شروط عمریہ قرآن و سنت کے آئینے میں (قسط سوم۔ آخری)
شروط عمریہ کےمتن میں اضطراب
شروط عمریہ کے بارے میں موجود تینوں روایات میں بھی باہم اختلاف پایا جاتا ہے۔
ان میں سےپہلی روایت کے مطابق خود اہل جزیرہ (دجلہ وفرات کے درمیانی علاقے میں رہنے والوں)نے عبدالرحمٰن بن غنم کو یہ شرائط لکھ کر دی تھیں، پھر عبدالرحمٰن نے یہی لکھی ہوئی شرائط نقل کر کے حضرت عمرؓ کو بھجوائیں۔
(احکام اہل الذمۃ لابن قیم جزء3صفحہ1159، 1160)
اس کے برعکس دوسری روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن غنم نے جب نصاریٰ شام سے مصالحت کی تو انہوں نے براہِ راست خود یہ شرائط حضرت عمرؓ کو لکھ کر بھجوائیں۔
(احکام اہل الذمۃ لابن قیم جزء3صفحہ1161، 1162)
تیسری روایت کہتی ہے کہ عبدالرحمٰن نے وہی نصاریٰ کی لکھی ہوئی شرائط انہیں کی طرف سے حضرت عمرؓ کے نام ایک خط کی صورت میں بھجوائیں۔
(احکام اہل الذمۃ لابن قیم جزء3صفحہ1163)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئےپروفیسر آرتھرسٹینلی ٹریٹن لکھتے ہیں:
’’There are some very curious points in this covenant. It is not usual for a conquered people to decide the terms on which they shall be admitted to alliance with the victors.‘‘
(The Caliphs and their non-Muslim Subjects page 8)
یعنی کہیں بھی یہ دستور رائج نہیں ہے کہ مغلوب غالب قوم کو اپنی من پسند شرائط نافذ کرے۔
معاہدہ طے کرنے والے فریق میں ابہام ہی اس کی کمزوری کی کافی دلیل ہے۔ پھر معاہدہ کے مقام کے بارے میں بھی اشتباہ ہے۔ عبدالرحمٰن بن غنم نے شرائطِ نصاریٰ پر مشتمل جو خط حضرت عمرؓ کو ارسال کیا تو اس میں اس شہر کا کوئی ذکر نہیں کیا جس میں معاہدہ طے پایا بلکہ یہ مبہم سی عبارت لکھ دی :
’’یہ تحریر عمر کے لیے فلاں فلاں شہر کے عیسائیوں کی طرف سے۔ ‘‘
(احکام اہل الذمۃ لابن قیم جزء3صفحہ1163)
اس بارہ میں پروفیسر آرتھرسٹینلی ٹریٹن لکھتے ہیں:
“It is strange that, in the popular form, it is a treaty with a nameless town. If it had been made with Damascus, the capital of the province, one would except the fact to have been remembered. The other alternative is that it was first made with a place the name of which was forgotten, and then it was assumed to be the treaty between Abu Ubaida and Damascus. This view might be supported by the other treaties with Damascus.‘‘
(The Caliphs and their non-Muslim Subjects by A.S Tritton p.89)
ڈاکٹر صبحی الصالح لکھتے ہیں کہ
’’اگر مذکورہ بالا شہر سے مراد صوبے کا دارالحکومت دمشق ہے تو بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے معاہدہ اہل شام سے معارض ہے…
حضرت خالدؓ نے اہل شام کو ان کے نفوس واموال اور گرجوں کی امان دی تھی اور یہ کہ ان کے شہر کی فصیل نہ گرائی جائے اور نہ ہی ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں رہائش رکھی جائے… اور اگر عہد میں مذکورہ شہر سے مرا د دمشق کے سوا شام کا کوئی اور شہر ہے تو عجیب اور نہایت حیران کُن بات ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اہل حمص…کو ان کے نفوس واموال، شہر کی فصیل اور گرجوں کی امان دی کہ وہ نہ گرائے جائیں اور اہل بیت المقدس کو ان کے نفوس، اموال، گرجوں، صلیبوں، ان کے بیماروں اور صحتمندوں بلکہ تمام افراد کو امان دی گئی، یہ کہ ان کے گرجے نہ گرائے جائیں اور نہ ان میں رہائش رکھی جائے… الخ۔ پس اُس مذکورہ بالاشہر کی تعیین نہ کرنا جس میں عہد طے پایا تھا اس روایت کو مشکوک بنا دیتا ہے اور اس کے راویوں کو مشتبہ بنا دیتا ہے بلکہ انہیں عمداً جعلسازی اور ابہام پیدا کرنے کی وجہ سے قابلِ مذمّت ٹھہراتا ہے۔
پس شروط عمریّہ پرمشتمل مذکورہ تینوں روایات اپنی سند، متن اور معاہدہ طے کرنے والی شخصیت اور معاہدے کے محلِ وقوع میں اختلاف واضطراب کی وجہ سے ناقابلِ اعتماد ہیں۔ ‘‘
(مقدمۃ شرح الشروط العمریة مجردا من کتاب احکام اہل الذّمۃ صفحہ ی، ک از ڈاکٹر صبحی صالح، دمشق یونیورسٹی)
علامہ فھمی ہویدی’’مواطنون لا ذمیون‘‘میں اس معاہدہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ابن عساکر (متوفی:571ھ) ان کو دو مصادر سے منسوب کرتا ہے ایک تحریر کے مطابق خلیفہ کی طرف سے نامعلوم نصاریٰ کی طرف خط میں وہ ان شرائط کو مقرر کرتے ہیں۔ اور دوسری دفعہ ایسے خط میں جو عیسائیوں کی طرف سے ابو عبیدہ بن الجراح کی طرف ہے۔ وہ یہ ظاہر نہیں کرتے کہ کہاں کے ہیں جبکہ بعض کے مطابق وہ اہل دمشق سے ہیں۔ ‘‘
(مواطنون لا ذمیون :موقع غیر المسلمین فی مجتمع المسلمین، دارالشروق قاھرة، الطبعة الثانیة، 1990ء صفحہ204)
مزید برآں یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ عبد الرحمٰن بن غنم ان شرائط کو لکھنے والے تھے یا نصاریٰ کے نام سے ان کو آگے بیان کرنے والے۔ یا وہ شرائط حضرت عمرؓ کے خط میں درج تھیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ خط ابو عبیدہ بن الجراح کو بھجوایا تھا یا عبد الرحمٰن بن غنم کو۔ اور اس بات کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ مرسل نصاریٰ شام تھے یا نصاریٰ اہل جزیرہ۔
نیز حضرت عمرؓ کی طرف سے جن دو شرائط کا اضافہ ہوا۔ باقی تمام معاہدات عمر میں کہیں بھی ان کا ذکر نہیں…’’علامہ ابن قیم نے ان شروط کےمصادر کی صحت پر تحقیق نہیں کی صرف تین روایات پر انحصار کیا ہے۔ ‘‘
(مواطنون لا ذمیون :موقع غیر المسلمین فی مجتمع المسلمین، دارالشروق قاھرة، الطبعة الثانیة، 1990ء صفحہ204)
متن میں تناقض و تضاد
بعض علماء نے لاعلمی میں یا سہواً یا عمداً خلط ملط کرتے ہوئےشروط عمریہ کو ہی ’’العھدة العمریة‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ ’’العھدة العمریة‘‘کی شرائط معاہدہ بیت المقدس میں خود حضرت عمرؓ نے طے فرمائی تھیں۔ (معجم اللغة العربية المعاصرة جزء2صفحہ1569)جبکہ شروط عمریہ حضرت عمرؓ کی طرف جھوٹے طور پر منسوب ہیں۔ کیونکہ دونوں معاہدات کے متن میں بہت سارے تضادات ہیں۔
شروط عمریہ روایات ضعیفہ، منقطعہ اور غیر ثقہ روایات سے ماخوذ ہیں جو کہ حضرت عمرؓ کے ایک سپہ سالار کی طرف سے نصاریٰ شام کی تحریر کردہ شرائط پر مبنی آپؓ کو بھجوائی گئیں جن میں32شرائط ہیں جو خلاف عقل، تعلیمات اسلامی کے منافی اور قرآنی نص کے بالکل متضاد ہیں۔ اور حریت ضمیر، انسانی شرف اور عزت نفس جو اسلام کا لب لباب ہے اس کے بالکل برعکس ہیں۔
یحیٰ بن آدم کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ تو وہ ہیں جنہوں نے بستر مرگ پر بھی اپنے بعد ہونےوالے خلیفہ کو ذمیوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت فرمائی کہ ان سے کیے ہوئے عہد وفا کیے جائیں اوران کی حمایت میں جنگ کی جائے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔
(کتاب الخراج صفحہ109)
درایت کے لحاظ سے شروط عمریہ کا ردّ!
درایت کے لحاظ سےبھی شروط عمریہ علمائے دور حاضر کے نزدیک کلیةً قابل ردّ ہیں۔ کیونکہ
i. یہ شرائط روح اسلام اور حریت مذہب کے برخلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرة:257)
ii. شروط عمریہ کی شق نمبر 1 میں اپنے شہر میں نیاگرجا اور دیگر مذہبی عمارات بنانے پر پابندی وغیرہ سورة البقرة کی آیت257
’’لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ‘‘
اور سورة الحج آیت41
’’وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا‘‘
کے صریح خلاف ہے۔
iii. شروط عمریہ کی شق نمبر5اور6کہ ناقوس دھیمی آواز سے بجانااور گرجوں پر صلیب نہ لٹکانا اور اپنی نمازمیں آواز اونچی نہ کرنا بھی سورة البقرة آیت 257کے خلاف ہے۔ جو آزادیٔ مذہب کا پروانہ دیتی ہے۔
iv. ان شرائط کی شق نمبر7اور8کہ مسلمانوں کے بازار میں صلیب اور اپنی کتاب باہر نہ نکالنا اور تہوار کے دن بھی باہر نہ نکلنا سورة البقرة کی آیت 257 اور سورة الکافرون کی آیت7
’’لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ‘‘
کے خلاف ہے۔ جس کے مطابق ہرکوئی اپنے دین پر عمل کرنے میں آزاد ہے۔
v. شرائط کی شق نمبر12کہ ہم شرک ظاہر نہیں کریں گے، بھی سورة الکافرون آیت7اور سورة الکہف آیت 30
’’فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ‘‘
کے خلاف ہے۔ جس میں ہر شخص کو اپنے عقیدہ کے اظہار کا اختیار ہے۔
vi. ان شرائط کی شق نمبر13کہ ہم اپنے دین کی کسی کو ترغیب نہ دیں گے اور ہی دلائل سے کسی کو دعوت دیں گے، سورة البقرة آیت 112
’’قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِيْنَ‘‘
میں دی گئی آزادیٔ تبلیغ کے خلاف ہے۔ جس میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کو دعوت ہے کہ اگر تم سچے ہوتو دلیل لاؤ۔
vii. شروط عمریہ کی شق نمبر16کہ جہاں بھی ہوں اپنا خاص لباس استعمال کریں گے، سورة الاعراف آیت 27
’’يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِيْ سَوْآتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذٰلِكَ خَيْرٌ‘‘
کےخلاف ہے۔ جس میں تمام بنی نوع کو حسب منشاء ایسی زینت اختیار کرنے کی رہ نمائی ہے جو ستر کا موجب ہو۔
viii. شروط عمریہ کی شق نمبر17کہ مسلمانوں کے ساتھ ٹوپی، عمامہ، جوتوں، مانگ نکالنے اور ان جیسی سواری پر سوار ہونے میں مشابہت اختیار نہیں کریں گے، یہ شرط سورة الاعراف آیت 27اورسورةالنحل آیت9
’’وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘
اور سورة الزخرف آیت13کے خلاف ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی سواری کےجانور پیدا کیے ہیں۔ جن پر پابندی لگانا جائز نہیں۔
ix. معاہدہ کی شق نمبر18کہ عیسائی مسلمانوں کی اصطلاحیں استعمال نہیں کریں گے، قرآنی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ(i)سورةالحج آیت79
’’هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ‘‘
میں اسلام سے بہت پہلے حضرت ابراہیمؑ کا نام مسلمان رکھاگیا۔(ii)اورسورةالکہف کی آیت22
’’الَّذِينَ غَلَبُوْا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًا‘‘
میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کےلیے بھی مسجد کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ (iii)سورة المائدہ کی آیت 3
’’لَا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ اللّٰهِ‘‘
میں اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کے شعائر کے احترام کا بھی حکم دیتاہے۔ (iv)سورة النساء کی آیت95
’’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا‘‘
میں ارشاد ہے کہ جو تمہیں سلام کہے اسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ یعنی غیرمسلم کا سلام بھی قبول کرو۔
x. معاہدہ کی شق نمبر 19کہ نصاریٰ مسلمانوں کی کنیت استعمال نہیں کریں گے، سورة الاحزاب آیت6
’’ادْعُوْهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ‘‘
کے خلاف ہے۔ جس میں لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے بلانے کی تعلیم ہے۔
xi. معاہدہ کی شق نمبر23کہ اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں بنائیں گے، سورة الرحمٰن آیت3تا5
’’عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔ خَلَقَ الْإِنْسَانَ۔ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ‘‘،
سورة الشعراء آیت196
’’بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ‘‘
اورسورةالفرقان آیت2
’’تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْرًا‘‘
کے خلاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو تمام جہانوں کےلیے رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر فصیح و بلیغ زبان عربی میں قرآن کریم نازل فرمایا جو کہ تمام جہانوں کےلیے قیامت تک ہدایت کا ذریعہ ہے اگر غیرمسلموں کو عربی سیکھنے نہیں دی جائے گی تو وہ قرآنی تعلیم کو کیسے سمجھیں گے اور اس شق میں موجود پابندی کانتیجہ تو یہی ہے کہ انہیں عربی زبان سے نابلد رکھا جائے۔
xii. اس معاہدہ کی شق نمبر28کہ ہم اپنے بچوں کو قرآن نہ پڑھائیں گے، سورة توبہ آیت 6
’’وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ‘‘
اور
’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ‘‘(النساء:83)
کے خلاف ہے۔ جس میں مشرک بھی چاہے تو اسے امن مہیا کرکے قرآن سننے کا حکم ہے اور غیر مسلم مخالفین کوقرآن کریم پر غوروتدبر کرنے کی دعوت ہے۔
xiii. معاہدہ کی شق نمبر29کہ تجارت میں شراکت کے موقع پراس کا جملہ معاملہ مسلمان کے سپرد ہوگا، سورة النحل آیت91
’’إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ‘‘
اورسورۃ الممتحنة آیت 9
’’ لَا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ‘‘
کے خلاف ہے۔ جس میں عدل و احسان اور انصاف و حسن سلوک کی تعلیم ہے۔
xiv. اسی طرح سورة توبہ آیت29 میں ذمیوں سے جزیہ لینے کی صورت میں ان کے جان و مال کا پورا تحفظ دیا گیا ہے اور وہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کرکے اپنے مذہب پر آزادی سے کاربند رہ سکتے ہیں۔
xv. مزید برآں یہ شروط حضرت عمرؓ کے دیگر معاہدات صلح کےبالکل برعکس اور متضاد ہیں۔ مثال کے طور پر اب15ھ میں ہونے والے معاہدہ بیت المقدس کی شرائط ملاحظہ فرمائیں۔
معاہدہ بیت المقدس اور اس کی منصفانہ شرائط
15ھ میں معاہدہ بیت المقدس میں حضرت عمرؓ نے بنفس نفیس جابیہ مقام پراہل ایلیا کے ہر علاقہ کے لیے معاہدہ صلح کیا۔ جومؤرخ علامہ طبری (متوفی:310ھ) کے مطابق درج ہے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
- اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین نے ایلیاء والوں کو امان دے دی ہے۔ ان کو ان کی جانوں اور مالوں کی امان دی گئی ہے۔
- ان کے عبادت خانے، صلیبیں، بیمار اور تندرست اور تمام مذاہب والے باشندے امان میں رہیں گے۔
- ان کے گرجاؤں کو کوئی (مسلمان)رہائش کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی عمارت یا زمین میں سے کمی کی جائےگی اور نہ ہی ان کی صلیب یا مال میں سے کوئی کمی کی جائے گی۔
- ان پر ان کے دین کے متعلق جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔
- اور ایلیاء میں ان لوگوں کے ساتھ کسی یہودی کو رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
- ایلیاء کے باشندوں کے لیے دوسرے شہروں کے لوگوں کی طرح جزیہ کی ادائیگی لازم ہوگی۔
- ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ رومیوں کو اور اسی طرح چوروں کو ایلیاء سے نکال دیں۔
- ان لوگوں میں سے جو کوئی وہاں سے نکلے گا تو اس کی حفاظت اس کے امن کی جگہ تک پہنچنے تک کی جائے گی۔
- اور جو یہاں پر قیام کرنا چاہے گا تو اس کی بھی حفاظت کی جائے گی اور اس پر ایلیاء والوں کی طرح جزیہ کی ادائیگی لازم ہوگی۔
- مزید برآں یہ کہ اگر ایلیاء والوں میں سے کوئی بذات خود اپنے مال کو لے کر اپنی صلیبوں اور دیگر دینی سامان کے ساتھ رومیوں کی معیت میں جانا چاہے تو اس کی جان اور مال و متاع بھی امن میں ہوگا حتی کہ وہ اپنی امن والی جگہ تک پہنچ جائیں۔
- اور ان لوگوں میں سے جو لوگ فلاں شخص کے قتل سے پہلے ہی سے زمیندار تھے تو اب ان کی مرضی ہے کہ چاہیں تو ایلیاءوالوں کی طرح وہ بھی جزیہ ادا کریں۔
- اور اگر چاہیں تو روم والوں کے ساتھ وہ بھی جاسکتے ہیں اور جو اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے اس لیے کہ ان (زمینداروں) سے ان کی فصل کی کٹائی آنے سے قبل کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں لیا جائے گا۔
جو کچھ بھی اس معاہدے میں تحریر کیا گیا ہے یہ اللہ، اس کے رسولﷺ اور خلفاء اور مومنوں کی ذمہ داری میں ہے جبکہ یہ لوگ اپنے واجب شدہ جزیہ کی ادائیگی کریں۔
اس معاہدے کے گواہ یہ لوگ بنائے گئے تھے:
1۔ حضرت خالد بن ولیدؓ
2۔ حضرت عمرو بن العاصؓ
3۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ
4۔ حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان
اس معاہدہ کی تحریر 15؍ہجری میں ہوئی۔
(تاریخ طبری اردو، مترجم:سید محمد ابراہیم ندوی جلد دوم صفحہ 807تا808دارالاشاعت کراچی 2003ءحسان پرنٹنگ پریس کراچی)
اس کے معاً بعد علامہ طبری تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اس کے علاوہ دیگر صلح نامے لدّ کے معاہدہ ہی کی طرح کے تھے جن میں عیسائیوں کو مذہبی آزادی کا مکمل حق حاصل تھا۔ ‘‘
(تاریخ طبری اردو، مترجم: سید محمد ابراہیم ندوی جلد دوم صفحہ 807تا809دارالاشاعت کراچی 2003ءحسان پرنٹنگ پریس کراچی)
شروط عمریہ اور دیگرمعاہدات عہد عمرؓ کا تقابلی جائزہ
تاریخ سے حضرت عمرؓ کے اہل جزیرہ، اہل فارس، اہل روم بازنظینیوں کے غیر مسلموں سے معاہدات ثابت ہیں۔ لیکن ان معاہدات کے بارہ میں سب کا اتفاق ہے کہ یہ معاہدات اور ان کی شروط شرعی نصوص سے لغوی یا معنوی لحاظ سے مخالف نہیں۔ ان معاہدات کا اصل مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ اور عالم اسلامی میں امن کا قیام تھا۔
(مواطنون لا ذمیون :موقع غیر المسلمین فی مجتمع المسلمین، دارالشروق قاھرة، الطبعة الثانیة، 1990ءصفحہ201)
محمد حمید اللہ حیدرآباد(1424ھ)نے اپنی کتاب ’’مجموعة الوثائق السياسية للعهد النبوي والخلافة الراشدة‘‘ میں عہد نبوی اور عہد خلفائے راشدین کے قریباً تمام معاہدات کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں معاہدہ اہل جزیرہ مع عبدالرحمٰن بن غنم کا ذکر نہیں ملتا۔ نیز یہ معاہدہ کتاب مذکورہ میں درج تمام معاہدات کےبر خلاف ہے۔
قابل ذکر امر
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے طویل محاصرہ کے بعدجب اہل ایلیاء نے مصالحت کی پیشکش کی تو حضرت عمرؓ نے ان کی کمزوری کے باوجود شرف انسانی کا لحاظ کرتے ہوئے از راہ احسان مندرجہ بالا شروط جوقرآن و سنت وحدیث کے عین مطابق تھیں، طے فرمائیں جو عدل و مساوات کی اعلیٰ مثال ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اس دَور میں غیر مسلموں کو ان کی جان، مال، عزت کی حفاظت کا وعدہ کیا اور انہیں مکمل مذہبی آزادی دےکر عدل و مساوات کا نمونہ قائم کیا جبکہ وہ زمانہ ظلم و تعدی اور غیروں کو ذلیل و حقیر بنانے کاتھا۔ یہ معاہدہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں عزت اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ اور موجودہ زمانہ میں ’’العھدة العمریة‘‘کے نام سے معروف ہے۔
اندریں صورت اہل جزیرہ کے عیسائیوں کاصحابیٔ رسولؐ عبد الرحمٰن بن غنم کو خوداپنےلیےظالمانہ شرائط صلح تجویزکرکےبھجوانا ناقابل فہم ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ روایت کے مطابق غالب کی بجائے مغلوب فریق شرائط صلح تجویز کررہا ہے جوناقابل تسلیم ہے۔
لہٰذاشروط عمریہ غیر منصفانہ وظالمانہ ہیں جو معاہدہ بیت المقدس اور باقی تمام معاہدات عمرؓ سے یک سرمختلف اورمتضاد ہونے کی وجہ سےناقابل قبول ہیں اور روایت و درایت ہر دو لحاظ سے ردّ کرنے کے لائق ہیں۔
اسی بناء پر محققین علمائے دورحاضربالخصوص علامہ فھمی ہویدی، ڈاکٹر صبحی الصالح، علامہ یوسف قرضاوی، علامہ شبلی نعمانی نے ان کو ردّ کرتے ہوئے صرف حضرت عمرؓ کےمعاہدہ بیت المقدس کے موافق شرائط قبول کی ہیں۔
حضرت عمربن خطابؓ کاذمیوں سے حسن سلوک
حضرت عمر بن خطابؓ کا ذاتی نمونہ بھی شروط عمریہ کو ردّ کرتا ہے۔ آپؓ غیر مسلم رعایا کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ یہودو نصاریٰ کی بطور خاص دلداری فرمایا کرتے تھے اور اپنے حکام کے ان کے ساتھ رویہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ عیسائیوں کا وفد آپ کے پاس آیا تو آپ نے خاص طور پر ان سے پوچھا کہ تمہارے علاقہ میں مسلمان تمہیں حاکم قوم ہونے کی وجہ سے ستاتے تو نہیں؟ انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا کہ شریفانہ اخلاق کے سوا ہم نے مسلمانوں سے کچھ اور نہیں سیکھا۔
حضرت عمرؓ کے عہد میں کوفہ کی بنیاد ڈالی گئی تو بیت المال اور ایوان حکومت کی تعمیر کا کام ایک نہایت ہی ہوشیار اور لائق پارسی معمار’’روزبہ‘‘ کے سپرد کیا گیا۔ یہ شخص فن تعمیر کا ماہر اور بڑا قابل استاد تھا اور اس نے ایسی عمدگی اور خوبی سے کام کیا کہ گورنر نے خوش ہوکر کام ختم ہونے کے بعد اسے اور اس کے کاریگروں کوحضرت عمرؓ کی خدمت میں مدینہ منورہ بھیج دیا اور اس کے کام کی بے حد تعریف کی۔ حضرت عمرؓ نے ہمیشہ کے لیے اس کا ایک معقول روزینہ مقرر کردیا۔
(الفاروق حصہ دوم صفحہ87 بحوالہ اسلام اور غیر مسلم رعایا)
حضرت عمرؓ نے ایک بوڑھے ذمّی کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ تو فرمایا:خدا کی قسم!یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کی جوانی میں تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے بڑھاپے میں اس طرح رسوا ہونے دیں۔ چنانچہ آپ نے حکم صادر فرمایا کہ اس بوڑھے کو زندگی بھر اس کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے ملک کے گورنروں کو لکھا کہ وہ غیر مسلم رعایا کے مستحق اور غریب افراد کو بیت المال سے پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔
(کتاب الخراج صفحہ72، فتوح البلدان صفحہ36 بحوالہ اسلام اور غیر مسلم رعایا صفحہ30-31)
شروط عمریہ میں موجود خصوصی طور پر قابل ردّ اور ناقابل فہم امور
٭…اولاد نصاریٰ پر قرآنی تعلیم کے حصول پر پابندی کی شرط
معاہدہ کی شروط میں ایک شرط نصاریٰ شام کی طرف سے یہ تھی کہ
وَلَا نُعَلِّمَ أَوْلَادَنَا الْقُرْآنَ،
اولاد نصاریٰ پر قرآنی تعلیم کے حصول پر پابندی والی شرط حضرت عمرؓ کیسےقبول کرسکتے تھےاور نہ ہی نصاریٰ یہ شرط اپنے اوپر لگا سکتے تھے جبکہ وہ قرآن پڑھتے ہی نہ تھے۔
(مقدمة شرح الشروط العمریة لصبحی الصالح صفحہ ل)
جماعت احمدیہ کے جید عالم حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’عبارت کی ژولیدگی اور اس کا اندرونی بے ربط ڈھانچہ خود اس معاہدہ کے جعلی ہونے کو قطعی طور پر ثابت کررہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی بھی یہ پابندیاں عائد نہیں ہوئیں کہ غیر مسلم قرآن کی تعلیم حاصل نہ کریں بلکہ اس کے برعکس قرآن کریم نے باربار مخالفین کو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ فرمایا:
’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ‘‘(النساء :83)
(کیا تم قرآن پر غوروفکر نہیں کرتے)پھرکہا:
’’وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ‘‘ (القمر:18)
(یعنی ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے کیا کوئی نصیحت قبول کرلے گا)جو قرآن یہ دعوت دیتا ہے وہ اپنے مطالعہ پر اس پابندی کی کیسے حمایت کرسکتا ہے۔ اسی طرح عربی زبان کے سیکھنے پر بھی کبھی پابندی نہیں لگائی گئی۔ سینکڑوں غیر مسلم عربی کے فاضل ہوئے حضرت عمرؓ جب شام کے علاقہ جابیہ میں تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے ایک تقریر کی جس میں آپ کا ترجمان ایک عیسائی پادری تھا جو بشپ کا نائب اور جاثلیق کے عہدہ پر فائز تھا۔ ‘‘
(اسلام اور غیرمسلم رعایا صفحہ62تا63)
مولانا غلام رسول مہر اس معاہدہ کو حضرت عمرؓ کے زمانے کے بعد کا قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
’’اس مکتوب میں…بعض ایسی پابندیاں ہیں جنہیں کوئی مسلمان گوار ا ہی نہ کر سکتا تھا۔ مثلاً یہ کہ عیسائی اپنے بچوں کو قرآن نہ پڑھائیں حالانکہ قرآن کی عام تعلیم ہر سچے مسلمان کا نصب العین تھی۔ ‘‘
(اسلام اور قانونِ جنگ وصلح صفحہ272حاشیہ)
٭…لباس میں مسلمانوں سے مشابہت اختیارنہ کرنے کی شرط
معاہدہ میں لباس اور شعائر اسلامی کے اختیار کرنے کی شرط بھی الحاقی اور جعلی ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دَور میں عیسائی عمّال دیگر مسلمان عہدیداروں کی طرح اعلیٰ لباس پہنتے تھے اور عوام کے سامنے اپنے آپ کو بلند مقام پر رکھتے تھے۔ اور عیسائی اپنا قدیم لباس بغیر کسی جبر کے پہنتے تھے۔ اس لیے ایسی کسی پابندی کی ضرورت نہ تھی۔
(مواطنون لا ذمیون :موقع غیر المسلمین فی مجتمع المسلمین، دارالشروق قاھرة، الطبعة الثانیة، 1990ءصفحہ196، 204)
’’اسلام اور غیرمسلم رعایا‘‘ کے مصنف حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’حضرت عمرؓ درحقیقت مسلمانوں پر یہ زور دیتے تھے کہ وہ سادہ زندگی بسر کریں اور موٹا کھدر کی طرز کا لباس پہنیں…محنت اور مستعدی کو اپنا شعار بنائیں اور عجمیوں کی طرح آرام طلب اور عیش پسند نہ بنیں …بعد میں حضرت عمرؓ کی اس ہدایت کی اصل روح کو لوگوں نے بھلا دیا اور غلط فہمی سے اس کے یہ معنے لے لیے گئے کہ گویا عجمیوں کے لیے مذہباً کوئی مخصوص لباس تجویز کیا گیا تھا جس کا ان کو پابند بنانا شرعاً ضروری تھا…شروع میں ذمی عام شہری لباس پہننے میں بالکل آزاد تھے اور ان پر اسلام کی طرف سے کسی قسم کی کوئی معاشرتی پابندی عائد نہ تھی البتہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے زمانہ میں بعض سیاسی مصالح کے پیش نظر بیشک بعض قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں اور بعد میں فقہاء نے بنو امیہ کے ان اقدامات کو مذہبی رنگ دے دیا۔ چنانچہ مشہور حنفی فاضل علامہ کاشانی اپنی شہرہ آفاق کتاب بدائع الصناع میں ان پابندیوں کے جواز کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ذمیوں پر پابندیوں کا آغاز یوں ہوا کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کچھ سواروں کے پاس سے گزرے۔ یہ سوار بڑے معزز نظر آتے تھے۔ آپ نے انہیں مسلمان سمجھا اور السلام علیکم کہا۔ ساتھیوں میں سے کسی نے آپ کو توجہ دلائی کہ یہ لوگ عیسائی تھے۔ آپ کو یہ بات بری لگی اور جب واپس گھر پہنچے تو آپ نے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ آئندہ تمام عیسائی بطور علامت زنار باندھیں اور پالان نما کاٹھی پر سوار ہوں یعنی گھوڑے پر سوار ہونے کی انہیں اجازت نہ ہوگی۔ آپ کے اس اعلان پر کسی مسلمان نے برا نہ منایا اور اس طرح اس اعلان کو ایک اجماعی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ‘‘
یہ حوالہ اس امر کا بیرونی شاہد ہے کہ کم ازکم حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانہ تک مسلمانوں اور ذمیوں میں کوئی امتیاز قائم نہیں ہوا تھا اور ان پابندیوں کے عائد کرنے کا حکم حضرت عمر بن خطابؓ نے نہیں بلکہ (اس روایت کے مطابق:ناقل)حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دیا تھا۔ ‘‘
(اسلام اور غیر مسلم رعایا صفحہ 67-68)
پروفیسر آرتھر اسٹینلی ٹریٹن ذمیوں پر لباس کی شرط کے متعلق لکھتے ہیں کہ علامہ طبری اور بلاذری نے اپنی کتب میں مندرجہ معاہدات میں لباس وغیرہ کی پابندی کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہے اور حضرت عمرؓ نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں فرمایا:
“Abu Yusuf (182) ascribes these ordinances to Umar, and Ibn Abdu l Hakam (257) states that he ordered the Christians to wear the gridle and to cut the hair short in front. The treaties given by Tabari and Baladhuri do not mention dress. If, as is argued by Caetani in the case of Jerusalem, these treaties are later fabrications, the absence of any mention of dress makes one suspect even more strongly that Umar did not issue the commands.
The object of the rules about dress was to distinguish the Christian from the Arab; this is stated definitely stated by both Abu Yusuf and Ibn abd ul Hakam, two of the earliest writers whose works have come down to us. At the time of the conquest there was no need to command the Christians to dress differently from the Arabs, they did so. It was only later, as the Arabs grew civilized, that there was any temptation for their subjects to imitate their costume.”
(The Caliphs and their non-Muslim Subjects page 115)
٭…شرائط عمریہ میں نادر الفاظ کی موجودگی
شروط عمریہ کے الحاقی اور وضعی ہونے کا ایک اورثبوت اس میں مستعمل غریب الفاظ ہیں جو کہ ابتدائے اسلام میں عربی زبان میں استعمال نہ ہوتے تھے۔ جیسا کہ لفظ زنانیر یونانی الاصل ہے۔ اور حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ان الفاظ سے لوگ شناسا نہ تھے اور نہ ہی یہ الفاظ اتنے عام تھے۔ پھر حضرت عمرؓ کیونکر اپنے معاہدہ میں ایسے الفاظ کو درج کرسکتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ شروط بعد کی پیداوار ہیں جوحضرت عمرؓ کی طرف منسوب کر دی گئیں۔
(مقدمة شرح الشروط العمریة لصبحی الصالح صفحہ ک)
قابل غور نکتہ
پروفیسر آرتھرسٹینلی ٹریٹن ایک اَور اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ شام بازنطینی ریاست سے ملحق صوبہ تھا جو بازنطینیوں کے ساتھ حالت جنگ میں تھا۔ اگرچہ اس بات کی ضرورت تو تھی کہ وہاں کے مقامی لوگوں پر خاص پابندیاں عائد کی جاتیں۔ اس لحاظ سے صرف ایک علاقہ ایسا تھا جو بیرونی جنگی خطرہ سے دوچار تھا وہ الجزیرہ، شمالی میسوپوٹیمیا کا علاقہ تھاجو یونانیوں کے ساتھ جنگی لحاظ سے نہایت حساس اوراہم تھا، ہمیں اس بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی کہ وہاں کوئی جبری پابندیاں عائد کی گئی ہوں۔ بعد کے زمانہ میں اسلامی دنیا میں ان پرکم وبیش پابندیاں عائدہوئیں لیکن حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شام میں ایسی پابندیوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
“It has been argued that Syria was the frontier province and more exposed to war with Byzantium, therefore, it was needful to impose special restrictions on the inhabitants. To which it is enough to say that only part of the province was exposed to the danger of foreign war, that al Jazira-North Mesopotamia- was in the same or even a higher degree the seat of war with the Greeks, and we hear nothing of these rules being enforced there.
Later they were more or less enforced throughout the Muslim world, but there is no evidence to show that they were enforced in Syria in the days of Umar.”
(The Caliphs and their non-Muslim Subjects page 11)
علامہ ابن قیم کے موقف پرزمانہ کے حالات کا اثر
علامہ ابن قیم جیسے عالم کا شرائط عمریہ کی روایت بیان کردینے کے بارے میں ڈاکٹر صبحی صالح یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ
’’علامہ ابن قیم کے زمانہ میں مذہبی تعصب انتہا پر تھا اور دینی تشدد کی فضا قائم تھی جس کا ایک بہت اہم سبب صلیبی جنگیں تھیں جو دو صدیوں(490ھ تا690ھ) تک جاری رہیں۔ علامہ ابن قیم کا زمانہ ان جنگوں کے عین بعد تھا۔ جو صلیبی جنگوں کے اختتام سے ایک سال بعد پیدا ہوئے۔ اورانہوں نے ان جنگوں کے بعد کی تباہی دیکھی بے شک وہ اس پر خطر فضا میں ڈرے تو نہیں لیکن اس کی تصویر آپ کے نفس پر نقش ہوگئی…۔‘‘
(مواطنون لا ذمیون :موقع غیر المسلمین فی مجتمع المسلمین، دارالشروق قاھرة، الطبعة الثانیة، 1990ء صفحہ 212)
شروط عمریہ کے نفاذ کا زمانہ
مقالہ نگار نے اپنے مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شروط عمریہ کو حضرت عمر بن خطابؓ نے مقرر کیا اور اس پر بعد میں آنے والے مسلم حکمران عمل کرتے رہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک جدول بھی دیا ہے جس میں ان شروط پر عمل کرنے والے خلیفہ یا حاکم کا نام مع زمانہ درج کرکے آگے کتاب کا نام مع مصنف لکھا ہے۔ چنانچہ 16ھ میں حضرت عمر بن خطابؓ کے نام کے آگے ابن زبر اور بیہقی مصنف کا نام لکھ کر کتاب کا نام مسند احمد اور سنن کبریٰ لکھا ہے جبکہ مسند احمد کے مصنف امام احمد بن حنبل ہیں اور اس کتاب میں نہ شروط عمریہ کا ذکر ہے نہ اس پرکسی خلیفہ راشد کے عمل کا۔ سنن کبریٰ بیہقی میں بھی ایسا کوئی ذکر موجود نہیں۔
اسی طرح خلافت راشدہ اور ما بعد کے 30ھ کے زمانہ کا حوالہ آٹھویں صدی کے امام ابن تیمیہ کے فتاویٰ سے دیا جارہا ہے ان سے پہلی کسی کتاب میں ایسا ذکر موجود نہیں۔
100ھ میں حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کے عمل کا حوالہ علامہ آٹھویں صدی کےابن قیم کی کتاب احکام اہل الذمہ کا دیا گیا۔
185ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کے عمل کا حوالہ بھی آٹھویں صدی کے علامہ ابن تیمیہ کےفتاویٰ ابن تیمیہ سے دیا ہے۔
235ھ میں خلیفہ جعفر بن محمد المتوکل باللہ کے عمل کا حوالہ آٹھویں صدی کے علامہ ابن تیمیہ کی کتاب تاریخ طبری کا دیا ہے جبکہ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ تاریخ طبری علامہ ابن جریر(متوفی:310ھ)کی کتاب ہے۔
700ھ میںسلطان الناصر محمدبن قلاوون کےعمل کاحوالہ حافظ ابن کثیر کی کتاب البدایہ والنہایہ سے دیا۔
900ھ الظاہرحشقدم، الظاہرجقمق کے عمل کا حوالہ علامہ شمس الدین سبکی کی کتاب فتاویٰ سبکی کا دیا ہے۔ جبکہ فتاویٰ سبکی آٹھویں صدی کے علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ہے۔
1236ھ حاکم دمشق محمد درویش کا شروط عمریہ پر عمل کا حوالہ پندرہویں صدی کےمحمود زیباوی کےلبنانی اخبار ’’النہار‘‘کا دیا ہے۔
غیر مسلم شہریوں کے مسلّمہ حقوق از بانیٔ اسلامﷺ و خلفائے راشدین
آخر میں مسلمان ملک میں رہنے والے غیر مسلم شہریوں کے جو حقوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم او رخلفائے راشدین کی سنت سے ثابت ہیں ان کی ایک مختصر فہرست پیش کی جاتی ہے:
٭…جان، دین، اموال اور جملہ املاک محفوظ ہوں گے۔
٭…کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
٭…عام ذمیوں کے درجہ میں نہیں سمجھا جائے گا۔
(امان نامہ اہل مقناوحنین وخیبر)
٭…ان کے مذہب اور قرابت داروں کی تذلیل وتحقیر نہ ہو گی۔
٭…مذہب کے بارےمیں ان کو فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔
٭…ان کی ماتحتی کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی کہتری عائد نہ ہو گی۔
(نصاریٰ نجران سے معاہدہ)
٭…گرجے، عبادت خانے، خانقاہیں اور مسافر خانے کہیں بھی ہوں ا ن کی حفاظت کی جائے گی۔
٭…ان کے عقائد ورسوم اور مذہب کا تحفظ کیا جائے گا۔
٭…پادری، راہب جن مناصب پر ہیں انہیں معزول نہ کیا جائے گا۔
٭…عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ نہ انہیں تبدیل کیا جائے گا۔
٭…ان سے مذہبی گفتگو اور بحث ومباحثہ کی آزادی ہو گی۔
٭…عدل وانصاف اور سماجی معاملات میں ان کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔
٭…عبادت گاہوں، خانقاہوں یا قومی عمارتوں کی مرمت وغیرہ بلاروک ٹوک ہو گی۔
(نصاریٰ نجران سے دوسرا معاہدہ)
٭…طریقِ عبادت، جملہ منقولہ جائیداد،گھر میں موجود وغیر موجود دونوں کے لیے حمایت۔
٭…کسی کو ان کے مسلک سے برگشتہ نہ کیا جائے گا۔
(معاہدہ اہل نجران منجانب حضرت ابوبکرؓ )
٭…ان کے دینی اعمال سے مواخذہ نہ ہو گا۔
٭…ان سے بلاوجہ پرسش ہو گی نہ ضرر رسانی ہو گی۔
٭…اپنے مذہب کے ہر ایک شعار کی پابندی کا اختیار ہے۔
(امان نامہ برائے باشندگان بیت المقدس از امیر المومنین حضرت عمرؓ )
نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین کے یہ مستند اسلامی اصول ہیں جن کی سنت کی پیروی کا ہمیں حکم ہے:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي،وَسُنَّةِالْخُلَفَاءِالرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ
(ابن ماجہ بَابُ اتِبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ)
ترجمہ:پس تم پرمیری اور(میرے)ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی لازم ہے۔
ان حقائق کی موجودگی میں شروط عمریہ پر نہ صرف مقالہ نگار کا اجماع صحابہ کا دعویٰ صریحاً خلاف واقعہ ہے بلکہ یہ شرائط قابل ردّہیں۔
شروط عمریہ کے متعلق علمائے دورحاضر کا موقف
شروط عمریہ کی بنیاد جس معاہدہ پر رکھی گئی ہے اس معاہدہ کی شرائط خود ساختہ اور اسلامی تعلیمات عدل و مساوات کے منافی ہونے کے باعث علماء نے ان شروط عمریہ کو رد کر دیا۔ اس کے بالمقابل معاہدہ بیت المقدس کی شرائط جو حضرت عمرؓ نے بنفس نفیس خود طے فرمائیں جو ’’عھد عمر‘‘کے نام سے مشہور ہیں انہیں شروط عمریہ قرار دیا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی، ڈاکٹرعلامہ صبحی الصالح، علامہ یوسف القرضاوی، علامہ فھمی ہویدی وغیرہ نے ان خود ساختہ شروط عمریہ کی دلائل کے ساتھ تردید کی ہے۔
مجیدخدوری(متوفی:2007ء)اپنی کتابWar and peace in the law of Islamمیں اس معاہدہ کا حضرت عمرؓ کے زمانہ کے بعد کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ ثابت کرنا غیر ضروری ہے کہ اس میثاق کا متن حضرت عمرؓ کے زمانہ کا نہیں بلکہ بعد کے زمانہ کا ہے اس لئے کہ اِس کی بیشتر پابندیاں ان ہدایات سے متفاوت ہیں جو حضرت عمرؓ نے اپنے سپہ سالاروں کو دی تھیں نیز متعدّد دفعات رواداری اور ظلم وتعدی کے زمانہ کی پیداوار ہیں۔ ‘‘
(اسلام اور قانون جنگ وصلح مترجم مولانا غلام رسول مہر صفحہ272مکتبہ معین الادب لاہور)
مولوی غلام رسول مہر (متوفی:1971ء)اس معاہدہ کو حضرت عمرؓ کے زمانے کے بعد کا قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
’’اس مکتوب میں ایسی داخلی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بہت بعد میں مرتب ہوا۔ اس لئے کہ اس میں دمشق کے اندر مسلمانوں کی خاصی وسیع آبادی کا ذکر ہے۔ وہ آبادی فتحِ دمشق کے ساتھ ہی موجود نہ ہو سکتی تھی نیز بعض ایسی پابندیاں ہیں جنہیں کوئی مسلمان گوار ا ہی نہ کر سکتا تھا۔ مثلاً یہ کہ عیسائی اپنے بچوں کو قرآن نہ پڑھائیں حالانکہ قرآن کی عام تعلیم ہر سچے مسلمان کا نصب العین تھی۔ ‘‘
(اسلام اور قانونِ جنگ وصلح صفحہ272حاشیہ)
مولوی مودودی صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ فوجداری قانون میں ذمّی اور مسلمان برابر ہیں۔ تحفظِ عزت کا پاس کرنا ویسے ہی ضروری ہے جیسے مسلمان کا کیا جاتا ہے اورشخصی معاملات میں اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔
مودودی صاحب نے یہاں تک لکھا ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو تقریر وتحریر اور ضمیر کے اظہار کی وہی آزادی ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے اور وہی قانونی پابندیا ں جو مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں۔ قانونی حدود کے اندر غیر مسلموں کو بحث ومباحثہ کرنے کی بھی اجازت ہے، وہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے میں آزاد ہیں۔ مختصراً یہ کہ ان کو اپنے عقیدہ اور ضمیر کے خلاف کوئی عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
(اسلامی ریاست میں ذمّیوں کے حقوق صفحہ 33تا34 لاہور 1970ء طبع سوم از مولانا مودودی)
اسلام نے معاہدین پر کوئی ایسی شرط عائد نہیں کی جو ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دے یا ان کو پست درجہ دے بلکہ محققین اسلام نے تسلیم کیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں مغربی اقوام نے اقلیتوں کو جو حقوق دیے ہیں اسلام نے اس سے بڑھ کر حقوق دے رکھے ہیں۔
ذمیوں کے لیے صرف آزادیٔ مذہب او رحرّیتِ فکر کی ضمانت ہی نہیں دی بلکہ ان کی لغت اور ثقافت حتیٰ کہ زندگی کے تمام مسائل میں ان کو آزادی دی گئی۔ نہ ان کے مذہب میں مداخلت کی گئی ہے نہ ان پر ان کی مرضی کے خلاف کوئی شرط عائد کی گئی۔
علماء نے تو لکھا ہے کہ کارِخیر یا حصولِ ثواب کے لیے ایک کافر یا مشرک کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینا شرعاً جائز ہے۔
(اسلام کا نظام مساجد صفحہ147 دارالاشاعت کراچی)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے سورۃ توبہ آیت 29 کے حوالہ سے بیان فرمایاہے کہ
’’قرآن کریم میں ذمیوں کے اموال کو ضائع کرنے اور ان کی املاک چھیننے کی ممانعت آئی ہے۔ جبکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کریں۔ ‘‘
(حمامة البشریٰ اردو ترجمہ صفحہ65 حاشیہ)
خلاصہ کلام یہ کہ غیرمسلموں کے قرآن و سنت اور اسوۂ رسول و خلفائے راشدین سے ثابت شدہ تعامل کے برخلاف شرائط عمریہ کا جعلی معاہدہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں اور نہ ہی کوئی صاحب بصیرت اور محقق اسے قبول کرسکتا ہے کیونکہ یہ اسلام پر ایک داغ کے سوا کچھ نہیں۔
٭…٭…٭
(نوٹ:خاکسار اس مضمون کے جملہ حوالہ جات کی تخریج کے سلسلہ میں عزیزم مکرم باسل احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ کے لیے ممنون، دعا گو اور خواستگار دعا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ)