اپنے غصہ پر قابو پائیں
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل کے دَور میں ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنا،تحمل،بردباری اور عفو و در گذر کرنے جیسی روایات آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ان سب باتوں کی ایک وجہ لوگوں میں برداشت کی کمی اورغصہ کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے۔بےشک اللہ تعالیٰ نے انسان میں فطرتاً غصہ رکھا ہے۔ دوسرے فطری جذبات کی طرح غصہ بھی ایک جذبہ ہے جو کبھی بھی ایک عام سی ناراضگی سے بڑھ کر شدید غصہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب کسی انسان کے مزاج اور مرضی کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو وہ غصہ کا اظہار کرتا ہے۔غصہ کی حالت میں انسانی دماغ کا ایک حصہ جس کو Frontal Lobeکہتے ہیں اسے دیگر جذبات کی طرح کنٹرول کرتا ہے لیکن جیسے ہی کسی شخص کے سامنے کسی قسم کی اشتعال انگیز اشیاء،افراد یا کوئی ایسی صورتِ حال سامنے آتی ہے تو وہ شخص اپنی عقلی صلاحیتوں کا اختیار کھو بیٹھتا ہے۔اور بعض اوقات اس قدر طیش میں آجاتا ہے کہ اس کے لیے اپنی دماغی حالت کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، آنکھوں کی پتلیاں پھیلنے اورسکڑنے لگتی ہیں،دوران خون بڑھ جاتا ہے،اعصاب اور پٹھے کھچنے لگتے ہیں اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے کئی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک عقل مند انسان صبر و تحمل سے کام لیتا ہے اور ہر ممکن حد تک لڑائی جھگڑے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر ایک شخص اپنے غصے پر قابو پانا سیکھ لے تو وہ اپنے مزاج کو بھی اچھی طرح سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کو خود سے کنٹرول کر سکتا ہے کیونکہ عموماً جو لوگ غصے پر کنٹرول نہیں کرتے ان کی اس عادت سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اس شخص کو غصہ دلائیں گے تو یہ اشتعال میں آکر کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔بعض اوقات اس قسم کے فیصلوں کے نتیجہ میں نہ صرف اس شخص کی زندگی بلکہ اس تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کی زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔
’’جو متقی خوشحالی میں بھی اور تنگ دستی میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
(آل عمران آیت 135)
یعنی اللہ تعالیٰ اپنا غصہ دبانے والے سے بھی محبت کرتا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی دیکھیں تو غصے کو بہت سی برائیوں کی جڑ قرا ردے کر اس پر قابو پانے کا حکم ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرْعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ
طاقتور وہ شخص نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے۔اصل طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔
(حدیقۃ الصالحین صفحہ 766)
کہتے ہیں کہ ماچس کی ہر تیلی کا ایک سر ہوتا ہے جس کو تھوڑا سا بھی رگڑو تو وہ جل اٹھتا ہے لیکن اس میں دماغ نہیں ہوتا۔اسی طرح ہر انسان کے پاس دماغ ہوتا ہے لیکن اگر وہ ذرا سی بات پر بھڑک اٹھے تو اس میں اور ماچس کی تیلی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ انسان جب محسوس کرتا ہے کہ اس کو دھوکا دیا جارہا ہے،کسی کی وجہ سے اس کی جان، مال اور اولاد کو کوئی خطرہ ہے،کوئی اس کے ساتھ زور زبردستی کر رہا ہے تو اس کو غصہ آنا ایک فطری عمل ہے لیکن اس غصے میں اپنے حواس کھو بیٹھنا اس کی جسمانی، ذہنی،نفسیاتی اور روحانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔غصے کی وجہ سے انسان کئی بیماریوں جیسے کہ بلڈ پریشر،فالج،سر درد،ذہنی دباؤاور معدے کے السر میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔بعض اوقات غصےکی شدت کی وجہ سے بلڈ پریشر اتنا ہائی ہو جاتا ہے کہ ہارٹ اٹیک یا برین ہیمرج کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ جو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آجاتے ہیں وہ آہستہ آہستہ معاشرے سے دور ہوتے جاتے ہیں لوگ ان سے گھبراتے ہیں کہ نہ جانے کس بات کا برا مان جائیں۔ان کا حلقہ احباب بہت محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ان کی بہت سی علمی،دینی صلاحیتیں ان کی اس عادت کی وجہ سے دب جاتی ہیں۔گھر کے لوگ بھی ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔بچے ان کے قریب آنا پسند نہیں کرتے اور اگر یہ خامی کسی مرد میں پائی جائے تو ایک والد کی حیثیت سے جو ایک تعلق ان کا اپنی اولاد کے ساتھ ہونا چاہیے وہ نہیں پنپ پاتا۔بعض لوگ باہر تو ٹھیک ہوتے ہیں لیکن گھر میں اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ان کارویہ بہت درشت ہوتا ہے،وہ معمولی سی غلطی پر اپنے بچوں کو ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں اور بعض اوقات بری طرح مارتے بھی ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ باپ گھر آیا ہے وہ ادھر اُدھر گھر میں چھپ جاتے ہیں تاکہ والد کا سامنا نہ کرنا پڑے اور دوسرے ان کے دلوں میں اپنے والد کی عزت بھی نہیں رہتی اور یہ ایک فطری عمل ہے کہ اگر آپ کسی کی عزت نہیں کریں گے تو اگلا بھی آپ کی عزت نہیں کرے گا۔ اور یہ صرف مرد کے ساتھ ہی نہیں ایسا عورت کے لیے بھی ہے۔بعض خواتین بہت جلد غصہ میں آجاتی ہیں۔اپنے بچوں کو مارتی پیٹتی ہیں،خاوند اور رشتہ داروں کے ساتھ بد زبانی کرتی ہیں۔غصہ کی وجہ سے ہی عائلی مسائل بھی بڑھتے ہیں۔ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے گھروں میں لڑائیاں ہوتی ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوتا ہے۔ مائیں بعض اوقات اپنا غصہ بچوں پر اتارتی ہیں یا پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں ڈانٹتی ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے بچے پر اپنا رعب رکھیں لیکن ان کا یہ رعب ساری عمر کے لیے بچے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کو تباہ کر دیتا ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اپنے غصہ کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اپنی سوچ بدلنے کی کوشش کریں کیونکہ بعض اوقات آپ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر کوئی بات اس طرح ہوئی یا کسی نے مجھے یہ کہا تو مجھے بہت غصہ آئے گا اور اگر اتفاق سے ایسا ہو جائے تو آپ کا دماغ فوری طور پر اس سوچ پر عمل کرتا ہے اور آپ غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں،یہ ایک شعوری فیصلہ ہو تا ہے۔ اس لیے اگر کسی مسئلہ کی وجہ سے غصہ آئے تو آرام سے سوچیں کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے، اس ماحول میں سے نکل جائیں،اگر کسی کمرے میں کسی کے ساتھ بیٹھے ہیں تو وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ چلے جائیں۔ نفسیاتی تحقیق کے مطابق غصہ کا دورانیہ عام طور پر 8 یا 9 منٹ تک ہوتا ہے اس لیے شدید غصے کے دوران اگر اپنے اوپر کنٹرول کر کے اس جگہ سے ہٹ جائیں ،ان لوگوں سے دور چلے جائیں جن کی وجہ سے آپ کو غصہ آیا ہے تو دس منٹ کے بعد آپ نارمل ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اپنی سانس کی رفتار آہستہ کر لیں یعنی دھیمے دھیمےسانس لیں،سانس آہستہ سے اندر کھینچیں اور پھر باہر نکالیں،جسم کو پر سکون رکھیں،بعض ماہرین نفسیات کے مطابق اگرالٹی گنتی گننا شروع کر دیں تو وہ بھی مؤثر ہوتی ہے۔
کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر کسی انسان کو غصہ آجائے تو وہ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے،بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔
(مسند احمد بن حنبل،جلد 5 صفحہ 152 مطبوعہ بیروت)
اورآج سائنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر غصہ کی حالت میں جسم کی حالت تبدیل ہو جائے تو انسانی جسم میں جوش پیدا کرنے والے انزائم کی حالت بھی تبدیل ہو جاتی ہے اور غصہ میں کمی آجاتی ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا شروع کر دیں اس سے اللہ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور شیطانی اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔
خاموشی اختیار کریں۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جائو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید کرتے ہوئے تین بار یہی بات فرمائی۔
بعض حالات میں خاموش رہنے میں ہی عافیت ہوتی ہے،ضروری نہیں کہ ہر بات پر بحث کی جائے یا جواب دیا جائے۔بعض اوقات بحث مباحثہ غصہ کو مزید ہوا دیتا ہے۔
تعوّذ پڑھیں۔’’حضرت سلیمان بن صرد ؓبیان فرماتے ہیں کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات پر جھگڑ پڑے۔ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ تھا،رگیں پھولی ہوئی تھیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر وہ اس بات کو کہے تو اس کی یہ کیفیت جاتی رہے یعنی اگر وہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔اس پر لوگوں نے اس جھگڑنے والے شخص کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔‘‘
(حدیقۃ الصالحین صفحہ 798)
یعنی اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیں۔
وضو کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غصہ شیطان کی وجہ سے آتا ہے اور شیطان آگ سے بنا ہوا ہے اور آگ پانی سے بجھتی ہے اس لیے جب تمہیں غصہ آئے تو وضو کر لیا کرو۔ ‘‘
(مسند احمد بن حنبل، جلد4 صفحہ 226، مطبوعہ بیروت)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃولسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو۔بے حیائی نہ کرے۔مخلوق سے بد سلوکی نہ کرے۔ محبت اور نیکی سے پیش آوے۔اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے۔سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے۔‘‘
(ملفوظات۔جدید ایڈیشن،جلد 5 صفحہ 609)
ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں ‘‘میں چوتھی شرط بیعت یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماًاور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’دشمنیاں مت رکھو۔اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں دل کینوں اور نفرتوں سے بھر جاتے ہیں۔ تاک میں ہوتے ہیں کہ کبھی مجھے موقع ملے اور میں اپنی دشمنی کا بدلہ لوں حالانکہ حکم تو یہ ہے کسی سے دشمنی نہ رکھو،بغض نہ رکھو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی ایسی مختصر بات بتائیں۔نصیحت کریں جو میں بھول نہ جاؤں آپ ؐ نے فرمایا غصے سے اجتناب کر و۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا’’غصے سے اجتناب کرو ‘‘تو جب غصے سے اجتناب کرنے کو ہر وقت ذہن میں رکھیں گے تو کینےخود بخود ختم ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘
(دس شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ 77۔78)
خوش رہنا ہماری صحت کے لیے ضروری ہے جبکہ غصہ خوشی اور صحت دونوں کو ختم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے غصہ کو قابو میں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ بے محل اور بے قابو غصہ دبانے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی بات ہے جس پر عمل کر کے ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے۔
٭…٭…٭