنے ہوئے کھلاڑی اپنی سٹک کے ذریعے پَک (Puck)کو مخالف ٹیم کے گول پوسٹ تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button